بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ سے بالکل بے پروا ہیں ، العیاذ باﷲ وہ تو زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں ، ان کی سوچ تو یہ ہے کہ یہ ڈھائی فیصد کیوں دیں ؟ بس جو مال آرہا ہے وہ آئے ، دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں جن کو زکوٰۃ کا کچھ نہ کچھ احساس ہے ، وہ زکوٰۃ نکالتے بھی ہیں لیکن زکوٰۃ نکالنے کا جو صحیح طریقہ ہے وہ طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ جب ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض کی گئی تو اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک حساب لگاکر زکوٰۃ نکالی جائے، بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کون حساب کتاب کرے ، کون سارے اسٹاک کو چیک کرے، لہٰذا بس اندازہ کرکے زکوٰۃ نکال دیتے ہیں ، اب اس اندازے میں غلطی بھی واقع ہوسکتی ہے اور زکوٰۃ نکالنے میں کمی بھی ہوسکتی ہے ، اور اگر زکوٰۃ زیادہ نکال دی جائے انشائﷲ مواخذہ نہیں ہوگا ، لیکن اگر ایک روپیہ بھی کم ہوجائے یعنی جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس سے ایک روپیہ کم زکوٰۃ نکالی تو یادرکھئے وہ ایک روپیہ جو آپ نے حرام طریقے سے اپنے پاس روک لیا ہے وہ ایک روپیہ سارے مال کو برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس لئے ہم زکوٰۃ اس طرح نکالیں جس طرح اﷲ اور اس کے رسول ا نے ہمیں بتایا ہے اور اس کو حساب کتاب کے ساتھ نکالیں ۔ صرف اندازہ سے نہ نکالیں ۔
زکوٰۃ کا نصاب:
زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے: ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا نقد روپیہ یا زیور یا سامانِ تجارت وغیرہ، جس شخص کے پاس یہ مال اتنی مقدار میں موجود ہوتو اس کو صاحب ِ نصاب کہاجاتا ہے۔
اموالِ زکوٰۃ کون کونسے ہیں ؟
(۱) نقد روپیہ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو ، چاہے وہ نوٹ ہوں یا سکے ہوں ۔
(۲) سونا چاندی، چاہے وہ زیور کی شکل میں ہو یا سکے کی شکل میں ہو، بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ رہتا ہے کہ جو خواتین کا استعمالی زیور ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ، یہ بات درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ سونے چاندی کے زیور پر زکوٰۃ واجب ہے ، لیکن اگر سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا زیور چاہے پلاٹینم ہی کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ، اسی طرح ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ نہیں جب تک تجارت کے لئے نہ ہوں بلکہ ذاتی استعمال کے لئے ہوں ۔
سامانِ تجارت کی قیمت کے تعین کا طریقہ
دوسری چیز جس پر زکوٰۃ فرض ہے وہ ہے ’’سامانِ تجارت‘‘ مثلاً کسی دکان میں سامان برائے فروخت رکھاہوا ہے ، اس سارے اسٹاک پر زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ اسٹاک کی قیمت لگاتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ آدمی زکوٰۃ نکالتے وقت یہ حساب لگائے کہ اگر میں پورا اسٹاک اکھٹا فروخت کروں تو بازار میں اس کی کیا قیمت لگے گی، دیکھئے ایک ’’ریٹل پرائس‘‘ ہوتی ہے اور دوسری ’’ہول سیل پرائس‘‘، تیسری صورت یہ ہے کہ پورا اسٹاک اکھٹا فروخت کرنے کی صورت میں کیا قیمت لگے گی ، لہٰذا جب دکان کے اندر جو مال ہے اس کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جارہا ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ تیسری قسم کی قیمت لگائی جائے ، وہ قیمت نکال کر پھر اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں نکالنا ہوگا، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ عام’’ہول سیل قیمت‘‘ سے حساب لگاکر اس پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔
مالِ تجارت میں کیا کیا داخل ہے؟
اس کے علاوہ مالِ تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو ، لہٰذا اگر کسی شخص نے بیچنے کی غرض سے کوئی پلاٹ خریدا یا زمین خریدی یاکوئی مکان خریدا یا گاڑی خریدی اور اس مقصد سے خریدی کہ اس کو بیچ کرنفع کماؤں گا، تو یہ سب چیزیں مالِ تجارت میں داخل ہیں ، لہٰذا اگر کوئی پلاٹ، کوئی زمین ، کوئی مکان خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ میں اس کو فروخت کروں گا تو اس کی مالیت پرزکوٰۃ واجب ہے، بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ’’انویسمنٹ‘‘ کی غرض سے پلاٹ خرید لیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اس پر اچھے پیسے ملیں گے تو اس کو فروخت کردوں گا اور فروخت کرکے اس سے نفع کماؤں گا، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ، لیکن پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنوالیں گے، یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے ، یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے ، کوئی ایک نیت واضح نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خرید کر ڈال دیا ہے ، اب اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ کسی وقت اس کو مکان بناکر وہاں رہائش اختیار کرلیں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کرائے پر چڑھادیں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ فروخت کردیں گے تو اس صورت میں اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، لہٰذا زکوٰۃ صرف اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو، یہاں تک کہ اگر پلاٹ خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ اس پر مکان بناکر رہائش اختیار کریں گے ، بعد میں ارادہ بدل گیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ اب اس کو فروخت کرکے پیسے حاصل کرلیں گے تو محض نیت اور ارادہ کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا ، جب تک آپ اس پلاٹ کو واقعتا فروخت نہیں کردیں گے اور اس کے پیسے آپ کے پاس نہیں آجائیں گے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، بہرحال ہر وہ چیز جسے خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو ، وہ مال ِ تجارت ہے اور اس کی مالیت پرڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے ۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مالیت اس دن کی معتبر ہوگی جس دن آپ زکوٰۃ کا حساب کررہے ہیں ، مثلاً ایک پلاٹ آپ نے ایک لاکھ روپئے میں خریدا اور آج اس پلاٹ کی قیمت دس لاکھ ہوگئی، اب دس لاکھ پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی ، ایک لاکھ پر نہیں نکالی جائے گی۔
کارخانہ کی کن کن اشیاء پر زکوٰۃ واجب ہے؟
اگر کوئی شخص فیکٹری کا مالک ہے تو اس فیکٹری میں جو تیار شدہ مال ہے اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے ، اسی طرح جو مال تیاری کے مختلف مراحل میں ہے یا خام مال کی شکل میں ہے اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ فیکٹری کی مشینری ، بلڈنگ، گاڑیوں وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں، اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی کاروبار میں شرکت کے لئے روپیہ لگایا ہوا ہے ، اور اس کاروبار کا کوئی مناسب حصہ اس کی ملکیت ہے تو جتنا حصہ اس کی ملکیت ہے اس حصے کی بازاری قیمت کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی۔
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ نقد روپیہ جس میں بینک بیلنس اور فائینانشیل انسٹرومنٹس بھی داخل ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہے ، اور سامانِ تجارت جس میں تیار مال ، خام مال اور جو تیاری کے مراحل میں ہیں ، اس کے علاوہ ہر چیز جو آدمی نے فروخت کی غرض سے خریدی ہو وہ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہے۔
واجب الوصول قرضوں پر زکوٰۃ
ان کے علاوہ بہت سی رقمیں وہ ہوتی ہیں جو دوسروں سے واجب الوصول ہوتی ہیں، مثلاً دوسروں کو قرض دے رکھا ہے یا مثلاً مال ادھار فروخت کررکھا ہے اور اس کی قیمت ابھی وصول ہونی ہے ، تو جب آپ زکوٰۃ کا حساب لگائیں اور اپنی مجموعی مالیت نکالیں تو بہتر یہ ہے کہ ان قرضوں کو واجب الوصول رقموں کو آج ہی آپ اپنی مجموعی مالیت میں شامل کرلیں، اگرچہ شرعی حکم یہ ہے کہ جو قرضے ابھی وصول نہیں ہوئے تو جب تک وصول نہ ہوجائیں اس وقت تک شرعاً ان پرزکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی، لیکن جب وصول ہوجائیں تو جتنے سال گزرچکے ہیں ان تمام پچھلے سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، مثلاً فرض کریں کہ آپ نے ایک شخص کو ایک لاکھ روپیہ قرضہ دے رکھا تھااور پانچ سال کے بعد وہ قرضہ آپ کو واپس ملا تو اگرچہ اس ایک لاکھ روپئے پر ان پانچ سالوں کے دوران تو زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں تھی ، لیکن جب وہ ایک لاکھ روپئے وصول ہوگئے تو ان گذشتہ پانچ سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، توچونکہ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ یک مشت ادا کرنے میں بعض اوقات دشواری ہوتی ہے، لہٰذا بہتریہ ہے کہ ہر سال اس قرض کی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کردی جایا کرے، لہٰذا جب زکوٰۃ کا حساب لگائیں تو ان قرضوں کو بھی مجموعی مالیت میں شامل کرلیا کریں ۔
قرضوں کی منہائی
پھر دوسری طرف یہ دیکھیں کہ آپ کے ذمے دوسرے لوگوں کے کتنے قرضے ہیں ؟ اور پھر مجموعی مالیت میں سے ان قرضوں کو منہا کردیں ، منہا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ قابل ِ زکوٰۃ رقم ہے ، اس کا ڈھائی فیصد نکال کر زکوٰۃ کی نیت سے ادا کریں ، بہتر یہ ہے کہ جو رقم زکوٰۃ کی بنے اتنی رقم الگ نکال کر محفوظ کرلیں ، پھر وقتاً فوقتاً اس کو مستحقین میں خرچ کرتے رہیں ، بہرحال زکوٰۃ کا حساب لگانے کا یہ طریقہ ہے۔
زکوٰۃ مستحق کو ادا کریں
دوسری طرف زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بھی شریعت نے احکام بتائے ہیں، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اﷲ جل جلالہٗ نے یہ نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ نکالو، نہ یہ فرمایا کہ زکوٰۃ پھینکو، بلکہ فرمایا: اٰتوا الزکوۃ ’’زکوٰۃ ادا کرو‘‘ یعنی یہ دیکھو کہ اس جگہ پر زکوٰۃ جائے جہاں شرعاً زکوٰۃ جانی چاہئے، بعض لوگ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ زکوٰۃ نکال کر کسی کے حوالے کردی اور اس کی تحقیق نہیں کی کہ یہ صحیح مصرف پر خرچ کرے گا یا نہیں؟ آج بے شمار ادارے دنیا میں کام کررہے ہیں ، ان میں بہت سے ادارے ایسے بھی ہوں گے جن میں بسا اوقات اس بات کا لحاظ نہیں ہوتا کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ اس لئے فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرو یعنی جو مستحق ِ زکوٰۃ ہے اس کو ادا کرو۔
مستحق کون؟
اس کے لئے شریعت نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ زکوٰۃ صرف انہی اشخاص کو دی جاسکتی ہے جو صاحب ِ نصاب نہ ہوں، یہاں تک کہ اگر ان کی ملکیت میں ضرورت سے زائد ایسا سامان موجود ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتا ہے تو بھی وہ مستحق ِ زکوٰۃ نہیں رہتا، مستحق ِ زکوٰۃ وہ ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا کوئی سامان ضرورت سے زائد نہ ہو۔
کن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
یہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم انسان کے اندر یہ طلب اور جستجو خود بخود پیدا کرتا ہے کہ میرے پاس زکوٰۃ کے اتنے پیسے موجود ہیں ان کو صحیح مصرف میں خرچ کرنا ہے ، اس لئے وہ مستحقین کو تلاش کرتا ہے ، وہ کون کون لوگ مستحق ہیں اور ان مستحقین کی فہرست بناتا ہے ، پھرزکوٰۃ پہنچاتا ہے ، یہ بھی انسان کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے محلے میں ، ملنے جلنے والوں میں ، عزیزواقارب اور رشتہ داروں میں ، دوست احباب میں جو مستحق ِ زکوٰۃ ہوں ان کو زکوٰۃ ادا کریں ، ان میں سب سے افضل یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ ادا کریں ، اس میں ڈبل ثواب ہے ، زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب بھی ہے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب بھی ہے اور تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ، صرف دو رشتے ایسے ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ، ایک ولادت کا رشتہ ہے ، لہٰذا باپ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا ، دوسرا نکاح کا رشتہ ، لہٰذا شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی ، ان کے علاوہ باقی تمام رشتوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً بھائی کو، بہن کو ، چچا کو، پھوپھی کو، ماموں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، البتہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ مستحق ِ زکوٰۃ ہواور صاحب ِ نصاب نہ ہو۔
ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کے لئے شرعاً کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے اور نہ کوئی زمانہ مقرر ہے کہ اس زمانے میں یا اس تاریخ میں زکوٰۃ ادا کی جائے ، بلکہ ہر آدمی کی زکوۃ کی تاریخ جدا ہوتی ہے ، شرعاً زکوٰۃ کی اصل تاریخ وہ ہے جس تاریخ اور جس دن آدمی پہلی مرتبہ صاحب ِ نصاب بنا۔ بہ شکریہ انوارِ اسلام
Jul 2 2015
Zakat Kaisey Nikalein
Zakat Kaisey Nikalein ?
ہم اپنے مالوں کی زکوٰۃ کیسے نکالیں ؟
حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب
زکوٰۃ حساب کرکے نکالنا چاہئے
بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ سے بالکل بے پروا ہیں ، العیاذ باﷲ وہ تو زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں ، ان کی سوچ تو یہ ہے کہ یہ ڈھائی فیصد کیوں دیں ؟ بس جو مال آرہا ہے وہ آئے ، دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں جن کو زکوٰۃ کا کچھ نہ کچھ احساس ہے ، وہ زکوٰۃ نکالتے بھی ہیں لیکن زکوٰۃ نکالنے کا جو صحیح طریقہ ہے وہ طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ جب ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض کی گئی تو اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک حساب لگاکر زکوٰۃ نکالی جائے، بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کون حساب کتاب کرے ، کون سارے اسٹاک کو چیک کرے، لہٰذا بس اندازہ کرکے زکوٰۃ نکال دیتے ہیں ، اب اس اندازے میں غلطی بھی واقع ہوسکتی ہے اور زکوٰۃ نکالنے میں کمی بھی ہوسکتی ہے ، اور اگر زکوٰۃ زیادہ نکال دی جائے انشائﷲ مواخذہ نہیں ہوگا ، لیکن اگر ایک روپیہ بھی کم ہوجائے یعنی جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس سے ایک روپیہ کم زکوٰۃ نکالی تو یادرکھئے وہ ایک روپیہ جو آپ نے حرام طریقے سے اپنے پاس روک لیا ہے وہ ایک روپیہ سارے مال کو برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس لئے ہم زکوٰۃ اس طرح نکالیں جس طرح اﷲ اور اس کے رسول ا نے ہمیں بتایا ہے اور اس کو حساب کتاب کے ساتھ نکالیں ۔ صرف اندازہ سے نہ نکالیں ۔
زکوٰۃ کا نصاب:
زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے: ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا نقد روپیہ یا زیور یا سامانِ تجارت وغیرہ، جس شخص کے پاس یہ مال اتنی مقدار میں موجود ہوتو اس کو صاحب ِ نصاب کہاجاتا ہے۔
اموالِ زکوٰۃ کون کونسے ہیں ؟
(۱) نقد روپیہ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو ، چاہے وہ نوٹ ہوں یا سکے ہوں ۔
(۲) سونا چاندی، چاہے وہ زیور کی شکل میں ہو یا سکے کی شکل میں ہو، بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ رہتا ہے کہ جو خواتین کا استعمالی زیور ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ، یہ بات درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ سونے چاندی کے زیور پر زکوٰۃ واجب ہے ، لیکن اگر سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا زیور چاہے پلاٹینم ہی کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ، اسی طرح ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ نہیں جب تک تجارت کے لئے نہ ہوں بلکہ ذاتی استعمال کے لئے ہوں ۔
سامانِ تجارت کی قیمت کے تعین کا طریقہ
دوسری چیز جس پر زکوٰۃ فرض ہے وہ ہے ’’سامانِ تجارت‘‘ مثلاً کسی دکان میں سامان برائے فروخت رکھاہوا ہے ، اس سارے اسٹاک پر زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ اسٹاک کی قیمت لگاتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ آدمی زکوٰۃ نکالتے وقت یہ حساب لگائے کہ اگر میں پورا اسٹاک اکھٹا فروخت کروں تو بازار میں اس کی کیا قیمت لگے گی، دیکھئے ایک ’’ریٹل پرائس‘‘ ہوتی ہے اور دوسری ’’ہول سیل پرائس‘‘، تیسری صورت یہ ہے کہ پورا اسٹاک اکھٹا فروخت کرنے کی صورت میں کیا قیمت لگے گی ، لہٰذا جب دکان کے اندر جو مال ہے اس کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جارہا ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ تیسری قسم کی قیمت لگائی جائے ، وہ قیمت نکال کر پھر اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں نکالنا ہوگا، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ عام’’ہول سیل قیمت‘‘ سے حساب لگاکر اس پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔
مالِ تجارت میں کیا کیا داخل ہے؟
اس کے علاوہ مالِ تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو ، لہٰذا اگر کسی شخص نے بیچنے کی غرض سے کوئی پلاٹ خریدا یا زمین خریدی یاکوئی مکان خریدا یا گاڑی خریدی اور اس مقصد سے خریدی کہ اس کو بیچ کرنفع کماؤں گا، تو یہ سب چیزیں مالِ تجارت میں داخل ہیں ، لہٰذا اگر کوئی پلاٹ، کوئی زمین ، کوئی مکان خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ میں اس کو فروخت کروں گا تو اس کی مالیت پرزکوٰۃ واجب ہے، بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ’’انویسمنٹ‘‘ کی غرض سے پلاٹ خرید لیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اس پر اچھے پیسے ملیں گے تو اس کو فروخت کردوں گا اور فروخت کرکے اس سے نفع کماؤں گا، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ، لیکن پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنوالیں گے، یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے ، یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے ، کوئی ایک نیت واضح نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خرید کر ڈال دیا ہے ، اب اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ کسی وقت اس کو مکان بناکر وہاں رہائش اختیار کرلیں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کرائے پر چڑھادیں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ فروخت کردیں گے تو اس صورت میں اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، لہٰذا زکوٰۃ صرف اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو، یہاں تک کہ اگر پلاٹ خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ اس پر مکان بناکر رہائش اختیار کریں گے ، بعد میں ارادہ بدل گیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ اب اس کو فروخت کرکے پیسے حاصل کرلیں گے تو محض نیت اور ارادہ کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا ، جب تک آپ اس پلاٹ کو واقعتا فروخت نہیں کردیں گے اور اس کے پیسے آپ کے پاس نہیں آجائیں گے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، بہرحال ہر وہ چیز جسے خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو ، وہ مال ِ تجارت ہے اور اس کی مالیت پرڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے ۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مالیت اس دن کی معتبر ہوگی جس دن آپ زکوٰۃ کا حساب کررہے ہیں ، مثلاً ایک پلاٹ آپ نے ایک لاکھ روپئے میں خریدا اور آج اس پلاٹ کی قیمت دس لاکھ ہوگئی، اب دس لاکھ پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی ، ایک لاکھ پر نہیں نکالی جائے گی۔
کارخانہ کی کن کن اشیاء پر زکوٰۃ واجب ہے؟
اگر کوئی شخص فیکٹری کا مالک ہے تو اس فیکٹری میں جو تیار شدہ مال ہے اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے ، اسی طرح جو مال تیاری کے مختلف مراحل میں ہے یا خام مال کی شکل میں ہے اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ فیکٹری کی مشینری ، بلڈنگ، گاڑیوں وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں، اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی کاروبار میں شرکت کے لئے روپیہ لگایا ہوا ہے ، اور اس کاروبار کا کوئی مناسب حصہ اس کی ملکیت ہے تو جتنا حصہ اس کی ملکیت ہے اس حصے کی بازاری قیمت کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی۔
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ نقد روپیہ جس میں بینک بیلنس اور فائینانشیل انسٹرومنٹس بھی داخل ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہے ، اور سامانِ تجارت جس میں تیار مال ، خام مال اور جو تیاری کے مراحل میں ہیں ، اس کے علاوہ ہر چیز جو آدمی نے فروخت کی غرض سے خریدی ہو وہ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہے۔
واجب الوصول قرضوں پر زکوٰۃ
ان کے علاوہ بہت سی رقمیں وہ ہوتی ہیں جو دوسروں سے واجب الوصول ہوتی ہیں، مثلاً دوسروں کو قرض دے رکھا ہے یا مثلاً مال ادھار فروخت کررکھا ہے اور اس کی قیمت ابھی وصول ہونی ہے ، تو جب آپ زکوٰۃ کا حساب لگائیں اور اپنی مجموعی مالیت نکالیں تو بہتر یہ ہے کہ ان قرضوں کو واجب الوصول رقموں کو آج ہی آپ اپنی مجموعی مالیت میں شامل کرلیں، اگرچہ شرعی حکم یہ ہے کہ جو قرضے ابھی وصول نہیں ہوئے تو جب تک وصول نہ ہوجائیں اس وقت تک شرعاً ان پرزکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی، لیکن جب وصول ہوجائیں تو جتنے سال گزرچکے ہیں ان تمام پچھلے سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، مثلاً فرض کریں کہ آپ نے ایک شخص کو ایک لاکھ روپیہ قرضہ دے رکھا تھااور پانچ سال کے بعد وہ قرضہ آپ کو واپس ملا تو اگرچہ اس ایک لاکھ روپئے پر ان پانچ سالوں کے دوران تو زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں تھی ، لیکن جب وہ ایک لاکھ روپئے وصول ہوگئے تو ان گذشتہ پانچ سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، توچونکہ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ یک مشت ادا کرنے میں بعض اوقات دشواری ہوتی ہے، لہٰذا بہتریہ ہے کہ ہر سال اس قرض کی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کردی جایا کرے، لہٰذا جب زکوٰۃ کا حساب لگائیں تو ان قرضوں کو بھی مجموعی مالیت میں شامل کرلیا کریں ۔
قرضوں کی منہائی
پھر دوسری طرف یہ دیکھیں کہ آپ کے ذمے دوسرے لوگوں کے کتنے قرضے ہیں ؟ اور پھر مجموعی مالیت میں سے ان قرضوں کو منہا کردیں ، منہا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ قابل ِ زکوٰۃ رقم ہے ، اس کا ڈھائی فیصد نکال کر زکوٰۃ کی نیت سے ادا کریں ، بہتر یہ ہے کہ جو رقم زکوٰۃ کی بنے اتنی رقم الگ نکال کر محفوظ کرلیں ، پھر وقتاً فوقتاً اس کو مستحقین میں خرچ کرتے رہیں ، بہرحال زکوٰۃ کا حساب لگانے کا یہ طریقہ ہے۔
زکوٰۃ مستحق کو ادا کریں
دوسری طرف زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بھی شریعت نے احکام بتائے ہیں، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اﷲ جل جلالہٗ نے یہ نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ نکالو، نہ یہ فرمایا کہ زکوٰۃ پھینکو، بلکہ فرمایا: اٰتوا الزکوۃ ’’زکوٰۃ ادا کرو‘‘ یعنی یہ دیکھو کہ اس جگہ پر زکوٰۃ جائے جہاں شرعاً زکوٰۃ جانی چاہئے، بعض لوگ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ زکوٰۃ نکال کر کسی کے حوالے کردی اور اس کی تحقیق نہیں کی کہ یہ صحیح مصرف پر خرچ کرے گا یا نہیں؟ آج بے شمار ادارے دنیا میں کام کررہے ہیں ، ان میں بہت سے ادارے ایسے بھی ہوں گے جن میں بسا اوقات اس بات کا لحاظ نہیں ہوتا کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ اس لئے فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرو یعنی جو مستحق ِ زکوٰۃ ہے اس کو ادا کرو۔
مستحق کون؟
اس کے لئے شریعت نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ زکوٰۃ صرف انہی اشخاص کو دی جاسکتی ہے جو صاحب ِ نصاب نہ ہوں، یہاں تک کہ اگر ان کی ملکیت میں ضرورت سے زائد ایسا سامان موجود ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتا ہے تو بھی وہ مستحق ِ زکوٰۃ نہیں رہتا، مستحق ِ زکوٰۃ وہ ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا کوئی سامان ضرورت سے زائد نہ ہو۔
کن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
یہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم انسان کے اندر یہ طلب اور جستجو خود بخود پیدا کرتا ہے کہ میرے پاس زکوٰۃ کے اتنے پیسے موجود ہیں ان کو صحیح مصرف میں خرچ کرنا ہے ، اس لئے وہ مستحقین کو تلاش کرتا ہے ، وہ کون کون لوگ مستحق ہیں اور ان مستحقین کی فہرست بناتا ہے ، پھرزکوٰۃ پہنچاتا ہے ، یہ بھی انسان کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے محلے میں ، ملنے جلنے والوں میں ، عزیزواقارب اور رشتہ داروں میں ، دوست احباب میں جو مستحق ِ زکوٰۃ ہوں ان کو زکوٰۃ ادا کریں ، ان میں سب سے افضل یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ ادا کریں ، اس میں ڈبل ثواب ہے ، زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب بھی ہے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب بھی ہے اور تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ، صرف دو رشتے ایسے ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ، ایک ولادت کا رشتہ ہے ، لہٰذا باپ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا ، دوسرا نکاح کا رشتہ ، لہٰذا شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی ، ان کے علاوہ باقی تمام رشتوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً بھائی کو، بہن کو ، چچا کو، پھوپھی کو، ماموں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، البتہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ مستحق ِ زکوٰۃ ہواور صاحب ِ نصاب نہ ہو۔
ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کے لئے شرعاً کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے اور نہ کوئی زمانہ مقرر ہے کہ اس زمانے میں یا اس تاریخ میں زکوٰۃ ادا کی جائے ، بلکہ ہر آدمی کی زکوۃ کی تاریخ جدا ہوتی ہے ، شرعاً زکوٰۃ کی اصل تاریخ وہ ہے جس تاریخ اور جس دن آدمی پہلی مرتبہ صاحب ِ نصاب بنا۔
بہ شکریہ انوارِ اسلام
Related posts:
By silsilaekamaliya • Important Articles • Tags: Zakath Kaisey Nikalein, ہم اپنے مالوں کی زکوٰۃ کیسے نکالیں ؟