Wahdat ul Wajood
علم الٰہیات کا اہم سبق ۔وحدۃ الوجود
حضرت مولاناشاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
مرتبۂ ذات
موجود حقیقی باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔اسکے علم میں جن چیزوں کا ثبوت پایا جاتا ہے وہ موجود اضافی کہلاتے ہیں ۔اوروہی چیزیں خارج میں آسکتی ہیں ۔مثلاً آپکی ایک ذات ہے جو حقیقت میں موجود ہونے کی بنا پر موجود حقیقی کہلاتی ہے ۔آپ کے تصور میں ایک حسین صورت معہ اپنے لوازمات کے نمودار ہوتی ہے ۔اسطرح اسکا علم میں نمو دار ہونے کو ثبوت کہتے ہیں ۔آپ کی ذات اور اس حسین چہرے کی ذات دونوں اگرچہ کہ الگ الگ ہیں مگر ااپ کی ذات ہونے کی وجہ سے وہ ذات آپ کے علم میں ظاہر ہوئی ورنہ کبھی ظاہر نہ ہوسکتی تھی اس لئے وہ اضافت میں آنے کی وجہ سے موجود اضافی کہلائی خارج میں آنے سے پہلے اس کو ثبوت علمی کہتے ہیں آپ جب اس تصویر کو کاغذ پر اتاریں گ تو اسکو موجود فی الخارج ہونا کہنگے ۔اور جو چیز ثبوت علمی نہ ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں وہ ہمیشہ مسلوب رہتی ہے پھر اسکو عدم اضافی بھی کہنا غلط ہے ۔عدم نہیں کو کہتے ہیں جو ضد ہے وجود کی جب وہ وجود ہی نہیں ہےتو عدم کا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور جو چیز علم الٰہی میں ثابت ہو وہ کبھی مسلوب نہیں ہوسکتی ۔ہر وہ چیز جو علم میں آئے اسکو معلوم کہتے ہیں اور مخلوق کی صورتوں کا علم میں آنا صور علمیہ اور اعیان ثابتہ کہلا تا ہے ۔
صور علمیہ اور اعیان ثابتہ
مثلاً آپ کے علم میں جو حسین چہرہ آیا اسکو صور علمیہ یا اعیان ثابتہ کہیں گے اس چہرے کی تفصیلات کو جو آپ کا جانتا پن ہوا یعنی وہ چہرہ گوراہے یا کالا ۔وہ کتنے دن تک باقی رہیگا ۔اس کے چہرے پر کب خراش آئے گی یہ سب تفصیلات کا جو آپ کو علم ہے وہ معلوم کہلاتا ہے ۔
عدل اور فضل
لہٰذا باری تعالیٰ اعیان ثابتہ کے میلانات ،لوازمات اور ان کے اقتضاآت کو ان کی تخلیق سے قبل جانتا ہے جب کہ علم میں ثابت ہوئے ۔اعیان ثابتہ علم الٰہی میں ثابت ہونے کے باوجود خارج میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ان کو خارج میں لانا یعنی تخلیق کرنا مرضیء الٰہی پر موقوف ہے وہ چاہے تو انہیں خلق کرے یا نہ کرے اسکے باوجود اس نے جو خلق کیا وہ اسکا فضل کہلایا ۔ پھر علم الٰہی میں جس طرح وہ ثابت ہوئے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کئے بغیر جوں کا توں تخلیق کرنا باری تعالٰی کا عدل کہلایا ۔
فیض اقدس اور فیض مقدس
اعیان ثابتہ کے ذوات وحقائق علم حق میں نمایاں ہونے کو فیض اقدس کہتے ہیں ۔اس میں ذات اور حقیقت کا چونکہ میل نہیں ہوتا اسلئے اسکو جعل بسیط کہتے ہیں ۔
اعیان ثابتہ کے ظہور کیلئے ان کی ذات سے حقیقت کا اقتران ہونا ضروری ہے جب وہ دونوں مل جاتے ہیں تب وہ موجود فی الخارج ہوجاتے ہیں اسلئے اسکو جعل مرکب کہتے ہیں ۔ ذات اور حقیقت کو ملاکر موجود فی الخارج کرنا فیض مقدس کہلاتا ہے ۔ باری تعالٰی اپنے علم میں اگر کسی شئی یا اسکی اقتضاکو پیدا کرے جسکا ثبوت اس کے علم میں نہ ہو توا یسی صورت میں باری تعالٰی پر دو قسم کے الزام عائد ہونگے ۔ایک ظالم دوسرے جاہل ہونے کے ۔جہل اسلئے کہ پہلے اسکو نہیں جانتاتھا بعد میں جان کر اسکو پیداکیا۔اور ظالم اسلئے کہ جسکی جیسے چاہا صورت بنادی۔ کسی کو فقیر بنادیا ۔تو کسی کو امیر۔باری تعالٰی کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے ۔
ظلم و جہل اسکی صفات نہیں وہ نقائص سے منزہ ہے ہر شئی علم الٰہی میں ثابت ہوئی بے جعل جاعل ہے۔
کائنات کو بنانے سے پہلے ہر شئی علم الٰہی میں ثابت ہوئی جب باری تعالٰی ان کو موجود فی الخارج کرنا چاہاتو اس چاہت ہی سے یعنی (کن)کے ساتھ (فیکون) ہوگئی [یعنی بن گئی]
حادث دہری و حادث زمانی
کائنات کا بنتا پن دو طرح پر ہے ۔وہ چیزیں جو کن کے ساتھ ہی دفعتاً اپنے پورے کمال کے ساتھ پیدا ہو گئیں ۔وہ حادث دہری کہلاتی ہیں ۔عالم اروح اور عالم مثال حادث دہری ہیں جو ،،کن،، کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے ۔البتہ جو چیزیں تدریجاً آہستہ آہستہ کمال کو پہنچنے والی ہیں وہ حادث زمانی کہلاتی ہیں ۔
حق سبحانہ تعالیٰ نے ،لا الٰہ الا ھو خالق کل شئی ، فرماکر اپنی شان الٰہیت کو صاف طور سے بندوں کو سمجھا دیا۔ کہ ،،الٰہ،، کہلانے والی ذات کے کیا کیا اعتبارات ہیں وہ کاملہ صفات سے کیسے متصف ہے کتنا وہ صاحب قوت اور نافع و ضارہے یہی نہیں بلکہ بندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا یعنی حاجت روابھی ہے ۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ الٰہیت کیا ہے لیکن اتنا جاننا ہی کافی نہیں کیونکہ کلمۂ طیبہ میں الٰہیت کے ساتھ ساتھ رسالت کا بھی بیان ہے جسکا جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ الٰہیت کو جاننا ہے۔ جب تک کہ رسالت کو نہ سمجھیں دونوں مراتب کی تمیز نہ ہوگی ۔ تنزیہ اور تشبیہ کا فرق معلوم نہ ہوسکے گا۔
اس کے علاوہ نفی و اثبات بھی تو کرنا ہے ،اس میں بھی دشواری ہوگی ،غیریت کو سمجھے بغیر نہ تو اسکی نفی کرسکو گے اور اثبات کرنا بھی مشکل ہوگا ، مشکل کیا بلکہ صحیح نہ ہوگا ،ایسی صورت میں ایمان کی سلامتی خطرہ میں پڑجائے گی ۔ مثلاً زید میں کچھ برائیاں ہیں وہ چاہتا ہے کہ اپنی برائیوں کو دور کردے لیکن اپنی برائیوں پر اسکی نظر ہی نہیں پڑتی وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھ میں کیا برائی ہے ۔بغیر اپنی برائیوں سے واقف ہوئے اگر وہ یہ کہدے کہ میں نے اپنی برائیوں کو دور کردیا تو اسکا ایسا کہنا غلط ہوگا ۔وہزندگی بھر اپنی برائیوں کو دور نہ کر سکے گا ،جس وقت وہ اپنی برائیوں سے واقف ہو جائے گا تب آن واحد میں ان کو دور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح مرتبہ الٰہیت ورسالت میں جو غیریت پوشیدہ ہے جب تک بندہ اس سے واقف نہ ہو جائے اسکو دورنہیں کر سکتا غیریت کو دور کرنا ہی نفی ء غیریت کہلاتا ہے ۔ جب اسکا نفی کرنا ہی درست نہ ہوا تو اثبات کب صحیح ہو سکتا ہے لھٰذا ان دونوں کی غیریت سے واقف ہونے کیلئے مرتبہ رسالت کا جاننا بے حد ضروری ہے ؛۔
دل کے ناقص علم کو باہرنکالو کامل یقین کے ساتھ جواں مردی سے قدم آگے بڑھاؤ ۔کفر۔و الحاد کی گرد کو جھٹک دو ،ظلمت جہل کو ہٹاکر ایمانی انوار سے مالا مال کر لو ہمت نہیں تو یہ حجابات اٹھانے سے پہلے خود کو تیار کرلو جن حقائق کو بیان کیا جا رہا ہے انکو برداشت کرلو ۔
وجود ؟ اقسام !
۱) وجود ذاتی (۲)وجود ذہنی (۳) وجود اضافی (۴) وجود حسی وغیرہ ۔
ہر شئی کے دو رخ ۱ ایک تعین ۲ دوسرے لا تعین
ایک کو رنگ ۔دوسرا بے رنگ ۔ایک کو شکل ۔دوسرا بے شکل۔ایک کو صورت دوسرے بے صورتی ایک میں کیف دوسرابے کیف ایک مقید دوسرے مطلق بلکہ قید اطلاق سے آزاد ایک کو صورت دوسرے بے صورت ایک ظاہردوسرا حقیقت ایک فانی دوسراباقی ایک حادث دوسرا قدیم ایک موجود با تعارض دوسرا موجود با الذات ایک ممکن الوجود دوسرا واجب الوجود،وجود؟ ہست ہے پن ! جس پر آثار مرتب ہوتے ہیں یعنی نہیں سے ہونا !وہ قوت جو شئی کو موجود کرتی ہے وجود ایک ہی ہے جو مختلف تعینات کی صورت میں جلوہ گر ہے۔
جب فعل رب کے لئے ہے تو عبد کیلئے انفعال کا کسب ہے اس فعل اور کسب میں فرق کرنا ضروری ہے چونکہ رب ہی فاعل ہے لھٰذا اسی سے مدد چاہنا ضروری ہے اسی کو استعانت کہتے ہیں ۔
استعانت کے پانچ ۵ طریقے خصوصی ہیں اس موقع پر ایک ایک عمل و حا ل اور ایک ایک حکم متعلق ہے ۔
(۱) حالت گناہ (۲) ضرورت (۳) معاملات (۴) نعمت (۵) مصیبت
گناہ والی حالت میں توبہ واستغفار کرنا ہے ۔
دوسری حالت ضرورت میں دعا کا حکم ہے ۔
تیسری حالت معاملہ کی ہے جس میں توکل کا حکم ہے۔
چوتھی حالت نعمت والی اس حالت میں شکر بجا لائے ۔
پانچویں حالت مصیبت کی ہے اس میں صبر کرے ۔
توبہ کرنے سے دائرۂ نعمت میں ! ضرورت میں دعاء کرنے سے دائرۂ نعمت میں !معاملہ میں توکل کریں تو دائرۂ نعمت میں اور نعمت میں شکر کریں تو نعمت ہے ہی !اور مصیبت و آزمائش میں صبر کریں تو دائرۂ نعمت میں متبد ل ہو جاتے ہیں ! خصوصاً ….
(ان اﷲ مع الصابرین ) (ان اﷲ یحب الصابرین )(وکان حقاً علینا نصر المؤ منین)
(ذالک بان اللہ مولی الذین آمنو ا وعلیٰ ربھم یتوکلون)
انعاما ت باری
(۱) معیت ذاتی (۲) محبت الٰہی (۳) تائید و نصرت (۴) مولائیت
یہ تمام امور اربعہ اور چار نسبتیں صبر سے مل جاتی ہیں ۔
اصل تمام موجودات میں وجود ہے اور وجود عقلی طور پر دو قسموں میں منقسم ہے ایک وجود عین ذات ہے ۔اور دوسرا وجود زائد بر ذات ہے اور اسی وجود کا موجود سے انفکاک ہوتا ہے ۔اور دوسرا وجود موجود سے انفکاک اور جدائی باطل اور ناجائز ہےاور عالم کا وجود موجود سے الگ ہونا ممکن ہے اور حق کا وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے جدائی نہیں وہ وجود وجود اصل ہے بالذات ہے وجود حق ہے بالکل بر حق ہے یہ قائم خود بخود ہے قائم بہ خود ہے ۔اور دوسروں یعنی غیر اللہ کا وجودزائد بر ذات ہے ممکنات کا ہے ممکن الوجود ہے عالم فی حد ذاتہہ عدم ہے نیست ہے قائم بالغیر ہے اور حق تعالیٰ کا وجود قائم بالذات ہے اور مقوم ہے اور وہ بھی ممکن ہوا تو تسلسل لازم آتا ہے جو باطل ہے
الا کل شئی ما خلل اﷲ باطل
حقیقت حق وجوب ،ہست وجود ،خود بخود ، قائم بہ خود ، دوسرے کو قیام بخشتی ہے اسکا نام قیوم ہے اسکی صفت قیومیت ہے خود سے ہے اور دوسروں کو قیام بخشتی ہے ، وجود کو نیست ہونا نہیں ،عدم نہیں ،ہمیشہ ہست ہر آن ہے اسکی ذات حی وقیوم ہے ، مرجع حیات و قیام رکھتی ہے، وہ بے شمار کمالات رکھتی ہے،
کمال حیات ،کمال علم ، کمال ارادہ ، کمال قدرت ، کمال سماعت ، کمال بصارت ، کمال کلام ، سے موصوف ہے اس کے کمالات میں نقص و زوال کا گذر نہیں ،
واجب وممکن
وجود کی دو قسمیں ہیں ۱ واجب الوجود ۲ ممکن الوجود
واجب الوجود وہ ہے جو قائم بخود یعنی اپنے آپ قائم ہو ،اور اس کے لئے دوام ہو وہ وجود وجود حق ہے ، یعنی خدا کی ذات وصفات واجب الوجود اور اپنے ہی سے قائم ہے وہ قدیم ہے دائم ہے ، اور ممکن الوجود وہ ہے جو قائم با لغیر ہو جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو وہ کبھی ہو اور کبھی نہ ہو اس مضمون کو یوں سمجھ سکتے ہیں ۔
جو شئی وجود صرف واجب اسے کہو
ممکن کی یہ صفت کبھی ہو کبھی نہ ہو
اس لئے یہ عالم فانی ہے حادث ہے مخلوق ہے مملوک ہے محکوم ہے ،مربوب ہے مخلوق میں تعین ہے حق لا تعین ہے مخلوق میں صورت ہے حق تعا لیٰ بے صورت ہیں مخلوقات میں تحدیدات ہیں حق تعالیٰ بے حد ہیں مملوک میں تقید ہے حق تعالیٰ قیود سے منزہ ہیں مخلوق میں نقص وزوال ہے حق تعالیٰ نقص وزوال سے پاک ہیں ، کائنات کی اشیاء سمت وجہت سے مخصوص ہیں حق تعالیٰ سمت وجہت سے مبرا ہیں ، کائنات کی اشیا کسی نہ کسی طور محتاج ہیں اور حق تعالیٰ احتیاج سے پاک ہیں اشیاء کونیہ کی حقیقتیں معدومات اضافیہ ہیں اور حق تعا لیٰ موجود حقیقی ،
سبحان اللہ الحمد للہ
جوہر و عرض
ممکن الوجود کی مجموعی طور پر دو قسمیں ہیں (۱) جوہر (۲) عرض
جو قائم بنفس نفیس اور بذات خود اور قائم بنفسہ ہوتا ہے اسے جوہر سے تعبیر کرتے ہیں ۔اور جو خود سے نہیں بلکہ قائم بہ غیر خود ہو تا ہے اسے عرض سے موسوم کرتے ہیں ۔
جوہر کی مجموعی طور پر ۵ قسمیں ہیں
۱۔عقل۔۲۔نفس۔۳۔جسم۔۴۔ہیولیٰ۔۵۔صورت
۱) عقل ۔ایک جوہر مجرد ہے اور اپنی ذات اور فعل میں مادے سے تنھا
۲)نفس۔مادہ سے مجرد ہے عقل نہیں تصرف و تدبیر کا محتاج ہے
۳) ہیولیٰ۔جسم اور صورت کی جگہ ۔
۴) جسم۔ ہیولیٰ اور صورت سے مرکب ہے ۔
۵) صورت۔ ہیولیٰ میں اترنے والا ایک جوہر ہے ۔
عرض کی نو ۹ اقسام ہیں
۱۔ کم۔ ۲۔کیف۔۳۔اضافت۔ پدریت ومادریت ۴۔ این ۔۵۔ متیٰ۔
۶۔ وضع۔ شئی کے اجزاء سے لینا کہ کب کھڑے رہنا، بیٹھنا، ۷۔ملک۔ کسی اور کے احاطہ میں رہنا (محاط) ۸۔فعل۔ (بڑھئی کا لکڑی کو کاٹنا اور لکڑی کا کٹے جانے کو قبول کرنا ) ۹۔انفعال۔متاثر ہونا ،
نوٹ ۔ اللہ جل شانہ ان تمام چیزوں سے برتر اور ، تعالیٰربنا من کیف ، واین،ومتیٰ، ونقص، وشریک،
ھو جامع جمیع الصفات الکمال ،ومنزہ عن النقص والزوال ھوالحق لا الٰہ الاھو
وجود من حیث ھوھو یعنی جس سے وہ موجود با لذات ہے موجود دو قسم کا ہے ۔۔۱ واجب ۔۲ ممکن۔
الوجب مایکون وجود ہ ضروریاً یعنی واجب وہ ہے جس کا وجود ضروری ہے ورنہ غیر کی طرف اسکا وجودی احتیاج لازم آتی ہے حالانکہ اللہ کی ذات کسی بھی کمال چیز میں غیر کی طرف احتیاج سے پاک ہے
وجود عین ذات ہے یا غیر ذات ہے
متکلمین اسلام اور حکماء عارفین کے نزدیک تمام موجودات میں اصل وجود ہے عقلی طور پر وجود کی دو قسمیں ہیں ایک وجود عین ذات ہے وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے وہ اللہ کا وجود ہے جو چیزیں مصدر آثار موجودات ہے وہی یہ اصطلاحات وجود کہلا تا ہے اور حق تعالیٰ واجب الوجود ہیں اور تمام کائنات ممکن الوجود ہے ۔
Jan 10 2015
Wahdat ul Wajood
Wahdat ul Wajood
علم الٰہیات کا اہم سبق ۔وحدۃ الوجود
حضرت مولاناشاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
مرتبۂ ذات
موجود حقیقی باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔اسکے علم میں جن چیزوں کا ثبوت پایا جاتا ہے وہ موجود اضافی کہلاتے ہیں ۔اوروہی چیزیں خارج میں آسکتی ہیں ۔مثلاً آپکی ایک ذات ہے جو حقیقت میں موجود ہونے کی بنا پر موجود حقیقی کہلاتی ہے ۔آپ کے تصور میں ایک حسین صورت معہ اپنے لوازمات کے نمودار ہوتی ہے ۔اسطرح اسکا علم میں نمو دار ہونے کو ثبوت کہتے ہیں ۔آپ کی ذات اور اس حسین چہرے کی ذات دونوں اگرچہ کہ الگ الگ ہیں مگر ااپ کی ذات ہونے کی وجہ سے وہ ذات آپ کے علم میں ظاہر ہوئی ورنہ کبھی ظاہر نہ ہوسکتی تھی اس لئے وہ اضافت میں آنے کی وجہ سے موجود اضافی کہلائی خارج میں آنے سے پہلے اس کو ثبوت علمی کہتے ہیں آپ جب اس تصویر کو کاغذ پر اتاریں گ تو اسکو موجود فی الخارج ہونا کہنگے ۔اور جو چیز ثبوت علمی نہ ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں وہ ہمیشہ مسلوب رہتی ہے پھر اسکو عدم اضافی بھی کہنا غلط ہے ۔عدم نہیں کو کہتے ہیں جو ضد ہے وجود کی جب وہ وجود ہی نہیں ہےتو عدم کا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور جو چیز علم الٰہی میں ثابت ہو وہ کبھی مسلوب نہیں ہوسکتی ۔ہر وہ چیز جو علم میں آئے اسکو معلوم کہتے ہیں اور مخلوق کی صورتوں کا علم میں آنا صور علمیہ اور اعیان ثابتہ کہلا تا ہے ۔
صور علمیہ اور اعیان ثابتہ
مثلاً آپ کے علم میں جو حسین چہرہ آیا اسکو صور علمیہ یا اعیان ثابتہ کہیں گے اس چہرے کی تفصیلات کو جو آپ کا جانتا پن ہوا یعنی وہ چہرہ گوراہے یا کالا ۔وہ کتنے دن تک باقی رہیگا ۔اس کے چہرے پر کب خراش آئے گی یہ سب تفصیلات کا جو آپ کو علم ہے وہ معلوم کہلاتا ہے ۔
عدل اور فضل
لہٰذا باری تعالیٰ اعیان ثابتہ کے میلانات ،لوازمات اور ان کے اقتضاآت کو ان کی تخلیق سے قبل جانتا ہے جب کہ علم میں ثابت ہوئے ۔اعیان ثابتہ علم الٰہی میں ثابت ہونے کے باوجود خارج میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ان کو خارج میں لانا یعنی تخلیق کرنا مرضیء الٰہی پر موقوف ہے وہ چاہے تو انہیں خلق کرے یا نہ کرے اسکے باوجود اس نے جو خلق کیا وہ اسکا فضل کہلایا ۔ پھر علم الٰہی میں جس طرح وہ ثابت ہوئے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کئے بغیر جوں کا توں تخلیق کرنا باری تعالٰی کا عدل کہلایا ۔
فیض اقدس اور فیض مقدس
اعیان ثابتہ کے ظہور کیلئے ان کی ذات سے حقیقت کا اقتران ہونا ضروری ہے جب وہ دونوں مل جاتے ہیں تب وہ موجود فی الخارج ہوجاتے ہیں اسلئے اسکو جعل مرکب کہتے ہیں ۔ ذات اور حقیقت کو ملاکر موجود فی الخارج کرنا فیض مقدس کہلاتا ہے ۔ باری تعالٰی اپنے علم میں اگر کسی شئی یا اسکی اقتضاکو پیدا کرے جسکا ثبوت اس کے علم میں نہ ہو توا یسی صورت میں باری تعالٰی پر دو قسم کے الزام عائد ہونگے ۔ایک ظالم دوسرے جاہل ہونے کے ۔جہل اسلئے کہ پہلے اسکو نہیں جانتاتھا بعد میں جان کر اسکو پیداکیا۔اور ظالم اسلئے کہ جسکی جیسے چاہا صورت بنادی۔ کسی کو فقیر بنادیا ۔تو کسی کو امیر۔باری تعالٰی کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے ۔
ظلم و جہل اسکی صفات نہیں وہ نقائص سے منزہ ہے ہر شئی علم الٰہی میں ثابت ہوئی بے جعل جاعل ہے۔
کائنات کو بنانے سے پہلے ہر شئی علم الٰہی میں ثابت ہوئی جب باری تعالٰی ان کو موجود فی الخارج کرنا چاہاتو اس چاہت ہی سے یعنی (کن)کے ساتھ (فیکون) ہوگئی [یعنی بن گئی]
حادث دہری و حادث زمانی
کائنات کا بنتا پن دو طرح پر ہے ۔وہ چیزیں جو کن کے ساتھ ہی دفعتاً اپنے پورے کمال کے ساتھ پیدا ہو گئیں ۔وہ حادث دہری کہلاتی ہیں ۔عالم اروح اور عالم مثال حادث دہری ہیں جو ،،کن،، کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے ۔البتہ جو چیزیں تدریجاً آہستہ آہستہ کمال کو پہنچنے والی ہیں وہ حادث زمانی کہلاتی ہیں ۔
حق سبحانہ تعالیٰ نے ،لا الٰہ الا ھو خالق کل شئی ، فرماکر اپنی شان الٰہیت کو صاف طور سے بندوں کو سمجھا دیا۔ کہ ،،الٰہ،، کہلانے والی ذات کے کیا کیا اعتبارات ہیں وہ کاملہ صفات سے کیسے متصف ہے کتنا وہ صاحب قوت اور نافع و ضارہے یہی نہیں بلکہ بندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا یعنی حاجت روابھی ہے ۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ الٰہیت کیا ہے لیکن اتنا جاننا ہی کافی نہیں کیونکہ کلمۂ طیبہ میں الٰہیت کے ساتھ ساتھ رسالت کا بھی بیان ہے جسکا جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ الٰہیت کو جاننا ہے۔ جب تک کہ رسالت کو نہ سمجھیں دونوں مراتب کی تمیز نہ ہوگی ۔ تنزیہ اور تشبیہ کا فرق معلوم نہ ہوسکے گا۔
اس کے علاوہ نفی و اثبات بھی تو کرنا ہے ،اس میں بھی دشواری ہوگی ،غیریت کو سمجھے بغیر نہ تو اسکی نفی کرسکو گے اور اثبات کرنا بھی مشکل ہوگا ، مشکل کیا بلکہ صحیح نہ ہوگا ،ایسی صورت میں ایمان کی سلامتی خطرہ میں پڑجائے گی ۔ مثلاً زید میں کچھ برائیاں ہیں وہ چاہتا ہے کہ اپنی برائیوں کو دور کردے لیکن اپنی برائیوں پر اسکی نظر ہی نہیں پڑتی وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھ میں کیا برائی ہے ۔بغیر اپنی برائیوں سے واقف ہوئے اگر وہ یہ کہدے کہ میں نے اپنی برائیوں کو دور کردیا تو اسکا ایسا کہنا غلط ہوگا ۔وہزندگی بھر اپنی برائیوں کو دور نہ کر سکے گا ،جس وقت وہ اپنی برائیوں سے واقف ہو جائے گا تب آن واحد میں ان کو دور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح مرتبہ الٰہیت ورسالت میں جو غیریت پوشیدہ ہے جب تک بندہ اس سے واقف نہ ہو جائے اسکو دورنہیں کر سکتا غیریت کو دور کرنا ہی نفی ء غیریت کہلاتا ہے ۔ جب اسکا نفی کرنا ہی درست نہ ہوا تو اثبات کب صحیح ہو سکتا ہے لھٰذا ان دونوں کی غیریت سے واقف ہونے کیلئے مرتبہ رسالت کا جاننا بے حد ضروری ہے ؛۔
دل کے ناقص علم کو باہرنکالو کامل یقین کے ساتھ جواں مردی سے قدم آگے بڑھاؤ ۔کفر۔و الحاد کی گرد کو جھٹک دو ،ظلمت جہل کو ہٹاکر ایمانی انوار سے مالا مال کر لو ہمت نہیں تو یہ حجابات اٹھانے سے پہلے خود کو تیار کرلو جن حقائق کو بیان کیا جا رہا ہے انکو برداشت کرلو ۔
وجود ؟ اقسام !
۱) وجود ذاتی (۲)وجود ذہنی (۳) وجود اضافی (۴) وجود حسی وغیرہ ۔
ہر شئی کے دو رخ ۱ ایک تعین ۲ دوسرے لا تعین
ایک کو رنگ ۔دوسرا بے رنگ ۔ایک کو شکل ۔دوسرا بے شکل۔ایک کو صورت دوسرے بے صورتی ایک میں کیف دوسرابے کیف ایک مقید دوسرے مطلق بلکہ قید اطلاق سے آزاد ایک کو صورت دوسرے بے صورت ایک ظاہردوسرا حقیقت ایک فانی دوسراباقی ایک حادث دوسرا قدیم ایک موجود با تعارض دوسرا موجود با الذات ایک ممکن الوجود دوسرا واجب الوجود،وجود؟ ہست ہے پن ! جس پر آثار مرتب ہوتے ہیں یعنی نہیں سے ہونا !وہ قوت جو شئی کو موجود کرتی ہے وجود ایک ہی ہے جو مختلف تعینات کی صورت میں جلوہ گر ہے۔
جب فعل رب کے لئے ہے تو عبد کیلئے انفعال کا کسب ہے اس فعل اور کسب میں فرق کرنا ضروری ہے چونکہ رب ہی فاعل ہے لھٰذا اسی سے مدد چاہنا ضروری ہے اسی کو استعانت کہتے ہیں ۔
استعانت کے پانچ ۵ طریقے خصوصی ہیں اس موقع پر ایک ایک عمل و حا ل اور ایک ایک حکم متعلق ہے ۔
(۱) حالت گناہ (۲) ضرورت (۳) معاملات (۴) نعمت (۵) مصیبت
گناہ والی حالت میں توبہ واستغفار کرنا ہے ۔
دوسری حالت ضرورت میں دعا کا حکم ہے ۔
تیسری حالت معاملہ کی ہے جس میں توکل کا حکم ہے۔
چوتھی حالت نعمت والی اس حالت میں شکر بجا لائے ۔
پانچویں حالت مصیبت کی ہے اس میں صبر کرے ۔
توبہ کرنے سے دائرۂ نعمت میں ! ضرورت میں دعاء کرنے سے دائرۂ نعمت میں !معاملہ میں توکل کریں تو دائرۂ نعمت میں اور نعمت میں شکر کریں تو نعمت ہے ہی !اور مصیبت و آزمائش میں صبر کریں تو دائرۂ نعمت میں متبد ل ہو جاتے ہیں ! خصوصاً ….
(ان اﷲ مع الصابرین ) (ان اﷲ یحب الصابرین )(وکان حقاً علینا نصر المؤ منین)
(ذالک بان اللہ مولی الذین آمنو ا وعلیٰ ربھم یتوکلون)
(۱) معیت ذاتی (۲) محبت الٰہی (۳) تائید و نصرت (۴) مولائیت
یہ تمام امور اربعہ اور چار نسبتیں صبر سے مل جاتی ہیں ۔
اصل تمام موجودات میں وجود ہے اور وجود عقلی طور پر دو قسموں میں منقسم ہے ایک وجود عین ذات ہے ۔اور دوسرا وجود زائد بر ذات ہے اور اسی وجود کا موجود سے انفکاک ہوتا ہے ۔اور دوسرا وجود موجود سے انفکاک اور جدائی باطل اور ناجائز ہےاور عالم کا وجود موجود سے الگ ہونا ممکن ہے اور حق کا وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے جدائی نہیں وہ وجود وجود اصل ہے بالذات ہے وجود حق ہے بالکل بر حق ہے یہ قائم خود بخود ہے قائم بہ خود ہے ۔اور دوسروں یعنی غیر اللہ کا وجودزائد بر ذات ہے ممکنات کا ہے ممکن الوجود ہے عالم فی حد ذاتہہ عدم ہے نیست ہے قائم بالغیر ہے اور حق تعالیٰ کا وجود قائم بالذات ہے اور مقوم ہے اور وہ بھی ممکن ہوا تو تسلسل لازم آتا ہے جو باطل ہے
الا کل شئی ما خلل اﷲ باطل
حقیقت حق وجوب ،ہست وجود ،خود بخود ، قائم بہ خود ، دوسرے کو قیام بخشتی ہے اسکا نام قیوم ہے اسکی صفت قیومیت ہے خود سے ہے اور دوسروں کو قیام بخشتی ہے ، وجود کو نیست ہونا نہیں ،عدم نہیں ،ہمیشہ ہست ہر آن ہے اسکی ذات حی وقیوم ہے ، مرجع حیات و قیام رکھتی ہے، وہ بے شمار کمالات رکھتی ہے،
کمال حیات ،کمال علم ، کمال ارادہ ، کمال قدرت ، کمال سماعت ، کمال بصارت ، کمال کلام ، سے موصوف ہے اس کے کمالات میں نقص و زوال کا گذر نہیں ،
واجب وممکن
وجود کی دو قسمیں ہیں ۱ واجب الوجود ۲ ممکن الوجود
واجب الوجود وہ ہے جو قائم بخود یعنی اپنے آپ قائم ہو ،اور اس کے لئے دوام ہو وہ وجود وجود حق ہے ، یعنی خدا کی ذات وصفات واجب الوجود اور اپنے ہی سے قائم ہے وہ قدیم ہے دائم ہے ، اور ممکن الوجود وہ ہے جو قائم با لغیر ہو جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو وہ کبھی ہو اور کبھی نہ ہو اس مضمون کو یوں سمجھ سکتے ہیں ۔
جو شئی وجود صرف واجب اسے کہو
ممکن کی یہ صفت کبھی ہو کبھی نہ ہو
اس لئے یہ عالم فانی ہے حادث ہے مخلوق ہے مملوک ہے محکوم ہے ،مربوب ہے مخلوق میں تعین ہے حق لا تعین ہے مخلوق میں صورت ہے حق تعا لیٰ بے صورت ہیں مخلوقات میں تحدیدات ہیں حق تعالیٰ بے حد ہیں مملوک میں تقید ہے حق تعالیٰ قیود سے منزہ ہیں مخلوق میں نقص وزوال ہے حق تعالیٰ نقص وزوال سے پاک ہیں ، کائنات کی اشیاء سمت وجہت سے مخصوص ہیں حق تعالیٰ سمت وجہت سے مبرا ہیں ، کائنات کی اشیا کسی نہ کسی طور محتاج ہیں اور حق تعالیٰ احتیاج سے پاک ہیں اشیاء کونیہ کی حقیقتیں معدومات اضافیہ ہیں اور حق تعا لیٰ موجود حقیقی ،
سبحان اللہ الحمد للہ
جوہر و عرض
ممکن الوجود کی مجموعی طور پر دو قسمیں ہیں (۱) جوہر (۲) عرض
جو قائم بنفس نفیس اور بذات خود اور قائم بنفسہ ہوتا ہے اسے جوہر سے تعبیر کرتے ہیں ۔اور جو خود سے نہیں بلکہ قائم بہ غیر خود ہو تا ہے اسے عرض سے موسوم کرتے ہیں ۔
جوہر کی مجموعی طور پر ۵ قسمیں ہیں
۱۔عقل۔۲۔نفس۔۳۔جسم۔۴۔ہیولیٰ۔۵۔صورت
۱) عقل ۔ایک جوہر مجرد ہے اور اپنی ذات اور فعل میں مادے سے تنھا
۲)نفس۔مادہ سے مجرد ہے عقل نہیں تصرف و تدبیر کا محتاج ہے
۳) ہیولیٰ۔جسم اور صورت کی جگہ ۔
۴) جسم۔ ہیولیٰ اور صورت سے مرکب ہے ۔
۵) صورت۔ ہیولیٰ میں اترنے والا ایک جوہر ہے ۔
عرض کی نو ۹ اقسام ہیں
۱۔ کم۔ ۲۔کیف۔۳۔اضافت۔ پدریت ومادریت ۴۔ این ۔۵۔ متیٰ۔
۶۔ وضع۔ شئی کے اجزاء سے لینا کہ کب کھڑے رہنا، بیٹھنا، ۷۔ملک۔ کسی اور کے احاطہ میں رہنا (محاط) ۸۔فعل۔ (بڑھئی کا لکڑی کو کاٹنا اور لکڑی کا کٹے جانے کو قبول کرنا ) ۹۔انفعال۔متاثر ہونا ،
نوٹ ۔ اللہ جل شانہ ان تمام چیزوں سے برتر اور ، تعالیٰربنا من کیف ، واین،ومتیٰ، ونقص، وشریک،
ھو جامع جمیع الصفات الکمال ،ومنزہ عن النقص والزوال ھوالحق لا الٰہ الاھو
وجود من حیث ھوھو یعنی جس سے وہ موجود با لذات ہے موجود دو قسم کا ہے ۔۔۱ واجب ۔۲ ممکن۔
الوجب مایکون وجود ہ ضروریاً یعنی واجب وہ ہے جس کا وجود ضروری ہے ورنہ غیر کی طرف اسکا وجودی احتیاج لازم آتی ہے حالانکہ اللہ کی ذات کسی بھی کمال چیز میں غیر کی طرف احتیاج سے پاک ہے
وجود عین ذات ہے یا غیر ذات ہے
متکلمین اسلام اور حکماء عارفین کے نزدیک تمام موجودات میں اصل وجود ہے عقلی طور پر وجود کی دو قسمیں ہیں ایک وجود عین ذات ہے وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے وہ اللہ کا وجود ہے جو چیزیں مصدر آثار موجودات ہے وہی یہ اصطلاحات وجود کہلا تا ہے اور حق تعالیٰ واجب الوجود ہیں اور تمام کائنات ممکن الوجود ہے ۔
Related posts:
By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria, Wahdat al Wajood, Wahdat ul wajood