اﷲ جل ِ شانہ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس آخری امت کو بڑی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے، دوسری ساری امتوں کے مقابلہ میں اس امت کو کچھ خصوصی امتیازات عطافرمائے ہیں، انھیں امتیازی فضائل میں سے شب ِ قدر بھی ہے، جو سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے اور صرف اس رات کو عبادات میں مشغول کردینے والوں کو ایک ہزار مہینے کی خالص عبادت سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے: لیلۃ القدر خیر من الف شھر۔ (یعنی ایک شب ِ قدر بہتر ہے ایک ہزار مہینے سے ) قرآن کریم نے اس رات کی عبادت کو ایک ہزار مہینے کی عبادت کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر فرمایا ہے اور اس میں زیادت کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی کہ کتنا زیادہ، اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ اس کو ایک ہزار سال کے برابر بنادیں ۔
امت ِ مرحومہ پر اس خاص امتیازی انعام کی ایک وجہ حدیث شریف میں یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی کچھ طویل طویل عمریں بطور ِ وحی دکھلائی گئیں (جو تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال کی ہوتی تھیں )اس کے بالمقابل یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کی امت کی عمریں ان کے مقابل بہت کم ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی، اس واقعہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب ِ مبارک پر یہ اثر کیا کہ اس حساب سے تو میری امت اعمال ِ صالحہ اور عبادات میں سب سے کم رہ جائے گی، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب ِ مبارک سے اس غم کو دور کرنے کے لئے لیلۃ القدر کی سورۃ نازل فرماکر بتلادیا کہ آپ فکر نہ کریں، اس امت کے عمل کی قیمت بہت بڑھادی گئی ہے کہ صرف ایک رات میں ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہیں ،تاکہ دوسری امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے، یہ حدیث مؤطا امام ِ مالکؒ نے اور ترغیب وترہیب میں حافظ منذریؒ نے نقل کی ہے۔
شب ِقدر کو شب ِ قدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کی عمریں اور رزق اور بھلے بُرے مختلف قسم کے حالات جو روز ِ اوّل سے لوح ِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں ،اس رات میں اس سال کاپورا بجٹ اور سب کی مقداریں فرشتوں کے حوالہ کردی جاتی ہیں کہ کس کی کتنی عمر ہوگی ، کتنا رزق ملے گا ، وہ کیسے کیسے حالات سے گذرے گا ، سورۂ دخان کی آیت میں حق تعالیٰ نے اس رات کو لیلہ مبارکہ کے نام سے ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ، اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ یعنی اس رات میں طے کردیا جائے گا کہ ہر کام حکمت والا ہماری طرف سے، اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ نزول ِ قرآن اس رات میں ہوا اور در ِ منثور کی ایک روایت میں ہے کہ اسی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا، سنن ِ بیہقی میں حضرت انسؓ کے واسطے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ شب ِ قدر میں جبرئیل امین فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وعبادات میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ یعنی جس شخص نے قیام کیا شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ خالص ثواب کی نیت سے کوئی دنیوی غرض نہیں اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوگئے، قیام کرنے سے مراد کسی عبادت میں لگنا ہے جس میں نماز پڑھنا بھی داخل ہے اور ذکر وتلاوت وغیرہ بھی۔
گناہوں کی معافی کے متعلق شریعت کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو نفلی عبادات اور دوسری عبادات اور دوسری نیکیوں کے ذریعہ بھی خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صغیرہ گناہ کی معافی کی قید نہیں لگائی بلکہ عام رکھا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اول تو مومن سے گناہ ِ کبیرہ میں مبتلا ہونا بہت بعید ہے اور اگر ہو بھی گیا تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک توبہ نہ کرلے، اور فرض کروکہ پہلے غفلت ہی ہوتی رہی اب جبکہ شب ِ قدر میں وہ اﷲ کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے اپنی مغفرت کی دعاء اور دوسری مرادیں مانگ رہا ہے تو یقینا اس کو اپنے پچھلے کئے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی بھی ہوگی اور آئندہ ان سے بچتے رہنے کا پختہ ارادہ بھی کرے گا ، اسی کا نام توبہ ہے، اس سے معلوم ہواکہ شب ِ قدر کی عبادت کے لئے پچھلے گناہوں سے توبہ لازم وملزوم ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ آج شب ِ قدر ہے تو میں کیا دعا مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو: اللّٰھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔ یعنی اے میرے معبود! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں ، میرے گناہوں کو معاف فرما، اس حدیث میں شب ِ قدر کی سب سے بڑی عبادت توبہ ہی کو قرار دیا ہے ، اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس مبارک رات میں اپنے سب پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور معافی مانگنے کا پورا اہتمام کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شب ِ قدر اس امت کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امتیازی انعام ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کردیا ہے، ایک ہزار مہینے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں ، پھر اس میں رحمت کے فرشتوں کا نزول اور عبادت گذار کے لئے رحمت کی دم بدم دعائیں بھی ہیں اور تمام گناہوں سے مغفرت کا وعدہ بھی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی بھی ہوتی ہے کہ ہم سے جو دعا مانگی جائے گی قبول کریں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص شب ِ قدر کی برکات سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس بھلائی سے صرف وہی شخص محروم ہوگا جو بڑا ہی بدنصیب ہوگا، یہ روایت ابن ِ ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
اب یہ سوال باقی رہ گیا کہ مبارک رات کونسی رات ہے؟ اس کے متعلق اتنی بات تو خود قرآن کریم نے متعین کردی ہے کہ یہ رات ماہ ِ رمضان کی کوئی رات ہوگی، اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس کی مزید توضیح وتعیین بذریعہ وحی الٰہی اس طرح فرمائی ہے کہ مشکوٰۃ میں بحوالہ بخاری شریف حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب ِ قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، یعنی اکیس(۲۱) پچیس (۲۵) ستائیس (۲۷) انتیس(۲۹)ان راتوں میں سے کوئی رات شب ِ قدر ہوگی اور بعض روایات میں ستائیسویں شب کے متعلق مزید رجحان ثابت ہوتا ہے،یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی احکام میں اکیسویں شب وہ کہلائے گی جو ۲۰/تاریخ کے بعد ۲۱/تاریخ سے پہلے آئے، اسی طرح ۲۳، ۲۵وغیرہ کو سمجھئے ، اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کو پورا کون دریافت کرسکتا ہے، یہاں بالتصریح کسی ایک رات کو متعین کرکے نہ بتلانے اور عشرہ اخیرہ رمضان کی پانچ طاق راتوں میں دائر کردینے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے شوق ِ عبادت اور فکر ِ آخرت کی آزمائش ہو کہ شب ِ قدر کی برکات حاصل کرنے کے لئے ان پانچوں راتوں میں بیدار رہ کر عبادت کی کوشش کرے، غور کیجئے کہ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں کتنی ملازمتیں ایسی ہیں کہ ان میں ملازم کو پوری رات بیدار رہناپڑتا ہے، ہوائی جہازوں کے پائلٹ، ریلوں کے چلانے والے رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے ، ملوں اور کارخانوں کے مزدور فانی فوائد اور چند ٹکوں کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گذارتے ہیں ۔ اگر اﷲ کے نیک بندے سال بھر میں صرف پانچ راتیں اتنی بڑی نعمت کے لئے جاگیں کہ تراسی سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب ملے گا، فرشتوں کی دعائیں ملیں گی،سب پچھلے گناہوں کی مغفرت حاصل ہوگی ، دین ودنیا کی سب مرادیں حاصل ہوں گی تو کیا مشکل کام ہے ۔ اور قربان جائیے حق تعالیٰ کے فضل وانعام کے ان راتوں میں بھی تمام رات جاگنا شرط نہیں کچھ سوبھی رہے تو اس مقصد میں خلل نہیں آتا۔
اور حضرت سعید بن مسیب ؒ کی روایت تویہ ہے کہ جو شخص اسی رات میں عشاء کی نماز جماعت سے پڑھے پھر صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی وہ بھی لیلۃ القدر کی برکات سے محروم نہیں رہتا، پھر یہ رات غروب ِ آفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتی ہے جو بیمار ہو یا بہت کمزور یا کم ہمت ہوں اور مغرب کے بعد سے ہی عبادت میں لگ جائیں ، نماز ِ عشاء جماعت سے پڑھیں تو وہ بھی شب ِ قدر کی خیر وبرکت سے محروم نہیں ہوں گے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان راتوں میں جاگنے اور عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
یہ بات سب مسلمانوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ ایسی خاص راتوں میں اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعاء تو سبھی کریں گے، ضرورت اس کی ہے کہ پورے عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لئے دعاء کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو تمام ظاہری اور باطنی فتنوں اور سب پریشانیوں سے محفوظ رکھیں ۔
Jul 2 2015
Lailatul Qadr
Lailatul Qadr (Shab e Qadr)
شب ِ قدر
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
اﷲ جل ِ شانہ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس آخری امت کو بڑی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے، دوسری ساری امتوں کے مقابلہ میں اس امت کو کچھ خصوصی امتیازات عطافرمائے ہیں، انھیں امتیازی فضائل میں سے شب ِ قدر بھی ہے، جو سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے اور صرف اس رات کو عبادات میں مشغول کردینے والوں کو ایک ہزار مہینے کی خالص عبادت سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے: لیلۃ القدر خیر من الف شھر۔ (یعنی ایک شب ِ قدر بہتر ہے ایک ہزار مہینے سے ) قرآن کریم نے اس رات کی عبادت کو ایک ہزار مہینے کی عبادت کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر فرمایا ہے اور اس میں زیادت کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی کہ کتنا زیادہ، اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ اس کو ایک ہزار سال کے برابر بنادیں ۔
امت ِ مرحومہ پر اس خاص امتیازی انعام کی ایک وجہ حدیث شریف میں یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی کچھ طویل طویل عمریں بطور ِ وحی دکھلائی گئیں (جو تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال کی ہوتی تھیں )اس کے بالمقابل یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کی امت کی عمریں ان کے مقابل بہت کم ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی، اس واقعہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب ِ مبارک پر یہ اثر کیا کہ اس حساب سے تو میری امت اعمال ِ صالحہ اور عبادات میں سب سے کم رہ جائے گی، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب ِ مبارک سے اس غم کو دور کرنے کے لئے لیلۃ القدر کی سورۃ نازل فرماکر بتلادیا کہ آپ فکر نہ کریں، اس امت کے عمل کی قیمت بہت بڑھادی گئی ہے کہ صرف ایک رات میں ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہیں ،تاکہ دوسری امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے، یہ حدیث مؤطا امام ِ مالکؒ نے اور ترغیب وترہیب میں حافظ منذریؒ نے نقل کی ہے۔
شب ِقدر کو شب ِ قدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کی عمریں اور رزق اور بھلے بُرے مختلف قسم کے حالات جو روز ِ اوّل سے لوح ِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں ،اس رات میں اس سال کاپورا بجٹ اور سب کی مقداریں فرشتوں کے حوالہ کردی جاتی ہیں کہ کس کی کتنی عمر ہوگی ، کتنا رزق ملے گا ، وہ کیسے کیسے حالات سے گذرے گا ، سورۂ دخان کی آیت میں حق تعالیٰ نے اس رات کو لیلہ مبارکہ کے نام سے ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ، اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ یعنی اس رات میں طے کردیا جائے گا کہ ہر کام حکمت والا ہماری طرف سے، اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ نزول ِ قرآن اس رات میں ہوا اور در ِ منثور کی ایک روایت میں ہے کہ اسی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا، سنن ِ بیہقی میں حضرت انسؓ کے واسطے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ شب ِ قدر میں جبرئیل امین فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وعبادات میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ یعنی جس شخص نے قیام کیا شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ خالص ثواب کی نیت سے کوئی دنیوی غرض نہیں اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوگئے، قیام کرنے سے مراد کسی عبادت میں لگنا ہے جس میں نماز پڑھنا بھی داخل ہے اور ذکر وتلاوت وغیرہ بھی۔
گناہوں کی معافی کے متعلق شریعت کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو نفلی عبادات اور دوسری عبادات اور دوسری نیکیوں کے ذریعہ بھی خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صغیرہ گناہ کی معافی کی قید نہیں لگائی بلکہ عام رکھا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اول تو مومن سے گناہ ِ کبیرہ میں مبتلا ہونا بہت بعید ہے اور اگر ہو بھی گیا تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک توبہ نہ کرلے، اور فرض کروکہ پہلے غفلت ہی ہوتی رہی اب جبکہ شب ِ قدر میں وہ اﷲ کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے اپنی مغفرت کی دعاء اور دوسری مرادیں مانگ رہا ہے تو یقینا اس کو اپنے پچھلے کئے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی بھی ہوگی اور آئندہ ان سے بچتے رہنے کا پختہ ارادہ بھی کرے گا ، اسی کا نام توبہ ہے، اس سے معلوم ہواکہ شب ِ قدر کی عبادت کے لئے پچھلے گناہوں سے توبہ لازم وملزوم ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ آج شب ِ قدر ہے تو میں کیا دعا مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو: اللّٰھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔ یعنی اے میرے معبود! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں ، میرے گناہوں کو معاف فرما، اس حدیث میں شب ِ قدر کی سب سے بڑی عبادت توبہ ہی کو قرار دیا ہے ، اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس مبارک رات میں اپنے سب پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور معافی مانگنے کا پورا اہتمام کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شب ِ قدر اس امت کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امتیازی انعام ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کردیا ہے، ایک ہزار مہینے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں ، پھر اس میں رحمت کے فرشتوں کا نزول اور عبادت گذار کے لئے رحمت کی دم بدم دعائیں بھی ہیں اور تمام گناہوں سے مغفرت کا وعدہ بھی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی بھی ہوتی ہے کہ ہم سے جو دعا مانگی جائے گی قبول کریں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص شب ِ قدر کی برکات سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس بھلائی سے صرف وہی شخص محروم ہوگا جو بڑا ہی بدنصیب ہوگا، یہ روایت ابن ِ ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
اب یہ سوال باقی رہ گیا کہ مبارک رات کونسی رات ہے؟ اس کے متعلق اتنی بات تو خود قرآن کریم نے متعین کردی ہے کہ یہ رات ماہ ِ رمضان کی کوئی رات ہوگی، اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس کی مزید توضیح وتعیین بذریعہ وحی الٰہی اس طرح فرمائی ہے کہ مشکوٰۃ میں بحوالہ بخاری شریف حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب ِ قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، یعنی اکیس(۲۱) پچیس (۲۵) ستائیس (۲۷) انتیس(۲۹)ان راتوں میں سے کوئی رات شب ِ قدر ہوگی اور بعض روایات میں ستائیسویں شب کے متعلق مزید رجحان ثابت ہوتا ہے،یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی احکام میں اکیسویں شب وہ کہلائے گی جو ۲۰/تاریخ کے بعد ۲۱/تاریخ سے پہلے آئے، اسی طرح ۲۳، ۲۵وغیرہ کو سمجھئے ، اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کو پورا کون دریافت کرسکتا ہے، یہاں بالتصریح کسی ایک رات کو متعین کرکے نہ بتلانے اور عشرہ اخیرہ رمضان کی پانچ طاق راتوں میں دائر کردینے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے شوق ِ عبادت اور فکر ِ آخرت کی آزمائش ہو کہ شب ِ قدر کی برکات حاصل کرنے کے لئے ان پانچوں راتوں میں بیدار رہ کر عبادت کی کوشش کرے، غور کیجئے کہ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں کتنی ملازمتیں ایسی ہیں کہ ان میں ملازم کو پوری رات بیدار رہناپڑتا ہے، ہوائی جہازوں کے پائلٹ، ریلوں کے چلانے والے رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے ، ملوں اور کارخانوں کے مزدور فانی فوائد اور چند ٹکوں کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گذارتے ہیں ۔ اگر اﷲ کے نیک بندے سال بھر میں صرف پانچ راتیں اتنی بڑی نعمت کے لئے جاگیں کہ تراسی سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب ملے گا، فرشتوں کی دعائیں ملیں گی،سب پچھلے گناہوں کی مغفرت حاصل ہوگی ، دین ودنیا کی سب مرادیں حاصل ہوں گی تو کیا مشکل کام ہے ۔ اور قربان جائیے حق تعالیٰ کے فضل وانعام کے ان راتوں میں بھی تمام رات جاگنا شرط نہیں کچھ سوبھی رہے تو اس مقصد میں خلل نہیں آتا۔
اور حضرت سعید بن مسیب ؒ کی روایت تویہ ہے کہ جو شخص اسی رات میں عشاء کی نماز جماعت سے پڑھے پھر صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی وہ بھی لیلۃ القدر کی برکات سے محروم نہیں رہتا، پھر یہ رات غروب ِ آفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتی ہے جو بیمار ہو یا بہت کمزور یا کم ہمت ہوں اور مغرب کے بعد سے ہی عبادت میں لگ جائیں ، نماز ِ عشاء جماعت سے پڑھیں تو وہ بھی شب ِ قدر کی خیر وبرکت سے محروم نہیں ہوں گے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان راتوں میں جاگنے اور عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
یہ بات سب مسلمانوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ ایسی خاص راتوں میں اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعاء تو سبھی کریں گے، ضرورت اس کی ہے کہ پورے عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لئے دعاء کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو تمام ظاہری اور باطنی فتنوں اور سب پریشانیوں سے محفوظ رکھیں ۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العلمین۔
بہ شکریہ انوارِ اسلام
By silsilaekamaliya • Important Articles, Shab e Qadr • Tags: Lailatul Qadr, shab e qadr, شب ِ قدر