Tawheed – Wahdatul Wujud
حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ
آریوں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگا کر ’’وہ نیستی سے ہستی کے پیدا ہونے کے قائل ہیں‘‘ اپنا ایک خود تراشیدہ وہم یہ پیش کیا ہے کہ ’’عالم صرف خدا سے نہیں بلکہ مادّہ سے بھی ظاہر ہوا ہے‘‘، سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس فطری یقین کومحفوظ رکھنے کے لئے کہ ’’ہستی ہستی ہی سے پیدا ہوتی ہے‘‘ خدا کی ہستی کیوں کافی نہ تھی جو مادّہ کے وجود کا اضافہ کیا جاتا ہے، یہ سچ ہے کہ ہستی کو ہستی ہی سے پیدا ہونا چاہئے، یہی پیغمبروں کا مشاہدہ بھی ہے کہ موجودہ نظامِ ہستی اس ہستی سے ظاہر ہوا ہے جس کا نام خدا ہے، پھر خدا کے پہلوں میں کسی فالتو ہستی (مادّہ یا روح) کے اضافہ کی کیا ضرورت ہے؟ قرآن پاک میں توحید کے جہاں وار دلائل بیان کئے گئے ہیں ان میں زیادہ زور اسی دلیل پر ہے کہ ہستی کی پیدائش کے لئے خدا یعنی ایک خود بخود ہستی کے ماننے کے لئے تو آدمی یقیناً مجبور ہے لیکن اس ہستی کےسواء کسی اور خود بخود ہستی کی ضرورت کیوں بتائی جاتی ہے؟ قرآن کا ارشاد ہے کہ کسی کے پاس کوئ دلیل، کوئی شہادت ہو تو پیش کرے:
أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُلْ لَا أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ۔ (الانعام:۱۹)
(پوچھئے!) کیا تم (مشرکین) اس کی شہادت دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، اے پیغمبر کہئے کہ میرے پاس اس کی شہادت نہیں ہے اور کہئے کہ وہ تو یکتا واحد معبود ہے اور بلاشبہ ہم ان سے قطعاً جدا ہیں، جنہیں تم اللہ کاساجھی ٹھہراتے ہو۔
ان لوگوں پر حیرت ہے جنہوں نے توحید جیسے آسان اور سہل مسئلہ کو طریقۂ بحث کی غلطی سے خواہ مخواہ ایک پیچیدہ مسئلہ بنادیا، ورنہ قرآن نے اس سلسلہ میں جو فطری راہ پیش کی تھی فیصلہ کے لئے وہی کافی تھی، مطلب یہ ہے کہ شرک وتوحیدپر بحث کرنے سے پیشتر یہ طے کرلینا چاہئے کہ ان دونوں میں دعوؤں میں کسی دعویٰ کی حیثیت اثبات کی ہے اور کسی کی حیثیت انکار کی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک خدا کو مان کر مشرک ہی دوسرے خدا کا اضافہ کرنا چاہتا ہے ،پس مدعی تو مشرک ہی ہے،رہا موحد تو اس کا مقام صرف انکار کا مقام ہے، یعنی مشرک کے اضافہ کردہ خدا کا وہ صرف انکار کرنا چاہتا ہے، بحث و تحقیق کا عام قاعدہ ہے کہ صرف مدعی ہی پر بار ثبوت ہے، منکر کے لئے صرف انکار کافی ہے، افسوس ہے کہ قرآن نے توحیدکے باب میں یہی فطری راہ پیش کی تھی، لیکن ہمارے متکلمین کا ایک گروہ بلاوجہ مدعی بن بیٹھا اور محض اس غلط طریقہ کار کی وجہ سے ان کو تمانع وغیرہ اقناعی دلائل پیش کرنے پڑے اور لطف یہ ہے کہ توڑ مروڑ کرک قرآنی آیتوں کو بھی ان خودساختہ دلائل پر منطبق کرنا پڑا، جس دلیل کا نام متکلمین نے ’’برہانِ تمانع‘‘ (اثباتِ توحید کی دلیل میں متکلمین یہ کہتے ہیں کہ اگر واجب الوجود دو ہوں تو ان کے درمیان کبھی نہ کبھی اختلاف پیدا ہوسکتا ہے اور جب دو متضاد مقاصد بیک وقت پورےہوں گے، نہیں تو لامحالہ ایک غالب آئے گا، جو غالب آئے گا وہی حقیقی معنیٰ میں واجب الوجود ہے، اس کو برہانِ تمانع کہتے ہیں۔مرتب) رکھا ہے اور قرآن کی جس آیت سے وہ اُسے نکالنا چاہتے ہیں آئندہ اوراق میں اس آیت کی ایک جدید توجیہ آپ کو نظرآئے گی، ضرورت ہے کہ اس پر خاص تو جہ کی جائے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى۔ (نجم:۲۳)
یہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے تراش لئے ہیں، اللہ نے اس کے متعلق کوئی دلیل نہیں اُتاری، یہ مشرکین صرف اٹکل پچو باتوں اور اپنی حواہش کے پیچھے چلے جارہے ہیں، حالانکہ ان کے پروردگار کی رہنمائی ان کے سامنے آچکی ہے۔ایک اور جگہ مسلمانوں سے چیلنج دلایا گیا ہے کہ ان کے فالتو معبودوں کے متعلق ان مشرکین کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کریں:
هَؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ۔ (الکھف:۱۵)
یعنی ہماری قوم کے لوگوں نے اللہ کے سواء جو معبود بنالئے ہیں کیوں نہیں وہ کوئی کھلی دلیل اس پر لاتے ہیں۔
توحید کے سلسلہ میں قرآن کا لازوال اور لاجواب مطالبہ:
بہرحال اسی ملک کی طرف قرآن نے اعلان کیا ہے کہ:
وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ۔
اور اللہ کے سواء جو دوسرے معبود کو پکارتا ہے اس کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
توحید کے متعلق قرآن اس ٹھوس مطالبہ سے بھرا ہوا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اس مطالبہ کا کوئی جواب کسی نے اب تک دیا ہے اور نہ کبھی کوئی دے سکتا ہے، صرف خیر و شر کی تقسیم سے مغالطہ کھاکر قدیم ایرانی فلاسفروں کے ایک گروہ نے یزدان کے ساتھ اہرمن کے وجود کے اضافہ کو عقل کا تقاضا ٹہرانا چاہا ہے، اس مسئلہ پر ہم فلسفۂ غم کے تحت میں کافی بحث کریں گے، لیکن پارسیوں سے اتنا اس وقت بھی پوچھتے چلنا چاہئے کہ تمہاری مراد خیر و شر سے کیا ہے؟ اگر خیر سے نفع بخش اور شر سے ضرر رساں چیزیں مراد ہیں تو کیا اس قسم کے خیر کا وجود شر سے علاحدہ ہوکر پایا جاتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو شاید شر کے لئے علاحدہ خالق کی تلاش ممکن بھی تھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں جس آگ سے ہمارے گھر جلتے ہیں اسی سے کھانا بھی پکتا ہے، اور جس پانی سے اناج پیدا ہوتا ہے اسی سی طوفانی مصائب بھی ؤتے ہیں، اور علی ھٰذا القیاس جس آفتاب کے نور و حرارت سے روشنی ملتی ہے، توانائی پیدا ہوتی اور کھیتی پکتی ہے اسی کی حرارت سے کھیتیاں جھلس بھی جاتی ہیں۔الحاصل ایک ہی چیز کے صحیح استعمال سے نفع بھی ہوتا ہے اور استعمال کی غلطی سے وہی چیز چر بھی بن جاتی ہے۔
اضداد کی باہمی آویزش توحید پر گواہ ہے:
بہر حال جب خیر کا وجود شر سے علاحدہ ہوکر نہیں پایا جاتا ہے بلکہ استعمالی غلطی سے خیر ہی شر بن جاتا ہے تو ایک کے لئے دو خالق کی تلاش نہ صرف فضول بلکہ قطعاً غلط ہے، لہٰذا پارسیوں کے دو خداؤں میں سے بھی ایک اُسی طرح فالتو ہوجاتا ہے جس طرح آریوں کا مادہ اور روح، ہاں اگر بجائے خیر و شر کے یہ جائے (اور غالباً ایرانی فلاسفہ کی یہی مراد بھی ہوگی) کہ نظامِ عالم کی بنیاد متضاد قوتوں پر مبنی نظر آتی ہے، نیستی کے ساتھ ہستی اور حیات کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے، حرارت کے ساتھ برودت اور رطوبت کے ساتھ یبوست، علیٰ ھٰذا سکون کے ساتھ حرکت اور ضعف کے ساتھ قوت کے مظاہرے یہاں ہر آن اور ہر لمحہ دیکھے جاتے ہیں تو ان تماشوں کا کون انکار کرسکتا ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ مظاہرِ فطرت میں شاید ہی کوئی ایسی صورت ہوگی جس کی ضد یہاں موجود نہ ہو، لیکن کیا اس سے بچجائے ایک کے دو کی ضرورت ثابت ہوتی ہے؟ تم اضداد کو دیکھتے ہو لیکن ان اضداد کی باہمی آویزشوں اور پیچیدہ پیوستگیوں سے آنکھیں کیوں بند کرلیتے ہو؟ غور تو کرو! بیچاری عقل جو دو ضدوں کے باہمی اجتماع کو سوچ بھی نہیں سکتی، اسی کی پیٹھ پر کائنات کے ان غیر محدود و لا متناہی اضداد کی کثرتوں کے اجتماع کے بجھ کو کیسے لادا جاسکتا ہے جب تک کہ کسی شیزازۂ وحدت کے ساتھ انہیں جکڑا نہ جائے؟ قرآن نے
اسی حقیقت کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے:
وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ۔ (المؤمنون:۹۱)
اللہ کے سواء کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر الٰہ اپنی مخلوق کو (یا ہر الٰہ اپنے مظاہر و آثار کو) لے بھاگتا اور (بجائے آویزش و ترکیب کے) ایک دوسرے پر چڑھ جاتے۔
اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا تو ہستی کے جس نظام کی بنیاد انہیں اضداد پر قائم ہے کیا وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی قائم رہ سکتا تھا؟ رطوبت کے مظہر پانی کو یا حرارت کی مظہر آگ کو، الغرض اس قسم کے اضداد کے مظاہر میں سے کسی ایک چیز کو نکاللو! تو کیا پھر یہ دنیا یہی دنیا رہ سکتی ہے؟ قرآن میں وحی کا اگر یہ تجربہ پیش کیا ہے کہ:
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا۔ (الانبیاء:۲۲)
یعنی اگر آسمان و زمین میں خدا کے سواء کوئی اور معبود ہوتا تو یہ دونوں برباد ہوجاتے۔
خود غور کرنا چاہئے کہ پیغمبروں کے اس مشاہدہ کے سواء کیا عقل کچھ اور بھی سوچ سکتی ہے یا مان سکتی ہے؟ بلاشبہ ہم سے وہی منوایا گیا جس کے سواء ہم کچھ مان ہی نہیں سکتے اور وہی سمجھایا گیا جس کے سواء ہم کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ اضداد کے جس ایرانی فلسفہ کو پیغمبروں کے تجربۂ توحید میں شک انداز کے لئے پیش کیا گیا تھا، کیسی عجیب بات ہے کہ یہی فلسفہ الٹ کر شرک کے گلے کا پھندا بن گیا اور لے دے کر توحید کےدشمنوں کے ہاتھ میں یہی ایک حربہ تھا، آخر اضداد کا یہ مجموعہ جو باہم اتنی سختیوں کے ساتھ جکرا ہوا ہے، موحِّد اگر اُسے جکڑا ہوا مانتا ہے تو کیا بکھرا ہوا مانے؟ سچ کو جھوٹ نہیں بنایا جاسکتا اور بلاشبہ وحی اور نبوت کے تجربات اور مشاہدات کا انکار بغیر اس کے ہو نہیں سکتا،قرآن مجید نے سچ فرمایا ہے:
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ۔ (البقرۃ:۱۳۰)
یعنی ابراہیمؑ کی ملت دینِ اسلام اور دینِ فطرت سے وہی کترا سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو احمق و سفیہ بنالیا ہو۔
پارسیوں کو اپنی کتاب کا صحیح علم نہیں ہے، ورنہ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ ان کو اپنی کتابوں میں بھی ملتا، زنداوستا میں زرتشترا کی طرف یہ عبارت منسوب کی گئی ہے:’’نیک اندیشوں اور سچے خیال والوں کے نزدیک اہرمزدرا ربِّ دو جہاں ہے، جو لوگ بتوں کے خیال میں منہمک رہتے ہیں اور مشرک ہیں یا وہ جو شرارت یا بدنفسی میں مبتلا رہتے ہیں رذیل ہیں‘‘۔ (ژنداوستا، حصہ پاسا)
الحاصل حق سبحانہ تعالیٰ کا خود بخود موجود ہونا، ہمیشہ ہمیشہ سے ہونا، ایک ہونا، نبوت کے یہ ایسے روشن تجربات ہیں جن کے اقرار پر وہ بھی مجبور ہیں جو بے دیکھے بے جانے خدا کا بلاوجہ انکار کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے میں نے کہا تھا کہ ان حدود تک مذہب اور لامذہبیت میں کوئی اختلاف نہیں، پیغمبروں سے جو باغی ہیں ان کو بھی یہا ماننا پڑتا ہے اور ایمان لانے والوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔
مسئلۂ صفاتِ باری تعالیٰ:
یہی مسئلہ خدا پرستوں اور منکروں کے درمیان خطِ اختلاف ہے، بہر حال مادّہ اور خدا کے متعلق یہاں تک جتنے جھگڑے ہیں صرف لفظوں کی لڑائی ہے، البتہ اس کے بعد پیغمبرانہ تجربات نے حق تعالیٰ کے لامحدود کمالات اور صفاتِ اعلیٰ یا اسماءِ حسنیٰ کے متعلق جن واقعات کا مشاہدہ اور علم حاصل کیا ہے حقیقی اختلاف کی سرحد یہیں سے شروع ہوتی ہے اور در اصل پیغمبروں اور دہریوں کی بحت کا اصل خطِ جنگ یہی ہے، انبیاء علیہ السلام کا مشاہدہ ہے کہ جس خود بخود ہستی کی یہ عالم نمائش گاہ ہے وہ ان تمام کمالات سے موصوف ہے، جن کو ہم کائنات کے طویل و عریض سلسلہ میں مختلف نوعیتوں کے ساتھ مختلف پیمانوں پر مشاہدہ کر رہے ہیں، مثلاً یہاں زندگی، حیات، علم، بینائی، شنوائی، ارادہ، قدرت، اختیار، قوت اور اسی قسم کے جتنے کمالات اور فیوض ہیں جن کی غیر محدود موجیں مختلف صورتوں سے محسوسات کے مختلف مظاہر میں چاروں طرف سے اُبل رہی ہیں، پیغمبروں کا دعویٰ ہے کہ انہی کمالات کے ساتھ حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی شانِ اعلیٰ کے مطابق موصوف ہیں، لیکن مادہ پرست، منکرِ مذہب، اس کے برخلاف مدعی اور صرف مدعی ہے۔
کیونکہ بالتفصیل معلوم ہوچکا ہے کہ سرچشمۂ صفات تک عقل و حواس کے ذریعہ سے رسائی قطعاً ناممکن ہے، بہر حال مادہ پرستوں و منکرینِ خدا کا یہ گروہ بے دیکھے، بے جانے اور بے سمجھے اپنے اس وہم میں گرفتار ہے کہ وہ خود بخود ہستی جس پر نظامِ کائنات کی انتہاء ہوتی ہے ان کمالات سے مفلس و عاری ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنے آپ کو پیغمبروں سے جُدا کرنے کے لئے اس خود بخود ہستی کا نام بجائے خدا کے مادّہ رکھا لیا ہے، مادہ کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ خود بخود ہستی جس پر نظامِ عالم کی بنیاد قائم ہے اور ان تمام کمالات سے وہ معرّٰی ہے جو خدا کے لئے ثابت کئے جاتے ہیں، قرآن پاک کی جن دلیلوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اثباتِ خدا کے دلائل ہیں در اصل ان کا زیادہ تر تعلق صفات ہی کے اثبات سے ہے، میں چاہتا ہوں کہ قرآن روشنی میں نبوت کے اس مشاہدہ اور تجربہ کے متعلق یہ دکھاؤں کہ عقل و فطرت میں بھی ان دعوؤں میں سے کس دعوے کے ماننے کی گنجائش ہے اور کس کے انکار پر ہم مجبور ہیں۔
نابود کے نمود کا دعوئے غلط:
مسئلہ صفات کے متعلق مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمہ اللہ نے یہ عجیب و غریب سوال پیش کیا کہ: ؎ ’’نہ تھا تو ہوا کہاں سے؟‘‘
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم جن کمالات و اوصاف کو ہستی کے مختلف مظاہر میں محسوس کر رہے ہیں مثلاً ارادہ، اختیار، حیات، علم، بینائی، شنوائی اور قدرت وغیرہ کے متعلق مادہ پرستوں کا یہ وہم یعنی بغیر جانے ہوئے یہ ادعاء ہے کہ ابتداء میں ہستی ان کمالات سے بالکل مفلس تھی، اس میں نہ زندگی تھی نہ علم تھا، نہ ارادہ اور نہ شعور، غرض کچھ نہ تھا، پھر رفتہ رفتہ ارتقاء کے مختلف مدارج کو بخود طے کرتے ہوئے ان نابود اور معدوم صفات کا اس میں نمود اور بود شروع ہوا، جس کا حاصل یہی ہوا کہ ان لوگوں کے نزدیک جو نہ تھا وہ ہوا اور ہو رہا ہے، سوچنا چاہئے کہ وہی عقل جو نیست محض کے ہست ہونے کو سوچ نہیں سکتی تھی، جس کےنزدیک نیستی سےہستی کی پیدائش ایک ناقابلِ تصور خیال تھا، اُسی عقل اور اُسی فطرت میں کیا یہ عجیب و غریب دعویٰ سما سکتا ہے کہ جو نہ تھا اس کے ہونے کا یقین کرے، آخر جس میں زندگی نہ تھی اُس میں زندگی، جس میں علم نہ تھا اس میں علم، جس میں ارادہ نہ تھا اس سے ارادہ، جس میں اختیار نہ تھا اس سے اختیار، جس میں قدرت نہ تھی اس سے قدرت نکلنے کے کیا یہی معنیٰ ہوئے کہ جو نہ تھا وہ ہوا، جو نیستی تھی وہ ہستی بنی؟
پروفیسر اسٹارٹ ذہنی صفات کی نیرنگیوں کا اندازہ کرتے ہوئے اس بے ربطی کو جو مادہ اور ذہنی مظاہر میں ہے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ’’جہاں کہیں سے بھی ذہن شروع ہوتا ہوا سمجھا جائے وہ اس طرح ناگہانی طور پر نمودار ہوتا ہے، جس طرح طپنچہ سے گولی جو طپنچہ میں پہلے سے موجود نہ ہو، ذہن کا مادہ سے پیدا ہونا مادی دنیا میں فطرت کےسارے نظام کے منافی و مناقض ہے، یہ گویا عدم سے وجود کی تخلیق کے معجزہ کا قائل ہونا ہے۔ (مرتب۔ازکتاب: مائنڈ اینڈ مانیٹر:۱۱۰، ۱۱۹)
سچ یہ ہے کہ انسان جب تک اپنی موجودہ عقل اور فطرت کو برباد نہ کرے اس وہمی دعوے کے آگے سر جھکانے کے لئےکسی طرح آمادہ نہیں ہوسکتا، کسی نے کہا ہے کہ ’’لامذہبیت کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان میں لاعقلیت پیدا ہوجائے‘‘، اب آؤ اس کے مقابلہ میں ان تجربات اور مکاشفات کو سن جو دنیا کے ہر خطّہ اور ہر آبادی کے برگزیدہ اور راست باز انسان نے ان انسانوں نے پیش کئے ہیں جن پر فطرتِ انسانی نے سب سے زیادہ اعتماد کیا ہے، یعنی وحی اور نبوت والوں کا ارشاد سن،
ابھی اس سے بحث نہیں کہ زندگی کیا چیز ہے؟ علم کیا حقیقت کیا ہے؟ ارادہ کی کیا تعریف ہے؟ لیکن اتنا تو سب کو معلوم ہے کہ ہستی کے یہ وہ اوصاف ہیں جنہیں وجود کا کمال اور اس کی خوبی سمجھی جاتی ہے، جس سے بینائی جاتی رہتی ہے ہم اس اندھے کو ناقص کہتےہیں، یہی حال تمام کمالات کا ہے۔
بود ہی کی نمود ہے!
بہر حال پیغمبروں کا یہ دعویٰ ہے کہ انسان جن چیموں کو کمال سمجھتا ہے یا کمال سمجھ سکتا ہے، کائنات کا بنیادی وجود ان تمام کمالات سے ازلاً اور ہمیشہ سے موصوف ہے مطلب کیا ہے؟ یہی کہ ہمارے سامنے ’’نابود‘‘ کی ’’نمود‘‘ نہیں بلکہ ’’بود‘‘ ہی کی ’’نمود‘‘ اور ’’بود‘‘ ہو رہی ہے، جو نہ تھا وہ نہیں ہوا بلکہ جو تھا وہی ہوا وار وہی ہو رہا ہے، اب غور کرنا چاہئے کہ ’’جو تھا وہی اور وہی ہو رہا ہے‘‘ عقل کے لئے اس کا ماننا آسان ہے یا ’’جو نہ تھا وہ ہوا اور ہو رہا ہے‘‘ اس دشوار اور جھوٹی حقیقت کو فطرت اپنے اندر اُتار سکتی ہے؟ اس مسخرے نے سچ تھا کہ میں بھینس سے انڈا اور انڈے سے روغنِ گل اور روغنِ گل کے ساتھ کل دوائیں بھینس کے انڈے سے کس طرح نکالوں؟ مگر مادہ پرست اسی کے ماننے پر آدمی کو مجبور کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہی عقل کی بات ہے، سوچو! کیا اس سے بڑے درجہ کی بھی کوئی سفاہت اور دیوانگی ہوسکتی ہے؟
تمام صفات کا ظہور ذاتِ واحد سے ہے!
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ قرآن مجید کی پہلی سورۃ سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت ہے، جس میں بجائے ذات کے (جو متفقہ مسئلہ ہے) خدا کی صفات کے اثبات سے مذہب کے درس کی ابتداء کی گئی ہے، کیونکہ مذہبیت و لامذہبیت کے اختلاف کا پہلا اصولی نقطہ جیسا کہ معلوم ہوچکا یہی ہے۔ (اسی مقام سے اس راز کا انکشاف ہوسکتا ہے کہ قرآن نے اپنے درس کی ابتداء الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے کیوں کی؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا: ذات کی حد تک تو خدا کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے، دونوں ہی عالم کےاس نظام کو ایک خود بخود ہستی کا نظام ماننے والا اسی خود بخود ہستی اس نظام کو ختم کرتے ہیں، پس مانی ہوئی چیزیں منوانے کی حاجت ہی کیا تھی؟ اختلاف کا نقطہ تو صفات سے شروع ہوتا ہے، اسی لے قرآن نے اسی سے اپنی بحث کا آغاز کیا۔مرتب)
آیت کا حاصل یہ ہے کہ جس کسی کی جہاں کہیں بھی کوئی تعریف و ستائش کی جائے وہ اسی اللہ کے لئے ہے جو عالمین (یعنی تمام وہ چیزیں جو ہمارے علم کی گرفت میں آرہی ہیں) کی تربیت کرنے والا ہے، یعنی بتدریج کسی کمالِ الٰہی کا اُسے مظہر بنا رہا ہے، مثلاً ایک نطفہ میں بتدریج ان کمالات کی نمائش کرتا ہے جسے ہم انسانی کمالات کہتے ہیں، لوگ جب ابتداء میں قرآن کے اس دعوے کو سنتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے، کیونکہ اس دنیا کا ہر ذرہ کوئی نہ کوئی کمال رکھتا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے کمال کے مطابق سراہا جاتا ہے، تو پھر یہ کہنا کہ سارے کمالات اور ان کمالات کی ساری تعریفیں خدا ہی کے ساتھ مخصوص ہیں ایک عجیب سی بات ہے، لیکن بات سمجھی نہیں گئی یہی تو قرآن پوچھنا چاہتا ہے، کہ ہستی کے ہر ذرہ میں جن کمالات اور خوبیوں کی نمائش ہورہی ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ نہ تھے اور ہوگئے ہیں؟ کیا تمہاری عقل اس بات کو سوچ سکتی ہے کہ نیسی سےہستی بنی؟ پس جب ایسا نہیں ہے تو یق ین کرو کہ جہاں کہیں، جس کسی میں، جب کوئی ایسا کمال نظر آتا ہےجس کی تعریف کی جاتی ہے تو ان سب کا مرجع اور چشمہ وہی ازلی وجود ہے جو ان کمالا سے ازلاً و ابداً موصوف تھا اور ہے، اور جو ہمارے تمام محسوسات و معموملات (عاملین) کے آئینہ میں اپنے کمالات کو مختلف طریقوں سے چمکا رہا ہے اور وہ جو کائنات کے ہر ذرّہ کی ستائش و حمد کے گیت گاتے ہیں، لیکن اپنی بدعقلی سے جو ان کا بنیادی وجود اور حقیقی سرچشمہ ہے اس کا مادّہ نام رکھ کر ہر قسم کےکمالات سے اُسے بہ بہرہ سمجھتے ہیں یا سمجھنا چاہتے ہیں، صرف یہی نہیں کہ جو نہ تھا اس کے ہونے کا دعویٰ کرکے انسان کے اندرونی احساسات کو زیر و زبر کر رہے ہیں، بلکہ اگر غور کیا جائے تو فطرت پر ان کے جاہلانہ مظالم کا سلسلہ بہت وسیع نظر آئے گا۔
مثلاً:
اونٹ کے گذرنے کے لئے صرف یہ کہہ دینا کہ سوراخ موجود تھا اس لئے گذر گیا، کیا عقل کی تسلیم کے لئے اتنا کافی ہے؟ عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ سوئی کے ناکہ میں بھی چونکہ سوراْ موجود ہے اس لئے اونٹ کو اس سے گذر جانا چاہئے؟ اس کی تسلیم سے عقل کیوں سرتابی کرتی ہے؟ ظاہر ہے کہ سبب و مسبب اور اثر و مؤثر میں کوئی تناسب نہیں ہے، پھر سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گذرجانے پر اصرارِ عقل کے ساتھ اگر ظالمانہ چیرہ دستی ہے تو کیا یہی ظلم عقلِ انسانی پر وہ نہیں کر رہے ہیں جو ہر قسم کے کمالات سے مفلس مادّہ سے کائنات کے اس محیر العقول حیرتناک نظام کو نکالنا چاہتے ہیں؟ آسمان و زمین، ثوابت و سیارے، دریا، پہاڑ، حیوانات و انسان وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ یہ سب کہاں سے آئے؟ اب جو اس کے جواب میں مجبور و لاچار اور بے علم و بے جان مادّہ کا نام بغیر کسی مشاہدہ اور تجربہ کے لیتا ہے، بتاؤ اس نے اپنی عقل پر پتھر مارا یا جو اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر خدائے قادر و توانا کا نام جپتا، اس نے ہماری فہم کے فطری قوانین کے ساتھ انصاف کیا؟ قرآن اپنے مختلف صفاحات میں تناسب کے اس قانون پر غور کرنے کے لئے کہتاہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی اثر اور معلول کے لئے کسی مؤثر کسی علت کا صرف فرض کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ علت و معلوم اور اثر و مؤثر میں تناسب کا لحاظ بھی ضروری ہے، کسی مجذوب نے سچ کہا تھا کہ ’’تم انگور سے ہاتھی کب تک ٹپکاؤ گے‘‘۔
تخلیقی نظم خود وحدت پر گواہ ہے!
کیسی عجیب بات ہے کہ اس عالم میں دیکھتے ہیں کہ آنکھیں بن رہی ہیں، چند خاص پردوں کے ساتھ بن رہی ہیں، ہر پردہ خاص قوانین کے تحت بن رہا ہے، یہی آنکھیں حیوانات میں بھی بن رہی ہیں، انسانوں میں بھی بن رہی ہیں، امریکہ میں بن رہی ہیں، ایشیاء میں بھی بن رہی ہیں، ہر جگہ ہر پردہ اپنے اپنے قوانین کے تحت بن رہا ہے، الغرض جس چیز کو دیکھوگے اس میں ایک خاص قسم کی ترکیب، یکسانیت اور ہمواری نظرآئے گی، اور کیسی ترکیب، کیسی ہمواری؟ بقول بعض ’’فطرت کے قوانین کیا ہیں؟ ایک بلیغ نظم، ایک ایسا موزوں شعر کہ اگر اس کا ایک لفظ بھی اپنی جگہ سے نکال دیا جائے تو سارا نظمِ شعری بگڑ جاتا ہے‘‘، یہی حال اس علم کا ہے، کسی ایک چیز کو نکال کر دیکھو اور اندازہ کرو، بہر حال پوچھا جاتا ہے کہ یہ کس کی قدرت کے کرشمے ہیں؟ اب عقل کے ساتھ کیا یہ تمسخر نہیں ہے کہ اس کے جواب میں اس کا نام لیا جائے جس کو ہر قسم کی قدرت سے مفلس فرض کیا جاتا ہے۔
أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔ (ابراہیم:۱۰)
آفتاب نکلتا ہے یا زمین گھومتی ہے جو طریقۂ تعبیر بھی اختیار کیا جائے، بہر حال ٹھیک چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں یہ یومیہ دورہ حتم ہوجاتا ہے اور تین سو پینسٹھ (۳۶۵) دن اور کچھ منٹ وغیرہ میں یہ سالانہ گردش پوری ہوتی ہے، اور جس وقت تک کی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے معلوم ہے کہ اس وقت یہی ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہورہا ہے اور ایک آفتاب اور زمین ہی کیا، عالم کی ہر چیز چند ایسے اٹل قوانین کی گرفت میں جکری ہوئی ہے کہ آج انہی کے استحکام پر ہمارے تمام علوم و فنون کی بنیادہے، پوچھا جاتا ہے کہ ان دقیق، نازک، مضبوط و مستحکم اور ہمہ گیر قوانین کی بات کس کے ہاتھ میں ہے؟ قرآن پاک اس کے جواب میں کہتا ہے:
ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ۔(یٰسٓ:۳۸)
یہ سب اس کے ناپنے اور جانچنے کا نتیجہ ہے جو ہر چیز پر غالب اور علم والا ہے۔
تاؤ انسانی عقل کی تشنگی اس سے بجھتی ہے ؟یا اس جواب سے کہ کہا جائے:ذٰلک اتفاق المجبور الجاھل۔ یہ ایک لاچار اور علم و قدرت سے یکسر عاری مادّہ کے اتفاقی اثرات کا نتیجہ ہے۔
اور سچ یہ ہے کہ اس قسم کے مضحکہ انگیز حماقتوں کا صدور انہی لوگوں سے ہوسکتا ہے جنہوں نے فطرت اور اس کے نازک استوار قوانین پر کبھی غور ہی نہیں کیا یا جن کی زندگی صرف فسق و فجور، مسخرے پن اور اوباشی میں گذری ہو، ورنہ سچے سوچنے والوں نے ہمیشہ یہی کہا جسے پیغمبروں نے دیکھا، عہدِ جدید کا سب سے بڑا مفکر نیوٹن جس نے اپنے ایک معلوم کردہ قانون کے ذریعہ سے انسانی سمجھ کا رخ پھیردیا تھا، قانون جذب و کشش کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے:
’’کائنات کے اجزاء میں باوجود ہزاروں انقلاباتِ زمان و مکان کے جو ترتیب اور تناسب ہے وہ ممکن نہیں کہ بغیر کسی ایسی ذات کے پایا جاسکے جو سب سے اوّل صاحبِ علم و ارادہ و با اختیار ہو‘‘۔
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (الانعام:۴۵)
الحاصل نظامِ ہستی کا ایک خود بخود ہستی پر ختم ہونا، اس کا ہمیشہ ہمیشہ سے ہونا، ایک ہونا، اس کا ہر قسم کے اعلیٰ کمالات اور برتر و گرامی صفات سے موصوف ہونا ثابت ہوچکا ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ کے متعلق پیغمبروں کے یہ ایسے ذاتی تجربےاور مشاہدے ہیں کہ عقلِ انسانی اس کے سواء کسی اور چیز کو مان بھی نہیں سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ چند ماؤف العقل پیشہ ور فلسفیوں کے سواء فطرت بشری قریب قریب ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں ایمان کے اس جزء کے ساتھ متفق رہی ہے،پروفیسر میکسمولر نے دنیا کے قدیم آثار و شواہد کے مطالعہ اور جستجو کے بعد اسی بنیاد پر اپنے اس تاریخی فیصلہ کا اعلان کیا ہے کہ:
’’ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے خدا کو اس وقت جانا جس وقت وہ اس کا شائد نام بھی نہیں رکھ سکتے تھے‘‘۔
خدا سے متعلق ایک اور سوال!
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اصلی بحث اسی نقطہ پر ختم ہوجاتی ہے، لیکن وسواسی انسان اسی پر بس کرنا نہیں چاہتا، وہ خدا کے متعلق کچھ اور سوالات بھی رکھتا ہے۔ دنیا کے عام مذاہب نے غالباً غیر ضروری سمجھ کر ان سوالات کو نہیں چھیڑا یا چھیڑا بھی تو اس کے مختلف پہلوؤں کو اتنا روشن نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مختلف زمانوں میں بجائے وحی و نبوت کے عقل و حواس ہی کی اس روشنی میں ان سوالات کو حل کرنا چاہا جو ہمیشہ ’’عالمِ غیب‘‘ میں جاکر گل ہوجاتی ہے، نظیروں اور مثالوں کی غلط رہنمائی نے مختلف غلطیوں کے خندقوں میں لوگوں کو گرادیا، مگر قرآن مجید جو غیبی حقائق کی تشریح کی آخری روشنی ہے، اس نے وضاحت کے ساتھ ان سوالات کو اُٹھایا اور وہ جوابات دئے ہیں جنہیں فطرت و عقل بے چینی کے ساتھ ڈھونڈھتی تھی، اس سلسلہ میں جو کچھ کہا جائے گا ممکن ہے کہ ڈھونڈھنے سے دوسرا مذاہب کی الہامی یاد داشتوں میں بھی اس کے تعلق
کچھ تسلی مِل سکے، لیکن جہاں تک میری جستجو کا تعلق ہے قرآن کریم کا بیان اس باب میں جتنا روشن ہے یقیناً یہ روشنی کسی دوسری جگہ میسر نہیں آسکتی۔ پہلا سوال یہی ہے، مطلب یہ کہ وجود کے سرچشمہ سے ہر لحظہ اور ہر لمحہ جو گوناگوں موجیں علویات و سفلیا، جمادات و نباتات اور حیوانات و انسان وغیرہ کی شکل میں پیدا ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی آخر ان کی پیدائش کی نوعیت کیا ہے؟ اسی سوال کی اجمالی تعبیر یہ ہے ؎ خدا نے عالم کو کس طری پیدا کیا؟ تقریباً یہ سوال ہر اس دل میں پیدا ہوتا ہے جو اس عالم کی انتہاء خدائے قدوس پر ختم کرتا ہے، بلاشبہ یہ ایک فطری سوال تھا، لیکن اسی کے ساتھ کیا یہ بھی غیر فطری راہ نہیں تھی کہ بجائے وحی و نبوت کے اس سوال کا جواب عقل و حواس سے طلب کیا جائے، انسان نے ظلم کیا کہ اپنے محدود معلومات و مشاہدات کو سامنے رکھ کر اس کا جواب دینا، اس کے بعد غلط جوابوں کا جو طلسم قائم ہوا وہ عجیب و غریب تھا، اور یہی وہ طلسم ہے جس کی تعبیر مذہبی دنیا میں ’’مسئلۂ وحدۃ الوجود‘‘ سے کی جاتی ہے۔
(تعبیروں کی غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک قابلِ احترام سنجیدہ گروہ میں وحدۃ الوجود کا لفظ قریب قریب ہوّے کی شکل اختیار کرچکا ہے، ابن خلدون جیسے متبحر انصاف پسند عالم نے اپنے مشہور علمی مقدمہ میں ’’وحدۃ الوجود‘‘ کی تشریح میں جو الفاظ نقل کئے ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ کائنات کی ان گوناگونیوں کو صوفیہ صرف نظر کا دھوکہ اور انسانی احساس کا ایک غیر واقعی تاثر قرار دیتے ہیں، اس نے لکھا ہے کہ دنیا سے اگر انسان اور اس کے احساسات غائب ہوجائیں تو وحدۃ الوجود والوں کے نزدیک عالم کا یہ نظام بھی باقی نہ رہے گا، لکھا ہے کہ خواب میں خواب دیکھنے والوں کے نزدیک یہی حال بیداری کا بھی ہے، اس کے الفاظ ہیں ’’یعتبروں ذٰلک بحال المنام فاذا انام و فقد الحسو و فقد کل محسوس‘‘ جب گھر والوں کی بدگمانیوں کا یہ حال ہو تو غیروں کا کیا گلہ کیجئے؟ آئندہ معلوم ہوگا کہ غلط فہمیوں کے سوا یہ اور کچھ نہیں۔ مرتب)
ربطِ خالق و خلق یا مسئلۂ وحدۃ الوجود:
وحدۃ الوجود کے ایک تو سیدھے سادے معنی ہیں کہ نظام ہستی کی بنیاد دو وجودوں مثلاً یزداں و اہرمن، یا خدا اور مادّہ پر نہیں؛ بلکہ صرف ایک خدا پر قائم ہے، سب چیزیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں، ظاہر ہے کہ وحدۃ الوجود کا اگر یہی مطلب ہے تو خدا کے ماننے والوں میں ایسا کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہے؟ (بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وحدۃ الوجود کے یہ وہ معنیٰ ہیں جس کے اقرار پر وہ بھی مجبور ہوئے ہیں جنہوں نے عالم کا سرچشمہ بجائے خدائے تعالیٰ حیّ و قیوم کے مادّہ کو ٹھہرایا ہے، آخر مادّہ پرستوں کا خیال اس کے سواء اور کیا ہے کہ عالم میں جو کچھ ہے صرف ایک ہی ہستی اور ایک ہی وجود یعنی مادّہ ہی کی یہ نیرنگیاں ہیں، بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی بدیہی مسئلہ الٰہیات کا ہوسکتا ہے جس کے ماننے پر مادّہ پرستوں کے دل و دماغ بھی مجبور ہیں۔مرتب) لیکن واقعہ یہ نہیں ہے، لوگ جواب کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس جواب سے وہ کس سوال کو حل کرنا چاہتے ہیں، پس جیسا کہ میں نے عرض کیا مسئلہ وحدۃ الوجود اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ ’’عالم ایک وجود سے پیدا ہوا ہے یا دو سے؟‘‘ بلکہ یہ مسئلہ در اصل اسی سوال کا جواب ہے جسے میں نے عنوان میں درج کیا ہے کہ یعنی ’’خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟‘‘ قبل اس کے کہ اس بات میں قرآنی تشریح کو پیش کروں اُن غلط تاویلوں کا پیش کرنا مناسب ہے جن کی وجہ سے عموماً اس مسئلہ کی جانب سے لوگوں میں غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے، سوال کے متعلق تو معلوم ہوچکا، وہ صرف اس قدر ہے کہ خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟ ظاہر ہے کہ انسان اور انسان کے علمی ذرائع، عقل و حواس نہ اس وقت موجود تھے جس وقت کائنات کی بنیاد پڑی اور نہ اس وقت عالم کے اس سرچشمہ تک ان کی رسائی ہے جہاں سے نت نئی ہستیاں مختلف صفات و کمالات کو لے لے کر برآمد ہو رہی ہیں، اب جو صرف عقل و حواس کے ذریعہ اس سوال کو حل کرنا چاہے گا تو اس کے لئے بجز اس کے اور کیا چارۂ کار ہے کہ اپنی محدود معلومات کو سامنے رکھ کر کچھ مثالوں اور تشبیہات سے اس کا جواب دے اور یہی کیا بھی گیا، مختلف نظیروں کو سامنے رکھ کر مختلف لوگوں نے جوابات دئے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
بعض غلط تشریحات اور تشبیہات:
بعضوں نے کہا کہ (معاذ اللہ) خدا کی مثال ایک انڈے کی سی تھی اور جس طرح انڈا پھٹ کر مرغی بن جاتا ہے اسی طرح خدا بھی پھٹ کر عالم بن گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کے فلسفۂ ویدانت کی تعبیر ہے، وید کی ایک مشہور عبارت سے اس کی تائید پیش کی جاتی ہے، ’’یُجروید‘‘ میں لکھا ہے: ’’اس پرماتما کی نابھی (ناف) سے درمیانی عالم ’سر سے بالائی عالم‘ پاؤں سے زمین اور کانوں سے سمت بن گئے، اسی طرح وہ سب لوگوں کو پیدا کرتا ہے‘‘۔ (یجروید، اُدھیائے نمبر:۲۱)
یہ اور اسی قسم کی اور بھی تشبیہیں ہیں جو عوام الناس میں مشہور ہیں، مثلاً خدا اور عالم کی باہمی نسبت کو کبھی دریاء اور موج اور کبھی عنکبوت اور اس کے رات اور کبھی سیاہی اور حروف وغیرہ سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جن سے بظاہر یہ خیال گذرتا ہے کہ ان تشبیہات والے فلسفۂ ویدانت کی اتباع میں گویا اس کے قائل ہوگئے ہیں کہ خدا یا اس کا کوئی حصہ عالم بن گیا ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ مکڑی جس طرح باہر سے نہیں بلکہ اندر سے رطوبت خارج کرتی ہے اور اسی سے اپنے ارد گرد جالا تنتی ہے، یونہی (معاذ اللہ) خدا نے بھی اپنے اندر سے بعض اجزاء خارج کئے ہیں، انہی سے عالم بنایا ہے، سیاہی اور حروف والے کہتے ہیں کہ مختلف حروف مثلاً الف، ب، ت ہے، اگر یہ اپنی اپنی صورتوں اور خصوصیتوں کے لحاظ سے باہم مختلف ہیں، لیکن سیاہی سب ہی میں مشترک ہے، یونہی جمادات و نباتات، حیوانات و انسان ویرہ گو اپنی اپنی صورتوں اور خصوصیتوں کے لحاظ سے مختلف ہیں، لیکن خدا یا وجود ان سب میں مشترک ہے، بعض یوں بھی کہتے ہیں کہ اعداد کے مراتب اگرچہ مختلف ہیں لیکن اکائی سب میں مشترک ہے، یہی حال خدا کا ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں خدا اور عالم کے صحیح تعلق کو واضح نہیں کریں، مگر مکڑی والی تشبیہ میں لازم آتا ہے کہ خدا کو مختلف اجزائے مرکب سے مانا جائے، دریا اور موجو والی مثال بھی اسی لئے سمجھ میں نہیں آتی کہ دریا طول و عرض اور عمق رکھتا ہے، اسی لئے تقسیم کو قبول کرتا ہے اور اسی لئے اس کے جزو میں ایک موج بنتی ہے وہ اس جزو سے مختلف ہوتا ہے جس پر دوسری موج کی ہیئت قائم ہوتی ہے، علیٰ ھٰذا القیاس سیاہی کو حروف میں مشترک قرار دینا بھی مغالطہ ہے، سیاہی کے مختلف اجزاء اور قطرات سے مختلف حروف بنتے ہیں، اسی لئے جس قطرہ سے مثلاً الف بنتا ہے وہ اس قطرہ سے مختلف ہوتا ہے جس سے ب اور ت وغیرہ حروف لکھے جاتے ہیں، یونہی اعداد اکائیوں کے مجموعہ کا نام ضرور ہے لیکن دو میں اگر دو اکائی ہوتی ہیں تو تین میں تین، پھر کیا عالم میں بھی ہر ہستی کے ساتھ خدا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے؟ در اصل یہ ناقص تشبیہات ہیں جن سے لوگ مغالطہ میں مبتلا ہوگئے۔مرتب) حالانکہ عیاذًا باللہ اگر ایسا واقعہ ہے تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ خدائے کامل و قادر حیّ و قیّوم آخر کیا ہوا کہ وہ خود بیٹھے بٹھائے بغیر کسی مجبوری کے ناقص مجبور اور معذور بن گیا، دُکھ، درد، گندگی و ناپاکی اور ہر قسم کے عیوب میں لتھڑ گیا، جو کامل تھا ناقص ہوگیا، جو زندہ تھا مردہ بن گیا، پاک تھا ناپاک ہوگیا؟ کیونکہ عالم اور اس کے اجزاء کا تقریباً یہی حال ہے۔
معاذ اللہ خدا غائب!
بلکہ اگر زیادہ غور کیا جائے تو گویا اس صورت میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ جب تک عالم نہ تھا اس وقت تک تو خدا موجود تھا؛ لیکن جب عالم پیدا ہوگیا تو خدا عائب ہوگیا، آخر مرغی یا درخت کے پیدا ہونے کے بعد کیا انڈا یا تخم باقی رہتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس مذہب کا خدا ہی معدوم ہوگیا وہ مذہب مذہب اور دھرم کہلانے کا مستحق کس طرح ہوسکتا ہے؟ نہ معلوم ایسے مذاہب میں کسی کی پوجا کی جاتی ہے اور کس کے احکام و قوانین کی پابندی کو فرض ٹھہرایا جاتا ہے۔
خدا کے ایک امر انتزاعی یعنی صرف مخلوق ذہنی ہونے کا نظریہ:
اسی سلسلہ میں بعض کا بیان ہے کہ خدا ایک وجودِ کلی ہے اور عالم اس کی جزئیات اور تفصیلات کا نام ہے، اس کو یوں سمجھا جاتا ہے مثلاً انسان ایک کلّی یا حقیقت مطلقہ ہے، جس طرح اس کا تحقیق یعنی پایا جانا زید و عمر وغیرہ کی شکل میں ہوتا ہے، اسی طرح خدا بھی عالم کے مختلف افراد کی شکل میں رونما ہوتا ہے،لیکن اگر غور کیا جائے تو اس تشبیہ کے لحاظ سے خدا کوئی واقعی ہستی باقی نہیں رہتا بلکہ جس طرح مختلف افراد مثلاً زید و عمر کے اشتراکی اوصاف کو پیش نظر رکھ کر ایک مفہوم مشترک ان سب سے پیدا کرلیا جاتا ہے، جس کا وجود بجز ذہن کے اور کہیں نہیں ہوتا، گویا خدا بھی اسی طرح ہمارے دہن کا ایک خود تراشیدہ مفہوم ہے، ظاہر ہے کہ اس بنیاد پر خالق نہیں بلکہ ہمارے ذہن کی ایک خود تراشیدہ مخلوق بن جاتا ہے۔
معمار و کمہار وغیرہ کی تمثیل یا آریائی نظریہ اور اس کی لغویت:
اس سوال کے حل کی ایک راہ وہ ہے جو گذشتہ مثالوں میں دکھائی گئی، اس کے مقابلہ میں ایک دوسری جماعت ہے جو اسی مسئلہ کا جواب اس مثال سے دینا چاہتی ہے کہ جس طرح صانع مصنوعات بناتا ہے، مثلاً معمار مکان یا کمہار برتن بناتا ہے، گویا اسی طرح خدا نے عالم کو بنایا ہے، عوام کے ذہن میں عالم اور خدا کی باہمی نسبت کے متعلق کچھ اسی قسم کا خیال ہے، اس پر کھلا ہوا سوال ہوتا ہے کہ صانع مصنوع کو بغیر مادّہ کے پیدا نہیں کرسکتا، کمہار بغیر مٹی کے اور نجّار بغیر لکڑی کے کیا اپنی صنعتی قوت کا اظہار کرسکتا ہے؟ اور جب خدا اسی طرح کا صانع ہے تو اس نے بغیر مادّہ کے کسی طرح عالم کو بنایا؟ ہندو فلاسفروں کی ایک جماعت نے اسی بنیاد پر یہ مان لیا کہ ابتداء میں صرف خدا نہ تھا بلکہ خدا کی طرح مادّہ بھی خود بخود موجود تھا، اسی مادّہ سے خدا نے عالم کو پیدا کیا، آریہ کے نام سے اس زمانہ میں ہندوؤں میں جو ایک نیا فرقہ پیدا ہوا ہے اس نے قدیم ہندی فلسفہ کے اسی مکتب خیال کو اپنا مذہبی عقیدہ قرار دیا ہے۔ لیکن یہ خیال اتنا مہمل ہے کہ فلسفہ اور مذہب کی کسی جماعت میں بھی اس خیال نے اعتماد پیدا نہیں کیا، فلسفہ والے تو یہ کہتے ہیں کہ جب ابتداء میں مادّہ کو مان لیا گیا تو اب عالم کی پیدائش کے لئے خدا کا وجود فالتو ہوجاتا، اسی لئے یورپ کے مادّیّین صرف اس کے قائل ہوگئے اور مذاہب چونکہ توحید کے حامی ہیں سا لئےان کے لئے مشکل ہے کہ مادّہ کو خدا کی مخلوقیت سے نکالیں، کیونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب مادّہ ہی خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے تو مادہ کی مختلف صورتیں جس کا نام عالم ہے اس کو خدائی مخلوق کہنے کے کیا معنیٰ ہوسکتے ہیں؟ پھر قطع نظر اس کے اگر عالم اور خدا میں نسبت مان لی جائے جو صانع اور مصنوع میں ہے تو ایک مشاہدہ ہے کہ صانع یعنی معمار کے مرجانے بعد مصنوع یعنی مکان معدوم نہیں ہوتا، یعنی مصنوعات کے موجود اور پیدا ہوجانے کے بعد صانع کا وجود بے ضرورتہوجاتا ہے، پس اس نظریہ کی بنیاد پر کہ عالم کو خدا نے اس طرح پیدا کیا جیسے معمار مکان بناتا ہے، یہ لازم آتا ہے کہ پیدائش عالم کے لئے ممکن ہے کہ ابتداء میں دنیا کو خدا کی ضرورت ہو لیکن اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، حالانکہ تمام مذاہب عالم کو بہر نوع خدا کا محتاج ہر حال اور زمانہ میں قرار دیتے ہیں۔
جوابی تمثیلات سے گمراہی آئی!
وہی سوال کہ خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟ اس کے وہ جوابات تو تم سن چکے جو غیر اسلامی دائروں سے دئے گئے، اب آؤ اور دیکھو کہ قرآن اس کا کیا جواب دیتا ہے؟ قبل اس کے کہ قرآنی تصریحات کو پیش کروں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسئلہ کے اندر پیچیدگی کیوں پیدا ہوگئی؟ بات یہ ہے کہ انسان میں جہاں اور بہت سی فطری خصوصیات ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بغیر نظیر اور مثال کے کسی چیز کے ماننے میں اُسے سخت دشواری پیش آتی ہے، یوں ماننے کے لئے کہا جائے تو جبراً قہراً آدمی سب ہی کچھ مان سکتا ہے اور مان لیتا ہے، لیکن اطمینان و تشفّی کے لئے وہ نمونہ اور مثال و نظیر کا بالکلی محتاج ہے، اسی مسئلہ میں دیکھئے، واقعہ تو یہی ہے کہ مسلمان ہو یا ہندو، عیسائی ہو یا یہودی الغرض کسی مذہب کا آدمی ہو نہ تو کوئی پیدائشِ عالم کے بعد خدا کو معدوم سمجھتا ہے اور نہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ گندگیوں، نجاستوں اور عیوب و نقائص میں مبتلا ہوگیا ہے، حتی کہ آریوں کے سواء کوئی سچا ہندو بھی یہ نہیں مانتا ہے کہ مادۂ عالم کا خالق خدا نہیں ہے؛ بلکہ سب کے سب کائنات کی تمام کثرتوں کو ایک ہستئ واحد پر ختم کرتے ہیں، دنیا کے تمام مذاہب کا اس پر اتفاق ہے، لیکن اس کے باوجود جب آفرینش عالم کی کیفیت کے متعلق سوال اُٹھا تو انہوں نے غلط مثالوں اور نظیروں کے ذریعہ اس کو حال کرنا چاہا، جن سے ان پر ایسے الزامات قائم ہوگئے جن کے خود وہ قائم نہیں ہیں، ابھی ’’یجروید‘‘ کی عبارت گذری جس میں بظاہر خدا کو تخم فرض کرکے عالم کے درخت کو اس سے اُگایا گیا ہے، اس کے بعد لازم آتا تھا کہ پیدائشِ عالم کے بعد خدا غائب ہوگیا، لیکن یجروید کے اسی فقرہ کے آخر میں ’’اسی طرح وہ سب کو پیدا کرتا رہتا ہے‘‘ کا اضافہ کرکے ظاہر کردیا گیا کہ خدا عالم کو پیدا کرنے کے بعد بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح اس سے پہلے تھا۔
قرآن مجید کا خاص طریقۂ تفہیم:
لیکن قرآن نے اس قسم کے مسائل میں رہنمائی بخشنے کے لئے ایک کلیّہ ہمارے لئے پیش کردیا ہے، مشہور صوفی شاعر مغربیؔ نے اس کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے: ؎
چو نیست چشمِ دولت تا جمالاو بینی
نگرِ خوبصورت خود تا مثال او بینی
ان کا اشارہ قرآن کی اس حقیقت کی طرف ہے کہ ’’خدا نے انسان کو اپنا خلیفہ اور نمائندہ قرار دیا ہے‘‘، میرے نزدیک حدیث شریف میں اسی کی یہ تفسیر کی گئی ہے کہ خلق اللہ آدم علی صورتہ۔ (پیدا کیا اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر‘‘ واضح رہے کہ یہاں صورت سے مراد وہی ہے جو میں نے متن میں عرض کیا ہے کہ انسان اس عالم میں خدا کے افعال و صفات کا ایک نمونہ ہے نہ کہ معاذ اللہ جسمانی اور مادّی صورت کہ وہ اس سے وراء الوراء ہے، نیز حدیثوں کے سواء یہ فقرہ بائبل میں بھی پایا جاتا ہے۔ مرتب)
مطلب یہ ہے کہ خدا کے افعال و صفات کی مثال اگر مل سکتی ہے تو باہر نہیں بلکہ آدمی کے اندر کچ مل سکتی ہے، مرزا بیدلؔ نے سچ کہا ہے: ؎
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیرِ سرو و سمن در آ
تو زغنچہ کم ندمیدۂ در دلکشا بچمن در آ
خارجی مثالوں کے بجائے اپنے ذہنی تخلیقی کرشمہ میں غور و فکر کرو!
یہ اہم سوال کہ خدا نے عالم کو کس طری پیدا کیا؟ اس کے جواب کے لئے بھی بجائے بیرونی مثالوں اور خارجی نظیروں کے یہ مناسب ہوگا کہ ہم اپنے ’’تخلیقی افعال و اعمال‘‘ پر غور کریں، عام مسلمانوں نے ایک حد تک یہی کیا بھی ہے، لیکن انہوں نے خلق (پیدا کرنا) اور صنعت (بنانا) میں فرق نہیں کیا، خدا کس طرح خلق کرتا یا پیدا کرتا ہے؟ اس سوال کو انہوں نے اس مثال سے حل کرنا چاہا کہ انسان کس طرح بناتا ہے؟ اور گو خود اس کے قائل نہیں ہیں کہ عالم اور خدا میں وہ نسبت ہے جومعمار اور مکان میں ہے، (ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے اور اس کو رکھنا چاہئے کہ جس طرح عالم اپنی پیدائش میں خدا کا محتاج ہے، اسی طرح اپنی بقاء میں بھی ہر وقت ہر لحظہ وہ خدا کا دست نگر ہے) لیکن انہوں نے مثال دی ہے اس سے لازم آجاتا ہے کہ عالم صرف اپنے بننے میں خدا کا محتاج ہو، بننے کے بعد اب اُسے خدا کی اسی طرح ضرورت نہ رہی جس طرح مکان کو معمار کی نہیں رہتی ہے۔
پس اصل یہ ہے کہ اگر کوئی اس سوال کو حل کرنا چاہتا ہے تو اس پر غور کرنا چاہئے کہ انسان اپنی ’’مخلوقات‘‘ کو کس طرح پیدا کرتا ہے؟ شائد لوگوں کو تعجب ہو کہ کیا انسان بھی کوئی چیز پیدا کرتا ہے یا کرسکتا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا ان دروس کے ابتداء میں میں نے ہی آپ کو بتایا تھا کہ انسان صرف جان سکتا ہے، کسی چیز کے پیدا کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے، مگر سچ یہ ہے کہ انسان کے تمام اندرونی اور بیرونی افعال پر ابھی غور نہیں کیا گیا، یہ درست ہے کہ باہر کی چیزوں کے حساب سے انسان اُن پر صرف صنعتی عمل ہی کرسکتا ہے، قوانین فطرت کو جان کر ان کی صلاحیتوں کو کھول سکتا ہے، مثلاً وہ پتھر پیدا تو نہیں کرسکتا لیکن پتھر میں مورت یا صورت بننے کی وجہ صلاحیت ہے اُسے پتھر اور لوہے کے قوانین جاننے کے بعد ظاہر کرسکتا ہے۔
یہ تو باہر کا حال ہے (اور اسی لحاظ سے میں نے پہلے وہ بات کہی تھی) مگر اب اس کے اندرونی افعال پر غور کرو، انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اس وقت سوچو کہ وہ کیا کرتا ہے؟ دیکھو! نہ اینٹ ہوتی ہے نہ چونا نہ پتھر ہوتے ہیں اور نہ اور کچھ لیکن آدمی چاہتا ہے کہ مثلاً چار مینار (یہ حیدرآباد کی ایک مشہور تاریخی عمارت کا نام ہے، اس کی تاریخیت ہی کا یہ اثر ہے کہ سلطنتِ آصفیہ کے طلائی و نقروی سکّوں پر اسی عمارت کی تصویر طبع ہوتی ہے، طلبۂ جامعہ عثمانیہ قدرۃً اس عمارت سے مانوس ہیں، اسی لئے درس میں تفہیم کے لئے اسی عمارت کا انتخاب کیا گیا، عام ناظرین بجائے چارمینار کے کسی اور عمارت یا چیز کو فرض کرسکتے ہیں، لا مشاحۃ فی الامثال) کو (ذہن کی دنیا میں) پیدا کروں، ارادہ کرتا ہے اور چارمینار کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے اور اسی طرح اپنے علم میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ہر قسم کی چیزوں کو وہ پیدا کرتا ہے۔
احمقوں کا ایک گروہ ہے جو خیال کرتا ہے کہ دیکھنے کے بعد مثلاً چار کا عکس ہمارے دماغ میں چَھپ جاتا ہے اور جب ہم التفات کرتے ہیں تو وہی عکس ہمارے سامنے آجاتا ہے، لیکن کاش وہ سوچتا کہ اگر چارمینار کا عکس ہمارے دماغ میں اُترتا ہے تو انسانی بھیجے کی تشریح و تحلیل سے یہ عکس اس سے کیوں برآمد نہیں ہوتا؟ اگر واقعی دماغ میں تصویروں کے چھپنے کا سلسلہ جاری ہے تو ایک کھوپڑی کے توڑنے کے بعد یہ چاہئے کہ تصویروں کا ایک انبار ہمارے دماغوں سے اُبل پڑے، حالانکہ یہ مشاہدہ کے خلاف ہے اور یہی نہیں، انطباع کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ ایک پلیٹ یا ایک چیز پر جب کسی چیز کی تصویر چَھپ چکتی ہے تو پھر اسی پلیٹ پر اگر دوسری تصویر چھپے گی تو دونوں تصویروں کے باہمی اختلاط سے دونوں ہی کی اصل حقیقت بگڑ جائےگی، حالانکہ عالمِ خیال (یا علمی عالم) میں ہر ایک چیز دوسری سے ممتاز اور اپنی اصلی حالت میں محسوس کی جاتی ہے، یہ عجیب لوگ ہیں، اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ ہم قوتِ تخیل سے جب چارمینار کو اپنے ذہن میں پیدا کرلیتے ہیں، تو وہ اپنی وسعت کے لحاظ سے سینکروں گز لمبی چوڑی عمارت ہوتی ہے، پھر کیا چند انچ کے دماغ میں اتنی لمبی چوڑی وسعی و کشادہ عمارت سما سکتی ہے۔
پس واقعہ یہ ہے کہ چیزوں کے چھپنے اور انطباع کا قانون قطعاً ایک بازاری اور عامیانہ خیال ہے، بلکہ صحیح بات وہی ہے جیسا کہ فلاسفۂ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہوجاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شئے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے اور یہی انسان کا ’’تخلیقی عمل‘‘ ہے، تفہیم کے لئے ہم اپنی اصطلاح میں اس تخلیقی قوت کا نام ’’کُن فیکونی قوت‘‘ رکھتے ہیں، ولامشاحۃ فی الاصطلاح۔
(شیخ اکبر اپنی کتاب فصوص الحکم میں فرماتے ہیں ’’بالوھم یخلق کل انسان فی قوۃ خیالہ ما لا وجود لہ الا فیھا و ھذا ھو الامر المغام‘‘ فتوحات مکینہ اسفار اربعہ میں وغیرہ میں اس مسئلہ کی تفصیلات پڑھئے۔)
قرآن کا بیان ہے کہ اس کن فیکونی قوت سے خدا بھی اپنی مخلوقات کو پیدا کرتا ہے، ارشاد ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔ (یٰسٓ:۸۲)
اس کا کام یہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق ارادہ کیا تو اس سے کہتا ہے ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خیالی اور علمی یا ’’کن فیکونی مخلوقات‘‘ سے جس قسم کے تعلقات انسان کے ہوتے ہیں، قرآنِ پاک نے ان روابط کو خدا اور عالم کے درمیان ثابت کیا ہے، میں ان تعلقات اور نسبتوں میں سے بعض کو یہاں درج کرتا ہے۔(۱) پہلا تعلق قرآن کا دعویٰ ہے کہ حق تعالیٰ نے عالم کو بغیر مادّہ کے پیدا کیا ہے، جیسا کہ بدیع السمٰوات و الارض کے قرآنی الفاظ کا اقتضاء یہ ہے، اسی کی تفسیر حدیث میں ہے کہ کان اللہ و لم یکن معہ شئی جس کی معنیٰ یہی ہیں کہ آسمان و زمین کچھ نہ تھے اور پھر پیدا ہوگئے۔
حاصل یہ ہے کہ ابتداء میں خدا کے سواء کچھ نہ تھا، یعنی مادہ وغیرہ کچھ نہیں تھا اور پھر خدا نے قوۃ کن سے اس عالم کو پیدا کیا، ٹھیک جس طرح ہمارے خیال (یا علم) میں کچھ نہیں ہوتا ہے، پھر محض اپنے ارادۂ کن سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطا کرتے ہیں، پس اگر خدا نے بھی ایسا ہی کیا تو اس کے سواء اور کیا کہا جاسکتا ہے؟
(۲) اسی طرح قرآن کا بیان ہے:
وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ۔ (النحل:۷۷)
یعنی موجودہ نظام عالم کی بربادی کے لئے (یا قیامِ قیامت کے لئے) پلک جھپکانے بلکہ اس سے بھی کم زمانہ کی ضرورت ہے۔
ہم بھی جب اپنے خیالی اور علمی مخلوق مثلاً اسی چارمینار کو جسے خیال میں پیدا کرتے ہیں اگر برباد کرنا چاہیں تو اس کے لئے لمح بصر (پلک چھپکانے) سے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں، صرف توجہ کا ہٹالینا کافی ہے، توجہ ہٹالینے کے ساتھ ہی ہمارے خیالی مخلوقات معدوم ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی مادّہ چھوڑنے کے بعد معدوم ہوجاتے ہیں۔(۳) ہماری خیالی اور علمی مخلوق مثلاً چارمینار جس طرح پیدا ہونے میں ہمارے ارادہ اور توجہ کی محتاج ہے، ٹھیک اسی طرح ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقاء میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی دست نگر ہے، یہی قرآن کا بھی بیان ہے کہ خدائے تعالیٰ عالم کا صرف خالق ہی نہیں ہے بلکہ قیّوم بھی ہے، یعنی وہی اُسے تھامے ہوئے ہے (یعنی عالم اسی سے قائم ہے)۔ اگر ادنیٰ التفات اس کی طرف سے ہٹالے تو نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے گا، جیسا کہ ارشاد ہے:
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ۔ (البقرۃ:۲۵۵)
اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے(یعنی وہ مردہ مادّہ نہیں ہے)۔
قیّوم ہے، (یعنی عالم کو تھامے ہوئے ہے، ایسا خالق نہیں ہے کہ معمار مکان کا یا صانع مصنوع کا، بلکہ وہ خالقِ قیوم ہے) اُسے نہ غنودگی پکڑتی ہے اور نہ نیند چھوتی ہے، (کیونکہ اگر ایسا ہو تو نظامِ عالم قائم نہیں رہ سکتا)۔ خیال میں کسی مخلوق کو پیدا کرکے اگر کوئی انگھ جائے یا سوجائے تو اس کی یہ پیدا کی ہوئی مخلوق کیا باقی رہ سکتی ہے؟(۴) اب اس پر غور کیجئے کہ مثلاً زید اپنی ’’کن فیکونی قوت‘‘ سے عالمِ خیال میں جس وقت چارمینار پیدا کرتا ہے کیا زید چارمینار ہوجاتا ہے، چارمینار زید بن جاتا ہے؟ ہم بالبداہۃ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، (آخر خود غور رکنا چاہئے کہ اپنے ذہن میں جو کوئی مثلاً گدھے کا تصور کرتا ہے کیا اس وقت وہ گدھا بن جاتا ہے یا گدھا وہ ہوجاتا ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، پس خالق قیوم کے متعلق بھی یہ باور کرنا کہ قیومی نسبت کی وجہ سے وہی عالم ہے اور عالم وہی ہے اپنی ہی حماقت ہے، تعالیٰ اللہ عن ذٰلک علواً کبیراً۔) لیکن اسی کے ساتھ اس کو چوئے کہ اس خیالی اور علمی چارمینار کا وجود زید کے وجود اور ارادہ سے کیا جدا ہے؟ اس کے ہونے کے معنیٰ بجز اس کے اور کیا ہیں کہ اس کا ارادہ اور اس کی توجہ اس کی طرف ہے، یہ نہ ہو تو چارمینار کی نہ دیواریں ہوں، نہ محراب اور نہ مینار ….. تو اسی طرح سمجھئے کہ نہ عالم خدا بن گیا ہے نہ خدا عالم بن گیا ہے، لیکن عالم کا وجود بجز اللہ کے وجود و ارادہ کے کچھ نہیں ہے۔
(۵) اس پر بھی غور کیجئے کہ آپ جس وقت اپنی خیالی مخلوق کو ذہن میں پیدا کرتے ہیں، کیا اپنے آپ کو اس خیالی مخلوق کے کسی فوقانی، تحتانی اور ظاہری و باطنی حصہ سے غائب پاتے ہیں؟ غور کیجئے کہ آپ جس طرح اپنے کو اس کی دیواروں کی جڑ کے پاس پاتے ہیں، اسی طرح اس کے میناروں پر بھی یقیناً پائیں گےآپ کو جو نسبت اس کے ظاہر سے ہے اس کے باطن سے بھی وہی نسبت آپ کو ہوگی، قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ خالقِ قیوم، عالم کے اوّل میں بھی ہے اور آخر میں بھی، ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، ارشاد ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۔ (الحدید:۳)
کہیں فرمایا جاتا ہے کہ خدا عرش پر ہے، کہیں ارشاد وہتا ہے کہ وہ انسان کی رگِ گردن کے پاس بھی ہے، خود ہی غور کیجئے ایک خالق اور اس کی مخلوق میں اس کے سواء اور نسبت ہی کیا ہوسکتی ہے؟ آخر آپ بھی تو اپنے آپ کو اپنے خیالی چارمینار کے کنگروں پر بھی پاتے ہیں اور اس کی دیوار کی جڑوں کے پاس بھی، پھر اگر اس عالم کا خالق اگر عرش پر بھی ہو اور آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو تو اس کے سواء اور عقل سوچ ہی کیا سکتی ہے۔
(۶) اب دیکھئے چارمینار ایک طویل و عریض عمارت ہے، آپ اپنے ذہن میں جس وقت اُسے پیدا کرتے ہیں اس کے طول و عرض کے ساتھ پیدا کرتے ہیں، اس لمبائی اور چوڑائی کے باوجود آپ اپنے کو کیا اس کے ذرّہ ذرّہ پر محیط نہیں پاتے، لیکن کیا اگر اس ذہنی چارمینار کو آپ دو حصّوں میں تقسیم کردیں گے تو اس کی تقسیم کی وجہ سے آپ کے بھی دو حصّے ہوجاتے ہیں؟ قرآن بھی یہی کہتا ہے:
أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ۔ (فصلت:۵۴)
اللہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ لیکن اس احاطہ کی وجہ سے خدا کی ذات میں کوئی تقسیم اور تجزّی ہرگز نہیں ہوتی۔
(۷) اسی طرح آپ اپنی ذہنی و علمی چارمینار کے کسی مینار کو توڑ دیجئے یا اس کے کسی حصہ میں کوئی گندگی اور نجاست وغیرہ مثلاً فرض کیجئے، پھر کیا اس شکست و ریخت اور اس گندگی و نجاست کا اثر آپ پر بھی مرتب ہوتا ہے؟ یقیناً نہیں!پھر اگر قرآن خدا کو عالم کی ہر چیز کے ساتھ ہر جگہ مانتا ہے، لیکن باوجود اس کے عالم کے کسی تغیّر، کسی عیب و نقص کا اثر خدا کی ذات پر نہیں پڑتا تو کیا ’’کُن فیکونی‘‘ مخلوقات کے ساتھ خالق کے تعلقات کی یہی نوعیت نہیں ہوتی؟
(۸) آپ جس وقت اپنے ذہن میں کسی پہاڑ یا کسی شہر کو پیدا کرتے ہیں، کیا اُس ذہنی خیالی یا علمی مخلوق میں کسی دوسرے کے ارادہ سے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے، غور کیجئے اس کا ہر ذرّہ آپ ہی کی مرضی اور آپ ہی کے ارادہ کا پابند ہے، دوسرے کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ۔ (یونس:۱۰۷)
اگر چھوئے اللہ تمہیں کسی ضرر کے ساتھ پھر اسے کوئی کھولنے والا نہیں، لیکن وہی اور وہ اگر ارادہ کرے تمہارے ساتھ بھلائی کا کوئی اس کی مہربانی کا پلٹانے والا نہیں۔
یعنی اس عالم کے کسی حصہ میں کوئی واقعہ بھی ہو بغیر ارادہ و اِذنِ حق کے نہیں ہوسکتا اور کسی دوسرے کا تصور یا ارادہ یا فعل اس میں قطعاً مؤثر نہیں ہوسکتا، تو کیا عقل اس کے سواء کچھ اور بھی سوچ سکتی ہے؟(۹) آپ جب خیالی چارمینار کو پیدا کرتے ہیں تو جہاں آپ ہوتے ہیں کیا چارمینار بھی وہیں نہیں ہوتا، جب ایسا ہے تو خدا نے جب عالم کو پیدا کیا اور خدا کا اس کا خالق اور وہ اس کا مخلوق ہے تو اُس کے بعد یہ سوال کتنا بے معنیٰ ہوجاتا ہے کہ عالم کہاں ہے اور خدا کہاں ہے؟
یہ سچ ہے کہ ایک ہی نوعیت یا ایک ہی ظرف کے دو وجود یعنی دو مخلوق یا اگر دو خالق فرض کئے جاسکتے ہوں تو ایسے دو ہم ظرف و ہم مثل وجودوں کی ایک ہی فضاء یا ایک ہی مکان میں گنجائش ناقابلِ تصوّر ہے، لیکن دو ہستیوں میں ایک خالق اور دوسری مخلوق ہو تو ایسی حالت میں مخلوق کے پائے جانے کے لئے خالق کا علم و ارادہ اور اس کی توجہ ہی کافی ہوتی ہے، جب قرآن میں فرمایا گیا کہ: وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تو لوگوں کو تعجب ہوا کہ جہاں ہم ہوتے ہیں وہیں خدا کسی طرح ہوسکتا ہے؟ لیکن لوگ اپنے مخلوقات کے متعلق نہیں سوچتے کہ جہاں وہ ہوتے ہیں وہاں ان کے مخلوقات اُن سے باہر ہوتے ہیں، اسی کے ساتھ اگر آدمی اپنے ذہنی مخلوقات کے متعلق غور کرے تو کیا اپنے آپ کو ان کے نیچے یا اوپر کسی اور سمت میں پاتا ہے؟ یقینا خالق و مخلوق میں کوئی ایسی سمتی نسبت نہیں پیدا ہوتی پھر کیا ہوا اگر قرآن میں اعلان کیا گیا کہ: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ۔ یعنی ’’جدھر تم رخ کروگے وہیں خدا ہے‘‘ سوچنا چاہئے کہ آخر اس کے سواء اور کیا کہا جاتا؟ (عموماً موجودات کی تقسیم یوں کی جاتی ہے کہ ان کا وجود انسانی ارادہ اور خیال کا اگر تابع ہے، مثلاً ذہنی اور خیالی مخلوقات کا جو حال ہے انہی کا نام موجودات ذہنیہ رکھا جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے کہ ان کے وجود کا ظرف انسان کا ذہن ہے لیکن انسانی ارادہ اور خیال تابع اگر ان کا وجود نہ ہو، بلکہ حق تعالیٰ کے تخلیقی ارادہ اور ایجادی قیّومیت کے ساتھ ان کا وجود وابستہ ہو تو انہی کو خارجی موجودات کے نام سے موسوم کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کے تحقق اور یافت کا مقام و ظرف خارجی ہے، یعنی انسانی ذہن و خیال سے ان کا وجود خارج ہے، ان ذہنی اور خارجی موجودات کے سواء ایک وجود حق تعالیٰ کا ہے جو ظاہر ہے کہ خود بخود ہے اور حق تعالیٰ کے تخلیقی ارادہ کا تابع نہیں ہے، لیکن عام اربابِ فکر اس تیسری قسم سے غافل ہوکر وجود کو صرف دو ہی قسموں خارجی و ذہنی میں منحصر سمجھتے ہیں، اسی لئے خالق اور مخلوق کے وجود میں نوعیت اور ظرف و مقام کے لحاظ سے ان کو کوئی فرق نظر نہیں آتا، گویا دو مخلوق وجودوں میں جو تعلق ہوتا ہے سمجھتے ہیں کہ یہی تعلق خالق و مخلوق کے وجود میں بھی ہے، یہی بے تمیزی لغزش اور مغالطہ کا مقام ہے۔مرتب)
الحاصل:
خدا نے عالم کو کس طرح پیدا کیا؟ وہ عالم کو کس طرح محیط ہے؟ وہ ہر چیز کے ساتھ کس طرح ہے؟ عالم کے ہر ذرّہ کی حرکت و سکون حق کے ارادہ کے ساتھ کس طرح وابستہ ہے؟ وہ اپنی مخلوقات کے ظاہر و باطن میں کس طرح پایا جاتا ہے؟ ان سارے سوالات کا حل بجائے باہر کے اگر آدمی سوچے تو خود اپنی اندر پاسکتا ہے، اور یہ مطلب ہے اس فقرہ کا کہ ’’عالم کا وجود بجز وجودِ حق کے اور کچھ نہیں‘‘، صحیح حدیث میں الا کل شیئ ماخلا اللہ باطل (ہاں! ہر چیز اللہ کے سواء ہیچ ہے) کے مصرعہ کی توثیق فرمائی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود نہ خدا عالم بنا ہے اور نہ عالم خدا بن گیا ہے، اور آپ نے دیکھا کہ خالق و مخلوق کی باہمی نسبتوں پر غور کرنے کے بعد فطرتِ انسانی اس اسلامی اور قرآنی بیان کے سواء کسی اور راہ سے کیا تسلّی پاسکتی ہے؟ اسی مسئلہ کو ’’مسئلۂ قومیت‘‘ کہتے ہیں، عارف جب اثر و مؤثر اور خالق و مخلوق میں ان نسبتوں کا مشاہدہ کرتا ہے تو چیخ اٹھتا ہے: ؎
ندیم و مطرب و ساقی ہمہ اوست
خیالِ آب و گل در رہ بہانہ (العارف الشیرازی)
یعنی آب و گل خدا کا خیالی یا تخلیقی عمل ہے، مغربی نے اور واضح لفظوں میں تشریح کی ہے، ان کی اسی غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے جس کے مطلع کا ذکر پہلے آچکا ہے، فرماتے ہیں: ؎
خیال بازئ او بیں کہ پردۂ او خیال
فگندہ بر رُخ خود تا خیال او بینی
ربوبیت:
ایسا خالق قیوم اگر اپنی مخلوقات کو دفعۃً نہیں بلکہ آہستہ آہستہ پیدا کرتا ہو، مثلاً دفعۃً درخت کو نہ پیدا کرے بلکہ تجریدی طور پر مثلاً تخم سے درخت بنائے اور درختوں میں پھل لگائے تو اب وہ علاوہ قیوم کے رب بھی ہے، ایسی صورت میں مخلوقات صرف باقی رہنے ہی میں خالق کی محتاج نہیں رہتی ہیں؛ بلکہ اپنے کمال تک پہنچنے میں بھی ہر آن و ہر لحظہ مسلسل ارادۂ کن اور فیض تخلیقی کی انہیں ضرورت ہوتی ہے اور اسی تدریجی تخلیق کی وجہ سے اُس شئے کا تخیل یا توہم ہوتا ہے، جسے ہم ’’زمانہ‘‘ کہتے ہیں جس کے متعلق فلسفیوں کو اب تک نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کیا ہے اور کس حاسّہ کے معلومات سے اس کا تعلق ہے؟ مسئلۂ ربوبیت پر غور کرنے کے اس کا سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ (زبان کا مسئلہ فلسفہ کے مہمات شمار کیا جاتا ہے، قدیم و جدید دونوں فلسفوں میں زمانہ اور ٹائم کا مسئلہ (جذرِ اصم) بنا ہوا ہے، ارسطو کا مشہور قول ہے کہ زمانہ کا شمار ان چیزوں میں ہے جو بدیہی الانیۃ اور غریق فی النظریۃ ہیں، سب ہی جمعہ جمعرات، دن رات، صبح شام اور ماہ و سال کو جانتے ہیں لیکن جس چیز کی تعبیر ان الفاظ سے کی جاتی ہے، اس کا علم آدمی کو کس حاسّہ سے ہو رہا ہے؟ عجب سوال ہے، ظاہر ہے کہ جمعہ کو نہ آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے نہ کانوں سے سنا جاتا ہے، نہ ناک سے سونگھا جاتا ہے اور نہ ہاتھ سے چُھوا جاتا ہے، مگر باوجود اس کے سب جانتے ہیں کہ جمعہ کو ہم جان رہے ہیں۔)
راست قیّومی تخلیق معجزہ اور بواسطۂ ربوبیت کو ’’قانونِ فطرت‘‘ کہتے ہیں:
اور یہی قیّومی تخلیق جب ربوبیت کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے، تو اس کا نام ’’قانونِ فطرت‘‘ رکھ دیا جاتا ہے، پھر چونکہ اس عالم میں عموماً تخلیق کا عام طریقۂ قانون ربوبیت کے زیر اثر انجام پارہا ہے، اس لئے صرف ’’قیومی تخلیق‘‘ کے سمجھنے سے لوگ گھبراتے ہیں، مثلاً اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ لکڑی کیمیائی عمل کے بعد مٹی ہوگئی اور مٹی گیہوں اور گیہوں روٹی، پھر روٹی مرغی کا بچہ بن کر سانپ کی غذاء بنی اور اس میں سانپ کا نطفہ بن کر بالآخر وہی لکڑی سانپ کی صورت میں لہرانے لگی، تو عوام الناس کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی، لیکن اسی سلسلہ کو ربوبیت کی تدریجی منزلوں سے ہٹا کر اگر یوں کہہ دیا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ہاتھ کی لکڑی سانپ بن گئی تو بازاریوں کھلبلی مچ جاتی ہے اور ’’ناممکن‘‘، ’’ہو نہیں سکتا‘‘ کا شور افلاک تک پہنچ جاتا ہے، حالانکہ ان دونوں شکلوں میں بجز ربوبیت اور قیومیت کے اور کوئی فرق نہیں؛ بلکہ انسان اپنی تخلیقی کارناموں پر اگر غور کرے تو اُسے نطر آئے گا کہ قیومی تخلیق ربوبی تخلیق سے بدرجہا آسان اور سہل ہے، قیومی تخلیق خالق کی صرف معمولی توجہ اور التفات کی دست نگر ہے، بخلاف ربوبی تخلیق کے کہ اس میں کامل توجہ مسلسل اور غیر منقطع التفاتِ تام کی حاجت ہے، حیرت ہے کہ ربوبی تخلیق پر ہم جس ذات کو بدرجۂ اتم قادر اور مقتدر دیکھ رہے ہیں جب اُسی کی طرف کبھی کبھی قیومی تخلیق کی نسبت کی جاتی ہے تو نافہم اس کو ناممکن سمجھتے ہیں، بہر حال یہ ایک ذیلی بات تھی لیکن ضروری تھی اس لئے ضمناً یہاں اس ذکر کردیا گیا۔
چند اور ذیلی سوالات کے جوابات:
پہلا سوال:
(۱) ہمارے ذہنی مخلوقات کا وجود تو فقط ذہنی ہوتا ہے، ان کا اثر نہ ہمارے حواس پر پڑتا ہے اور نہ دوسرے اس کو محسوس کرسکتے ہیں، برخلاف خدائی مخلوقات کے کہ ان کا مشاہدہ ہر شخص کر رہا ہے؟
جواب:
مگر ظاہر ہے کہ ہماری تخلیقی قوت اتنی زوردار نہیں ہوسکتی یا نہیں ہے، جتنی خالق عالم کی ہے، اسی لئے اگر ہمارے ذہنی مخلوقات بیرونی وجود نہ حاصل کرسکیں تو یہ ہماری تخلیقی قوت کے ضعف کا نتیجہ ہے، اور یہ ضعف اس سے بھی ظاہر ہے کہ ہم عام طور پر کسی خیالی مخلوق پر چند سیکنڈ سے زیادہ اپنی توجہ کو قائم نہیں رکھ سکتے، لیکن وہ جو دیر تک کسی ایک نقطہ پر توجہ کو مرتکز کرنے کی مشق بہم پہنچالیتے ہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ بتدریج ان کے ذہنی مخلوقات بھی خارجی وجود کا بھیس بدلنے لگتے ہیں، حتی کہ دوسروں کو بھی اس کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے، مثلاً عموماً مسمریزم کی جو لوگ مشق کرتے ہیں وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے خیالی تصورات کا عکس دوسروں کے حواس پر بھی ڈال دیتے ہیں اور جو ان سے بھی قوی تر ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے لئے نہیں بلکہ اس سے زیادہ مستقل ٹھوس اور نمایاں قسم کے کام انجام دینے لگتے ہیں۔
شیخ اکبر فصوص الحکم میں لکھتے ہیں:
العارف یخلق بہمتہ مایکون لہ وجود من خارج محل الہمۃ و لکن لا تزال الہمۃ تحفظ و لایؤٗدہٗ حفظہ ای حفظ خلقتہ و متی لھو علی المعارف غفلۃ عن حفظ ما خلق عدم ذٰلک المخلوق۔
یعنی عارف اپنی ہمت سے ایسی چیز بنادیتاہے جس کا وجود خارج میں ہوتا ہے، یعنی خارجی آثار اس پر مرتب ہوتے ہیں،پھر عارف کی ہمت اور ارادہ اس مخلوق کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور اس نگرانی سے تھکتا نہیں، مگر عارف کو اگر اس کی جانب سےغفلت ہوجائے تو اس کی وہ مخلوق معدوم ہوجائے گی۔)اس سلسلہ میں اس بیماری کا ذکر اس مسئلہ کے سمجھنے میں آسانی پیدا کرسکتا ہے جسے اطباء کا بوس کہتے ہیں، اور عموماً عنفوانِ شباب میں بعض آدمی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس بیماری میں اضطراری طور پر انسان کی تخلیقی قوت اور اس کیتوجہ ایک نقطہ پر نیند میں ٹھہر جاتی ہے، جس کے بعد آدمی بے چین ہوکر بیدار ہوجاتا ہے، لیکن توجہ میں پھر بھی انتشار نہیں پیدا ہوتا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی خیالی مخلوق جسے سونے والے کے ’’کن فیکونی ارادہ‘‘ نے نیند میں پیداکیا تھا اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے، اگرچہ دوسرے لوگ جو اس بیمار کے پاس ہوں وہ کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں دیکھتے لیکن خود یہ بیمار نہایت صفائی کے ساتھ اپنی اس ’’خیالی مخلوق‘‘ کے رنگ اور مقدار کو دیکھتا ہے، وزن کو محسوسکرتا ہے اور چلّا اٹھتا ہے کہ کوئی بھوت پریت اس کے سامنے ہے؛ حالانکہ وہ خود اس کی خیالی مخلوق ہے، اس قسم کے لوگوں کو بعض دفعہ ویرانوں اور جنگلوں میں بحالتِ بیداری بھی اسی طرح کا دورہ پڑجاتا ہے اور یہ اپنے پیدا کئے ہوئے اس بھوت سے خود ہی بھاگتے ہیں۔
دوسرا سوال:اس سلسلہ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے خدا کو عالم کا علم کس طرح ہوا؟ حتی کہ کن فیکونی قوت سے اس کی تخلیق پر وہ قادر ہوا؟ کیونکہ جو چیز موجود نہ ہو اس کے معلوم ہونے کی کوئی نظیر ہماری سامنے نہیں ہے؟
جواب:
ظاہر ہے کہ اس سوال کی بنیاد حق تعالیٰ کے علمِ ازلی کے انکار پر مبنی ہے جس میں قادرِ ذو الجلال کو کمزور انسان پر قیاس کیا گیا ہے، گویا جس طرح انسان کسی چیز کو اس کے موجود ہونے سے پیشتر نہیں جان سکتا، سمجھا گیا ہے کہ یہی حال خدا کا بھی ہے، حالانکہ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ چیونٹی جس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتی اس پر قیاس کرکے ہاتھی کے لئے بھی اس بوجھ کا اٹھانا ناممکن بتلایا جائے، نیز یہ کلیہ بھی صحیح نہیں کہ کسی چیز کا معلوم ہونا اس کے موجود ہونے پر موقوف ہے، ہم بہت سی ایسی چیزیں سوچتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں جن کو کبھی نہیں دیکھا، مثلاً جزو کو دیکھ کر کل کے متعلق سوچتے ہیں، موجودہ عالم کو معدوم فرض کرسکتے ہیں، حالانکہ عالم کو جب ہم نے دیکھا موجود ہی دیکھا، پس ج سطرح ہم موجود کو معدوم خیال کرسکتے ہیں کیا ہوا اگر خدا نے معدوم بھی معدوم عالم کو موجود فرض کرلیا۔ اور تو یہ اجمالی جواب تھا، مسئلہ کی صحیح تحقیق کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہئے کہ جس چیز کو ہم عالم یا کائنات کہتے ہیں خود اس کی حقیقت کیا ہے؟ سنا ہوگا کہ قدیم سطحی فلسفیوں نے تمام چیزوں کی آخری حقیقت خاک و باد، آب و آتش قرار دی تھی، پھر اس خیال میں ترمیم ہوئی اور اَسّی (۸۰) یا تراسّی (۸۳) کیمیائی بسائط کا نظریہ قائم کیا گیا اور اب کہا جاتا ہے کہ تمام کائنات کی آخری تحلیل برق پاروں پر ختم ہوتی ہے، اور بعضووں نے تو اب اس کا بھی اعلان کیا ہے کہ یہاں جو کچھ ہے صرف انرجی اور توانائی کی مختلف شکلیں ہیں …… بہر حال حقیقتِ عالم کے متعلق یہاں تک سائنس والوں کی پرواز ہے۔ نیز آپ کو یاد ہوگا کہ ابتدائے درس میں میں نے فلسفیوں کے اس گروہ کا ذکر کیا تھا جو سارے عالم کو چند گنے گنائے اوصاف پر ختم کردیتے ہیں، ان کی نارنگی میں زردی، ترشی، طول و عرض وغیرہ چند صفات کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا، وہ شجر و حجر، ثوابت و سیارات اور شمس و قمر سب کو صرف رنگ و روشنی کے مختلف مظاہر سمجھتے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ان دو صفتوں یعنی رنگ و روشنی کو عالم سے سلب کرلو تو پھر آنکھ کے لئے یہاں کچھ بھی نہیں رہتا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ رنگ بھی بالآخر روشنی ہی کے چند بھیسوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ الغرض کثرت کی ان گوناگوں اور لامحدود موجوں کو جن کا دوسرا نام کائنات یا عالم ہے وحدت کے سمندر میں گُم ہوتے ہوئے وہ بھی پاتے ہیں جنہوں نے واقعتاً اب تک کچھ نہیں پایا ہے، لیکن جس شخص کی پہلی یافت الحمد للہ رب العالمین کی ہو اور جو اس حقیقت کو سمجھ چکا ہو کہ اس عالم میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اصلاً نہ تھی بلکہ یہاں ساری ’’نمود‘‘ ’’بود‘‘ ہی کی ہے اور اس عالم میں جہاں کہیں جو کمال اور جو صفت ج سشکل میں بھی نظر آتی ہے وہ اس کا ذاتی کمال یا صفت نہیں بلکہ سب رب العالمین کے شئون، صفات و کمالات اور حسنات کی مختلف شانیں ہیں جو مختلف مدارج کے لحاظ سے مختلف پیمانوں پر نمایاں ہورہی ہیں، پس جس نے اس حقیقت کو پالیا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ عالم کی پیدائش کے لئے عالم کے جاننے کی ضرورت نہیں بلکہ حق تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات کا جاننا اور ان کا علم بس یہی کافی ہے کہ یہی کمالات و شئون اور صفات در اصل عالم کی حقیقتیں ہیں۔ الغرض ظاہر ہے کہ ازل میں خدا تھا اور خدا کے ساتھ اس کے لامحدود کمالات و صفات تھے، وہ ان تمام چیزوں أذات و صفات) کا عالم تھا، پس اس نے اپنی جن صفات کو جس پیمانے پر جن دوسرے صفات کے ساتھ جس ترتیب کے ساتھ تصور کیا (اسماء و صفات کی باہمی ترکیبوں سے لاتعداد و لا تحصٰی جو صورتیں علم الٰہی میں پیدا ہوئیں انہی کا نام اعیانِ ثابتہ اور اسمائے کونیہ وغیرہ ہے، کن فیکونی قوت کے زیرِ اثر آنے سے پہلے اجمال و تفصیل کے حساب سے علمِ الٰہی کی ان صورتوں کے جومراتب فرض کئے جاسکتے ہیں انہی کی تعبیرِ علمی تصوف میں احدیت، وحدیت اور واحدیت وغریہ اصطلاحی الفاظ سے کی جاتی ہے، لیکن ان اصطلاحات سے واعات کے سلجھانے میں بظاہر کوئی مدد نہیں ملتی، اس لئے میں نے ان غیر ضروری تفصیلات کا ذکر بھی غیر ضروری خیال کیا) اور جب اور جس وقت چاہا اس تصور کو کن فیکونی قوت سے خلق و آفرینش کا رنگ دے کر ظاہر فرمایا تو اس کے لئے خدا کا خود اپنی ذات و صفات کا علم یقیناً کافی ہے، گویا بقول عراقیؒ باہر سے نہیں بلکہ پیدائشِ عالم کے لئے: ؎
نخستیں بادہ کا ندر جام کردند
ز چشمِ مست ساقی وام کردند
یعنی خود ساقی کی چشمِ مست سے وام و قرض لیا گیا۔
قرآن نے اسی مسئلہ کی طرف اپنی مشہور آیت اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ میں اشارہ کیا ہے، نیز مشہور حدیث ہے:
كنتُ كنزاً مخفياً فأحببتُ أنْ أعرفَ فخلقتُ الخلقَ لأعرفَ ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ جانا جاؤں، تو پیدا کیا میں مخلوقات کو، ضرور میں پہچانا گیا۔
مطلب یہ ہے کہ اسماءِ حسنیٰ جس قدوس و سبوح کے ساتھ مخصوص ہیں اور جس کے کمالات یا کلمات کے لکھنے کے لے نہ سمندر کا پانی اور نہ دنیا کے درخت کافی ہوسکتے ہیں اور جس کے متعلق خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہوا: لا احصی ثناً لک انت کما اثنیت علی نفسک۔ یعنی تیری خوبیوں کو میں تو گن نہیں سکتا، بس تو ایسا ہے جیسا کہ تو نے خود اپنے متعلق فرمایا ہے۔پس اسی حیّ و قیّوم نے اپنے غیر محدود اسماء اور بے شمار صفات کو جب اپنا غیر فرض کیا تو اسی کا نام عالم ہوگیا، اگر چہ حق تعالیٰ مثل سے پاک ہے لیکن صرف سمجھنے سمجھانے کے لئے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح کبھی کبھی شاعر اپنی بینائی کو نرگس میں، گویائی کو سوسن میں، شنوائی کو غنچہ میں، حسرت و درد کو لالہ میں، اپنے استقلال کو ساحل میں اور بے چینی کو دریا میں فرض کرتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ کبھی کبھی تنہائی میں خود اپنی ذات کو اپنا غیر اعتبار کے گھنٹوں اس سے سوال و جواب بھی کیا کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ اپنی ذات و صفات کے متعلق اس عمل کرنے سے ہماری ذات یا صفت میں کوئی عیب یا نقص نہیں پیدا ہوجاتا، مثلاً اگر ہم کسی میں اپنی صفت بینائی فرض کریں تو اس فرض کی وجہ سے میری بینائی میں تو کوئی کمی پیدا نہیں ہوجاتی، پھر اگر غیر محدود اسماء و شیون، صفات و کمالات والے نے مختلف مدارج کے لحاظ سے ان کو اپنا غیر فرض کیا تو اس سے ذاتِ حق کی طرف کیا نقص عائد ہوتا ہے؟ کیا اس میں کوئی کمی پیدا ہوتی ہے؟ البتہ اتنافرق ضرور ہے کہ ہماری ارادہ قوت اور کن فیکونی طاقت چونکہ کمزور ہوتی ہے اس لئے ہمارے مفروضات صرف مفروضات بن کر رہ جاتے ہیں اور ان سے واقعی آثار کا ظہور نہیں ہوتا، مثلاً ہم آگ کو اپنے ذہن میں پیدا کرلیتے ہیں لیکن اس سے سوزش اور روشنی کے آثار ظاہر نہیں ہوتے، برخلاف حق تعالیٰ کے کہ اپنی جس صفت جس کمال کے جس درجہ کو جس جگہ جس مقدار میں فرض فرماتے ہیں، اسی حد تک ان کا یہ فرض خلق اور آفرینش بن جاتا ہے، مثلاً جس میں اپنی صفتِ حیات جس مقدار میں فرض کرتے ہیں وہ اسی حد تک زندہ ہوجاتی ہے اور جس میں علم فرض کرتے ہیں اس میں علم پیدا ہوجاتا ہے، ….. الیٰ غیر ذٰلک، بہر حال ان کے مفروضات مخلوقات بن جاتے ہیں اور ان سے واقعی آثار کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ الحاصل ’’عالم کو خدا نے کس طرح پیدا کیا؟‘‘ اس کا جواب تو مسئلہ قیّومیت تھا۔
تیسرا سوال:
خدا نے عالم کو کس چیز سے پیدا کیا؟
جواب:
اب ایک اور دوسرا مستقل سوال ہے کہ خدا نے عالم کو کس چیز سے پیدا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کثرت کی بنیاد ان غیر متناہی اسماءِ حسنیٰ اور بے شمار کلمات پر قائم ہے جو ہر لحظہ و ہر آن کل یومٍ ھو فی شأن کے سرچشمۂ جلال سی اُبل رہے ہیں، بقول جامیؔ ؎
زاں سایہ کہ افگندی بر خاک گہ جلوہ
دارند ہمہ خوباں سرمایۂ زیبائی
اسی کی طرف مغربی نے بھی اشارہ کیا ہے ؎
ز دریا موج گوناگوں بر آمد
ز بے چونی برنگ چوں بر آمد
گہے در کسوتِ لیلی فرو شد
گہے در صورتِ مجنون بر آمد
رہ گئی یہ بات کہ عالمِ کثرت کی کونسی چیز حق تعالیٰ کی کس صفت اور کس اسم کی آئینہ بردار ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا بتانا آسان نہیں ہے، کامل طور پر اس کا علم اسی کو ہوسکتا ہے جو اسماءِ حسنیٰ میں سے ہر اسم کے ہر درجہ کا علم رکھتا ہو اور اسی طرح عالم کی بھی ہر چیز کی آخری حقیقت کی معرفت بھی اُسے حاصل ہوئی ہو ………. میں بتا چکا ہوں کہ علم و معرفت کا یہ وہ مقام ہے کہ جہاں انسانیت کی آخری رسائی (یعنی ذاتِ اقدس رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی ما عرفناک حقَّ معرفتک کا اقرار کیا ہے۔ ؎ ’’تا بہ دیگراں چہ رسد‘‘ ایک عامی انسان کی لذت پذیری کے لئے معرفت کی یہ اجمالی روشنی بھی ؎
دیدہ آئینہ دارِ طلعتِ اوست
دل سرا پردۂ محبت اوست
کا حال پیدا کرنے کے لئے کافی ہے، تفصیلی طور پر سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن حواس ظاہر یا باطنی سب پر ’’ہر جا کہ نظر کردم سیمائے قومی بینم‘‘ کی خنگ اور شیریں موجیں ٹکراتی رہتی ہیں۔ (حقیقت تو یہ ہے کہ جب تحلیل و تجزیہ کے بعد عالم کی تعمیر کا آخری سرمایہ صرف صفات و اسمائے حق ٹھہر تے ہیں، پھر انہی کی باہمی ترکیب سے جو مختلف صورتیں عالم الٰہی میں مرتب ہوئیں حق تعالیٰ اپنے انہی معلومات کی شکل میں متجلّی ہوا ہے، مظاہر تو حقائق عالم ہیں لیکن ظاہر اس میں خود ذاتِ حق ہے، علی الخصوص جب خالق کسی شعوری مخلوق کی شکل میں ظاہر ہو اور اسے اپنی کن فیکونی مخلوق بنائے تو ایسی مخلوق کے شعور سے عالم کا علم جدا نہیں ہوسکتا، اسی لئے صوفیہ کے نزدیک حق کی یافت کی قریب ترین شکل یہ ہے کہ اپنے ’’انا‘‘ میں ان کےشعور کو بیدار رکھا جائے، اجمالاً اس کا شعور اگرچہ ہر عامی کو ہوتا ہے اسی لئے حق تعالیٰ کو مخاطب کرنے کے لئے اپنی شعوری توجہ کو ہر شخص کافی سمجھتا ہے، لیکن صوفیہ اسی اجمال کی تفصیل کی مشق کرا کے دوامِ حضور کے مقام پر مرید کو پہنچادیتے ہیں۔ حدیث انت الاولیٰ فلیس قبلک شیئ و انت الآخر فلیس بعدک شیئ انت الظاہر فلیس نوتک شیئ و انت الباطن فلیس دونک شیئ یعنی تو ہی پہلے ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ہے، تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں ہے، تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کچھ نہیں ہے اور تو ہی باطن ہے تیرے آگے کچھ نہیں ہے، یا حدیث احفظ اللہ تجدہ تجاھک یعنی خدا کو یاد رکھو اُسے اپنے سامنے پاؤگے، وغیرہ میں انہی اعتبارات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) اور قرآن کی تعلیم کا سب سے پہلا ابتدائی سرا ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ جو بہتوں کے لئے تقلیدی معرفت کی حیثیت رکھتا ہے، مگر جاننے والوں کے لئے حقیقت کے آغاز کا ابتدائی نقطہ یہی ہے، جس نے یہ پالیا وہ انشاء اللہ آخر تک پاتا چلا جائے گا، لیکن جسے الفاظ کے علاوہ قرآن کی اس اساسی و افتتاحی تعلیم میں معنیٰ کا کوئی حصہ نہ ملا مشکل سے آئندہ بھی اُسے کوئی ایسی چیز مل سکے گی جس کا ملنا دراصل ملنا ہے، بہر حال بجائے تفصیل کے اس مسئلہ میں ہمارے لئے اجمال بھی بہت کچھ ہے، تاہم اس اجمال کے باوجود صفاتِ الٰہی کے ظہور کی دو کلی شکلوں کی طرف قرآن میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، صوفیہ اسلام کی اصطلاح میں اسی کی تعبیر آفاق و انفس سے کی جاتی ہے۔
آفاق و انفس:
درحقیقت ان دونوں اصطلاحوں کا مأخذ بھی قرآن ہی کی وہ مشہور آیت ہے جس میں حق تعالیٰ نے اپنی نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ۔ أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ۔ (فصّلت:۵۳،۵۴)
میں اپنے اپنے لوگوں کو آفاق اور انفس میں دکھاؤں گا، یہاں تک کہ کھل جائے گا ان پر کہ وہی خدا حق اور ثابت ہے، کیا تمہارے رب کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے، خبردار! یہ لوگ اپنے مالک کی ملاقات میں شک کے اندر ہیں،خبردار! وہ ہر چیز کو محیط ہے۔اربابِ معرفت نے گذشتہ بالا آیات میں آفاق سے مراد کائنات کا وہ عریض و طویل سلسلہ لیا ہے جو انسان کے باہر ثوابت و سیّارات، نباتات و جمادات، حیوانات و ملائکہ اور جن و شیاطین وغیرہ کی شکل میں پھیلا ہوا ہے، اور انفس سے مراد خود انسان کیحقیقت اور اس کی ذات ہے، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات اللہ کی تجلی ان دونوں چیزوں میں دو جداگانہ حیثیتوں سے ہوئی ہے۔(یہاں تصوف کی ایک اصطلاح لفظ تجلی کو سمجھ لینا چاہئے، عالمکا اپنے معلومات کی شکل میں ظاہر ہونا، مثلاً حضرت جبرئیل علیہ السلام کبھی حض دحیہ کلبیؓ صحابی یا مسافر یا رجل سولی کی شکل میں جو ظاہر ہوتے تھے اس کی حقیقت یہی تھی کہ اپنے معلومات کی شکل میں وہ ظاہر ہوتے تھے، آدمی بھی جب اپنے ذہن میں اپنے کسی معلوم کو خیالِ عالم میں پیدا کرتا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ معلوم کی شکل میں وہ متجلّٰی ہوا، ظاہر ہے کہ عالمِ خیال میں گدھے کا تصور مثلاً قائم کرتا ہے اس وقت وہ گدھانہیں ہوجاتا بلکہ صرف اسی کا ظہور اپنے ایک معلوم کی شکل میں ہوتا ہے، عالم کی مختلف چیزوں کی شکل میں حق کے ظہور اور تجلی کو بھی کچھ اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔)صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اسماءِ حسنیٰ کی ایک تفصیلی جلوہ گاہ وہ ہستئ اعظم ہے جسے اصطلاح میں شخصِ کبیر کہتے ہیں، جس میں حق تعالیٰ اپنے تمام اسماء و صفات کے مختلف مدارج کے لحاظ سے جلوہ فرما ہوئے ہیں، اسی کا نام عالم اور آفاق ہے، اور اسی شخصِ کبیر نے چھوٹے پیمانے پر بطورِ خلاصہ کے دوبارہ جب اختیار فرمایا گیا اور اسی کو مجمل و مختصر کرکے ایک اور ہستی نکالی گئی تو اسی کا نام انسان اور انفس ہوگیا، اس چھوٹی شخصیت میں وہ سب کچھ ہے جو اس سے باہر ایک ایک چیز میں جدا جدا پایا جاتا ہے، اسی بنیاد پر جدید زمانہ ہو یا قدیم ہمیشہ انسان ’’خلاصۂ کائنات‘‘ یا باصطلاحِ حال ’’ارتقاء کی آخری منزل‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
تصوف کی کتابوں میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے کہ کس طرح اس چھوٹے پیمانے میں وہ سب چیزیں اُتر آئی ہیں جو وسیع سے وسیع تر پیمانوں پر عالمِ کبیر میں پائی جاتی ہیں، کم از کم اتنا تو ہر عامی بھی جانتا ہے کہ انسانی وجود ان تمام خواص و آثار کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جن کے مظاہر عام طور پر جمادات و نباتات اور حیوانات وغیرہ مرکبات ہیں، اسی طرح کون نہیں جانتا کہ انسان سے باہر اگر مٹی ہے، پانی ہے، ہوا ہے اور حرات ہے تو تاریخ کے نامعلوم زمانہ سے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری جسدی ترکیب میں بھی یہ سباری چیزیں شریک ہیں، اور جب یہ ہیں تو جن کیمیائی بسائط سے ان عناصر کی ترکیب ہوئی ہے کیا کوئی اس کا انکار کرسکتا ہے کہ وہ بھی انسانی بدن کے اجزاء نہیں ہیں، بلکہ عہدِ جدید کے کیمیائیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جتنے کیمیائی بسائط انسان سے باہر پائے جاتے ہیں ان کا ایک بڑا حصہ ہماری جسدی تعمیر میں خرچ ہوا ہے، البتہ بعض بسائط کا اب تک ان کو پتہ نہیں چلا ہے، لیکن جو معلوم نہیں ہیں کیا ضروری ہے کہ وہ موجود نہ ہوں، بہر حال کم از کم ہر شخص اتنا تو ضرور جانتا ہے کہ انسانی وجود ان تمام خواص و آثار کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو عام طور پر حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔الحاصل جمادات ہو یا معدنیات، نباتات ہو یا حیوانات بلکہ وہ ساری چیزیں جو جو اس کی گرفت میں آسکتی ہوں کون نہیں جانتا کہ انسانی ہستی (وجود) ان تمام طبقاتِ محسوس کے آثار و خواص کی ’’کتابِ مجمل‘‘ اور ’’نسخۂ جامع‘‘ ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ علاج و معالجہ اور طبی دواؤں کی بنیاد عالمِ صغیر و کبیر کی اسی باہمی مناسبت پر قائم ہے، حتٰی کہ وہ نورانی اجرام جو ایتھر کے لامحدود سمندر میں تیر رہے ہیں یا جو ان کے پیچھے ہیں گو عوام الناس کو اس کا علم نہ ہو لیکن جن لوگوں نے انسان کے باطنی قویٰ کو کریدا ہے انہیں اس چھوٹے قالب میں عالمِ انوار کے وہ سارے نظامات منکشف ہوئے ہیں جو اس سے باہر پائے جاتے ہیں۔
الحاصل صفاتی لحاظ سے جن جن چیزوں کا مظاہرہ آفاق میں ہوا ہے انفس میں کسی نہ کسی طرح وہ سب چیزیں کسی نہ کسی پیمانے میں ضروری پائی جاتی ہیں، صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مطلب ہے، قرآن کی اس آیت کا جس میں حضرت آدم علیہ السلام کےمتعلق ارشاد ہوا کہ لما خلقت بیدی یعنی میں نے آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر اپنے تمام صفاتِ جلالی و جمالی اور سلبی و ایجابی کا اُسے مظہر بنایا ہے، لیکن یہ صرف صفات کی حد تک بات تھی، الحاصل آفاق میں بھی انہی صفات کو فرض کرکے کُن فیکونی عمل کے زیرِ اثر ایجاد کا رنگ بخشا گیا اور پھر چھوٹی تقطیع پر اس عمل کا ظہور انفس میں بھی ہوا۔
خلافت:
اب صرف ایک بات رہ گئی کہ اب تک خدا نے اپنے اسماء و صفات کو اپنے سے باہر فرض کیا یا پیدا کیا لیکن خود اپنی ذات کو اپنی غیر فرض کرکے کوئی مخلوق نہیں بنائی، یہی وہ ارادہ تھا جس کااعلان ملائکہ کے سامنے ازل میں إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً سے کیا گیا اور یہی ہوا کہ صفات کےاس نسخہ جامعہ میں یا عالمِ صغیر میں خود اپنے آپ کو اپنا غیر فرض کرکے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي کا اعلان کیا گیا اور جمادات سے لے کر ملائکہ تک کو اس کے آگے جھکنے کا حکم ہوا، اور اب جاکر پیکرِ آدم احسن تقویم کے سانچے میں ڈھل کر خدا کا خلیفہ بن کر آیا، یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس کا پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے، یعنی خلق اللہ اٰدم علی صورتہ (پید کیا آدمؑ کو اللہ نے اپنی صورت پر)۔ پس شخصِ کبیر یا آفاق کے لئے جس طرح ایک روح نقطۂ مرکزی یا انا (خدا) تھا اور ہے اسی طرح اس شخص صغیر میں بھی ایک ایسا شعوری نقطہ پیدا ہوگیا جس کو ہر شخص ہم میں سے اَنا یا میں وغیرہ، الفاظ سے تعبیر کرتا ہے، جس میں وہ سارے شیون و اوصاف ہیں جن پر شعوری یا غیر شعوری طور پر الوہیت کا دھوکہ ہوتا ہے اور خدا جانے کتنوں کو ہوا ہے۔
انسانیت کا یہی بلند مقام ہے جس کی بلندی کا اظہار روم کے عارف نے ان لفظوں میں فرمایا:
منِگر بہ ہر گدائے کہ تو خاص ازانِ پاکی
مَفروش خویش ارزاں کہ تو بس گراں بہائی
بعصا شکاف دریا کہ تو موسئِ زمانی
! بدر آں قبائے مہ را کہ تو نورِ مصطفائی
بخراش دستِ خوباں کہ تو یوسفِ جمالی
چو مسیح دم فرو دم کہ تو نیز ازاں ہوائی
بصف اندر آئی تنہا کہ سفندیار وقتی
درِ خیبر است برکن تو علِّ مرتضائی
چو خلیل رَو در آتش کہ تو خالصیّ و دل کش
چو خضر بہ آب حیواں کہ تو جوہرِ بقائی
بگسل ز بے اصولائی مشنو فریبِ غولاں
کہ تو آں شریفِ اصلی کہ تو از بلند جائی
تو ز نور لایزالی ز د رُو نہ خوش جمالی
تو ز فیضِ ذو الجلالی کہ تو پرتوِ خدائی
تو ہنوز ناپدیدی کہ جمال خود نہ دیدی
سحرے چو آفتابی ز درونِ خود برائی
تو ز خاک سر بر آور کہ درخت بس بلندی
تو بپر بکوہِ وحدت کہ شریف تر ہمائی
توئی آں دُرے کہ فانی دوہزار بحر در تست
توئی بجز بیکرا نہ ز صفاتِ کبریائی
(منقول از دیوان مولانا رومیؒ کہ مشہور بہ دیوان شمس تبریز است)
حقیقتِ محمدیہ:
یہی خلافتِ الٰہیہ ہے جس کا انسان مظہر ہے، لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ شیونِ الٰہی اپنے مدارج کے لحاظ سے غیر محدود ہیں، اسی طرح خلافت عامہ تو ہر انسان کو حاصل ہے، لیکن اس کے ساتھ مدارج کے اختلاف نے اس کو بے شمار افراد میں بانٹ دیا ہے، تاہم عقل یہ تجویز کرتی ہے کہ خلاف کے درجات کو مکمل ہوتے ہوئے بالآخر ایک ایسی ہستی پر ختم ہونا چاہئے جو تمام اسماء و صفات اور ذات کا مظہرِ اتم ہو، اور وہی ’’دُرِّ فرید‘‘ نوع انسانی کا کامل ترید فرد ہو بلکہ تکوین و تخلیق کا آخری نتیجہ قرار پاسکتا ہے، کائنات کے ارتقائی درجات و طبقات کی رفتار کو دیکھ کر نہ صرف وجدان و بصیرت والے بلکہ عقلی روشنی کے سہارے چلنے والوں نے بھی کبھی کبھی اس فردِ کامل کو انسانیت کی طویل الذیل تاریخ میں تلاش کیا ہے، حتی کہ متأخرینِ فلاسفہ میں جرمنی کے مشہور مفکر نیٹشے نے تو اپنے سارے فلسفہ کی بنیاد ہی ارتقاء کی اسی آخری تقویم یا قالب کی تلاش پر رکھ کر مافوق البشر کا نظریہ قائم کیا، لیکن جس مسئلہ میں عقل سے زیادہ نورِ ایمان کی روشنی درکار ہے وہاں صرف عقلی احتمالات سے کسی یقینی نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہے۔ کاش اُسے معلوم ہوتا کہ اس سے بہت پہلے آسمانی آواز نے خُلق عظیم والے کو عالمین (سارے جہاں) کے لئے رحمت بناکر دنیا میں یہ کہتے ہوئے متعین کردی ہے کہ وہی کمالات انسانی جو رفتہ رفتہ ارتقاء پاکر نبوت و رسالت تک پہنچتے ہیں اب نبیوں کے انہی کمالات کا خاتمِ نسل آدم میں آکر سارے اسماء و صفات کے تخلیقی دائرہ کا انتہائی اور آخری نقطہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ظاہر ہوگیا اور یوں عالمین کے رب کی ساری حمد، ساری ستائش اور سارے کمالات مخلوق بن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر میں مکمل ہوگئے ……. اسی لئے کہا جاتا ہے کہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف نام ہی نہیں بلکہ قدرت کا آخری کام بھی ہے۔
Sep 11 2016
La Ilaha Illallah – Shah Jamal Sahab
La Ilaha Illallah – Shah Sahab
Peer e Tariqat Rahbar e Shariat Ameer Majlis Tahaffuz Khatm e Nabuwwat, Hazrat Maulana Shah Mohammed Jamal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum.
لا الہ الااللہ
پیرِ طریقت رہبرِ شریعت حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
Download
La Ilaha Illallah,The true meaning of “La ilaha ill-allah”,The Importance of La ilaha ill-Allah,slsila e chishtia, silsila e qadria, silsila e kamalia, silsila e qadria chishtia kamalia, shah sahab, sufi sahab, taleemat silsila e chishtia, taleemat silsila e kamalia, taleemat silsila e qadria, taleemat e tasawwuf, tasawwuf ki taleemat, sufi taleemat, chishti silsila, chishti, qadri, kamali, soharwardi
By silsilaekamaliya • Dars e tasawwuf, Islahi Bayanaat, Maulana Jamal ur Rahman Sahab - Bayanaat, Qaal e Saheeh, Silsila e Chishtia, Silsila e Kamaliya, Taleemat Silsila e Qadria Kamalia, wahdatul wujud • Tags: chishti, chishti silsila, kamali, La Ilaha illallah, La Ilaha Illallah - Shah Sahab, qadri, Shah Sahab, silsila e kamalia, Silsila e Qadria, silsila e qadria chishtia kamalia, slsila e chishtia, soharwardi, sufi sahab, sufi taleemat, Taleemat e Tasawwuf, taleemat silsila e chishtia, taleemat silsila e kamalia, taleemat silsila e qadria, tasawwuf ki taleemat, The Importance of La ilaha ill-Allah, The true meaning of "La ilaha ill-allah", Wahdat al Wajood, wahdat al wujud, Wahdat ul Wajod vs Wahdat ul Shahood, Wahdat ul wajood, wahdat ul wujud