Jan 9 2015
Khair o Shar
Khair o Shar
Maulana Kamal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
خیر وشر
حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
تصوف کے بیسیوں مسائل ہیں لیکن حضرتؒ کی افہام وتفہیم کے بعد اور لسانی تفہیمات سننے اورسمجھنے کاموقع ملااورکلیدمعرفت علم علیم اورمعلوم کے نکات کھلنے کے بعدانشراح سے پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے اب مسائل تصوف میں خیروشر مشکل سمجھاگیا ہے لیکن قادریہ ۔کمالیہ ۔سلسلہ کے بزرگوں نے کتاب وسنت کے تحت ہر مسئلہ کا حل پیش کیا ہے اور کیا جاسکتا ہے
وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اﷲ
ِ کے جملہ میں ان دونوں عنوانات یعنی خیروشرکاذکر ہے۔ خیروشرکا اندازہ اللہ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ خالق خیروشر ہیں اوربندہ کاسب خیروشر ہے ۔
خیر بھلائی کوکہتے ہیں اورشربرائی کوکہتے ہیں باعتبار تخلیق فعل خیر خوشگوار امر ہوتاہے اورشرناگوارہوتاہے فکر صحیح کے نتیجہ میں بہت سی باتیں کھلتی ہیں بہت سی چیزیں وہ جو چاہتا ہے اور ہت سی چیزیں وہ ہیں جو وہ نہیں چاہتا فطرتانسانی مرغوبات کا حصول چاہتی ہے صحت پسند ہے بیماری نا پسند ہے راحت پسند ہے اور مصائب ناپسند ہیں زندگی پسند ہے اور موت ناپسد ہے ایسے ہی بعض چیزوں کے حصول کیلئے بیقرار رہتا ہے اور ہت بیتاب قرار چاہتی ہے یہ نمونے اور اضداد
تمیز اور پہچان کیلئے رکھے گئے ہیں مغربی مفکرین خیر وشر کے مسائل میں حیران وپریشان ہیں مشہور فلسفی جان اسٹوٹ رائل کا خیال ہے اللہ کی ذات خیر مطلق ہے لیکن قادر مطلق نہیں قادر مطلق ہونے کی صورت میں شر کا ظہور نہیں ہونا چاہئے
تھا لیکن شر موجود ہے اور ناقابل انکار حقیقت ہے دو قسم کے سلسلہ دنیا میں ہیں ایک طرف ملائکہ کا سلسلہ جوخیرمحض ہے اوران کے مقابلے میں شیاطین ہیں جو شر محض ہیں ملائکہ اور فرشتے ہر بات میں خیر اور بھلائی کی طرف چلتے ہیں اور
شیاطین ہربات میں برائی اور نافرمانی کی طرف چلتے ہیں فرشتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لَایَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمرِہٖ یَعْمَلُوْنَ
لَایَعْصُوْنَ اﷲَ مَا اَمْرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔
وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا
شیطان کاکام ہی کفر کرناہے اور کفران نعمت ہے فرشتے جہاں ہوں گے خوشبو کی طرف دوڑیں گے اور شیاطین جہاں ہوں گے بدبو کی طرف دوڑیں گے حدیث میں آیا ہے کہ جہاں مساجدہیں اور ذکر اللہ کی مجالس
ہواکرتی ہیں وہاں فرشتوں کا ہجوم ہوتا ہے اور جتنی کوڑیاں اور گندگی کے اڈے ہیں وہاں شیاطین کاہجوم ہوتا ہے فرشتوں کا کام دعاء کرنااوروں کیلئے بھلائی چاہنا ہوتاہے اورشیاطین کاکام برائی کرنا کرانا اوربرائی چاہنا اورتکالیف کا سامان کرنا ہوتا ہے
فرشتے جو ہمہ جہت خیر ہوتے ہیں۔
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔
جو ملائکہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں عرش کے اطراف ارد گرد اربوں کھربوں فرشتے ہیں ان کا کام کیا ہے حق تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شیاطین کیا کرتے رہتے ہیں
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرِخَزَاءِنِہٖ بِیَدِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِالَّذِیْ ھُوَ بِیَدِکَ کُلِّہٖ
صحیح حاکم میں حضرت ابن مسعودؓ اور ابن حبان میں حضرت عمرؓ کی روایت میں ان دو جملوں میں دو اہم باتیں ہیں ایک توبہ کرنا ہے خزانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ عوہ ہر خیر وبھلائی جو دست قدرت میں ہے اسکی مانگ ہے پہلے جملے میں ہے کہ ائے اللہ میں مانگتا ہوں ہر بھلائی
جس کے خزانے تیرے قبضۂ قدرت میں ہے اور دوسرے جملے میں کا مفہوم یہ ہے کہ مانگتا ہوں وہ سب کی سب بھلائی کہ وہ تیرے قبضہ میں ہے
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنٰی وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ.
خُذْ اِلَی الْخَیْرِ بِنَاصِیَۃِ وَجَعَلَ السَّلَامَۃَ مُنْتَھٰی رِضَاءً
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَ الْمَسْءَلَۃِ وَخَیْرَالدُّعَاءِ وَخَیْرَ النَّجَاحِ وَخَیْرَ الْعَمَلِ وَخَیْرَ الثَّوَابِ وَخَیْرَ الْحَیٰوۃِ وَخَیْرَ الْمَمَاتِ.
ائے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں سب سے اچھا سوال اور سب سے اچھی دعا اور سب سے اچھی کامیابی اور سب سے اچھا عمل اور سب سے اچھا بدلاور سب سے اچھی زندگی اور سب سے اچھی موت ان دعاؤں سےاندازہ ہوتا ہے کہ تمام ہی اعمال میں خیروشرکے پہلورہتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سُوْءِ الْعُمْرِ وَمِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ وَمِنْ شَرِّ لِسَانِیْ۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطَنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعَہْ
ائے اللہ میں پناہ چاہتاہوں تیرے اس حیوان کی برائی سے جو پیٹ کے بل چلتاہے۔اوراس حیوان کی برائی سے جودوپیروں سے چلتا ہے اوراس حیوان کی برائی سے جوچارپیروں سے چلتاہے یعنی دوندوں پرندوں درندوں وغیرہ کے شرورسے تیری پناہ (کل محسوس موجود) یعنی ہر محسوس موجود ہے برائے تسہیل مسئلہ کی تفہیم کیلئے ایک وجدانی تمثیل یاد رکھئے بیت الخلا سے واپسی کے بعد جو دعا کی جاتی ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِی
ْساری تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے میری تکلیف کو دور کیا اور مجھے عافیت دی دعاکے الفاظ پرغورکریں تکلیف ہمارے ندر ہے اس کے دور کرنے کی نسبت اللہ کی طرف ہے یعنی دفع شر پر اللہ قادر ہیں اور علم صحیح کی روشنی میں معلوم ہوا کہ فاعل حقیقی کون ۔
نتیجہ دیکھئے
بندہ میں غلاظت اور شرکا ظہور نہ ہوتا تو ،تو خیر کی معرفت کیسے ہوتی اس تمثیل میں بندہ کی معرفت نقص اور شر کے ساتھ ہوئی اور اللہ کی معرفت کمال خیر کے ساتھ ہوئی تو معلوم ہواکہ اپنی ذات محل شر اور اللہ کی ذات خیر ہی خیر ذات مخلوق میںشر کے سوا کچھ نہیں اور اللہ میں خیر کے سوا کچھ نہیں،اس کے سوا پہچان کیا ہو ۔
Jan 10 2015
Aniyat ek iqrar do
Aniyat ek iqrar do
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس – میں پن ؟
حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
انیت ایک ۔۔۔اقرار دو
انیت ایک اقرار دو ۔ انیت کہتے ہیں میں پن کو ؛ اور یہ میں پن لازمہ ہے وجود کا کیونکہ وجود اللہ
اور بندے میں مشترک ہے اور ایک ہے لھٰذا جس طریقہ سے اللہ اپنے آپ کو میں کہتا ہے ،اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے اللہ جب میں کہے گا تو یہ میں خود اسکا ذاتی اور حقیقی ہوگا ، اور جب بندہ جب کبھی میں اپنے وجود کے اعتبار سے کہے گا تو اسکا ذاتی اورحقیقی نہ ہوگا بلکہ عاریتی اور امانتی ہوگا؛
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکا حقیقی میں کیا ہوگا اگر اسکا حقیقی میں ہوسکتا ہے تو خود اسکا عدم ہے ،اور جو معدوم ہو وہ اپنے آپ کو میں کس طرح کہہ سکتا ہے (یعنی مین پن اسکا اصلی ہے)
لہٰذا جن معنوں میں لفظ میں اللہ پاک استعمال کرتے ہیں ، انہیں معنوں میں بندہ ہرگز استعمال نہیں کرسکتا اور نہ کرنا چاہئے ۔البتہ اگر یہ لفظ میں بندہ استعمال کرے تو اس کے حفظ مراتب کا حسب ذیل طریقہ ہو گا ۔
انیت ایک اقرار دو کے معنیٰ ہیں کہ اللہ اور بندہ میں ۔میں پن ایک ہے مگر بندہ کے اقرار دو ہیں ایک اقرار بندہ کا اللہ کی کبریائی کیلئے، اور دوسرا اقرار بندہ میں اپنی انکساری کیلئے کرتا ہے ، یہ انکساری کا میں پن در اصل اس کے عدم پر دلالت کرتا ہے ، اسکے یہ معنیٰ ہیں کہ میری حقیقت تو عدم ہے اور اپنے آپ کو میں میں نہیں کہہ سکتا ۔ مگر یہ اللہ کی نوازش ہے کہ وجود بخشی کی وجہ سے اپنے آپ کو میں کہہ سکتا ہوں ، بہر حال اگر بندہ اپنی انکساری کو ملحوظ رکھکر اور اس لفظ کو عاریتی اور امانتی سمجھکر استعمال کرے تو جائز ہے اور ٹھیک ہے اور یہی اس کا حق ہے ۔
بندہ کے میں پن کی تشریح ؛۔
اکثر فقرا ء کہتے ہیں کہ فقیر فقیر کے پاس آؤ تو میں پن نکال کر آؤ ان کے اس لفظ میں کہنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ لفظ سوائے خدا کے کوئی استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ موجود حقیقی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے ۔اس کا یہ میں کہنا تین چیزوں سے ثابت ہے (۱) اسلام میں میں ؔ ۔(۲) ایمان میں میںؔ ۔ (۳) احسان میں میںؔ ۔
ان تینوں کی تشریح حسب ذیل ہے
(۱) اسلام میں میںؔ ۔
سب سے پہلے مسلمان ہونے کیلئے کلمۂ شہادت پڑھنا پڑتا ہے کلمۂ شہادت کی ابتداء ۔ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ سے ہو تی ہے اس کے معنیٰ یہ ہے کہ گوا ہی دیتا ہوں میںؔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں تو اسلام خود سکھا تا ہے کہ بندہ اپنے کو اسلام میں داخل کرنے کیلئے میں کہے اگر اس میں کو فقراء کے کہنے کے بموجب ، نیں، سے بدل دیں جو اسکا ضد ہے تو یہ معنیٰ ہونگے گواہی دیتا ہوں نیں ؔ یہ معنیٰ بالکل بر عکس ہو جاتے ہیں اور اسلام میں داخل ہونے کے بجائے اسلام کے دائزے سے کلمۂ شہادت پڑہنے والا خارج ہو جاتا ہے ۔
(۲) ایمان میں میں ؔ ؛۔
ایمان مفصل میں اس کی ابتداء آمنت با اللہ سے ہوئی ہے یعنی اس کا تر جمہ یہ ہوا کہ ایمان لاتا ہوں میںؔ اللہ پر ، اغیرہ [الخ ] ایمان میں بھی میں ؔ موجود ہے اگر اس کو بھی نیں سے بدل دیں تو تو معنیٰ بالکل برعکس ہو جاتے ہیں۔
(۳)احسان میں میں ؔ ؛۔
میں ؔ – کہنا جائز بھی ہے اور نا جائز بھی ؛۔
جائز اس صورت میں ہے کہ وہ حفظ مراتب کے ساتھ اپنی انکساری اور فرمانبرداری کو پیش کرے
اور ناجائز اس وقت ہے جبکہ بندہ اس میں کو اللہ کی کبریائی کے ساتھ پیش کرے ۔
By silsilaekamaliya • Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: taleemat silsila e qadria