Introduction Sufi Ghulam Mohammed Sahab RA
حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحب علیہ الرحمہ:
عالم ہست وبود میں اللہ کی سنت عامہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو اس عالم ہست وبود میں وجود سے سرفراز فرمانے کے بعد ابدی کامیابی اور اخروی نجات کا سامان بھی مہیا فرمادیا اس کے لئے کتاب و صاحب کتاب دو چیزیں پورے اہتمام کے ساتھ روز ازل سے نازل کی جاتی رہیں ۔ہدایت کے لئے یہ دو نوں چیزیں بڑی اہم اور بنیادی ہیں لیکن جب ہم کچھ غور کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے مقابلہ میں صاحب کتاب کی زیادہ اہمیت ہے اس لئے کہ جب کبھی امت میں گمراہی عام ہونے لگے تو لوگ اپنے خالق کو بھول کر کفر وشرک کے ذریعہ خلود فی النارکے مستحق ہونے لگے تو اللہ نے پیغمبروں اور اس کے ساتھ آسمانی کتاب یا صحیفے نازل فرمائے اور کبھی بغیر کتاب کے صرف انبیاء اور رسل کو اس عظیم مقصد کیلئے مبعوث فرمایا لیکن پوری تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ملتا کہ افراد اور صاحب کتاب کے بغیر صرف کتاب کو نازل کیا ہو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افراد کی بہت اہمیت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کئی ایک آیا ت سے افراد کی اہمیت واضح ہوتی ہے چنانچہ صراط مستقیم کی نشاندہی کی گئی تو افراد سے کی گئی فرمایا صراط الذین انعمت علیہم ۔اور اتباع کا حکم ملا تو افراد کے ذریعہ ارشاد ربانی ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَا تَّبِعُوْنِیْ۔مزید اَطِیْعُوْا اﷲَ وَاطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۔ کسی کو اپنا رہبر اور پیشوا بنانا مقصود ہو تو افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا وَاتَّبِعُ السَّبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۔چنانچہ خاتم المرسلین ا کے صرف چہرۂ انور کو دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہونے والے صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد ہے۔ نبئ رحمت ا کے بعد بھی اس دنیا میں ہدایت کے عام کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے چنندہ بندوں کو استعمال فرمایا مختلف میدانوں میں افراد کی اشاعت دین کے حوالہ سے نمایاں خدمات رہیں ۔ مفسرین کرام ۔محدثین عظام ۔ائمۂ مجتہدین وغیرہ کی جہاں بے پناہ خدمات کا اس امت پر احسان عظیم ہے وہیں شریعت و طریقت کے ماہرمشائخین اور اولیاء عظام جن کے سلسلہ کو اللہ نے فروغ دیا وہ چار مشہور سلسلے ہیں سلاسل اربعہ میں سلسلۂ قادریہ کی کیا تعلیمات ہیں وہ محتاج تعارف نہیں اسی سلسلہ قادریہ سے منسلک اور روح رواں سلسلہ یوں سمجھنا چاہئے کہ قادریت کی ایک شاخ ہندوستان میں ،، سلسلہ کمالیہ ،، ہے۔در اصل سلسلہ قادریہ کے مشائخ بخارا سے ہندوستان تشریف لائے کڑپہ اور رائچوٹی سے ٹیپو سلطان شہید کی طلب پر قادریت کا یہ فیضان سلسلہ کے پانچویں پشت کے ایک مشہور بزرگ کمال الدین ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ ریاست میسور پہنچا بعدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شاہ محمود اللہ بخاری کے ذریعہ حیدرآباد دکن کو معمور فرمایا ۔مؤ خر الذکر بزرگ کے خلفاء میں ایک مشہور خلیفہ حضرت شاہ کمال جو( مچھلی والے شاہ )صاحب کے نام سے معروف ہیں اور آپ سے کسب فیض کرنے والوں میں حضرت محمد حسین صاحب (ناظم عدالت سمستھان ونپرتی) رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں یہی وہی ناشر سر ظہور شخصیت ہیں کہ آنمحترم کا وجود سر زمین دکن میں کتاب وسنت کے علوم صحیحہ اسرار ومعارف اور حقائق کا ایک ابر کرم تھا جو عوام ۔و خواص ، علماء ،و مشائخین ، اور ۔امراء ۔ورؤ ساء۔
پر برستا رہا ہر ایک نے اپنے ظرف و استعداد کے موافق استفادہ کیا ۔اس عظیم المرتبت اور بزرگ شخص کے خلفاء کے بارے میں محترم عبدالقیوم صاحب جاوید مدظلہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت کے خلفاء میں حضرت سید حسن قادری مولانا مناظر احسن گیلانی حضرت الیاس برنی ڈاکٹرمیر ولی الدین رحمھم اللہ تعالیٰ شامل ہیں (۱)اور ہم عارف با اللہ ،اہل دل بزرگ ،واقف از راز ملکوت وجبروت ،واعظ با عمل ،صوفی صافی ،حامئ سنت ، ماحئ بدعت ، ستودہ صفات کی حامل شخصیت مولانا غلام محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کچھ باتیں صفحۂ قرطاس پر لانا چاہتے ہیں ، انھوں نے بھی اسی سر چشمۂ فیضان سے انوار و فیوض و تعلیم و تربیت حاصل کی اور اکتساب فیض کیا ہے جس کا تذکرہ آنمحترم نے اپنی مشہور منظوم تصنیف ،،کلام غلام ،، کی ابتداء میں کیا ہے کہ احقر حضرت مولانا محمد حسین صاحب ۔کی خدمت میں حاضر ہوا اور شب شنبہ شب قدر رمضان المبارک ۱۳۵۵ ھ میں بیعت سے سرفراز ہوا۔
(2)تفصیلی تعارف وخدمات کا تذکرہ کرنے سے پہلے جامع اور مختصر تعارف شہر کے مشہور واعظ با عمل امیر ملت اسلامیہ اندھرا پردیش حضرت مولانا حمید الدین عاقل ؔ حسامی دامت برکاتہم العالیہ کے حوالہ سے پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔فرماتے ہیں کہ موصوف ایک صاحب سلسلہ بزرگ ہیں جن کے ہزاروں مریدین اور معتقدین مختلف مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔مولانا موصوف کے دست حق پرست پر ان گنت گمراہوں اور کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والوں نے بیعت کرکے اپنی عاقبت روشن کی مولانا بڑے خوش اخلاق اور سادگی پسند ،متواضع ،منکسر المزاج ،اور خاموش دین و ملت کے خدمت گذار ہیں (۳) حضرت کے ایک خلیفہ عبدالقیوم جاوید مدظلہ ،نے ان وقیع الفاظ میں اپنے مرشد روحانی کا تذکرہ کیا ہے سلسلۂ کمالیہ کا چشم و چراغ ایک اللہ والا جس کی ہر حرکت ،،لا الٰہ الا اللہ ،، کی وجدانی تشریح یا پھر محمد رسول اللہ کی عملی توضیح ہے جس کی سفر پسند طبیعت کے لیئے قطرۂ سیماب کی تشبیہ پھیکی اور دقت طلبی کے سامنے چاند پیماؤں کے عزائم ماند ہیں جس کی برق نگاہی نے کتنی ہی آنکھوں کو بصیرت عطاء کی ،جس کے جذب محبت نے کتنے ہی دلوں کو مسخر کر رکھا ہے اور جس کی مسیحانفسی نے کتنے ہی مردہ دلوں کو حیات نو بخشی ہے۔ (۴) اسی عارف با للہ کی خاموش انقلابی زندگی کے کچھ اہم گوشے واضح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ تفصیلات ایک مستقل تصنیف کی متقاضی ہیں اس بندۂ کامل کے تعارف میں سب سے پہلے انمحترم کا اپنے تعارف کے حوالہ سے کہا گیا ایک شعر نقل کیا جاتا ہے
میں غلام ہوں مجھے علم کیا جو بناے وہ وہی بن گیا
مجھے جانتے تو ہیں سب مگر میں ابھی ہوں پردۂ راز میں
حلیہ،سوانح نگاروں کا یہ اسلوب رہا ہے کہ وہ بھی کسی معزز شخصیت کا سوانحی خاکہ میں مرتب کرتے ہیں تو جہاں اس کی سیرت باطنہ اور خدمات اور کارنامے ذکر کرتے ہیں تو وہیں وہ ظاہری شکل وصورت حلیہ اور خاندانی معیار کا تذکرہ بھی بہت ہی اہمیت کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے ہم خانوادۂ صوفی کے چشم و چراغ حضرت قبلہ کے خلف اکبر وجانشین کے حوالے سے حضرت کا حلیہ بیان کرتے ہیں ۔
آنکھوں میں نور حق کی چمک ،چہرہ بارعب ونورانی،سر میں خم دار زلفیں ،بھوئیں پیوستہ اور گھنی ، ناک اونچی قدسی ،گندمی رنگ ،منہ تراشیدہ ،ریش مبارک معیار سنت کو دکھانے والی ،قد موزوں ، معتدل القامت،کسب ورہب دونوں سے بنابنایا ورزشی جسم ،سادہ لباس میں ملبوسی ،کلی دار کرتہ پاجامہ ، اکثر وبیشتر پیوند لگے ہوئے کپڑے،سر پر گول ٹوپی،مسنون عمامہ ،ہاتھ کشادہ،دل سخی ،نظر وسیع ، سینہ انوار کا گنجینہ تھا ، اور ضروری اشیا ہمیشہ ساتھ رہتی تھیں ،زندگی مرتب وبا سلیقہ تھی ،حکمت باطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،حکمت ظاہری سے بقدر ضرورت واقفیت تھی ،ولادت اپنی خود نوشت سوانح حیات کے مطابق شب جمعہ رجب ۱۳۳۷ ھ ۹ بجے حیدرآباد دکن کے ایک گوشہ تعلقہ کلواکرتی کے ایک موضع کوٹرہ میں ولادت با سعادت ہوئی ، چند سال اسی موضع میں قیام رہا ،اس کے بعد مغل گدہ میں قیام عمل میں آیا ،یہاں چند دنوں کی سکونت ۱۳۸۹ ھ رمضان المبارک م ڈسمبر ۱۹۶۹ ء میں علم وادب کے مرکز حیدرآباد منتقل ہوئے ،اور مستقل قیام حیدرآباد میں رہا۔تعلیم؛قرآن مجید کی تعلیم اپنے نانا حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب خطیب وقاضی مغل گدہ سے گھر پر حاصل کی ، قرآن مجید کی تعلیم شروع کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے لبریز مہینہ رمضان المبارک سایہ فگن ہوا ۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ رمضان المبارک کوقرآن مجید سے خصوصی نسبت ہے چنانچہ آپ ہر دن سحرکرنے کے بعد رضائی اوڑھے ہوئے قرآن مجید لیکر نانا حضرت کے روبرو بیٹھ جاتے اور پڑھنے لگتے اور وہ سنتے جہاں غلطی ہوتی بتا دیتے اس طرح پورے رمضان میں قرآن مجید کی تکمیل ہوگئی ۔اس کے بعد ابتدائی تعلیم مدرسہ وسطانیہ مغل گدہ میں ہوئی جہاں اپ نے کئی ایک نامور اساتذہ سے استفادہ کیا ۔ اپریل۱۹۳۷ ء میں مڈل بورڈ امتحان میں شرکت کرکے کامیابی حاصل کی ۔چند دنوں تک تعلیمی سلسلہ موقوف رہا اس کے بعد مولانا حمید الدین صاحب قمر فاروقی کے ادارہ شرقیہ میں شریک ہوکر رجب ۱۹۳۷ ء میں امتحان جماعت منشی پنجاب کی تیاری شروع کردی۔ اس کے بعد اگلے سال ۱۶؍ صفر ۱۳۵۷ ھ م ۱۴؍ اپریل ۱۹۳۸ ء میں امتحان دیا اور بدرجۂ دوم کامیابی حاصل کی ۔
سفر لا ہور منشی پنجاب کے امتحان کیلئے
سفر لاہور کی مکمل داستان سفر بڑے دلچسپ انداز میں آئینۂ غلام میں بیان کیا ہے جو عبرت سے پر اور نصیحت آمیز ہے برائے دہلی لاہور کے سفر کا آغاز ہوا اور دہلی میں کچھ دیر قیام کے دوران حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت صوفی سرمدرحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینے کو اپنی سعادت سمجھ کر تشریف لے گئے ،اس کے بعد لاہور پہونچے اور یہاں صاحب کشف المحجوب حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی اور کچھ نوافل کی ادائیگی کا اہتمام مزار سے قریب واقع ایک مسجد میں کیا گیا ،
شاعر مشرق علامہ اقبال کی مزار پر حاضری
پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مزار پر حاضری دی شروع سے آپ علامہ اقبال سے اور آپ کے اشعار سے روح قرآن کے دنیاء فانی میں عام ہونے کے فکر اقبالی سے واقف تھے لیکن انمحترم جس دن لا ہور پہنچے اسی دن شاعر اسلام علامہ اقبال کا انتقال ہوا ،اس کی اطلاع آپ کو دوسرے دن اس وقت ہوئی جب کہ لاہور کے چند جوان و بوڑھے مرثیہ پڑھتے ہوئے سڑک سے گذر رہے تھے کہ
ہائے مر گیا اقبال پیارا
جمعہ کے دن شاعر اسلام کی مزار پر حاضری کیلئے لاہور کی جامع مسجد تشریف لے گئے جس کی در ودیوار سے آج بھی شاہان سلف کی عظمت ٹپکتی ہے جہاں سیڑہیوں سے متصل تازہ قبر جس پر پھول پڑے ہوئے تھے چند تختیاں لٹک رہی تھیں جس پر انتہائی موزوں اشعار کندہ کئے ہوئے تھے اس زیارت کے موقع پر اپنے احساسات کو کس عجیب پیرائے سے بیان میں ظاہر کیا ہے ہم بعینہ اس کو یہاں نقل کرنا چاہتے ہیں نوجوان اور اس کے ساتھیوں نے قرآن ختم کیا اور اقبال کی روح کو بخشا گیا مگر وہ اس ثواب کو کیا کرے جو قرآن کو سارے عالم میں جاری وساری دیکھنا چاہتا تھا اگر ایسا ہوتا تو اسکی روح قبر میں بھی خوشی سے وجد کرنے لگ جاتی اور یقیناً اس ایصال سے ہزاروں درجہ بڑھکر ثواب اسکو اس وقت ملتا جبکہ اسکے پیام پر عمل کیا جاتا
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اس پرجس نے بادہ کہن کو جام نو میں پیش کیا جس نے محمد ا کے رنگ کو رومی و غزالی کی روح سے حاصل کیا اور تفکر کی پچکاری سے سارے عالم پر چھڑک دیا
ملازمت
لاہور سے منشی پنجاب کے امتحان میں کامیابی کے ساتھ وطن لوٹنے کے بعد دو سال سنت تجارت میں مشغولی رہی اس کے بعد ۲ ؍ جون ۱۹۴۲ ء کو مدرسہ تحتانیہ بادے پلی جڑ چلہ پر ابتدائی تقررہوا درس وتدریس کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہ سلسلہ صرف ملازمت کی حد تک نہیں رہا بلکہ ملازمت کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام بھی مستقل ہوتا رہا چنانچہ مزاج کی دینداری اور موثر دعوت وتبلیغ کی بنا پر حاسدین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ۲۳ ؍مقامات پر تبادلے ہوتے رہے جس میں مریال گوڑہ ، مندڑی کلاں ، مغل گدہ ، اور نلگنڈہ ،مقاما ت شامل ہیں ان ۲۳؍ مقامات پر ۱۳؍ سال تین ماہ ۲۴؍ دن خدمات انجام دیکر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے
دعوتی واصلاحی سر گرمیاں
علم ظاہر کے اعتبار سے اگرچہ آپ کو کسی دینی ادارہ سے فراغت نہ تھی لیکن علوم ظاہرہ کے حاملین و فارغین سے کم بھی نظر نہ آتے تھے جیسا کہ آپ کے بیانات اور مکتوب وتصانیف سے بے پناہ علم مترشح ہوتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ حضرت قبلہ کو علوم باطن سے رابطہ اور تعلق تھا نسبت مع اللہ اور علم لدنی سے آراستہ وپیراستہ تھے بلند آہنگ بیانات وجدانی تمثیلات اور عرفانی تفصیلات اس خوش اسلوبی سے بیان فرماتے کہ لوگ حیرت میں ڈوب جاتے الوہیت الٰہیہ اور رسالت محمدیہ آخرت اور انسانیت ان چار عنوانات پر اتنا کچھ سیر حاصل اور بتفصیل وعظ فرماتے کہ تین تین گھنٹوں کے بیانات بھی لوگوں پر گراں نہ گذرتے سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے اور شوخ بڑھ جاتا حق گوئی ہمیشہ آپ کی عادت رہی حق کو حکمت کے ساتھ اس طرح پیش فرماتے کہ گویا حکمت آپ کو سکھائی گئی ہے انتہائی سادہ کلام بھی فرماتے اور ساتھ ہی ساتھ اس شعبہ کی اعلیٰ ترین بات بھی ارشاد فرماتے کہ سامعین اور استفادہ کرنے والے حسب ظرف و استعداد فائدہ اٹھاتے بیانات کے بعد دعاؤں کا بھی خاص اہتمام ہوتا بڑی رقت آمیز دعا فرماتے اور جب دعا میں رقت بہت زیادہ ہوجاتی تو دعا کرنا مشکل ہوجاتا اور قال وحال کی یکسانیت شریعت وطریقت کی جامعیت کے سبب اللہ تعالیٰ نے حضرت کو بہت با فیض بنادیا تھا باوجود اس بات کے کہ آپ کسی دینی ادارہ سے فارغ نہ تھے لیکن وہبی علوم سے آراستہ اس با فیض ہستی سے دارالعلوم دیوبند ،مظاہر علوم سہارنپور، ندوۃ العلماء لکھنو جیسے اہم اداروں کے فارغ التحصیل علما بھی استفادہ فرماتے اور حضرت کی صحبت کو غنیمت وسعادت سمجھتے حضرت کا ایک خصوصی وصف یہ تھا کہ حقائق کی یافت میں برسوں سر کھپانے والے تھوڑی دیر میں تشفی بخش جوب لیکر لوٹتے اور مسائل کی گتھیوں میں الجھ کر رہ جانے والے اس اطمینان سے لوٹتے کہ دل وہ دماغ جواب کے نور سے پر نور اور کیف وسرور سے معمور ہوجاتے دعوتی اور اصلاحی اسفار کی ایک طویل فہرست ہے محبوب نگر ، کرنول، نلگنڈہ، وجے واڑہ ،گنٹوراور ان اضلاع سے ملحقہ تعلقہ جات اور قریہ جات میں اس عنوان سے کئی اسفار کئے اور شہر حیدرآباد آخر دنوں میں مستقل آپ کا مرکزبنا ہوا تھا اور آپ کا سفر بھی عجیب نوعیت کا ہوتا تھا سرمائی گرمائی طویل تعطیلات اور دوران سال ملنے والی عام تعطیلات بھی ایمان واحسان کی اشاعت کی خاطر سفر کرنے کیلئے نا کافی ہوتی تھی بلکہ اکثر بلا تنخواہ رخصتیں حاصل کرنا پڑتا تھا دوران سفر ہمیشہ قیام مسجد میں ہوتا لیکن بستر کاخاص اہتمام نہ ہوتا معمولی چادر ہوتی مسجد کے فرش پر رومال اوڑھکر آرام فرماتے کپڑے پیوند لگے ہوئے ہوتے اور غذا میں کبھی کوئی تخصیص نہیں دیکھی گئی کسی سفر میں صاحبزادہ محترم نے تکیہ سرہانے دینے کی کوشش کی تو فرما یہاں کا آرام تو عارضی ہے سفر کی مثالیں مل بھی جائیں تو اس اندازسفر کی مثال ملنی مشکل ہے نرسپاّ نامی جنوبی ہند کا ایک مشہور شیطان ہے جس کو عرف عام میں نرسو کہتے ہیں صرف دیہات میں نہیں بلکہ شہروں کے مسلمان گھرانوں میں اس شیطان سے ڈر کر اس کی پوجا ہوتی تھی جہالت اور لا علمی کی وجہ سے یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلا آرہا تھا حضرت قبلہ کو جب اپنی آبادیوں اور گھرانوں کی اطلاع ملتی تو خود سے بلاطلب وہاں پہنچتے نرسو اور اسکے سامانوں کو نکال باہر کرتے حضرت قبلہ سے ان محنتوں کا کچھ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کے مکانات سے نرسو کے جنازے نکال دئے اور امت مسلمہ کی ایک بڑی جماعت کو خلود فی النار کے مستوجب ہونے سے بچانے کیلئے بحمد للہ کامیاب محنت فرمائی۔
(غیر مسلموں کا قبول اسلام اور تأ ثرات )
قال وحال کی یکسانیت اور سچی تڑپ کے نتیجہ میں امت مسلمہ کے کئی افراد نے جہاں اپنے گناہوں سے سچی پکی توبہ کرکے اپنی عاقبت کامیاب کی وہیں بے شمار غیر مسلم احباب اسلام جیسی لا زوال نعمت سے مالامال ہوئے ایک کلال یلّیا جنہوں نے حضرت کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا انکا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ حضرت کی پرخلوص سچی اور پر کشش زندگی نے مجھے مسلمان بنایا اور اسلام قبول کرتے ہی حضرت نے اپنے جیسا لباس پہنایا قبول اسلام کے بعد ہمہ جہتی ترقی کرتے ہوئے سعودی عرب پہنچا اور اب وہاں کسی مسجد میں امامت بھی نصیب ہوگئی پھر کچھ عرصہ بعد حیدرآباد واپس ہوئے اور چند سال پہلے ان کا انتقال ہوا جن حضرات نے آپ کو دیکھ کر اسلام قبول کیا ان میں سے ایک مولوئی عبدالباسط صاحب ایم ائے بی ایڈ ہیں جن کا حلفیہ بیان حضرت قبلہ کے ایک معتقد نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ جس دن سے اسلام لایا اس تاریخ سے آج تک ان کی اور ان کی اہلیہ کی ایک وقت کی نماز بھی قضاء نہیں ہوئی ہے جنہیں اسلام قبول کر کے برس ہا برس ہو گئے انہی کے بارے میں ایک اور جگہ یوں لکھا کہ قبول اسلام کے بعد رشتہ داروں نے عدالت میں کیس دائر کردیا عدالت میں حاضری ہو گئی سوال کیا کہ تم کس کے ورغلانے اور اشتعال دلانے پر اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر مسلمان ہوئے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر آدمی آدمی کے کہنے سے مسلمان ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں آپ مسلمان ہو جایئے جج دم بخود ہوگیا اسے کوئی جواب نہ بن پڑا الغرض حضرت مسلمانوں میں دعوت اصلاح کے ساتھ ساتھ قرون اولیٰ کی طرح غیر مسلموں میں بھی دعوت ایمان کا فریضہ انجام دیتے تھے
حب نبویﷺ
دو جہاں کے سردار آقا مدنی کریم اسے بے پناہ محبت تھی اور جب کسی کو کسی سے محبت ہو جا تی ہے تو اس کو اسکی متعلقہ چیزوں سے بھی محبت ہو جا تی ہے یہی حال آپ کا بعینہٖ نبئ رحمت ا کے ساتھ تھا آ پ کی ذات سے محبت کے ساتھ آ پ کے آثار سے محبت تھی چنانچہ کچھ اس طرح کا واقعہ راقم الحروف کے بزرگواراکثربیان کرتے ہیں جو حضرت قبلہ سے استفادہ کرنے والوں میں سے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ ایک تبلیغی سفر میں شریک تھے پیدل جماعت تھی راستہ میں ایک اونٹ کو آتے ہوئے دیکھا کہ اسکی پیٹ پر شراب سے بھری ہوئی پکھال رکھی ہوئی ہے بے ساختہ رونے لگے مسلسل آنسو بہ رہے تھے اور سب حیران تھے کہ کیا بات ہے ؟ تھوڑی دیر ہوا حضرت نے فرمایا یہ تو سرکار ا کی سواری ہے اور اس پر اب حرام چیز رکھی ہوئی ہے اس کے بعد آگے بڑھے اور اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد معلوم ہواکہ وہ اونٹ مر گیا ۔
بیعت
ایمانی فیض کے حصول کیلئے راہ سلوک کی اہمیت سب پر عیاں ہے اس عظیم مقصد کے حصول کے متعلق حضرت اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر فرماتے ہیں گھومتے گھومتے آخر نوجوان کی رسائی ہو گئی اور ۲۶ ؍رمضان المبارک ۱۳۵۵ ھ شب شنبہ شب قدر میں ۹؍ بجے اس مبارک رسم کی تکمیل ہو گئی یہ وہی ہستی ہے جسکا نام مبارک محمد حسین اور جن کا سلسلہ مبارک قادریہ چشتیہ ہے اور نوجوان کیلئے حضرت پیر ومرشد ہادی بجائے رسول سب کچھ ہیں۔
وقتاً فوقتاً ناظم صاحب قبلہ علیہ الر حمہ کی خدمت میں حاضری ہوتی رہی حضرت کے وصال کے بعد حضرت کے خلیفہ خواص مولانا سید حسن صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کسب فیض کرنے لگے مستقل حاضری اور فیض کے اہتمام کے پیش نظر اور حضرت کی بے پناہ عنایات کی وجہ سے بیعت خلافت سے نوازا گیا اور سند خلافت عنایت کی گئی تاریخ خلافت کے متعلق حضرت قبلہ نے کلام غلام کے شروع میں حالات غلام کے ذیل میں یوں فرمایا ہے تاریخ خلافت ۷ ؍شعبان المعظم ۱۳۵۹ ھ ہے اور ایک بزرگ حضرت محبوب حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی خلافت حاصل ہے چنانچہ حضرت ارقام فرماتے ہیں نیز حضرت محبوب حسین صاحب نے اپنی نوازش اور کرم سے خلافت سے نوازا تاریخ خلافت ۲۷؍ رجب ۱۳۷۵ ھ ہے ان بزرگوں سے خلعت خلافت سے نوازے جانے کے بعد آپ نے باضابطہ بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا تو آپ کے دست اقدس پر ان گنت گمراہ اور کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والے دارین کی کامیابی حاصل کرنے والے ہو گئے عوام کے ساتھ علماء کی ایک بہت بڑی جماعت نے کسب فیض کیا ۔
آپ کو اپنے بزرگوں سے چاروں سلاسل سے اجازت حاصل تھی تو آپ بھی چاروں سلاسل سے بیعت فرماتے اور چاروں سلاسل کے عرفانی علوم کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی طریق کی خصوصیت سے معمور رتھے احسانی علوم اور تصوف کا مقصد، وصول الیٰ اللہ ہے ،،اور ہر سلسلہ میں یہی بات پیش نظر ہوتی ہے لیکن اس کے حصول کے لئے طریقے مختلف ہیں اور راہ الگ ہو سکتی ہے لیکن منزل ہر ایک کی ایک ہی ہے چنا نچہ کسی ایک پہلو کو ہر سلسلہ میں قدرتی طور پر ترجیح حاصل ہو گئی اور حضرت قبلہ ہر طریق کے ان عرفانی پہلوؤں سے نوازے گئے تھے ۔مثلاسلسلہ قادریہ میں توحیدپر بہت زیادہ زور دیا گیا جیساکہ اس اصل الاصول ہو نے کے اعتبار سے اس کی بہت اہمیت واضح ہے تو حضرت قبلہ بھی تو حید کے سلسلہ میں بہت سخت تھے چنا نچہ حضرت ،،تحدیث نعمت ،، کے عنوان سے کہی گئی نظم کے ایک شعر میں فر ما تے ہیں
فضل حق سے قادری ہوں
اسلئے ہاتھ میں توحید کی تلوار ہے
سلسلۂ چشتیہ میں لوگوں سے باہمی الفت ومودت کو زور دے کر احکام الٰہیہ کو سمجھا جاتا ہے چنا نچہ حضرت کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی۔اسی نظم کے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
شکر مولیٰ ہے کہ میں چشتی بھی ہوں
دل میں الفت اور زباں پر پیار ہے
سلسلۂ نقشبندیہ میں رسول ا کی سنتوں کا اہتمام بہت ہوتا تھا ۔ایسے ہی آپ کو سنت رسول ا سے عقیدت و احترام اور عمل کی توفیق من جانب اللہ حاصل تھی فرماتے ہیں ۔
نقشبندی ہوں بفیض مصطفی
اس لئے سب سنتوں سے پیار ہے
سلسلۂ سہروردیہ میں جیساکہ دنیائے فانی کی حیثیت کو سمجھا کر دار آخرت کی فکر پیدا کرنے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے تو آ پ کو یہ چیز حاصل تھی اسکے متعلق فرماتے ہیں ۔
اور بفضل رب سہروردی بھی ہوں
اس لئے دنیا سے دل بیزار ہے
سلسلۂ کمالیہ میں وحدت الوجود اور ہر چیز سے خالق کے تصور حاصل کرنے پر زور دیا جاتا تھا ،اس نعمت کے حصول پر فرماتے ہیں۔
ہوں کمالیہ بفیض اولیاء
آنکھ میں موجود کا دیدار ہے
سلسلۂ حسنی اور حسینی جس سے حضرت بلا واسطہ منسوب تھے قرآنی تعلیمات کا ادراک اور اس میں محو ہوجانے کا اہتمام ہوتا تھا جیسا کہ حضرت حسین صاحب قادریؒ کے اس فرمان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اکثر بغیر کسی توجہ کے اشیاء کو دیکھتے ہی قرآنی آیات دل میں اترجاتی تھیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آفاق و انفس میں قرآن کھلا ہوا ہے ۔خود حضرت فرماتے تھے کہ اللہ کے فضل سے علم تصوف واحسان کو قرآن مجید کی ہر آیت سے ثابت کرسکتے ہیں ۔تحدیث نعمت کے ایک شعر میں اس کا اظہار فرمایا ہے کہ۔
اور حسنی اور حسینی بھی ہوں
دل مرا قرآن سے سرشار ہے
خلفاء :۔
جہاں آپ کے دست اقدس پر بیعت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے وہیں آپ کے خلفاء کی بھی ایک طویل فہرست ہے جن میں بعض کانام یہاں ذکر کرتے ہیں جن میں اولاً آپ کے چار صاحبزادوں کے نام پہلے علی الترتیب ذکر کئے جاتے ہین جو ملک کی معروف و مشہور درسگاہوں سے فراغت کے بعد ملک وبیرون ملک اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور دین وملت کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے آمین ۔
مفسر قرآن:۔ حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمن صاحب قاسمی و ندوی
صاحبزادۂاکبروجانشین وخطیب مسجد خدیجہ ٹولی چوکی حیدرآباد
شیخ الحدیث :۔ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الر حمن صاحب مفتاحی
صاحبزادہ وخطیب جامع مسجد ملے پلی حیدرآباد
فقیہ الاسلام:۔ حضرت مولانا مفتی شاہ محمد نوال الر حمن صاحب مفتاحی
صاحبزادہ وخطیب مسجد نور شکاگو امریکہ
استاد ادب:۔ حضرت مولانا شاہ محمد ظلال الرحمٰن صاحب فلاحی
صاحبزادہ و خطیب مسجد موزہ بنت ،ٹولی چوکی حیدرآباد
(مرحوم ) شیخ محمد حنیف صاحب
عبد الرحیم صاحب درد (مرحوم )
مولانا عبدالرزاق صاحب قاسمی مدظلہ ونپرتی
عبد الباسط صاحب موظف لکچرر محبوب نگر
عبدالقیوم صاحب موظف لکچرر محبوب نگر
ڈاکٹر شیخ چاند صاحب مکتھل وغیرہ
تبلیغ واشاعت واحسان کے سلسلہ میں حضرت قبلہ نے جہاں ،جسمانی،فکری ،لسانی،توانائیاں تابحد امکان صرف کیں ،وہیں شعری، تصنیفی، وتالیفی صلاحیتوں سے کام لینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرمایا قابل ذکر بات ہے کہ آپ کی شعری صلاحیتیں کسی سے تلمذ کی محتاج نہیں رہی ،البتہ جماعت منشی میں علامہ شبلی علیہ الرحمہ کی کتاب۔، شعر العجم ، سے شاعری پر ضروری معلومات حاصل کیں اور اس فن کا استعمال با مقصد میں آپ کو کامیابی ملی ،چنانچہ دین ونعمت الٰہیہ ،تعلیم وتربیت ،کا شائد ہی کوئی عنوان ہو جس کا احصاء آپ کے اشعار میں نہ ہوا ہو ۔
حضور پر نور سرور کونین ا کی مدح میں شعراء کرام کی خیال آفرینی کا تنوع ،اظہار محبت کا سوز وگداز،اور وابستگئ دامان رسالت پر فخر وناز، بے شک نعت گوئی کے عمومی مضامین ہیں ،انہیں عاشقان رسول ا میں ایک حضرت قبلہ کی ذات تھی اس نوع کی تصنیف کلام غلام کے نام سے مشہور ہے ۔
تصانیف کے تفصیلی تعارف کے بجائے مشہور کتابوں کی ایک فہرست ذکر کی جاتی ہے ۔
کلام غلام۔ منظوم تصنیف
آئینۂ غلام۔ خود نوشت سوانح حیات
مکتوبات غلام
ملفوظات غلام
تبرکات حرمین
اسرار خطبۂ نکاح
کلمۂ طیبہ
مقام انسانیت
تنویر سبع مثانی
مکاتیب عرفانی
نجات اور درجات کا راستہ
متاع کمال
ان کتابوں میں توحید و رسالت اور تصوف سے متعلق پیچیدہ مباحث کو آسان اور عام فہم اسلوب میں سمجھایا گیا ،ایک عام آدمی کے ذہنی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہر بات کو مثالو ں اور مشاہدوں سے
معقولات کو محسوسات سے واضح کیا گیا ،اس کے ساتھ ساتھ ہر سطر سے بے پناہ علم کے دریا جھلکتے ہیں
وفات ۱۴؍ محرم الحرام ۱۴۱۰ ھ م ۱۷؍ اگست ۱۹۸۹ ء محلہ ٹپہ چبوترہ حیدرآباد مکان نمبر ۴۳؍۶۱۰،۵،۱۳، میں فجر کے وقت اس مرد کامل اور عارف باللہ کا وصال ہوا معظم جاہی مارکٹ کے قریب فرمان واڑی قبرستان میں آ پ کے محترم شیخ حضرت شاہ محمد حسین صاحب ؒ کے پائیں حسب خواہش تدفین عمل میں آئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
قادریت اور دیگر سلاسل روحانی کے فیض یافتہ اور ہندوستان میں خانوادہ کمالیہ کے اس چشم و چراغ نے ۷۲ ؍سال ۶؍ ماہ کی عمر پائی۔اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور آپ کی تعلیمات جو دراصل قرآن وحدیث کی تشریح ہے امت میں عام فرمائے آمین
Dec 28 2014
Introduction – Sufi Sahab RA
Introduction Sufi Ghulam Mohammed Sahab RA
حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحب علیہ الرحمہ:
عالم ہست وبود میں اللہ کی سنت عامہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو اس عالم ہست وبود میں وجود سے سرفراز فرمانے کے بعد ابدی کامیابی اور اخروی نجات کا سامان بھی مہیا فرمادیا اس کے لئے کتاب و صاحب کتاب دو چیزیں پورے اہتمام کے ساتھ روز ازل سے نازل کی جاتی رہیں ۔ہدایت کے لئے یہ دو نوں چیزیں بڑی اہم اور بنیادی ہیں لیکن جب ہم کچھ غور کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے مقابلہ میں صاحب کتاب کی زیادہ اہمیت ہے اس لئے کہ جب کبھی امت میں گمراہی عام ہونے لگے تو لوگ اپنے خالق کو بھول کر کفر وشرک کے ذریعہ خلود فی النارکے مستحق ہونے لگے تو اللہ نے پیغمبروں اور اس کے ساتھ آسمانی کتاب یا صحیفے نازل فرمائے اور کبھی بغیر کتاب کے صرف انبیاء اور رسل کو اس عظیم مقصد کیلئے مبعوث فرمایا لیکن پوری تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ملتا کہ افراد اور صاحب کتاب کے بغیر صرف کتاب کو نازل کیا ہو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افراد کی بہت اہمیت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کئی ایک آیا ت سے افراد کی اہمیت واضح ہوتی ہے چنانچہ صراط مستقیم کی نشاندہی کی گئی تو افراد سے کی گئی فرمایا صراط الذین انعمت علیہم ۔اور اتباع کا حکم ملا تو افراد کے ذریعہ ارشاد ربانی ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَا تَّبِعُوْنِیْ۔مزید اَطِیْعُوْا اﷲَ وَاطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۔ کسی کو اپنا رہبر اور پیشوا بنانا مقصود ہو تو افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا وَاتَّبِعُ السَّبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۔چنانچہ خاتم المرسلین ا کے صرف چہرۂ انور کو دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہونے والے صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد ہے۔ نبئ رحمت ا کے بعد بھی اس دنیا میں ہدایت کے عام کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے چنندہ بندوں کو استعمال فرمایا مختلف میدانوں میں افراد کی اشاعت دین کے حوالہ سے نمایاں خدمات رہیں ۔ مفسرین کرام ۔محدثین عظام ۔ائمۂ مجتہدین وغیرہ کی جہاں بے پناہ خدمات کا اس امت پر احسان عظیم ہے وہیں شریعت و طریقت کے ماہرمشائخین اور اولیاء عظام جن کے سلسلہ کو اللہ نے فروغ دیا وہ چار مشہور سلسلے ہیں سلاسل اربعہ میں سلسلۂ قادریہ کی کیا تعلیمات ہیں وہ محتاج تعارف نہیں اسی سلسلہ قادریہ سے منسلک اور روح رواں سلسلہ یوں سمجھنا چاہئے کہ قادریت کی ایک شاخ ہندوستان میں ،، سلسلہ کمالیہ ،، ہے۔در اصل سلسلہ قادریہ کے مشائخ بخارا سے ہندوستان تشریف لائے کڑپہ اور رائچوٹی سے ٹیپو سلطان شہید کی طلب پر قادریت کا یہ فیضان سلسلہ کے پانچویں پشت کے ایک مشہور بزرگ کمال الدین ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ ریاست میسور پہنچا بعدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شاہ محمود اللہ بخاری کے ذریعہ حیدرآباد دکن کو معمور فرمایا ۔مؤ خر الذکر بزرگ کے خلفاء میں ایک مشہور خلیفہ حضرت شاہ کمال جو( مچھلی والے شاہ )صاحب کے نام سے معروف ہیں اور آپ سے کسب فیض کرنے والوں میں حضرت محمد حسین صاحب (ناظم عدالت سمستھان ونپرتی) رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں یہی وہی ناشر سر ظہور شخصیت ہیں کہ آنمحترم کا وجود سر زمین دکن میں کتاب وسنت کے علوم صحیحہ اسرار ومعارف اور حقائق کا ایک ابر کرم تھا جو عوام ۔و خواص ، علماء ،و مشائخین ، اور ۔امراء ۔ورؤ ساء۔
پر برستا رہا ہر ایک نے اپنے ظرف و استعداد کے موافق استفادہ کیا ۔اس عظیم المرتبت اور بزرگ شخص کے خلفاء کے بارے میں محترم عبدالقیوم صاحب جاوید مدظلہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت کے خلفاء میں حضرت سید حسن قادری مولانا مناظر احسن گیلانی حضرت الیاس برنی ڈاکٹرمیر ولی الدین رحمھم اللہ تعالیٰ شامل ہیں (۱)اور ہم عارف با اللہ ،اہل دل بزرگ ،واقف از راز ملکوت وجبروت ،واعظ با عمل ،صوفی صافی ،حامئ سنت ، ماحئ بدعت ، ستودہ صفات کی حامل شخصیت مولانا غلام محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کچھ باتیں صفحۂ قرطاس پر لانا چاہتے ہیں ، انھوں نے بھی اسی سر چشمۂ فیضان سے انوار و فیوض و تعلیم و تربیت حاصل کی اور اکتساب فیض کیا ہے جس کا تذکرہ آنمحترم نے اپنی مشہور منظوم تصنیف ،،کلام غلام ،، کی ابتداء میں کیا ہے کہ احقر حضرت مولانا محمد حسین صاحب ۔کی خدمت میں حاضر ہوا اور شب شنبہ شب قدر رمضان المبارک ۱۳۵۵ ھ میں بیعت سے سرفراز ہوا۔
(2)تفصیلی تعارف وخدمات کا تذکرہ کرنے سے پہلے جامع اور مختصر تعارف شہر کے مشہور واعظ با عمل امیر ملت اسلامیہ اندھرا پردیش حضرت مولانا حمید الدین عاقل ؔ حسامی دامت برکاتہم العالیہ کے حوالہ سے پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔فرماتے ہیں کہ موصوف ایک صاحب سلسلہ بزرگ ہیں جن کے ہزاروں مریدین اور معتقدین مختلف مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔مولانا موصوف کے دست حق پرست پر ان گنت گمراہوں اور کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والوں نے بیعت کرکے اپنی عاقبت روشن کی مولانا بڑے خوش اخلاق اور سادگی پسند ،متواضع ،منکسر المزاج ،اور خاموش دین و ملت کے خدمت گذار ہیں (۳) حضرت کے ایک خلیفہ عبدالقیوم جاوید مدظلہ ،نے ان وقیع الفاظ میں اپنے مرشد روحانی کا تذکرہ کیا ہے سلسلۂ کمالیہ کا چشم و چراغ ایک اللہ والا جس کی ہر حرکت ،،لا الٰہ الا اللہ ،، کی وجدانی تشریح یا پھر محمد رسول اللہ کی عملی توضیح ہے جس کی سفر پسند طبیعت کے لیئے قطرۂ سیماب کی تشبیہ پھیکی اور دقت طلبی کے سامنے چاند پیماؤں کے عزائم ماند ہیں جس کی برق نگاہی نے کتنی ہی آنکھوں کو بصیرت عطاء کی ،جس کے جذب محبت نے کتنے ہی دلوں کو مسخر کر رکھا ہے اور جس کی مسیحانفسی نے کتنے ہی مردہ دلوں کو حیات نو بخشی ہے۔ (۴) اسی عارف با للہ کی خاموش انقلابی زندگی کے کچھ اہم گوشے واضح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ تفصیلات ایک مستقل تصنیف کی متقاضی ہیں اس بندۂ کامل کے تعارف میں سب سے پہلے انمحترم کا اپنے تعارف کے حوالہ سے کہا گیا ایک شعر نقل کیا جاتا ہے
میں غلام ہوں مجھے علم کیا جو بناے وہ وہی بن گیا
مجھے جانتے تو ہیں سب مگر میں ابھی ہوں پردۂ راز میں
حلیہ،سوانح نگاروں کا یہ اسلوب رہا ہے کہ وہ بھی کسی معزز شخصیت کا سوانحی خاکہ میں مرتب کرتے ہیں تو جہاں اس کی سیرت باطنہ اور خدمات اور کارنامے ذکر کرتے ہیں تو وہیں وہ ظاہری شکل وصورت حلیہ اور خاندانی معیار کا تذکرہ بھی بہت ہی اہمیت کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے ہم خانوادۂ صوفی کے چشم و چراغ حضرت قبلہ کے خلف اکبر وجانشین کے حوالے سے حضرت کا حلیہ بیان کرتے ہیں ۔
آنکھوں میں نور حق کی چمک ،چہرہ بارعب ونورانی،سر میں خم دار زلفیں ،بھوئیں پیوستہ اور گھنی ، ناک اونچی قدسی ،گندمی رنگ ،منہ تراشیدہ ،ریش مبارک معیار سنت کو دکھانے والی ،قد موزوں ، معتدل القامت،کسب ورہب دونوں سے بنابنایا ورزشی جسم ،سادہ لباس میں ملبوسی ،کلی دار کرتہ پاجامہ ، اکثر وبیشتر پیوند لگے ہوئے کپڑے،سر پر گول ٹوپی،مسنون عمامہ ،ہاتھ کشادہ،دل سخی ،نظر وسیع ، سینہ انوار کا گنجینہ تھا ، اور ضروری اشیا ہمیشہ ساتھ رہتی تھیں ،زندگی مرتب وبا سلیقہ تھی ،حکمت باطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،حکمت ظاہری سے بقدر ضرورت واقفیت تھی ،ولادت اپنی خود نوشت سوانح حیات کے مطابق شب جمعہ رجب ۱۳۳۷ ھ ۹ بجے حیدرآباد دکن کے ایک گوشہ تعلقہ کلواکرتی کے ایک موضع کوٹرہ میں ولادت با سعادت ہوئی ، چند سال اسی موضع میں قیام رہا ،اس کے بعد مغل گدہ میں قیام عمل میں آیا ،یہاں چند دنوں کی سکونت ۱۳۸۹ ھ رمضان المبارک م ڈسمبر ۱۹۶۹ ء میں علم وادب کے مرکز حیدرآباد منتقل ہوئے ،اور مستقل قیام حیدرآباد میں رہا۔تعلیم؛قرآن مجید کی تعلیم اپنے نانا حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب خطیب وقاضی مغل گدہ سے گھر پر حاصل کی ، قرآن مجید کی تعلیم شروع کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے لبریز مہینہ رمضان المبارک سایہ فگن ہوا ۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ رمضان المبارک کوقرآن مجید سے خصوصی نسبت ہے چنانچہ آپ ہر دن سحرکرنے کے بعد رضائی اوڑھے ہوئے قرآن مجید لیکر نانا حضرت کے روبرو بیٹھ جاتے اور پڑھنے لگتے اور وہ سنتے جہاں غلطی ہوتی بتا دیتے اس طرح پورے رمضان میں قرآن مجید کی تکمیل ہوگئی ۔اس کے بعد ابتدائی تعلیم مدرسہ وسطانیہ مغل گدہ میں ہوئی جہاں اپ نے کئی ایک نامور اساتذہ سے استفادہ کیا ۔ اپریل۱۹۳۷ ء میں مڈل بورڈ امتحان میں شرکت کرکے کامیابی حاصل کی ۔چند دنوں تک تعلیمی سلسلہ موقوف رہا اس کے بعد مولانا حمید الدین صاحب قمر فاروقی کے ادارہ شرقیہ میں شریک ہوکر رجب ۱۹۳۷ ء میں امتحان جماعت منشی پنجاب کی تیاری شروع کردی۔ اس کے بعد اگلے سال ۱۶؍ صفر ۱۳۵۷ ھ م ۱۴؍ اپریل ۱۹۳۸ ء میں امتحان دیا اور بدرجۂ دوم کامیابی حاصل کی ۔
سفر لا ہور منشی پنجاب کے امتحان کیلئے
سفر لاہور کی مکمل داستان سفر بڑے دلچسپ انداز میں آئینۂ غلام میں بیان کیا ہے جو عبرت سے پر اور نصیحت آمیز ہے برائے دہلی لاہور کے سفر کا آغاز ہوا اور دہلی میں کچھ دیر قیام کے دوران حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت صوفی سرمدرحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینے کو اپنی سعادت سمجھ کر تشریف لے گئے ،اس کے بعد لاہور پہونچے اور یہاں صاحب کشف المحجوب حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی اور کچھ نوافل کی ادائیگی کا اہتمام مزار سے قریب واقع ایک مسجد میں کیا گیا ،
شاعر مشرق علامہ اقبال کی مزار پر حاضری
پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مزار پر حاضری دی شروع سے آپ علامہ اقبال سے اور آپ کے اشعار سے روح قرآن کے دنیاء فانی میں عام ہونے کے فکر اقبالی سے واقف تھے لیکن انمحترم جس دن لا ہور پہنچے اسی دن شاعر اسلام علامہ اقبال کا انتقال ہوا ،اس کی اطلاع آپ کو دوسرے دن اس وقت ہوئی جب کہ لاہور کے چند جوان و بوڑھے مرثیہ پڑھتے ہوئے سڑک سے گذر رہے تھے کہ
ہائے مر گیا اقبال پیارا
جمعہ کے دن شاعر اسلام کی مزار پر حاضری کیلئے لاہور کی جامع مسجد تشریف لے گئے جس کی در ودیوار سے آج بھی شاہان سلف کی عظمت ٹپکتی ہے جہاں سیڑہیوں سے متصل تازہ قبر جس پر پھول پڑے ہوئے تھے چند تختیاں لٹک رہی تھیں جس پر انتہائی موزوں اشعار کندہ کئے ہوئے تھے اس زیارت کے موقع پر اپنے احساسات کو کس عجیب پیرائے سے بیان میں ظاہر کیا ہے ہم بعینہ اس کو یہاں نقل کرنا چاہتے ہیں نوجوان اور اس کے ساتھیوں نے قرآن ختم کیا اور اقبال کی روح کو بخشا گیا مگر وہ اس ثواب کو کیا کرے جو قرآن کو سارے عالم میں جاری وساری دیکھنا چاہتا تھا اگر ایسا ہوتا تو اسکی روح قبر میں بھی خوشی سے وجد کرنے لگ جاتی اور یقیناً اس ایصال سے ہزاروں درجہ بڑھکر ثواب اسکو اس وقت ملتا جبکہ اسکے پیام پر عمل کیا جاتا
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اس پرجس نے بادہ کہن کو جام نو میں پیش کیا جس نے محمد ا کے رنگ کو رومی و غزالی کی روح سے حاصل کیا اور تفکر کی پچکاری سے سارے عالم پر چھڑک دیا
ملازمت
لاہور سے منشی پنجاب کے امتحان میں کامیابی کے ساتھ وطن لوٹنے کے بعد دو سال سنت تجارت میں مشغولی رہی اس کے بعد ۲ ؍ جون ۱۹۴۲ ء کو مدرسہ تحتانیہ بادے پلی جڑ چلہ پر ابتدائی تقررہوا درس وتدریس کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہ سلسلہ صرف ملازمت کی حد تک نہیں رہا بلکہ ملازمت کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام بھی مستقل ہوتا رہا چنانچہ مزاج کی دینداری اور موثر دعوت وتبلیغ کی بنا پر حاسدین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ۲۳ ؍مقامات پر تبادلے ہوتے رہے جس میں مریال گوڑہ ، مندڑی کلاں ، مغل گدہ ، اور نلگنڈہ ،مقاما ت شامل ہیں ان ۲۳؍ مقامات پر ۱۳؍ سال تین ماہ ۲۴؍ دن خدمات انجام دیکر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے
دعوتی واصلاحی سر گرمیاں
علم ظاہر کے اعتبار سے اگرچہ آپ کو کسی دینی ادارہ سے فراغت نہ تھی لیکن علوم ظاہرہ کے حاملین و فارغین سے کم بھی نظر نہ آتے تھے جیسا کہ آپ کے بیانات اور مکتوب وتصانیف سے بے پناہ علم مترشح ہوتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ حضرت قبلہ کو علوم باطن سے رابطہ اور تعلق تھا نسبت مع اللہ اور علم لدنی سے آراستہ وپیراستہ تھے بلند آہنگ بیانات وجدانی تمثیلات اور عرفانی تفصیلات اس خوش اسلوبی سے بیان فرماتے کہ لوگ حیرت میں ڈوب جاتے الوہیت الٰہیہ اور رسالت محمدیہ آخرت اور انسانیت ان چار عنوانات پر اتنا کچھ سیر حاصل اور بتفصیل وعظ فرماتے کہ تین تین گھنٹوں کے بیانات بھی لوگوں پر گراں نہ گذرتے سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے اور شوخ بڑھ جاتا حق گوئی ہمیشہ آپ کی عادت رہی حق کو حکمت کے ساتھ اس طرح پیش فرماتے کہ گویا حکمت آپ کو سکھائی گئی ہے انتہائی سادہ کلام بھی فرماتے اور ساتھ ہی ساتھ اس شعبہ کی اعلیٰ ترین بات بھی ارشاد فرماتے کہ سامعین اور استفادہ کرنے والے حسب ظرف و استعداد فائدہ اٹھاتے بیانات کے بعد دعاؤں کا بھی خاص اہتمام ہوتا بڑی رقت آمیز دعا فرماتے اور جب دعا میں رقت بہت زیادہ ہوجاتی تو دعا کرنا مشکل ہوجاتا اور قال وحال کی یکسانیت شریعت وطریقت کی جامعیت کے سبب اللہ تعالیٰ نے حضرت کو بہت با فیض بنادیا تھا باوجود اس بات کے کہ آپ کسی دینی ادارہ سے فارغ نہ تھے لیکن وہبی علوم سے آراستہ اس با فیض ہستی سے دارالعلوم دیوبند ،مظاہر علوم سہارنپور، ندوۃ العلماء لکھنو جیسے اہم اداروں کے فارغ التحصیل علما بھی استفادہ فرماتے اور حضرت کی صحبت کو غنیمت وسعادت سمجھتے حضرت کا ایک خصوصی وصف یہ تھا کہ حقائق کی یافت میں برسوں سر کھپانے والے تھوڑی دیر میں تشفی بخش جوب لیکر لوٹتے اور مسائل کی گتھیوں میں الجھ کر رہ جانے والے اس اطمینان سے لوٹتے کہ دل وہ دماغ جواب کے نور سے پر نور اور کیف وسرور سے معمور ہوجاتے دعوتی اور اصلاحی اسفار کی ایک طویل فہرست ہے محبوب نگر ، کرنول، نلگنڈہ، وجے واڑہ ،گنٹوراور ان اضلاع سے ملحقہ تعلقہ جات اور قریہ جات میں اس عنوان سے کئی اسفار کئے اور شہر حیدرآباد آخر دنوں میں مستقل آپ کا مرکزبنا ہوا تھا اور آپ کا سفر بھی عجیب نوعیت کا ہوتا تھا سرمائی گرمائی طویل تعطیلات اور دوران سال ملنے والی عام تعطیلات بھی ایمان واحسان کی اشاعت کی خاطر سفر کرنے کیلئے نا کافی ہوتی تھی بلکہ اکثر بلا تنخواہ رخصتیں حاصل کرنا پڑتا تھا دوران سفر ہمیشہ قیام مسجد میں ہوتا لیکن بستر کاخاص اہتمام نہ ہوتا معمولی چادر ہوتی مسجد کے فرش پر رومال اوڑھکر آرام فرماتے کپڑے پیوند لگے ہوئے ہوتے اور غذا میں کبھی کوئی تخصیص نہیں دیکھی گئی کسی سفر میں صاحبزادہ محترم نے تکیہ سرہانے دینے کی کوشش کی تو فرما یہاں کا آرام تو عارضی ہے سفر کی مثالیں مل بھی جائیں تو اس اندازسفر کی مثال ملنی مشکل ہے نرسپاّ نامی جنوبی ہند کا ایک مشہور شیطان ہے جس کو عرف عام میں نرسو کہتے ہیں صرف دیہات میں نہیں بلکہ شہروں کے مسلمان گھرانوں میں اس شیطان سے ڈر کر اس کی پوجا ہوتی تھی جہالت اور لا علمی کی وجہ سے یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلا آرہا تھا حضرت قبلہ کو جب اپنی آبادیوں اور گھرانوں کی اطلاع ملتی تو خود سے بلاطلب وہاں پہنچتے نرسو اور اسکے سامانوں کو نکال باہر کرتے حضرت قبلہ سے ان محنتوں کا کچھ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کے مکانات سے نرسو کے جنازے نکال دئے اور امت مسلمہ کی ایک بڑی جماعت کو خلود فی النار کے مستوجب ہونے سے بچانے کیلئے بحمد للہ کامیاب محنت فرمائی۔
(غیر مسلموں کا قبول اسلام اور تأ ثرات )
قال وحال کی یکسانیت اور سچی تڑپ کے نتیجہ میں امت مسلمہ کے کئی افراد نے جہاں اپنے گناہوں سے سچی پکی توبہ کرکے اپنی عاقبت کامیاب کی وہیں بے شمار غیر مسلم احباب اسلام جیسی لا زوال نعمت سے مالامال ہوئے ایک کلال یلّیا جنہوں نے حضرت کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا انکا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ حضرت کی پرخلوص سچی اور پر کشش زندگی نے مجھے مسلمان بنایا اور اسلام قبول کرتے ہی حضرت نے اپنے جیسا لباس پہنایا قبول اسلام کے بعد ہمہ جہتی ترقی کرتے ہوئے سعودی عرب پہنچا اور اب وہاں کسی مسجد میں امامت بھی نصیب ہوگئی پھر کچھ عرصہ بعد حیدرآباد واپس ہوئے اور چند سال پہلے ان کا انتقال ہوا جن حضرات نے آپ کو دیکھ کر اسلام قبول کیا ان میں سے ایک مولوئی عبدالباسط صاحب ایم ائے بی ایڈ ہیں جن کا حلفیہ بیان حضرت قبلہ کے ایک معتقد نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ جس دن سے اسلام لایا اس تاریخ سے آج تک ان کی اور ان کی اہلیہ کی ایک وقت کی نماز بھی قضاء نہیں ہوئی ہے جنہیں اسلام قبول کر کے برس ہا برس ہو گئے انہی کے بارے میں ایک اور جگہ یوں لکھا کہ قبول اسلام کے بعد رشتہ داروں نے عدالت میں کیس دائر کردیا عدالت میں حاضری ہو گئی سوال کیا کہ تم کس کے ورغلانے اور اشتعال دلانے پر اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر مسلمان ہوئے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر آدمی آدمی کے کہنے سے مسلمان ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں آپ مسلمان ہو جایئے جج دم بخود ہوگیا اسے کوئی جواب نہ بن پڑا الغرض حضرت مسلمانوں میں دعوت اصلاح کے ساتھ ساتھ قرون اولیٰ کی طرح غیر مسلموں میں بھی دعوت ایمان کا فریضہ انجام دیتے تھے
حب نبویﷺ
دو جہاں کے سردار آقا مدنی کریم اسے بے پناہ محبت تھی اور جب کسی کو کسی سے محبت ہو جا تی ہے تو اس کو اسکی متعلقہ چیزوں سے بھی محبت ہو جا تی ہے یہی حال آپ کا بعینہٖ نبئ رحمت ا کے ساتھ تھا آ پ کی ذات سے محبت کے ساتھ آ پ کے آثار سے محبت تھی چنانچہ کچھ اس طرح کا واقعہ راقم الحروف کے بزرگواراکثربیان کرتے ہیں جو حضرت قبلہ سے استفادہ کرنے والوں میں سے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ ایک تبلیغی سفر میں شریک تھے پیدل جماعت تھی راستہ میں ایک اونٹ کو آتے ہوئے دیکھا کہ اسکی پیٹ پر شراب سے بھری ہوئی پکھال رکھی ہوئی ہے بے ساختہ رونے لگے مسلسل آنسو بہ رہے تھے اور سب حیران تھے کہ کیا بات ہے ؟ تھوڑی دیر ہوا حضرت نے فرمایا یہ تو سرکار ا کی سواری ہے اور اس پر اب حرام چیز رکھی ہوئی ہے اس کے بعد آگے بڑھے اور اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد معلوم ہواکہ وہ اونٹ مر گیا ۔
بیعت
ایمانی فیض کے حصول کیلئے راہ سلوک کی اہمیت سب پر عیاں ہے اس عظیم مقصد کے حصول کے متعلق حضرت اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر فرماتے ہیں گھومتے گھومتے آخر نوجوان کی رسائی ہو گئی اور ۲۶ ؍رمضان المبارک ۱۳۵۵ ھ شب شنبہ شب قدر میں ۹؍ بجے اس مبارک رسم کی تکمیل ہو گئی یہ وہی ہستی ہے جسکا نام مبارک محمد حسین اور جن کا سلسلہ مبارک قادریہ چشتیہ ہے اور نوجوان کیلئے حضرت پیر ومرشد ہادی بجائے رسول سب کچھ ہیں۔
وقتاً فوقتاً ناظم صاحب قبلہ علیہ الر حمہ کی خدمت میں حاضری ہوتی رہی حضرت کے وصال کے بعد حضرت کے خلیفہ خواص مولانا سید حسن صاحب قبلہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کسب فیض کرنے لگے مستقل حاضری اور فیض کے اہتمام کے پیش نظر اور حضرت کی بے پناہ عنایات کی وجہ سے بیعت خلافت سے نوازا گیا اور سند خلافت عنایت کی گئی تاریخ خلافت کے متعلق حضرت قبلہ نے کلام غلام کے شروع میں حالات غلام کے ذیل میں یوں فرمایا ہے تاریخ خلافت ۷ ؍شعبان المعظم ۱۳۵۹ ھ ہے اور ایک بزرگ حضرت محبوب حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی خلافت حاصل ہے چنانچہ حضرت ارقام فرماتے ہیں نیز حضرت محبوب حسین صاحب نے اپنی نوازش اور کرم سے خلافت سے نوازا تاریخ خلافت ۲۷؍ رجب ۱۳۷۵ ھ ہے ان بزرگوں سے خلعت خلافت سے نوازے جانے کے بعد آپ نے باضابطہ بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا تو آپ کے دست اقدس پر ان گنت گمراہ اور کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والے دارین کی کامیابی حاصل کرنے والے ہو گئے عوام کے ساتھ علماء کی ایک بہت بڑی جماعت نے کسب فیض کیا ۔
آپ کو اپنے بزرگوں سے چاروں سلاسل سے اجازت حاصل تھی تو آپ بھی چاروں سلاسل سے بیعت فرماتے اور چاروں سلاسل کے عرفانی علوم کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی طریق کی خصوصیت سے معمور رتھے احسانی علوم اور تصوف کا مقصد، وصول الیٰ اللہ ہے ،،اور ہر سلسلہ میں یہی بات پیش نظر ہوتی ہے لیکن اس کے حصول کے لئے طریقے مختلف ہیں اور راہ الگ ہو سکتی ہے لیکن منزل ہر ایک کی ایک ہی ہے چنا نچہ کسی ایک پہلو کو ہر سلسلہ میں قدرتی طور پر ترجیح حاصل ہو گئی اور حضرت قبلہ ہر طریق کے ان عرفانی پہلوؤں سے نوازے گئے تھے ۔مثلاسلسلہ قادریہ میں توحیدپر بہت زیادہ زور دیا گیا جیساکہ اس اصل الاصول ہو نے کے اعتبار سے اس کی بہت اہمیت واضح ہے تو حضرت قبلہ بھی تو حید کے سلسلہ میں بہت سخت تھے چنا نچہ حضرت ،،تحدیث نعمت ،، کے عنوان سے کہی گئی نظم کے ایک شعر میں فر ما تے ہیں
فضل حق سے قادری ہوں
اسلئے ہاتھ میں توحید کی تلوار ہے
سلسلۂ چشتیہ میں لوگوں سے باہمی الفت ومودت کو زور دے کر احکام الٰہیہ کو سمجھا جاتا ہے چنا نچہ حضرت کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی۔اسی نظم کے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
شکر مولیٰ ہے کہ میں چشتی بھی ہوں
دل میں الفت اور زباں پر پیار ہے
سلسلۂ نقشبندیہ میں رسول ا کی سنتوں کا اہتمام بہت ہوتا تھا ۔ایسے ہی آپ کو سنت رسول ا سے عقیدت و احترام اور عمل کی توفیق من جانب اللہ حاصل تھی فرماتے ہیں ۔
نقشبندی ہوں بفیض مصطفی
اس لئے سب سنتوں سے پیار ہے
سلسلۂ سہروردیہ میں جیساکہ دنیائے فانی کی حیثیت کو سمجھا کر دار آخرت کی فکر پیدا کرنے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے تو آ پ کو یہ چیز حاصل تھی اسکے متعلق فرماتے ہیں ۔
اور بفضل رب سہروردی بھی ہوں
اس لئے دنیا سے دل بیزار ہے
سلسلۂ کمالیہ میں وحدت الوجود اور ہر چیز سے خالق کے تصور حاصل کرنے پر زور دیا جاتا تھا ،اس نعمت کے حصول پر فرماتے ہیں۔
ہوں کمالیہ بفیض اولیاء
آنکھ میں موجود کا دیدار ہے
سلسلۂ حسنی اور حسینی جس سے حضرت بلا واسطہ منسوب تھے قرآنی تعلیمات کا ادراک اور اس میں محو ہوجانے کا اہتمام ہوتا تھا جیسا کہ حضرت حسین صاحب قادریؒ کے اس فرمان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اکثر بغیر کسی توجہ کے اشیاء کو دیکھتے ہی قرآنی آیات دل میں اترجاتی تھیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آفاق و انفس میں قرآن کھلا ہوا ہے ۔خود حضرت فرماتے تھے کہ اللہ کے فضل سے علم تصوف واحسان کو قرآن مجید کی ہر آیت سے ثابت کرسکتے ہیں ۔تحدیث نعمت کے ایک شعر میں اس کا اظہار فرمایا ہے کہ۔
اور حسنی اور حسینی بھی ہوں
دل مرا قرآن سے سرشار ہے
خلفاء :۔
جہاں آپ کے دست اقدس پر بیعت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے وہیں آپ کے خلفاء کی بھی ایک طویل فہرست ہے جن میں بعض کانام یہاں ذکر کرتے ہیں جن میں اولاً آپ کے چار صاحبزادوں کے نام پہلے علی الترتیب ذکر کئے جاتے ہین جو ملک کی معروف و مشہور درسگاہوں سے فراغت کے بعد ملک وبیرون ملک اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور دین وملت کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے آمین ۔
مفسر قرآن:۔ حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمن صاحب قاسمی و ندوی
صاحبزادۂاکبروجانشین وخطیب مسجد خدیجہ ٹولی چوکی حیدرآباد
شیخ الحدیث :۔ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الر حمن صاحب مفتاحی
صاحبزادہ وخطیب جامع مسجد ملے پلی حیدرآباد
فقیہ الاسلام:۔ حضرت مولانا مفتی شاہ محمد نوال الر حمن صاحب مفتاحی
صاحبزادہ وخطیب مسجد نور شکاگو امریکہ
استاد ادب:۔ حضرت مولانا شاہ محمد ظلال الرحمٰن صاحب فلاحی
صاحبزادہ و خطیب مسجد موزہ بنت ،ٹولی چوکی حیدرآباد
(مرحوم ) شیخ محمد حنیف صاحب
عبد الرحیم صاحب درد (مرحوم )
مولانا عبدالرزاق صاحب قاسمی مدظلہ ونپرتی
عبد الباسط صاحب موظف لکچرر محبوب نگر
عبدالقیوم صاحب موظف لکچرر محبوب نگر
ڈاکٹر شیخ چاند صاحب مکتھل وغیرہ
تبلیغ واشاعت واحسان کے سلسلہ میں حضرت قبلہ نے جہاں ،جسمانی،فکری ،لسانی،توانائیاں تابحد امکان صرف کیں ،وہیں شعری، تصنیفی، وتالیفی صلاحیتوں سے کام لینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرمایا قابل ذکر بات ہے کہ آپ کی شعری صلاحیتیں کسی سے تلمذ کی محتاج نہیں رہی ،البتہ جماعت منشی میں علامہ شبلی علیہ الرحمہ کی کتاب۔، شعر العجم ، سے شاعری پر ضروری معلومات حاصل کیں اور اس فن کا استعمال با مقصد میں آپ کو کامیابی ملی ،چنانچہ دین ونعمت الٰہیہ ،تعلیم وتربیت ،کا شائد ہی کوئی عنوان ہو جس کا احصاء آپ کے اشعار میں نہ ہوا ہو ۔
حضور پر نور سرور کونین ا کی مدح میں شعراء کرام کی خیال آفرینی کا تنوع ،اظہار محبت کا سوز وگداز،اور وابستگئ دامان رسالت پر فخر وناز، بے شک نعت گوئی کے عمومی مضامین ہیں ،انہیں عاشقان رسول ا میں ایک حضرت قبلہ کی ذات تھی اس نوع کی تصنیف کلام غلام کے نام سے مشہور ہے ۔
تصانیف کے تفصیلی تعارف کے بجائے مشہور کتابوں کی ایک فہرست ذکر کی جاتی ہے ۔
کلام غلام۔ منظوم تصنیف
آئینۂ غلام۔ خود نوشت سوانح حیات
مکتوبات غلام
ملفوظات غلام
تبرکات حرمین
اسرار خطبۂ نکاح
کلمۂ طیبہ
مقام انسانیت
تنویر سبع مثانی
مکاتیب عرفانی
نجات اور درجات کا راستہ
متاع کمال
ان کتابوں میں توحید و رسالت اور تصوف سے متعلق پیچیدہ مباحث کو آسان اور عام فہم اسلوب میں سمجھایا گیا ،ایک عام آدمی کے ذہنی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہر بات کو مثالو ں اور مشاہدوں سے
معقولات کو محسوسات سے واضح کیا گیا ،اس کے ساتھ ساتھ ہر سطر سے بے پناہ علم کے دریا جھلکتے ہیں
وفات ۱۴؍ محرم الحرام ۱۴۱۰ ھ م ۱۷؍ اگست ۱۹۸۹ ء محلہ ٹپہ چبوترہ حیدرآباد مکان نمبر ۴۳؍۶۱۰،۵،۱۳، میں فجر کے وقت اس مرد کامل اور عارف باللہ کا وصال ہوا معظم جاہی مارکٹ کے قریب فرمان واڑی قبرستان میں آ پ کے محترم شیخ حضرت شاہ محمد حسین صاحب ؒ کے پائیں حسب خواہش تدفین عمل میں آئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
قادریت اور دیگر سلاسل روحانی کے فیض یافتہ اور ہندوستان میں خانوادہ کمالیہ کے اس چشم و چراغ نے ۷۲ ؍سال ۶؍ ماہ کی عمر پائی۔اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور آپ کی تعلیمات جو دراصل قرآن وحدیث کی تشریح ہے امت میں عام فرمائے آمین
By silsilaekamaliya • Biographies, Biography - Sufi Sahab RA • Tags: shah sufi sahab, sufi ghulam muhammad, sufi ghulam muhammad sahab, sufi sahab ra, شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ, صوفی غلام محمدؒ, صوفی غلام محمد صاحب