Shab e Qadr – Shah Kamal ur Rahman Sahab

شبِ قدر

حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم

الحمد ﷲ الذی جاعل الظلمت والنور نشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ شھادۃ ادخرھا لیوم النشور۔ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ باعث الکون وصاحب الجیش المنصور صلی اﷲ علیہ وعلی اٰلہ واصحابہ مصباح الھدی والنور وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا الی یوم النشور. أما بعد!
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ: بے شک اتارا ہم نے اس قرآن کو قدر کی رات میں اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر کام کیلئے سلامتی کی رات ہے۔ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک رہتا ہے۔

Shab e Qadr
Shab e Qadr

شانِ نزول
پہلا سبب: ایک دن حضور اکرم ا نے صحابہ کرامؓ سے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا حال بیان فرمایا کہ اس نے ایک ہزار مہینے عبادت کی روز دن کو روزہ رکھتا رات عبادت الٰہی میں مصروف رہتا۔ اور دن کو روز ہ کی حالت میں کفار سے جہاد کرتا رہتا۔ اس کے اس نیک عمل ‘پیہم جدو جہد اور کارِ ثواب میں بکثرت مشغولیت کی بات سن کر صحابہؓ کو رشک ہوا۔
کہنے لگے یا رسول اﷲ ! ہم اس شخص کے ثواب کو کیسے پہنچ سکیں گے کہ ہماری عمریں بھی بہت کم ہیں۔ اس میں بھی کچھ حصہ سو نے میں کچھ حصہ تلاش معاش میں کچھ حصہ دیگر ضروریات میں اور کچھ امراض وکاہلی میں بسر ہوجاتا ہے عبادت کیلئے وقت بہت کم ملتا ہے حضور ا اس حقیقت بیانی کو سن کر کچھ ملول سے ہوئے تو دفع ملال کیلئے یہ سورۃ ناز ل ہوئی جس میں شب قدر کی اہمیت ‘فضیلت‘حقیقت‘ بتاکر بہت بڑی نعمت سے سرفراز کیا گیا۔
دوسرا سبب: ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ جب حضورؐ نے دیکھا کہ آپ کی امت کی عمر یں بالعموم ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں اور اگلی امتوں کی عمر یں سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس کی رہیں تو آپ کی تسلی کیلئے اور اس امت کے عمل خیر اور عظمت کو بڑھانے کیلئے اﷲ نے شب قدر کی دولت عطا فرمائی۔
تیسرا سبب: بنی اسرائیل کی چار منتخب اور برگزیدہ ہستیوں یعنی حضرت ایوب، زکریاؑ ، حزقیل ؑ اور یو شع ں نے ایک لمحہ لغزش میں گزارے بغیر اسّی سال تک عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔ تو اس پر صحابہ ؒ نے رشک کیا‘ اپنی عمروں کے قلیل ہونیکی وجہ سے بڑے ثواب کے حصول کی مشکل محسوس کی توحضرت جبرائیلںآئے اور منجانب اﷲ سورہ قدر لائے اور اسی۰۸ برس کی عبادات سے بڑھ کر اور بہتر رات کی خوشخبری سنائی۔
چوتھا سبب: بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا بڑا نیک تھا اس وقت کے رسول پر وحی آئی کہ اس بادشاہ سے کہو کہ جو آرزو ہو بیان کرے تو اس نے یہ آرزو ظاہر کی کہ میں چاہتا ہوں کہ اموال اور اولاد کے ذریعہ راہ خدا میں جہاد کروں تو اﷲ نے اس بادشاہ کو ہزار لڑکے دیے چنانچہ وہ بادشاہ اس کے بعد اپنے ایک بیٹے کو جہاد پر روانہ کرتا جب وہ شہید ہوتاتو دوسرے کو بھیجتا۔ ایک ہزار مہینوں تک اسی طرح کرتا رہا۔ سب بچے شہید ہوگئے تو آخر میں خود اس نے جہاد کیا اور شہید ہوا۔ اس کے پاکیزہ عمل کرنیکی فکر صحابہث کو دامن گیر ہوئی تو اﷲ تعالی نے اپنے فضل سے سورہ قدر نازل فرمائی۔

وجوہِ تسمیہ

اس رات کو شب قدر کیوں کہتے ہیں ؟

پہلی وجہہ
قدر کے معنی شرف اور بزرگی کے آتے ہیں۔ جیسے کسی کی بزرگی بیان کرنا ہوتو کہتے ہیں ’’عالی قدر‘‘ یعنی اعلیٰ مرتبہ۔ چوں کہ طاعات کا اس رات میں رتبہ بڑھ جاتا ہے ‘ فرمانبردار بن کر بندے عالی قدر اور عالی مرتبہ ہوتے ہیں۔ فرشتے ذی مرتبہ انسانوں کی قدر کرتے ہیں انھیں سلام کرتے ان سے مصافحہ کرتے اور ان کو دعا دیتے ہیں اسلئے اسے شب قدر کہتے ہیں۔
دوسری وجہہ
اﷲ تعالی نے ’’ قدر‘‘ لفظ اس سورۃ میں تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے۔ چوں کہ یہ عالی قدر کتاب عالی مرتبہ فرشتے کے ذریعہ اور شرف و قدر والی امت پر لیلۃ القدر میں نازل ہوئی۔ اسلئے اسے قدر کہا جاتا ہے۔
تیسری وجہ
’’قدر‘‘ کے ایک معنیٰ تنگی کے بھی آتے ہیں۔ چوں کہ اس شب میں عام و خاص ملائکہ کے ناز ل ہونے کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ ا سلئے اسے قدر کہتے ہیں۔
چوتھی وجہ
قدر کے ایک معنی تقدیرکے ہیں۔ کائنات میں ہونے والے سال بھر کے تقدیری امور کے جو فیصلے ہوتے ہیں ان سے متعلق امور قدر میں ظاہر ہوتے ہیں اور ملائکہ کے حوالہ کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔
پانچویں وجہ
اس شب کی ساری عظمتیں بتاکر قدر کرنے کی دعوت دی گئیں ہے۔ ا س لئے اس کو شب قدر سے موسوم کیا گیا۔
خصوصیت امت محمدیہ ؑ
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؑ نے فرمایا کہ شب قدر حق تعالیٰ نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔
تفسیری پہلو
نزول ملائکہ کے بارے میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں کہ ملائکہ نے جب تجھے دیکھا تھا تو مجھ سے نفرت ظاہر کی تھی اور عرض کیا تھا فتنہ مچانے والے اور خون بہانے والوں کو آپ پیدا فرماتے ہیں۔ اس کے بعد والدین نے جب تجھے دیکھا تھا جب کہ تو منی کا قطرہ تھا تجھ سے نفرت کی تھی کپڑے کو لگ جاتا تو دھونے کی نوبت آتی لیکن جب حق نے اس قطرہ کو بہتر صورت دیدی تو والدین کو بھی پیار کی نوبت آئی اور آج جب کہ تو شب قدر میں معرفت الٰہی اور طاعت میں مشغول ہے تو ملائکہ بھی اس فقرہ کی معذرت کرنے کیلئے اتر تے ہیں ۔
روح سے مراد ؟
بقول جمہور مفسرین کے روح سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں۔ لفظ روح سے اور بھی کئی مراد یں مفسرین اور شارحین نے نقل کئے ہیں مگر امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ یہی زیادہ صحیح ہے:
عن انسؓ قال قال ؑ اذا کان لیلۃ القدر نزل جبرائیلؑ فی کبکبۃ الملائکۃ یصلون علی کل عبد قائم اوقاعد یذکر اﷲ ( بیہقی)
بہ روایت حضرت انسؓ ارشاد رسول اللہ امنقول ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرائیل ؑ ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور ہر اس شخص کیلئے جو کھڑے یابیٹھے اﷲ کا ذکر کر رہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دعاء رحمت کرتے ہیں۔
ارشادِ محبوب سبحانی ؒ
حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فرشتے حضرت جبرائیل ؑ سے کہنے سے متفرق ہوجاتے ہیں۔ اور کوئی گھر چھوٹا یا بڑا جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور فرشتے وہاں نہ جاتے ہوں لیکن اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا سور ہو یا حرام کاری کی وجہ سے جنبی ہو یا تصویر ہو۔ (شب قدر کے فضائل سے محروم لوگوں کے اَتے پتے ملتے ہیں اﷲ تعالی ہی حفاظت فرمائے)
عن انسؓ قال دخل رمضان فقال رسول اﷲ ان ھذا لشھر قدحضرکم فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولایحرم خیرہا الا محروم (ابن ماجہ )
ارشاد رسول ؑ ہے تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر جو حقیقتاً محروم ہو۔
جزائے قدر اعمال
عن ابی ھریرہؓ قال قال رسولا من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ۔ جو شخص شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ عبادت کیلئے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
نوٹ :
ایمان و احتساب کا مطلب تلاوت‘ذکر ‘دعا‘ عبادت میں مشغول ہونا اور ثواب کی نیت ویقین سے بشاشت قلبی سے اﷲ کو راضی کر تے رہو۔
نوٹ:
جبرائیل ؑ اور فرشتے جس کسی کو عبادت میں مشغول دیکھتے ہیں اس کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں دعاء رحمت وسلامتی کو ہی سلام فرما یا گیا ہے۔

فضائل شب قدر

۱) حق تعالی کی توجہ خاص اور شان تقرب کا اس رات میں ظہور ہوتا ہے۔
۲)عبادتوں کی حلاوت بڑھ جاتی ہے کثرت طاعت پر دل متوجہ ہوتا ہے۔
۳)ملائکہ جوق در جوق بکثرت باذن رب اتر تے رہتے ہیں اور عالم پر کیف و روحانی ہوجاتا ہے۔
۴)عالم غیب کا عالم شہادت سے، عالم بالا کا عالم ناسوت سے ایک خاص ربط و میلان ہویدا رہتا ہے اس لیے تجلیات و انوار کی یہ بارش باعث قدر و فضیلت بنتی ہے۔
۵)اس شب میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا ۔
۶)فرشتے اسی شب پیدا کئے گئے۔
۷)جنت اسی شب سنواری جاتی ہے۔
۸)آدم علیہ والسلام کی پیدائش کا مادہ اسی شب جمع کیا گیا۔
۹)اس رات کیا ہوا نیک عمل اﷲ کے نزدیک سلیمانی بادشاہت سے بھی بڑھ کر ہے۔
۱۰)شبِ قدر تیس ہزار دنوں اور تیس ہزار راتوں سے بڑھ کر فضیلت رکھتی ہے۔
۱۱)شب قدر میں فرشتے صالحین کے پاس آتے اور انھیں سلام کرتے ان کو خوشخبری دیتے اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔
۱۲)حضور ا نے فرمایا کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ اس رات قیام کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
۱۳)شب قدر ایک ہزار مہینے یعنی ۳۸ سال چار مہینے سے زیادہ مرتبہ والی ہے۔
۱۴)حضور ا نے فرمایا جس شخص نے شب قدر میں مغرب و عشاء جماعت سے پڑھی اس نے شب قدر سے حصہ پالیا۔
۱۵)جس نے سورۃ القدر پڑھی اس نے ایک چوتھائی قرآن پڑھا۔

فوائد سورۂ قدر

*جو شخص صبح شام تین تین مرتبہ سورۃ قدر پڑھے تو سب لوگ اس کی عزت کریں گے اور مراتب علوی کے واسطے ہمیشہ ورد رکھنا عجیب و غریب ہے۔ اور اگر کسی چینی برتن پر مریض کو پلائیں توانشاء اﷲ شفاء ہوگی۔
*حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جو شخص شب قدر میں بعد نماز عشاء سورۃ قدر سات مرتبہ پڑھے اﷲ تعالی اس کو ہر بلا سے محفوظ رکھے گا۔
*۳۶ مرتبہ سورۃ قدر پڑھ کر پانی پر دم کرکے لباس پر چھڑک لیں اور پہنیں ۔ اس لباس کے جسم پر رہنے تک رزق میں وسعت رہے گی۔
*جو شخص سورۃ قدر ایک ہزار مرتبہ بہ روز جمعہ پڑھے گا تو وہ انشاء اللہ خواب میں حضوراکرم ا کے دیدار سے مشرف ہوگا۔

تعینِ قدر میں رکاوٹ کیوں ہوئی؟

عن عبادہ ابن الصامتؓ قال خرج النبی ؑ لیخبرنا بلیلۃ القدر فتلاحی رجلان من المسلمین فقال خرجت لاخبرکم لیلۃ القدر فتلاحی فلان‘ وفلان‘ فرفعت و عسی ان یکون خیرا لکم قالتسموھا فی التاسعۃ والسابعۃ والخامسہ (مشکوۃ)

حضرت عبادہؓ نے کہا کہ حضورؐ کو شب قدر دکھائی گئی تو آپ ؐہمیں اطلاع دینے کیلئے نکلے۔ اس اثناء میں دو شخص آپس میں لڑرہے تھے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ میں اس لئے باہر آیا تھا کہ تمہیں شب قدر سے مطلع کروں کہ کونسی رات ہے مگر دو شخصوں کی خصومت اور نزاع اور جھگڑے کے سبب وہ رات اٹھالی گئی پس تم لوگ اس کو ۲۵‘۲۷‘۲۹‘ کو تلاش کرو۔

شب قدر چھپائے جانے کی حکمتیں

حکمت

(۱)بندے ہر وقت خدا کی طرف متوجہ رہیں۔
(۲)تلاش اور جستجو کا ثواب دلایا جائے ۔
(۳)تمام راتوں کی قدر کرنا نصیب ہو۔
(۴)غفلت اور کوتاہی سے بچیں۔
(۵)شب قدر میں کئے ہوئے اعمال پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں ۔
(۶)شب قدر ظاہر ہوتی تو نیک لوگ ثواب کما لیتے مگر بد نصیب گنہگار لوگ اپنی خراب عادتوں کی وجہ سے اس شب میں نحوست کا شکار ہوتے اور قہر خدا میں گرفتار ہوتے اسی لئے قدر چھپائی گئی اس کو بھی حق کی رحمت خاص کہا جاسکتا ہے۔

علامات شب قدر

۱)شب قدر کی صبح سورج صاف بے شعاع چودھویں رات کے چاند کی طرح نکلتا ہے۔
۲)درخت سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔
۳)ہر مکان نورانی معلوم ہوتا ہے۔
۴)دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
۵)موسم معتدل رہتا ہے نہ زیادہ گرمی نہ زیادہ سردی بلکہ خوشگوار موسم رہتا ہے
۶)فرشتوں کا سلام اور خطاب اہل دل سنتے ہیں۔
۷)عبادت میں لذت معلوم ہوتی ہے۔
۸)شب قدر میں شیطان نہیں نکلتا۔
۹)حضرت ایوب بن خالد ؒ اور حضرت عبدہ بن ابی البابہؓ شب قدر میں انھوں نے کھارے پانی کو میٹھا پایا ہے۔
۱۰)حضرت جبرئیل ؑ اور فرشتے عبادت گذار مسلمانوں سے سلام و مصافحہ کرتے ہیں۔
۱۱)جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل نرم پڑجاتے ہیں ‘آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔

دعاء قدر

عن عائشۃؓ قالت قلت یا رسول اﷲ ارایت ان علمت ای لیلۃ القدر مااتول فیھا قال قولی۰ اللھم انّک عفو تحب العفو فاعف عنی۰
حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں حضور ؑ نے فرمایا کہو اے اﷲ تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو پس معاف کردے مجھ کو بھی۔