Jan 8 2015
Rights of Allah, Abdullah
Rights of Allah, Abdullah
اللہ اور بندے کے حقوق
اللہ کا حق تنزیہہ ہے کیونکہ اسکی شان لَیْسَ کَمِثْلِہٖہے اسکے مثل کوئی شئی نہیں یہ اسکی شان ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ کیلئے حضورﷺنے ارشادفرمایا
ہم نے نہیں پہچانا تجھ کو جیسا پہچانے کا حق ہے
لہٰذا تنزیہ الہ کا وہ حق جس میں مخلوق خالق کا احاطہ نہیں کر سکتی
اور بندے کا حق تشبیہ ہے تشبیہ اسکو کہتے ہیں کہ اللہ کو آفاق وانفس میں دیکھنا اور پانا جسکا تذکرہ
اللہ اور بندے کے لوازم کے عرفان سے دو ذات کا قائل ہونا سمجھ میں آتا ہے
اللہ اور بندے کے آداب کے عرفان سے وحدت الوجود مفہوم ہوتا ہے
اللہ اور بندے کے حقوق کے عرفان سے اللہ کامطلق ہونا اور بندے کے مقید ہونے کی نسبت سمجھ میں آتی ہے
لوازم کا عرفان ہو اور علم کو برتے تو راز فقیری کھلتا ہے
آداب کا عرفان ہو اور بر محل علم کو برت رہا ہو تو تو تکبر دور ہوجاتا ہے تواضع کا پیکر بن جاتا ہے
حقوق کا عرفان ہو اور علم کا صحیح استعمال ہو تو معیت وقرب الٰہی کھلنے لگتا ہے عبدیت کے مقام پر مضبوطی سے جما ہوا رہتا ہے
معبود کیلئے فعل ثابت اگر فعل نہ ہو تو مجبور ۔
معبود کیلئے صفات ثابت اگر صفات نہ ہوں تو معطل۔
معبودکیلئے وجو ثابت اگر وجود نہ ہو تو عدم ۔مگر اللہ معدوم نہیں ہے بلکہ موجود ہے اگر کوئی ان سے انکارکرتا ہے تو (یعنی افعال صفات وجود سے) تو کافر ہوجاتا ہے ۔
اگر کوئی ان کو مان کرانکار کرتا ہے تو مرتد ہوجاتاہے ۔
اگر ان میں کوئی شک کرتا ہے تو منافق ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی اسکی تصدیق کرتا ہے تو مؤمن ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اس بیان سے ثابت ہوا کہ اللہ کیلئے وجود وصفات وافعال ثابت ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افعال کا صدور کس پر ہو ؟
ظاہر ہے کہ افعال کاصدور غیر اللہ یا ماسویٰ اللہ پر ہوگا ۔
اس غیر اللہ یا ماسوی اللہ کو ہم قرآنی الفاظ میں یا اصطلاح قرآن میں (شئی) بھی کہتے ہیں فعل ہمیشہ مؤثر ہوتا ہے اور جس پر اثر کرتا ہے ہم اسے متأ ثر یا آثار کہتے ہیں لہٰذا کائنات کی تمام اشیا ء کو ہم آثار اللہ کہیں گے ان کو آثار اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ فعل کا اثر قبول کرنے والے ہیں یعنی آثار اپنی استعداد کی موافق اللہ کے فعل کو کام میں لاتے ہیں ب اللہ کیلئے چار چیزیں ثابت ہوئیں ۔وجود صفات ۔ افعال۔ آثار۔ ان چاروں چیزوں کو صوفیا کی اصطلاح میں اعتبارات الٰہیہ کہتے ہیں ۔جبکہ آثار کو ہم ماسوی اللہ مان چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ما سوی اللہ خود اللہ کاعتبار کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہیکہ آثار میں اللہ کے چاروں اعتبارات پائے جاتے ہیں ( یعنی آثار میں اللہ کا وجود بھی ہے صفات بھی ہے افعال بھ ہے اور یہ خود اللہ کے آثار بھی ہیں اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آثار اللہ بھی ہیں اور ماسوی اللہ بھی ہیں اب یہ دونوں ایک کس طرح پر ہیں ؟ اس کی تشریح حسب ذیل ہے
چونکہ آثار خود بخود موجود نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ کی وجود بخشی کی وجہ سے موجو ہیں ۔اس لئے ان کو وجود الہ ہی کے وجود ک وجہ سے ان کے صفات کمالیہ اللہ ہی کے صفات کمال کی وجہ سے اوران کے افعال اللہ ہی کے افعال کی وجہ سے ،یہ تینوں رخ ،اللہ پاک کے خود اپنے ذاتی اعتبا ر ہیں جو ہر شئی میں پائے جاتے ہیں ۔اسی حد تک شئی کا اللہ کااعتبارہونا ثابت ہے۔اب شئی کا دوسرا رخ صفات نقصانیہ ہے یعنی اسکی اپنی ذات جس میں اللہ کی صفات پائے جارہے ہیں۔یا الہ کی چیزیں پائی جارہی ہیں مُظہر یعنی اللہ کو اپنے ظہور کیلئے مَظہر یعنی ماسوی اللہ چاہئے یہی چاہت باعث تخلیق کائنات ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ آثار اللہ ایک حیثیت سے اللہ کے اعتبار ہیں دوسری حیثیت سے ماسوی اللہ ہیں اور یہی کامل التحقیق صوفیا کاکمال ہے
کہ وہ جامع الاضداد ہوتے ہین ۔۔۔۔۔۔۔جب ذات خلق میں یہ سب عاریتاً اور امانتاً ہوں تو پھر ذات خلق کے اپنے اعتبارات کیا ہیں ؟ ذات خلق کے بھی اپنے اعتبارات ہیں اور وہ بھی چار ہیں جواسکے اصلی اورحقیقی ہیں اور وہ یہ ہیں ۔فقیر۔ذلیل۔
عاجز ۔ اور جاہل۔ یہاں فقیر کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ جو وجود سے خالی ہو ۔ذلیل ،سے مراد یہ کہ وہ جو صفات کمال سے متصف وموصوف نہ ہو۔عاجز۔ایسا کہ جوفعل سے عاری ہو۔
اور جاہل۔ وہ جو علم نہ رکھتا ہو۔ذات خلق اگر اعتبارات الٰہیہ کواپنے ذاتی سمجھلے تواس سے دوغلطیاں سرزدہوں گی
ایک غلطی تو یہ کہ غیر کی چیز کوا پنی سمجھ بیٹھا تو لہٰذا غاصب ہوا دوسری غلطی یہ کہ اپنی چیز کو بھلادیا تو غافل ہوا ۔اس اعتبار سے ایک جرم کی دوسزائیں ہوئیں۔
ایک سزااسکے غصب کی اوردوسری سزااسکی غفلت کی
یہ ایک حقیقت ہے کہ الہ غاصب کو سخت سے سخت سزا دیتے ہیں کیونکہ غصب شرک ہے ۔۔اس سے کہیں کمتر سزا غافل کو ملتی ہے کہ ۔کیونکہ غفلت گناہ ہے
کلمے میں ترتیب وتناسب کا پایا جانا۔
جس کو جتنا ہونا چاہئے اس کا اتنا ہی پایا جاناتناسب ہے ۔مثلاً ۔نسان کے اعتبار سے ہاتھ بڑے ہوں اور نہ ہی چھوٹے بلکہ متوسط ہوں یہی تناسب ہے اسی طرح پاؤں نہ تو بڑے ہوں اور نہ چھوٹے بلکہ اوسط ہوںیہی تناسب ہے او ر سر آنکھ کان ناک منھ وغیرہ کا بھی نہ بڑاہونا اور نہ چھوٹا ہونا بلکہ اوسط ہونا ہی تناسب ہے ۔
مختصراً یہ کہ ترتیب میں ہر شئی کا اپنے محل اور مقام پر ہونااہم ہوتاہے اور تناسب میں ہرشئی کی مقداراہم ہوتی ہے
کسی انسان کو خوبصور ت اسی وقت کہ جاتا ہے جب کہ اس کے اعضا میں ترتیب وتناسب برقرار ہو ۔اگر ان دونوں یعنے ترتیب و تناسب میں سے کوئی ایک یا دونوں بگڑ جائیں تو انسان خوبصورت ہونے کے بجائے بد صورت ہوجاتا ہے ۔
کلمۂ طیبہ دنیا ودین کا خوبصورت ترین کلمہ ہے اسکی خوبصورتی کا قائم رکھنا ہر مسلم ومؤمن کا فرض ہے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کلمہ کی ترتیب اوراسکا تناسب کیا ہے ؟
ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ اعتبارات الٰہیہ چار ہیں ۔آثار اللہ۔ افعال اللہ۔ صفات اللہ ۔ ذات اللہ ۔ انہیں اعتبارات الٰہیہ کے ذریعہ ہم پہلے کلمہ کی ترتیب معلوم کریں گے آثار اللہ پر کامل غور وفکر کے بعد اللہ ہی کو معبود قرار دیتے ہیں لہٰذا معبود صرف اللہ کو کہنا کلمہ کا پہلا مقام ہے ۔افعال اللہ پر کامل غوروفکرکرنے کے بعداللہ ہی کواپنامقصودقراردیتے ہیں لہٰذاکلمہ کا دوسرا مقام اللہ ہی کو اپنا مقصود کہنا ہے۔
صفات اللہ پر کامل ور وفکر کرنے کے بعد اللہ ہ کو ہم موجود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمہ کا تیسرا مقام صرف اللہ ہی کو موجود کہناہے ۔اللہ کے وجود پر کاملغور وفکرکرنے کے بعد اللہ ہی کو ہم مشہود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمے کا چوتھا مقام صرف اللہ ہی کو مشہود کہنا ہے اب کلمہ کی ترتیب یہ ہوئی کہ اللہ ہی ہمارا معبود ہے !جو معبود ہوگا وہی مقصود بھی ہوگا جو مقصود ہوگا وہی موجود بھی ہوگا اور جو موجود ہوگا وہی مشہود بھی ہوگا کلمے کو خوبصورت رکھنے کیلئے اس ترتیب کیحفاظت لازمی ہے ۔
اسی طرح کلمہ کے تناسب پر ایک غائر نظر ڈالیں گے ہمیں معلوم ہے کہ افراط وتفریط سے بچکر اسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ،یہاں بھی ہم ارتبارات الٰہیہ سے کام لیں گے ۔آثار میں افراط کرنا شرک جلی ہے ۔اورآثار میں تفریط کرنا تعطیل ہے (یعنی اللہ کو معل ٹھیرانا ہے ) التہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید اسمائی ہے
اسی طرح افعال میں فراط کرنا شرک خفی ہے اور افعال میں تفریط کرنا تعطیل ہے(یعنی اللہ کے افعال کومعطل ٹھیرانا) ہے البتہ افراط وتفریط سے بچکر توحید اوسط پر قائم رہناتوحید افعالی ہے ۔ صفات میں افراط کرنا شرک اخفیٰ ہے اور صفات کی تفریط اسکی تعطیل ہے(یعنی اللہ کی صفات کو معطل ٹھیرانا ہے) البتہ افراط وتفریط سے بچ کراوسط پرقائم رہنا توحیدصفاتی ہے ۔
اسی طرح وجود میں افراط شرک خفی الاخفیٰ ہے اور وجود میں تفریط اسکی تعطیل ہے (یعنی اللہ کے وجود کو معطل کردینا ہے ) لبتہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید وجودی ہے ،لہٰذا کلمہ کو خوبصورت رکھنے کیلئے چاروں اعتبارات الٰہیہ میں افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ۔
جو کوئی مسلم مؤمن کلمۂ طیبہ کو ترتیب وتناسب کے ساتھ آراستہ کرکے اس کلمہ کاعلم اوراسکا عمل اللہ کے دربارمیں پیش کرتاہے تواللہ تعالیٰ ایسے مسلم سے تمام حجابات اٹھادیتے ہیں اوراپناقرب عنایت فرماتے ہیں قرب حق میں وہ لذت ہے جسکوصرف ایک عاشق ہی خوب جانتاہے
جسکااظہارنہ توزبان کرسکتی ہے اورنہ آنکھ میںیاراہے کہ دیکھ سکے اورنہ ہی کان میں قوت ہے کہ وہ سنکرسمجھ سکے
Jan 9 2015
Kalima e Tayyeba Mein Teen Haal
Kalima e Tayyeba Mein Teen Haal
کلمۂ طیبہ میں تین حال
کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ کے زبانی اقرار اور تسلیم کرنے ہی سے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کلمہ کی دل سے تصدیق پر مسلم مؤمن ہوتا ہے اور تین حال کا استحضار کرنے ہی سے مؤمن ولی ہوتا ہے
ہے۔ کو ،ہے،کہنا توحید ہے اور۔نہیں ، کو، نہیں ،کہنا توحید ہے ۔تین حال اسی توحید کے تین مراتب ہیں ۔اقرار وتسلیم زبان ے حاصل ہوتے ہیں ،تصدیق دل سے حاصل ہوتی ہے ، اور استحضار اللہ کو غالب رکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔مسلم وہ جو اللہ کو صرف زبانہی زبان سے یاد کرے
مؤمن وہ ہے جو اللہ کو نہ صرف زبان سے یاد کرے بلکہ دل سے بھی یاد کرے ۔اور ولی وہ ہے جو اللہ کو نہ صرف زبان وقلب سے یاد کرتا ہے بلکہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا ۔
ولی کی تعریف یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی یادسے مجسم بن جائے کہ دوسرے لوگ جو کسی بھی غرض سے اس کی صحبت میں ہیں انہیں بھی اللہ کی یاد دلائے ۔
حال اوّل
انسان اپنی تخلیق میں جماد نبات اور حیوان کے مراتب سے گذرتا ہے ہر نسان پہلے رحم مادر مین نطفہ ہوتا ہے اسکے بعد علقہ یا خون کی پھٹکی بنتا ہے اسکے بعد مضغہ یالوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے پھر عظام یا ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں پھر سے آخر میں ان ہڈیوں پرلحم یا گوشت چڑھایا جاتا ہے اسی تفصیل کو قرآن شریف کی حسب ذیل آیت میں ظاہر فرمایا گیا ہے
جب یہ ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے تو یہی انسان کا نمونہ ہوتا ہے
اس نمونہ میں جماد کی سی کیفیت موجود ہے کیونکہ اسکا گوشت اور ہڈیاں جماد جیسے ہیں اور یہی نمونہ نبات سے بھی مشابہ ہے کیونکہ اس میں نشو نما کی صلاحیت بھی ہے اس نمونہ کو اس زمانہ میں انسان اور حیوان سے زیادہ جماد اور نبات کہنا مناسب ہوتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں تین ماہ کا ہو کیونکہ اس نمونہ میں غلبہ جماد و نبات کا ہوتا ہے اور یہ سب ارتقا تین ماہ کے دوران رحم مادر میں اللہ کی صفت خلاقیت سے طے پاتا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اولاً جمادی اور پھر باتی روح اس نمونہ انسان سے متعلق کردیتی ہے یہ دونوں ارواح وہ تمام چیزیں بالقویٰ رکھتی ہیں جن کو آئندہ اللہ پاک اس انسان کو عنایت کرتے ہین تین ماہ گذرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں کہ یہ نمونۂ انسانی مردہ ہے مضطر ہے جاہل ہے عاجز ہے بہرہ ہے اندھا ہے اور گونا ہے تو اپنی کمالِ رحمت سے اس سے روح حیوانی جو پرتو روح انسانی ہے متعلق کردیتے ہیں اس وقت مردہ زندہ ہوتا ہے بہرہ سماعت پاتا ہے اور اندھا بصارت پاتا ہے اور گونگا کلام پاتا ہے یہ سب صفات اس نمونۂ انسانی میں چوتھے ماہ سے نویں ماہ تک حیوانی صفات کے مشابہ ہوتے ہیں اس زمانہ میں اس نمونہ کو انسان سے زیادہ حیوان کہنا مناسب ہوتا کیونکہ اس میں غلبہ حیوان کا زیادہ ہوتاہے نو ماہ بعد جب یہ نمونہ پیدا ہوتا ہے تو یہ انسان نہیں بلکہ انسان کا بچہ ہوتا ہے پیدائش کے بعد سے اس بچہ پر وہ دور شروع ہوتا ہے جو خالص انسانی دو ہوتا ہے اب انسان کہنا زیادہ مناب ہوتا ہے کیونکہ اس دور میں اس کی جماد اور جمادی روح اور نبات اور نباتی روح ہردو انسان اور انسانی روح کے تابع ہوجاتے ہیں ،
اس دور میں جسم کو حرکت دل سے ہوتی ہے دل کو حرکت روح سے ہوتی ہے اور روح کو حرکت حق سے ہوتی ہے اس کو تفصیل سے وں کہہ سکتے ہیں کہ روح حی کا مظہر اور دل علیم کا مظہر اور نفس مرید کا مظہر جسم قدیر کا مظہر آنکھ بصیر کا مظہر کان سمیع کا مظہر اور زبان کلیم کا مظہر ہے اس کی تصدیق اپنے پہلے حال کا اقرار ہے اور یہ اقرار وتصدیق اس تو حید کا پہلا مرتبہ ہے جسکو ہے کو ہے اور نہیں کو نہین کہتے ہیں
حال دوم
دوسرا حال حق کے وجود اور صفات وجودیہ خلق کے ودم اور صفات عدمیہ سے متعلق ہے جس کی تفصیل یوں ہیکہ تمام عالم کا وجود پرتو وجود حق ہے تمام عالم کی حیات پرتو حیات حق ہے تمام کا علم تو علم حق ہے تمام عالم کا ارادہ پرتو ارادہ حق تمام عالم کی قدرت پرتو قدرت حق تمام عالم کی سماعت پر تو سماعت حق تمام عالم کی بصارت پر تو بصارت حق اور تمام عالم کا کلام پرتو کلام حق ہے ان کی تصدیق اپنے دوسرے حال کا اقرار ہے یہ اقرار و تصدیق اس توحید کا دوسرا مرتبہ ہے جسکو ہے کو ہے اور نہیں کو نہیں کہتے ہیں ۔
حال سوم
پہلے دو حال میں اللہ کی صفات وجودیہ کو بیان کیا گیا ہے ان صفات وجودیہ کو اللہ کے صفات ذاتی یا امہات الصفات بھی کہتے ہیں؛ اب ہم اللہ کے دیگر اسماء اور صفات آثاری یا اضافی کو لینگے جنکا بیان اس تیسرے حال میں کیا جاتا ہے
ذات خلق سب آثار اللہ ہیں آثار میں ذات حق مؤثر ہوتی ہے اور ذات خلق متأ ثر ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات آثاری یا اضافی حسب ذیل ہیں۔
(۱) اللہ کے اسم ہادی کا ظہور مسلم میں ہوتا ہے
(۲) اللہ کے اسم مضل کا ظہور غیر مسلم میں ہوتا ہے
(۳) اللہ کے اسم نافع کا ظہور کائنات کا سارا نفع ہے
(۴)ا للہ کے اسم ضارکاظہورکائنات کاسب کچھ نقصان ہے
(۵)اللہ کے اسم ودود کا ظہر کائنات کی ساری محبت ہے
(۶)اللہ کے اسم قاہر کا ظہور کائنات میں پائی جانے والی سب دشمنی ہے
(۷)اللہ کے اسم عزیزکاظہورکائنات کی ساری عزت میں ہے
(۸)اللہ کے اسم مذل کا ظہور کائنات کی ذلتوں میں ہے
(۹)اللہ کے اسم معبود کا ظہور کائنات کی ساری عبادتوں میں ہے
(۰۱)اللہ کے اسم داع کا ظہورکائنات کے فضلات میں ہے
(۱۱)الہ کے اسم طاہر کا ظہور کائنات کی صفائی غسل و وضوسے ہے
(۱۲)اللہ کے محیکا ظہور ر صاحب حیات میں ہے
(۱۳)اللہ کے اسم ممیت کاظہورتمام مرنے والوں میں ہوتاہے
(۱۴)اللہ کے اسم ستار کا ظہور ہر قسم کے لباس مین ہے
(۱۵)اللہ کے اسم رزاق کا ظہور ہر ایک کے رزق میں ہوتا ہے
(۱۶)اللہ کا اسم معطی کا ظہور کائنات کی ہر عطا میں ہے
(۱۷)اللہ کے اسم قابض کاظہورہرمقبوضہ شئی میں ہوتا ہے
(۱۸)اللہ کے اسم خالق کا ظہور ہر پیدا ہنے واے میں ہے
اسی طرح باقی اور اسما کو بھی قیاس کرلیا جائے یہ ساری تفصیل ہے انھیں اجمالی طور سے بھی بیان کیا جاتا ہے ۔اگر کوی تفصیل کے بجائے اجمال ہی کو یاد رکھ لے تو بھی کافی ہے جو ذیل میں درض ہے
التوحید اسقاط الاضافات
اضاتوں کا ساقط کرناتوحید ہے اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ آثار میں مؤثر ذات حق کو جاننا اور ذات خلق کو متأ ثر جاننا ہے
اس کے تین ضمن ہیں (۱)ملکیت(۲)نعمت(۳)فعل۔
(۱) ملکیت:۔ہرتملیک میں مالک حقیقی اللہ ہی کوجانناصدق ہے کسی تملیک میں غیر اللہ کو مالک جاننا کذب ہے ۔
(۲) نعمت:۔ہر نعمت مین منعم حقیقی اللہ ہی کو جاننا صدق ہے اورکسی بھی نعمت میں غیراللہ کومنعم جانناکذب ہے۔
(۳)فعل:۔ ہر فعل میں فاعل حقیقی اللہ ہی کو جاننا صدق ہے اور کسی فعل میں غیر اللہ کو فاعل جاننا کذ ہے ۔
توحیدکیلئے صدق کااثبات اورکذب کی نفی کرناضروری ہے
ان کی تصدیق اپنے تیسرے حال کا اقرار یہ اقرار اور تصدیق اس توحید کا تیسرا مرتبہ ہے جس کو ہے کو ہے اور نہیں کو نہیں کہتے ہیں ۔
By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh