Imaan ki Ahmiyat – Allama Syed Sulaiman Nadvi RA
ایمان کی اہمیت:- حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ
جماعتوں کی تنظیم کسی ذہنی اساسِ ملت اور بنیادِ عمل سے ہوتی ہے!
دنیا کی وہ تمام عظیم الشان قومیں جنہوں نے دنیا میں کوئی بڑا کام کیا ہے یا جو دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے پورے نظامِ ہستی کو کسی ایک قانون پر مبنی کریں اور اپنی تمام منتشر قوتوں کو کسی ایک اصول کے تحت مجتمع کریں، زندگی کے سینکڑوں شعبے اور بقائے ہستی اور ترقی کے ہزارہا شاخ در شاخ اعمال جو دیکھنے میں تمام تر منتشر، پراگندہ، متفرق اور ایک دوسرے سے الگ نظر آتے ہیں، ان سب کے درمیان ایک واحد نظام، ایک متحدہ اصول اور ایک مشترکہ جامعیت پیدا کریں، جن کا شیرازہ ان متفرق و پراگندہ اوراق کو ایک منظم کتاب بنادے۔
دنیا جب سے بنی ہے تب سے آج تک ہزارہا قومیں پیدا ہوئیں اور مریں؛ لیکن کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک کہ اس کے اندر اس کی زندگی کا کوئی واحد نظام نہیں پیدا ہوا، اور کسی واحد متخیلہ نے ان کے اندر یہ اہمیت نہیں پیدا کرلی ہے کہ وہ اس کے تمام افراد کی زندگی کی غرض و غایت اور اس کے تمام اعمال کا مرکز و مرجع اور جہت و قبلہ نہ بن گیا ہو، وہی واحد متخیلہ بڑھ کر واحد جماعت اور اس سے بھی زیادہ پھیل کر ایک واحد ملت کی تخلیق و تکوین کرتا ہے۔
ہم اس کو ایک مثال میں سمجھانا چاہتے ہیں، روم کی سلطنت کا آغاز گاؤں سے ہوا اور رفتہ رفتہ یہ نقطہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ صدیق میں ایک عظیم الشان سلطنت بن گئی، اس دائرہ کا نقطۂ خیال، مرکزِ اتحاد، جہتِ اشتراک، اساسِ جامعیت، رومیت قرار پائی، جس نے رومیت کے اصول کو تسلیم کیا اس کو شہرِ روم کے باشندوں کے حقوق عطا ہوئے اور جس نے قبول نہ کیا یا جس کو یہ شرف خود رومیوں نے عطا نہیں کیا وہ ان حقوق سے محروم رہا، صدیوں تک یہ رومیت رومی قوم کی زندگی کا شعلۂ حیات رہی اور اس کی روشنی سے پورا رومن امپائر اسپین سے لے کر شام تک جگمگاتا رہا، مگر جیسے جیسے یہ روشنی ماند پڑتی گئی اندھیرا چھاتا گیا اور جیسےسے رومی عمارت کی یہ مستحکم بنیاد کمزور پڑتی گئی ڈہتی گئی، یہاں تک کہ ایک دن یہ عمارت گر کر زمین کے برابر ہوگئی۔
الغرض قوموں کی موت و حیات کسی ایک ’’متخیلہ‘‘ کی موت و حیات پر موقوف ہے، جس کی زندگی سے زندگی اور جس کی موت سے موت ہے، گذشتہ جنگ میں اور اس جنگ میں بھی آپ سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ انگریز، جرمن یا جرمن انگریز سے لڑ رہے ہیں، نہیں!انگریزیت جرمنیت سے یا جرمنیت انگریزیت سے لڑ رہی تھی اور لڑ رہی ہے، قوم قوم سے نہیں لڑ رہی ہے بلکہ ایک یقینی تخیل دوسرے یقینی تخیل سے لڑتا ہے۔
قوم کی زندگی کا وہ یقینی تخیل اس کے تمام کاموں کی اساس و بنیاد بن جاتا ہے، پوری قوم اور قوم کے تمام افراد اس ایک نقطہ پر جمع ہوجاتے ہیں، وہ نقطۂ ماسکہ ان کی پوری زندگی کا محور بن جاتا ہے، اسی ایک تخیل کا رشتہ منتشر افراد کو بھائی بھائی بناکر ایک قوم کے مشترکہ افراد ترتیب دیتا ہے اور ایک واحد، متحد، منظم اور قوی قوم بناکر کھڑا کردیتا ہے۔
جب کبھی دو قوموں کا مقابلہ ہوگا تو ہمیشہ اس کو فتح ہوگی جس کا نقطۂ تخیل زبردست ہوگا اور جس کے افراد اس رشتۂ حیات میں سب سے زیادہ مستحکم بندھے ہوں گے اور جو اس مشترک اساس و بنیاد پر سب سے زیادہ متفق و متحد ہوں گے، عربوں نے اسی قوت سے قیصر و کسریٰ کو شکستِ فاش دی، عربوں کے پاس ایرانیوں کے خزانے اور نہ رومیوں کے اسلحہ تھے، مگر ان کے پاس وہ قوتِ ایمانی تھی جس سے ایرانی اور رومی محروم تھے۔
جب کوئی قوم تنزّل پذیر ہوتی ہے تو اس کی وہی قوتِ ایمانی کمزور ہوجاتی ہے، اس کی وہی مشترک اساس و بنیاد منہدم ہونے لگتی ہے اور قوم کی زندگی کا مقصد اس مشترکہ قومی غرض و غایت سے ہٹ کر اپنے اپنے نفس، اپنے اپنے خاندان، اپنی اپنی جماعت میں بٹ جاتا ہے، اس لئے اس میں قومی خائن پیدا ہوتے ہیں جن کے پیشِ نظر اس مشترکہ جامعیت کے فوائد و نقصانات کے بجائے خود اپنی ذات و خاندان کا فائدہ و نقصان ہوتا ہے۔
مٹھی بھر انگریزوں نے ہندوستان کے روپئے سے اور ہندوستان ہی کے سپاہیوں سے خود ہندوستان کو فتح کیا، حالانکہ اس وقت پورے ملک میں اودھ، روہیل کھنڈ، بنگال، مرہٹہ، میسور اور حیدرآباد کی ایسی عظیم الشان طاقتیں تھیں جن کے بس میں تھا کہ انگریزوں کو پوری طرح شکست دے دیں، مگر ایسا نہ ہوسکا، اس لئے کہ انگریزوں کے سامنے ایک متحدہ و مشترکہ تخیل تھا جس پر پوری قوم متفق تھی، جو انگریز جہاں بھی تھا چاہے وہ سپاہی ہو، یا گودام کا کلرک ہو، یا سوداگر ہو، یا ڈاکٹر ہو، یا جنرل ہو یا گورنر ہو ہر ایک کے سامنے ایک ہی بلند مقصد تھا اور وہ انگلستان کی سربلندی اور عظمت، لیکن ہندوستانیوں کے سامنے باوجود طاقت و قوت کے کوئی ایک متحدہ غرض، مشترکہ جامعیت، واحد اساسِ کار اور متفقہ بنیادِ عمل نہ تھی جس کا بچاؤ، جس کی حفاظت اور جس کا اِعلاء پوری قوم کی غرض و غایت اور بنیاد و اساس ہوتی، ہر نواب، ہر رئیس، ہر سپہ سالار، ہر سپاہی اور ہر نوکر کا مقصد اپنی فکر اور اپنی ترقی تھی، اس حالت میں نتیجہ معلوم۔
اب ایک اور حیثیت سے نظر ڈالئے، دنیا کی ہر متمدن قوم کے پورے نظامِ زندگی کا ایک اصل الاصول ہوتا ہے، فرض کرو کہ آج روسی بالشوسٹ کے سارے نظام کا ایک واحد نقطۂ خیال ہے، اور وہ سرمایہ داری کی مخالفت ہے جو اس نظام کی اصل اساس ہے، اب جس قدر اس نظام کی شاخیں، شعبے، صیغے اور کام ہیں سب ایک اصل الاصول یعنی ’’سرمایہ داری کی مخالفت‘‘ پر مبنی ہیں، اسی طرح ہر ترقی یافتہ قوم کے تمدن اور نظامِ ہستی کا ایک اصولی نقطہ ہوتا ہے جس کے تحت میں اس تمدّن اور نظامِ ہستی کے تمام شعبہ اور فروع ہوتے ہیں۔
اسی طرح آج انگریزی جد و جہد کی بنیاد، انگریزی سرمایہ داری، امریکن تمدّن کی بنیاد امریکن سرمایہ داری، نازی تمدّن کی بنیاد جرمن قوم کی سربلندی اور فسست کی بنیاد پرانی رومی قیصریت کی دوبارہ تعمیر پر ہے، اگر کسی تمدّن اور نظام کا یہ سرا نکال دیا جائے تو اس تمدن کے تمام اجزاء اور اس نظام کے تمام شعبے بے معنیٰ، بے سود اور بے اساس ہوکر رہ جائیں، اور چند ہی روز میں وہ تمام سر رشتے تارِ عنکبوت ہوکر نابود ہوجائیں، اسی لئے ہر قومی تمدّن اور نظامِ ملت کو سمجھنے کے لئے اس کے اس اساسِ کار، سر رشتۂ خیال اور اصل الاصول کو سمجھنا چاہئے، جب تک وہ سِرا ہاتھ نہ آئے گا اس نظامِ ملت کا الجھاؤ سلجھ نہیں سکتا۔
ملتوں کا اختلاف متخیلہ کے اختلاف سے ہے
اس نقطہ کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں گو ہزاروں ملتیں اور قومیتیں ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک ملت و قومیت کا اصل انفرادی تشخص اور امتیازی وجود اس کے گوشت پوست، ہڈی اور رنگ و روغن سے نہیں یہ اوپری سطح اور ظاہری قشر پر کے نشانات اور خطوط ہیں، ان کا اصل انفرادی اور مستقل تشخص اور امتیازی وجود ان ایمانیات اور یقینیات سے ہے جو ہر ایک کے دل میں بسے اور ہر ایک کے رگ و ریشہ میں رچے ہوئے ہیں۔
آج ہندوستان میں ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی، جین، سکھ اور ہزاروں قومیں آباد ہیں، شکل و صورت اور رنگ و روپ کے لحاظ سے ان میں کوئی تفاوت نہیں، اگر ہے تو ہر ایک کے اس متخیلہ میں ہے جس سے اس کی ملت کی تعمیر ہوئی ہے، اس لئے کسی ملت کے متخیلہ کو بدل دینے کے معنیٰ اس ملت کو مٹادینے کے مترادف ہے، دنیا میں جو کمزور قومیں فناء ہوئی ہیں ان کی صورت یہی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنا متخیلہ ایمانی چھوڑ کر کسی دوسری طاقتور قوم کے متخیلۂ ایمانی کو قبول کرلیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قوم مٹ گئی اور دوسری قوم میں ضم ہوکر وہ خود فناء ہوگئی، ہندوستان کے یونانی، سیتھین اور بودھ کیا ہوئے؟ ایرین ہندوؤں میں سما گئے، ایران کے مجوسی کدھر گئے؟ مسلمانوں میں مل گئے، مصر کے قبطی کہاں گئے؟ عربوں میں شامل ہوگئے، سسلی اور اسپین کے عرب کیا ہوئے؟ اٹلی اور اسپین والوں میں گھل گئے۔
تجدید کی سعی بھی اسی متخیلہ کی مدد سے ممکن ہے
کسی قوم و ملت کی اس تعمیری حقیقت سے باخبر رہنا صرف اس لئے ضروری نہیں کہ وہ ہے اور وہ اس سے بنی ہے، بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی تجدید و اصلاح کی جب کبھی ضرورت پیش آئے تو اس حقیقت کا واقف اسی کے ذریعہ سے اس کی تجدید و مرمّت کرے، اس کی وہ تعمیری حقیقت وہ ساز ہوتا ہے جس کے چھیڑنے سے اس قومیت و ملت کا ہر تار اپنی جگہ پر حرکت کرنے لگتا ہے، اہلِ توحید کے لئے توحید کی آواز اہلِ صلیب کے لئے صلیب کی پکار، گاؤ پرست کے لئے گاؤ کی آواز سحر و طلسم کا حکم رکھتی ہے، جس سے ایک ایک لمحہ میں قوم کی قوم میں جان پڑ جاتی ہے اور سست و ناکارہ قوم بھی کروٹیں بدلنے لگتی ہے، اور آواز کی طاقت کے مطابق سر گرمِ عمل ہوجاتی ہے۔
فرض کرو دنیا میں آج چالیس کروڑ کی تعداد میں ایک ملت آباد ہے جس کا نام مسلمان ہے، اس ملت کی حقیقت کیا ہے؟ توحیدِ الٰہی اور رسالتِ محمدیؐ پر ایمان، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، اگر کوئی اس ملت کی حقیقتِ تعمیری کو مٹا ڈالے تو یہ چالیس کروڑ ملت واحدہ چالیس کروڑ قومیتوں میں منقسم ہوکر دم کے دم میں فناء ہوجائے گی اور یہ چالیس کروڑ افراد کا کارواں جو ایک صدائے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے جرس پر حرکت کر رہا ہے، اب اس کی حرکت کے لئے مختلف آوازوں کے چالیس کروڑ جرسوں کی ضرورت پیش آئے گی جس سے دنیا کی قوموں کا تصادم بجائے کم ہونے کے حدّ قیاس سے زیادہ بڑھ جائے گا اور ان کے باہمی جنگ و جدول کو کوئی ایک متحدہ آواز روک نہیں سکتی۔
الغرض ملت کی یہ تعمیری حقیقت ہر ملت کی روح ہوتی ہے، اس کی بقاء سے اس کی زندگی اور اس کی موت سے اس کی فناء ہوتی ہے، یہی ملت کے جسم کا گرم خون ہے جس سے رگ رگ میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور سعی و عمل کی قوت بیدار ہوتی ہے۔
کسی قوم کی اس اساسِ ملت اور بنیادِ تعمیر سے ہٹ کر جب کبھی اس تجدید کا کام کیا جائے گا تو وہ ساری کوشش بیکار جائے گی، فرض کرو کہ ایک ہندو قوم ہے اس کی قومیت کی بنیاد وہ خاص تخیلات و جذبات ہیں جو ہزار سال سے اس میں پیدا ہوکر اس کی حقیقت کے اجزاء بن گئے ہیں، ذات پات، چھوت چھات، گائے اور گنگا وہ مسالے ہیں جن سے اس کی قومیت کی تعمیر ہوئی ہے، بودھ کے عہد سے آج تک مختلف وقتوں میں بیسیوں ریفارمر اس قوم میں پیدا ہوئے جنہوں نے اس قوم کی ماہیت کے ان اجزاء کو بدل دینا چاہا، مگر یہ کیا آج تک ممکن ہوا؟ اور جب کبھی اس آواز میں عارضی کامیابی ہوئی تو بودھ، جین، کبیر پنتھی اور سکھ قومیں الگ الگ بن گئیں، مگر ہندو قومیت اپنی جگہ پر قائم رہی۔
مسلمانوں میں اسلامی حکومت کے زوال کے بعد سے آج تک بیسیوں تحریکیں مسلمانوں کی تجدید اور نشأۃ ثانیہ کے نام سے اٹھیں اور پھیلیں، مگر جو کامیابی مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کو حاصل ہوئی اور اس نے مسلمانوں کی ذہنی و عملی قویٰ کو بیدار کرنے میں جو عظیم الشان کام کیا، اس کی صرف یہی وجہ تھی کہ وہ تجدید اسلام کے اصل و اساس، نظامِ حقیقی کو سامنے رکھ کر شروع کی گئی تھی اور اس کے بعد بھی موجودہ زمانہ تک اسی تحریک کو فروغ ہوسکا جو اسی اساسِ ملت کے نام سے پیش کی جاتی رہی، اس کامیابی کا عارضی اور ہنگامی ہونا در اصل خود کارکنوں اور تحریک کے علم برداروں کے عارضی یقین اور ہنگامی ایمان کا نتیجہ ہے۔
ایمان کے بغیر عمل ممکن نہیں!
اب اس تشریح کے بعد اس کے تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہ ہوگا کہ دنیا میں کوئی ترقی یافتہ قوم یا ترقی چاہنے والی قوم ممکن ہی نہیں جس کے پاس چند ایمانیات نہ ہوں یا یوں کہو کہ چند اصولِ کار، اصولِ حیات یا اصولِ نظام نہ ہوں، جن سے اس کی قومیت کی تخلیق ہوتی ہے اور جن سے اس کی ملت و تمدن و حیاتِ اجتماعی کی عمارت قائم ہوتی ہے اور جو اس کے منتشر افراد کے درمیان رشتۂ اشتراک کا کام دیتے ہیں، اور جن کے تحت میں اس قوم کے نظامِ حیات کے تمام شعبے مکمل ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کافر و مشرک قومیں بھی اس سے خالی نہیں، ان کے بھی تمام اعمال و افعال ان کے چند یقینی تخیلات اور عقائد کے تحت ہی میں آجاتے ہیں، اس حالت میں یہ کہنا کہ ایمانیات کے بغیر ترقی کے حسنِ عمل یا انسانیت کی نیکئ کردار کا وجود ہوتا ہے، حقائق سے نامحرمی کا ثبوت ہے، ایمان کے بغیر حسنِ عمل اور نیکئ کردار کیا بلکہ نفسِ عمل اور نفسِ کردار ہی کا وجود ممکن نہیں، اب اگر بحث ہوسکتی ہے تو اس میں نہیں کہ ایمانیات کے بغیر حسنِ عمل اور نیکی کردار کا وجود ہوسکتا ہے یا نہیں؟ بلکہ اس میں کہ ان ایمانیات کے تحت میں حسنِ عمل اور نیکی کردار کا وجود زیادہ بہتر ہوسکتا ہے، یا ان ایمانیاں کے تحت میں؟ لیکن یہ نہیں کوئی کہہ سکتا کہ کسی ’’ایمان‘‘ کے بغیر کوئی عمرل، کسی نظامِ حیات کے بغیر کوئی بلند کارنامۂ حیات اور کسی بنیاد کے بغیر کوئی مستحکم عمارت قائم ہوسکتی ہے، آپ اس کا نام انسانیت رکھیں، قومیت رکھیں، وطنیت رکھیں، بالشوزم رکھیں، بت پرستی رکھیں یا توحید یا خدا شناسی رکھیں، جو چاہے رکھیں اور جو چاہے قرار دیں، بہر حال یہ مقدمہ اپنی جگہ پر مسلَّم ہے کہ ’’ایمان کے بغیر عملِ صالح کا وجود ممکن ہی نہیں‘‘، اب سوال یہ ہے کہ ہمارا وہ اساسی خیال جس پر ہماری ملت کی بنیاد ہو اور جو ہمارے تمام اعمال کا سرچشمہ بنے کیا ہونا چاہئے؟
نسل و وطن کے عقیدہ کی ناکامی!
دنیا کی قوموں نے اساسِ ملت کی بنیاد جغرافیائی حدود اور نسلی خصوصیت کو قرار دیا، رومیوں کی ہزار سالہ حکومت رومی وطنیت کے سہارے پر قائم رہی، ہندوؤں، پارسیوں اور یہودیوں کی قومیت نسلی امتیاز پر مبنی ہے، یورپ کی موجودہ قومیتیں، نسل و وطن کی دوہری دیواروں پر کھڑی ہیں، لیکن خود غور کرو کہ جغرافیائی حدود اور نسلی و وطنی خصوصیات نے قوموں کو کتنا تنگ، محدود خیال اور متعصب بنادیا ہے، دنیا کی اکثر خونریزیاں، لڑائیاں اور قومی منافرتیں انہی جذبات نے پیدا کی ہیں، قدیم تاریخ میں ایران و روم کی صد سالہ جنگ اور خود یورپ کی گذشتہ عالمگیر جنگ جس میں انسانوں نے انسانوں کو درندوں کی طرح چیرا اور پھاڑا، اسی نسلی و وطنی جذبات کی شعلہ افروزی تھی اور آج کا خونی تماشا بھی اسی جذبہ کا نتیجہ ہے۔
یہ نسلی اور وطنی افتراق قوموں کے درمیان و ہ خلیج ہے جس کو انسانوں کے ہاتھ کبھی پاٹ نہیں سکتے، نہ تو فطرۃً کسی نسل و قومیت کا کوئی پیدا شدہ انسان دوسری نسل و قومیت میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ ایک مقام کا پیدا شدہ دوسرے مقام کا پیدا شدہ بن سکتا ہے، نہ کالا گورا بن سکتا ہے، نہ گورا کالا اور نہ فرنگی زنگی بن سکتا ہے، نہ زنگی فرنگی، نہ جرمن کو انگریز بنایا جاسکتا ہے اور نہ انگریز کو جرمن، نہ افغانی ہندوستانی بن سکتا ہے اور نہ ہندوستانی افغانی، آج پولینڈ کے کھنڈروں سے لے کر رومانیا کے روغنی چشموں تک جو زمین خون سے لالہ زار ہے اس کا سینہ کیا اسی نسلی و وطنی خونخواریوں سے داغ دار نہیں؟
غرض نسل و وطن کے دائرے اس مضبوطی سے فطرۃً محدود ہیں کہ ان کے اندر تمام دنیا تو کیا، چند قوموں کے سمانے کی بھی وسعت نہیں ہے، ان دونوں کے جذبات و احساسات صرف ایک مختصر و محدود قوم کی جامعیت کا کام دے سکتے ہیں، کسی عالمگیر امن و صلح اور انسانی اخوّت و برادری کی بنیاد اس پر رکھی ہی نہیں جاسکتی۔
پھر ان دونوں محدود تصورات کے ذریعہ سے اگر انسانوں میں کچھ شریفانہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں تو وہ انہی تنگ جغرافیائی اور نسلی دائروں تک محدود رہیں گے اور کبھی تمام دنیا کے اس کے اندر سماجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں ان اساسی تصورت کے ذریعہ جن بلند انسانی اخلاق اور کیرکٹر کا پیدا کرنا مقصود ہے، ان میں سے صرف نسل و وطن کی حفاظت کی خاطر شجاعت، ایثار و قربانی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں ،مگر عمومی نیکی، تواضع، خاکساری، رحم و شفقت، عفت و عصمت، صدق اور امانت و دیانت وغیرہ سینکڑوں ایجابی اور سلبی اخلاق ہیں جو ان کے ذریعہ نہ کبھی پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔
آج کل یورپ کی تمام جنگ و جدل اور باہمی ہنگامہ آرائی اور تقابل کا وہ پتھر جس سے ان کی دولت اور تہذیب و تمدن کا شیشہ چور چور ہو رہا ہے یہی تنگ و محدود وطنیت و قومیت کا عقیدہ ہے، یہ وہ دیوتا ہے جس پر یورپ کی تمام قومیں بھینٹ چڑھ رہی ہیں، ہر قوم کے تمام دولت مندوں کی دولتیں، تمام عالموں کا علم، تمام سائنس والوں کی سائنس، تمام صنّاعوں کی صنعتیں، تمام موجدوں کی ایجادیں، اپنی قوم کے سواء دنیا کی دوسری انسانی قوموں کی گرفتاری، محکومی، بربادی اور ہلاکت میں صرف ہورہی ہیں۔
آج نازازم اور فسزم کا دور ہے، جس نے ایک بدترین مذہب کی صورت اختیار کرلی ہے، جس میں ہر قسم کی حیوانی قوّت کی نمائش، ہر قسم کی ہلاکت اور انسانی بربادی کا مہیب ترین منظر اور قوت کے دیوتا کے سامنے ہر اخلاقی اور قانونی آئین کی قربانی کا تماشا سب کے سامنے ہے، یہ جو کچھ ہے یہ وہی قومیت اور وطنیت کی خونخوارانہ بُت پرستی کا عبرتناک نظارہ ہے، جس سے نوعِ انسانی کی کسی بھلائی کی توقع نہیں ہوسکتی۔
اقتصادی عقیدہ کا فریب:
سوشلزم اور بالشوزم اور دوسرے اقتصادی خیالات سے بھی بھلائی کی توقع نہیں کہ اس نے خود انسانوں کو سرمایہ دار و غیر سرمایہ دار دو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے وہ سب کچھ کیا ہے اور کرنا چاہتی ہے جو کبھی کسی مذہب اور مذہبی محکمۂ تفتیش نے انجام دیا ہے، قوموں کے ساتھ ان کی ناانصافی کا تماشا آج بھی دنیا ترکستان سے لے کر فین لینڈ تک دیکھ رہی ہے، اگر زبردستی کوئی بری چیز ہے تو مذہب سے زبردستی روکنا بھی اتنی ہی بری چیز ہے جتنا زبردستی سے کسی مذہب کو پھیلانا، اگر مسلمانوں کا گرجاؤں کا توڑنا اور عیسائیوں کا مسجدوں کا منہدم کرنا ناجائزہے تو ملحدوں کا ان دونوں کو مسمار کرنا بھی ناجائز ہے۔
پھر ان تخیلات میں جن کی بنیاد محض پیٹ اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہے، کسی اخلاقی نصب العین بننے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے، اسی لئے ان کا محدود اقتصادی نظریہ پورے نظامِ ہستی اور نظامِ زندگی کا معمہ حل نہیں کرسکتا۔
ان سب کے ماوراء یہ ہے کہ ضرورت تو یہ ہے کہ نسلیت و وطنیت کے تنگ دائروں سے نکل کر جس عمومی تصور کو اساسِ ملت بنایا جائے، ان میں بقاء اور دوام کی صلاحیت ہو، سوسائیٹیاں اور جماعتیں جن کی بنیاد کسی مادّی خود غرضی اور منفعت اندوزی پر رکھی جائے وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں، چنانچہ جب سے دنیا بنی ہے خدا جانے مادّی اغراض کی بناء پر کتنی جماعتی اور مجلسیں قائم ہوئیں اور مٹ گئیں، انجمنیں روز بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں، اور سوسائیٹیاں روز پیدا ہوتی ہیں اور مرتی ہیں، ایسی ناپائیدار اور سطحی چیزیں جامعیتِ ملت کی بنیاد اور اساس نہیں بن سکتیں اور نہ وہ ہمارے نظامِ حیات کا اصول اور معیار قرار پاسکتی ہیں۔
صحیح ایمان کی ضروری خصوصیات:
غرض عالمگیر اور دائمی اساسِ ملت اور صحیح بنیادِ عمل بننے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اساس و بنیاد قرار دی جائے اس میں حسبِ ذیل خصوصیتیں ہوں:
(۱) وہ کوئی مادّی غرض و غایت کی چیز نہ ہو جو ہمیشہ بدل جاتی رہے۔
(۲) وہ کوئی محدود وطنی، نسلی بُت نہ ہو جو اپنے نسل و وطن سے باہر جاکر زندہ نہ رہ سکے۔
(۳) وہ قومی، نسلی اور وطنی منافرتوں اور تفرقوں کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ کر عالمگیر اتحاد اور اخوت کی بنیاد ڈال سکے۔
(۴) وہ تخیل عقیدہ بنکر ہمارے نیک افعال کا محرّک اور بُرے افعال کا مانع بنے، وہ انسانوں کو نیکی کے لئے اُبھارے اور برائی سے روک سکے۔
(۵) وہ ایک ایسا دائمی صحیح اور سچا عقیدہ ہو جس کو مان کر اس برادری میں داخل ہونے میں کسی کو دقت نہ ہو۔
(۶) وہ ایک طرف اپنے بندوں اور اپنے خالق کے ساتھ گرویدگی اور بندگی کا تعلق پیدا کرے اور دوسری طرف اپنی ہم جنس مخلوقات کےساتھ محبت اور ادائے حقوق کا جذبہ پیدا کرے۔
اسلام میں عقائد کی حقیقت اور اہمیت:
ان چند عقلی مبادی کے ثبوت کے بعد اب آئیے اسلام کے اصول عقائد و مبادی کا جائزہ لیں، اسلام میں جس حقیقت کو عقائد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ در حقیقت یہی چند ذہنی اصول و مبادی ہیں جو جماعت کا کریڈ اور تمام انسانی افکار و خیالات کی بنیاد و اساس ہیں، ان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات اسی محور کے گرد چکر کھاتے ہیں، یہی وہ نقطہ ہے جس سے انسانی عمل کا ہرخط نکلتا ہے اور اس کے دائرۂ حیات کا ہر خط اسی پر جاکر ختم ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے تمام افعال اور حرکات ہمارے ارادہ کے تابع ہیں، ہمارے ارادہ کا محرک ہمارے خیلات اور جذبات ہیں، اور ہمارے خیالات اور جذبات پر ہمارے اندرونی عقائد حکومت کرتے ہیں، عام بول میں انہیں چیزوں کی تعبیر ہم ’’دل‘‘ کے لفظ سے کرےت ہیں، اسلام کے معلم نے بتایا کہ انسان کے تمام اعضاء میں اس کا دل ہی نیکی اور بدی کا گھر ہے، فرمایا:
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان)
انسان کے بدن میں گوشت کا ٹکڑا ہے جو اگر درست ہے تو تمام بدن درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو تمام بدن بگڑ گیا، ہاں وہ ٹکڑا دل ہے۔قرآن پاک نے دل (قلب) کی تین کیفیتیں بیان کی ہیں، سب سے پہلے قلبِ سلیم (سلامت رَو دل) ہے، جو ہر گناہ سے پاک رہ کر بالطبع نجات اور سلامت روی کے راستہ پر چلتا ہے، دوسرا اس کے مقابل میں قلبِ اثیم (گنہگار دل) ہے، یہ وہ ہے جو ہمیشہ گناہوں کی راہ اختیار کرتا ہے، اور تیسرا قلبِ منیب (رجوع ہونے والا دل) ہے، یہ وہ ہے جو اگر کبھی بھٹکتا اور بے راہ بھی ہوتا ہے تو فوراً نیکی اور حق کی طرف رجوع ہوجاتا ہے۔
غرض یہ سب نیرنگیاں اسی ایک بے رنگ ہستی کی ہیں جس کا نام دل ہے، ہمارے اعمال کا ہر محرم ہمارے اسی دل کا ارادہ اور نیت ہے، اسی بھاپ کی طاقت سے اس مشین کا ہر پُرزہ چلتا اور حرکت کرتا ہے، اسی لئے آپؐ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔ (صحیح بخاری:آغازِ کتاب) تمام کاموں کا مدار نیت پر ہے۔
وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔(صحیح بخاری:آغازِ کتاب)
ہر شخص کے کام کا ثمرہ وہی ہے جس کی وہ نیت کرے، پس جس کی ہجرت کی غرض دنیا کا حصول یا کسی عورت سے نکاح کرنا ہے تو اس کی ہجرت اس کے لئے ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی (یعنی اس سے اس کو ثواب حاصل نہ ہوگا)۔
آج کل علمِ نفسیات نے بھی اس مسئلہ کو بداہۃً ثابت کردیا ہے کہ انسان کی عملی اصلاح کے لئے اس کی قلبی اور دماغی اصلاح مقدم ہے اور انسان کے دل اور ارادہ پر اگر کوئی چیز حکمران ہے تو وہ اس کا عقیدہ ہے، صحیح اور صالح عمل کے لئے ضروری یہ ہے کہ چند صحیح اصول و مقدمات کا ہم اس طرح تصور کریں کہ وہ دل کا غیر مشکوک یقین اور غیر متزلزل عقیدہ بن جائیں اور اسی صحیح یقین اور مستحکم عقیدہ کے تحت میں ہم اپنے تمام کام انجام دیں۔جس طرح اقلیدس کی کوئی شکل چند اصولِ موضوعہ اور اصول متعارفہ کے مانے بغیر نہ بن سکتی ہے اور نہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح انسان کا کوئی عمل صحیح اور درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے لئے بھی چند مبادی اور چند اصول موضوعہ ہم پہلے تسلیم نہ کرلیں جن کو ہم عقیدہ کہتے ہیں۔بظاہر عقل ہمارے ہر کام کے لئے ہم کو رہنما نظر آتی ہے، لیکن غور سے دیکھئے کہ ہماری عقل ابھی آزاد نہیں، وہ ہمارے دلی یقین، ذہنی رجحانات اور اندرونی جذبات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اسی لئے اس پا بہ زنجیر عقل کے ذریعہ ہم اپنے دلی خیالات، ذہنی رجحانات اور اندرونی جذبات پر قابو نہیں پاسکتے، اگر پاسکتے ہیں تو اپنی صحیح دلی یقینیات اور چند مضبوط دماغی و ذہنی تصورات کے ذریعہ، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے ’’ایمان‘‘ کا ذکر ہمیشہ عملِ صالح کے ذکر سے پہلے لازمی طور پر کیا ہے، اور ایمان کے بغیر کسی عمل کو قبولیت کے قابل نہیں سمجھا ہے کہ ایمان کے عدم سے دل کے ارادہ اور خصوصاً اس مخلصانہ ارادہ کا بھی عدم ہوجاتا ہے جس پر حسنِ عمل کا دار و مدار ہے، عبد اللہ بن جدعان ایک قریشی تھا، اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ ’’یا رسول اللہؐ! عبداللہ بن جدعان نے جاہلیت میں جو نیکی کے کام کئے ان کا ثواب اس کو ملے گا؟ آپؐ نےفرمایا: نہیں اے عائشہ! کیونکہ کسی دن اس نے یہ نہیں کہا کہ بارِ الہا! میرے گناہوں کو قیامت میں بخش دے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، غزوات قلمی نسخہ دار المصنفین، ابن حنبل:۶،۱۴۹، مطبوعہ مصر)بدر کی لڑائی کے موقع پر ایک مشرک نے جس کی بہادری کی بڑی دھوم تھی حاضر ہوکر کہا: اے محمدؐ! میں بھی تمہاری طرف سے لڑنے کے لئے چلنا چاہتا ہوں کہ مجھے بھی غنیمت کا کچھ مال ہاتھ آئے، آپؐ نےفرمایا: کیا تم اللہ عزّ و جل اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں! فرمایا: واپس چلے جاؤ! کہ میں اہلِ شرک سے مدد کا خواستگار نہیں‘‘ دوسری دفعہ وہ پھر آیا اور وہی پہلی درخواست پیش کی، مسلمانوں کو اس کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے اس کی اس درخواست پر خوشی ہوئی اور وہ دل سے چاہتے تھے کہ وہ ان کی فوج میں شریک ہوجائے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پھر وہی سوال کیا: ’’کیا تم کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ہے؟‘‘ اس نے پھر نفی میں جواب دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا: ’’میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا‘‘، غالباً مسلمانوں کی تعداد کی کمی اور اس کی بہادری کے باوجود اس سے آپؐ کی بے نیازی کی اس کیفیت نے اس کے دل پر اثر کیا، تیسری دفعہ جب اس نے اپنی درخواست پیش کی اور آپؐ نے فرمایا: ’’تم کو خدا اور رسولؐ پر ایمان ہے؟‘‘ تو اس نے اثبات میں جواب دیا، تو اسلامی فوج میں ایک مجاہد کی حیثیت سےاس کو داخل ہونے کی اجازت ملی، (صحیح مسلم:۲،۱۰۶، مطبوعہ مصر) اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ جماعت میں داخل ہونے کے لئے اس کے کریڈ اور عقیدہ کو تسلیم کرنا اس جماعت کی مضبوطی کی سب سے پہلی شناخت ہے۔غرض اسلام کے نقطۂ نگاہ سے بھی ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے فقدان سے ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی، کیونکہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی اثر و فائدے سے خالی اور بے نتیجہ ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول ہمارے اعمال کی غرض و غایت ہے، یہ نہ ہو تو ہمارے تمام کام بے نظام اور بے مقصد ہوکر رہ جائیں، وہ ہمارے دل کا نور ہے، وہ نہ ہو تو پوری زندگی تیرہ و تاریک نظر آئے اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ریاء، نمائش، جاہ پسندی، خود غرضی اور شہرت طلبی وغیرہ کے دنی جذبات اور پست محرکات کے سواء کچھ اور نہ رہ جائے۔
ایمان کے اجزاء:
اسلام نے چونکہ علم و عمل، تصور اور فعل، عقلیت اور عملیت میں لزوم ثابت کیا ہے اور عقائد کے اتنے ہی حصہ کا یقین و اقرار ضروری قرار دیا جو عمل کی بنیا اور اخلاق و عبادات کی اساس قرار پاسکے اور دل کی اصلاح و تزکیہ میں کام آسکے، اور اسی لئے اس نے عقائد کے فلسفیانہ الجھاؤ اور تصوّرات و نظریات کی تشریح و تفصیل کرکے عملیت کو برباد نہیں کیا، چند سیدھے سادے اصول ہیں جو تمام ذہنی سچائیوں اور واقعی حقیقتوں کا جوہر اور خلاصہ ہیں اور انہی پر یقین کرنے کا نام ایمان ہے، اور صریح الفاظ میں اس ایمان کے صرف پانچ اصول تقلین کئے: (۱) خدا پر ایمان، (۲) خدا کے فرشتوں پر ایمان، (۳) خدا کے رسولوں پر ایمان، (۴) خدا کی کتابوں پر ایمان، اور (۵) اعمال کی جزاء اور سزاء کے دن پر ایمان۔
ان اجزائے ایمانی کی حکمت:
(۱) اللہ تعالیٰ پر ایمان کہ وہ اس دنیا کا تنہاء خالق اور مالک ہے اور ہر ظاہر و باطن سے آگاہ ہے تاکہ وہی ہمارے تمام کاموں کا قبلۂ مقصود قرار پاسکے اور اس کی رضا جوئی اور اس کی مرضی کی تعمیل ہمارے اعمال کی تنہاء غرض وغایت ہو، اور ہم جلوت کے سواء خلوت میں بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ سکیں، اور ہر نیکی کو اس لئے کریں ار وہر برائی سے اس لئے بچیں کہ یہی ہمارے خالق کا حکم ہے اور یہی اس کی مرضی ہے، اس طرح اعمال ناپاک اغراض اور ناجائز خواہشات سے مبرّا ہوکر خالص ہوسکیں، اور جس طرح ہمارے جسمانی اعضاء گناہوں سے پاک ہوں، ہمارا دل بھی ناپاک خیالات اور ہوا و ہوس کی آمیزش سے پاک ہو اور اس کے احکام اور اس کے پیغام کی سچائی پر دل سے ایسا یقین ہو کہ ہمارے ناپاک جذبات، ہمارے غلط استدلالات، ہماری گمراہ خواہشیں بھی اس یقین میں شک اور تذبذب پیدا نہ کرسکیں۔
(۲) خدا کے رسولوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ خدا کے ان احکام اور ہدایات اور اس کی مرضی کا علم انہی کے واسطے سے انسانوں کو پہنچا ہے، اگر ان کی صداقت، سچائی اور راستبازی کو کوئی تسلیم نہ کرے تو پیغامِ ربانی اور احکامِ الہٰی کی صداقت اور سچای بھی مشکوک و مشتبہ ہوجائے اور انسانوں کے سامنے نیکی، نزاہت اور معصومیت کا کوئی نمونہ موجود نہ رہے، جو انسان کے قوائے عملی کی تحریک کا باعث بن سکے، پھر اچھے اور بُرے، صحیح اور غلط کاموں کے درمیان ہماری عقل کے سواء ہمارے جو جذبات کی محکوم ہے کوئی اور چیز ہمارے سامنے ہماری رہنمائی کے لئے نہیں ہوگی۔
(۳) خدا کے فرشتوں پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں، مادیت اور روحانیت کے مابین واسطہ ہیں، مخلوقات کو قانونِ الٰہی کے مطابق چلاتے ہیں اور ہمارے اعمال و افعال کے ایک ایک حرف کو ہر دم اور ہر لحظہ ریکارڈ کرتے جاتے ہیں، تاکہ ہم کو ان کا اچھا یا بُرا معاوضہ مل سکے۔
(۴) خدا کے احکام و ہدایات جو رسولوں کے ذریعہ انسانوں کو پہنچائے گئے ہیں ان کو دور دراز ملکوں اور آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوا کہ وہ تحریری شکلوں میں یعنی کتابوں اور صحیفوں میں یا لفظ و آواز سے مرکب ہوکر ہماری سینوں میں محفوظ رہیں، اس لے خدا کی کتابوں اور صحیفوں کی صداقت اور جو کچھ ان میں ہے اس کی سچائی پر ایمان لانا ضروری ہے، ورنہ رسولوں کے بعد خدا کے احکام اور ہدایتوں کے جاننے کا ذریعہ مسدود ہوجائے اور ہمارے لئے نیکی اور بدی کی تمیز کا کوئی ایسا معیار باقی نہ رہے جس پر تمام ادنیٰ و اعلیٰ، جاہل و عالم اور بادشاہ و رعایا سب متفق ہوسکیں۔
(۵) اعمال کی باز پرس اور جواب دہ کا یقین اور اس کے مطابق جزاء اور سزاء کا خیال نہ ہو تو دنیاوی قوانین کے باوجود دنیائے انسانیت سراپا درندگی اور بہیمیت بن جائے، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسانوں کو جلوت و خلوت میں ان کی ذمہ داری محسوس کراتا ہے، ا سلئے روز جزاء اور یومِ آخرت پر ایمان رکھے بغیر انسانیت کی صلاح و فلاح ناممکن ہے اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے اس پر بے حد زور دیا ہے؛ بلکہ مکی وحی کا بیشتر حصہ اسی کی تلقین اور تبلیغ پر مشتمل ہے۔
یہی پانچ باتیں اسلام کے ایمانیات کے اصلی عناصر ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں پر اس کی کتابوں پر، اس کے فرشتوں پر اور روزِ جزاء پر ایمان لانا یہ عقائدِ خمسہ یکجا طور پر سورۂ بقرہ میں متعدد دفعہ کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئے ہیں۔
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ۔ (البقرۃ:۳)
جو لوگ غیب ( خدا کی صفات اور ملائکہ) پر ایمان رکھتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۔ (البقرۃ:۳)
اور جو کچھ تم پر (اے محمدؐ) نازل ہوا اور تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نامل ہوا اس پر یقین رکھتے (یعنی انبیاء اور ان کی کتابوں پر)۔
وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ۔ (البقرۃ:۳)
اور آخرت کےدن پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ تو سورہ کے آغاز کی آیتیں ہیں، سورۂ کے بیچ میں پھر ارشاد ہوا:
وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ۔ (البقرۃ:۱۷۷)
اور لیکن نیکی یہ ہے کہ جو شخص حدا پر، آخری دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔
سورۂ بقرہ کی آخر میں ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ۔ (البقرۃ:۲۸۵)
پیغمبر پر جو کچھ اتارا گیا اس پر وہ خود اور تمام مومن ایمان لائے، یہ سب لوگ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔
سورۂ نساء میں ان ہی عقائد کی تعلیم ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا۔ (النساء:۱۳۶)
اے وہ لوگو جو ایمان لاچکے ہو! ایمان لاؤ خدا پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے اتاری، اور جو شخص خدا کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے پیغمبروں کا اور روزِ قیامت کا انکار کرے گا وہ سخت گمراہ ہوا‘‘۔
ایمان و عمل کا تلازم:
سچا ایمان اور حسنِ عمل در حقیقت لام و ملزوم ہیں، اگر کوئی یہ کہے کہ ایک مومن بدکار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ تو یہ سوال حقیقت میں خود تضاد کو مستلزم ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ کوئی مومن ہو کر بدکاری اور چوری نہیں کرسکتا، اگر کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان مسلوب ہوجاتا ہے، اور یہ بالکل واضح ہے کہ جب کوئی مومن برائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے ایمان یعنی اصول اور جذباتِ فاسدہ کے درمیان کش مکش ہوتی ہے، تھوڑی دیر یہ لڑائی قائم رہتی ہے، اگر ایمان اور اصول نے فتح پائی تو وہ اپنے کو بچالیتا ہے اور اگر جذبات غالب آتے ہیں تو ایمان اور اصول کا تخیل اس وقت دب کر اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے اس پر بناء پر سچا مومن اور بدکردار ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے، اگر ہے تو حقیقت میں ایمان ہی کامل نہیں، یہاں بحث رسمی ایمان و مومن سے نہیں بلکہ اس ایمان سے ہے جس کے معنیٰ غیر متزلزل یقین اور ناقابلِ شک اعتقاد کے ہیں،جہاں کہیں رسمی و ظاہری ایمان کے ساتھ برائی اور بدکرداری کا وجود ہے، وہ در حقیقت ایمان کا نقص اور یقین کی کمی بھی ایمان ہی کی کمی کا نتیجہ ہے۔
ایمان کے بغیر کوئی عمل درست نہیں!
لیکن بہر حال عقلی فرض اور رسمی ایمان کے لئے لحاظ سے یہ سوال ہوسکتا ہے، اور یہ مانا جاسکتا ہے کہ ایک بدکردار مومن اور نیک اخلاق کافر و مشرک میں اگر پہلا نجات کا مستحق ہے اور دوسرا نہیں ہے تو ایسا کیوں؟ اس کا جواب شرعی اور عقلی دونوں حیثیتوں سے بالکل ظاہر ہے، اسلام نے نجات کا مدار ایمان اور عمل دنوں پر رکھا ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔ (العصر:۲،۳)
بے شک کُل انسان گھاٹے میں ہیں مگر وہ جو ایمان رکھتے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں۔
اس لئے کامل نجات کا مستحق وہی ہے جو مومن بھی ہے اور نیک کردار بھی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کفر و شرک کے گناہ کےسواء اپنے بندہ کا ہر گناہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے، البتہ شرک و کفر کو معاف نہ فرمائے گا اور اس کی سزا ضرور ہی وہ دے گا، چنانچہ ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا۔ (النساء:۴۸)
بے شک خدا اس کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سواء دوسرے گناہ جس کو چاہے معاف کردے گا۔
ایک اور آیت میں مشرکوں کے متعلق یہ قطعی طور پر فرمایا:
إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ۔ (المائدۃ:۷۲)
بیشک یہ بات ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ نے اس پر اپنی جنت حرام کی ہے۔
قرآن پاک نے ان لوگوں کے کاموں کی مثال جو ایمان سے محروم ہیں اس راکھ سے دی ہے جس کو ہوا کے جھونکے اڑا اُڑا کر فناء کردیتے ہیں اور ان کا کوئی وجود پھر باقی نہیں رہتا، اسی طرح وہ شخص جو ایمان سے محروم ہیں، ان کے کام بھی بے بنیاد اور بے اصل ہیں:
مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ۔ (ابراھیم:۱۸)
جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے کاموں کی مثال اس راکھ کی ہے جس پر آندھی والے دن زور سے ہوا چلی، وہ اپنے کاموں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے، یہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔
سورۂ نور میں ایمان کی دولت سے محروم لوگوں کے اعمال کی مثال سراب سے دی گئی ہے کہ اس کے وجود کی حقیقت فریبِ نظر سے زیادہ نہیں۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا۔ (النور:۳۹)
جنہوں نے خدا کا انکار کیا ان کے کام سراب کی طرح ہیں، جو میدان میں ہو جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچے تو وہاں کسی چیز کا وجود اس کو نظر نہ آئے۔
ان کی ایک اور مثال ایسی سخت تاریکی سے دی گئی ہے جس میں ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتتا اور جس میں ہوش و حواس اور اعضاء کی سلامتی کے باوجود ان سے فائدہ اٹھانا ناممکن ہے۔
أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ۔ (النور:۴۰)
یا ان کے کاموں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی گہرے سمندر میں سخت اندھیرا ہو، اس کے اوپر موج اور موج پر پھر موج اور اس کے اوپر بادل گھرا ہو، یہ اندھیرا ہے کہ اس میں ہاتھ نکالے تو وہ بھی سوجھائی نہ دے، جس کو خدا نے نور نہ دیا اس کے لئے کوئی نور نہیں۔
الغرض ایمان کے بغیر عمل کی بنیاد کسی بلند اور صحیح تخلیل پر قائم نہیں ہوسکتی، اس لئے ریاء، نمائش اور خود غرضی کے کاموں کو کوئی عزت نہیں دی جاتی، وہ کام جو گو بظاہر نیک ہوں لیکن کرنے والے کا ان سے اصلی مقصد نام و نمود پیدا کرنا ہوتا ہے، اخلاقی نقطۂ نظر سے تمام دنیا ان کو بے وقعت اور ہیچ سمجھتی ہے، اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کیا اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔ (البقرۃ:۲۶۴)
اے ایمان والو! اپنی خیراتوں کو احسان اور اُلاہنے دے کر اس طرح برباد کرتا ہے جو لوگوں کے لئے دکھانے کے لئے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور خدا پر جو نیکیوں کی جزا دیتا ہے) اور قیامت پر (جس میں نیکیوں کی جزاء ملے گی) یقین نہیں کرتا، اس کی خیرات کی مثال اس چٹان جیسی ہے جس پر کچھ مٹی پڑی ہو، ذرا اس پر پانی برسا تو مٹی دھل گئی اور پتھر رہ گیا، جس پر جو کچھ بویا جائے گا وہ اُگے گا نہیں۔
مومن و کافر کا فرق:
اس تفصیل سے معلوم ہوگا کہ ایک بدکردار رسمی مومن کے لئے نجات کی امید ممکن ہے، لیکن ایک حقیقی کافر و مشرک کے لئے نہیں، اور اس کی عقلی وجہ ظاہر ہے، لیکن ایک حقیقی کافر و مشرک کے درمیان وہی فرق ہے جو ایک چور اور ڈاکو کے درمیان ہے، ہر قانون دان جانتا ہے کہ ان دونوں میں قانون کی نظر میں کون مجرم زیادہ ہے، چور گو برائی کرتا ہے تاہم حکومت کا خوف اس کے دل میں ہے، مگر ڈاکو حکومت سے برسرِ پیکار ہوکر قتل و غارت کا مرتکب ہوتا ہے، اس لئے ڈاکو چور سے زیادہ سزاء کا مستحق ہے، بدکردار رسمی مومن گو گنہگار ہے مگر کبھی کبھی خوف الٰہی سے تھرّا جاتا ہے، کبھی کبھی خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا ہے اور کبھی اپنے گناہوں پر خدا کے حضور میں شرمندہ اور نادم بھی ہوتا ہے، مگر کافر و مشرک اگر کچھ اچھے کام بھی کریں، تاہم اپنی دوسری برائیوں کے استغفار کے لئے خدا کے سامنے سرنگِوں نہیں ہوتے۔
وہ خدا نام کسی کے قائل ہی نہیں جس کے خوف سے وہ تھرّائیں، جس کی بارگاہ میں وہ گڑ گڑائیں اور جس کی محبت سرشار ہوکر وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں، اس لئے اس مجرم کے لئے جس نے کسی مجبوری سے معذور ہوکر چھپ کر کسی قانونِ سلطنت کی نافرمانی کی رحم و بخشش کا موقع ہے، لیکن اس باغی کے لئے جو سرے سے سلطانِ وقت کو اور اس کے قانون ہی کو تسلیم نہیں کرتا رحم و بخشش کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن یہ محض ایک تمثیل تھی، ورنہ ظاہر ہے کہ خدا کو اس کی حاجت نہیں کہ اس کے بندے اس کی حکومت کو تسلیم کریں: فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ۔ ’’بے شک خدا دنیا سے بے نیاز ہے‘‘۔
بلکہ اصل یہ ہے کہ ایک کافر و مشرک اس اصولِ کار کو تسلیم نہیں کرتا جس پر مذہبی نیکیوں کی بنیاد ہے اور ایک رسمی مومن اس اصول کو تسلیم کرتا ہے، اس کی نسبت توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل عمل بھی کرے گا، لیکن جو ہنوز اصول کا مخالف ہے اس کے لوٹنے کے لئے ابھی بڑی دشوار منزل باقی ہے۔
ایمان یعنی اساسِ ملت اور بنیادِ عمل کی اہمیت:
اس خالص مذہبی نقطۂ نظر سے ہٹ کر بھی اگر مومن و کافر کے باہمی فرق و امتیاز پر غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ گو بہت سے بظاہر نیک لوگوں کو جو کافر ہیں اپنے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بہت سے بظاہر بُرے لوگوں کو جو مومن ہیں اپنے اندر داخل کرنا پڑتا ہے، تاہم اس موقع پر اس نکتہ کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ اس ’’اپنے‘‘ اور ’’غیر‘‘ کی وجہ تقسیم کیا ہے؟ جب اس وجہِ تقسیم کو ہم سامنے رکھیں گے تو ہم کو ناگزیر طور پر ایسا کرنا ہی پڑے گا، وجہ تقسیم خیرات کرنےوالا اور نہ خیرات کرنے والا یا جھوٹ بولنے والا اور نہ جھولنے والا نہیں ہے؛ بلکہ ایک خدا پر ایمان والا اور ایک دستور العمل (قرآن مجید) کو صحیح ماننے والا ہے، اس بناء پر اس وجہِ تقسیم کی رُو سے ایسا ہونا لازم ہے۔
یہ طریقۂ امتیاز کچھ اسلام یا مذہب ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر تحریک، ہر جماعت اور ہر اصولِ سیاست؛ بلکہ تمام انسانی تحریکات اور جماعتوں کا اصولِ تقسیم یہی ہے، ہر تحریک کا ایک صب العین اور ہر جماعت کا ایک عقیدہ (کریڈ) ہوتا ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کریڈ کے مطابق پورے جوش و خروش کے ساتھ عمل کرتے ہیں، یہ اس مذہب کے مومنین صالحین ہیں، دوسرے وہ ہیں جو اس کریڈ کے مطابق عمل نہیں رکھتے، یہ اس مذہب کے غیر صالح مومنین ہیں، لیکن ایک تیسری جماعت ہے جو سرے سے اس کریڈ ہی کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ اس کو بنیادِ عمل قرار دیتی ہے، گو اس تیسری جماعت کے بعض افراد بڑے فیاض و مخیّر ہوں یا بڑے عالم و فاضل ہوں، تاہم اس جماعت کے دائرہ کے اندر جس کا وہ کریڈ ہے ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، کیا یہی وجہ نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے کریڈ پر یقین رکھنے والا اس کے مطابق کرنے والا اور وہ بھی جو نفس کریڈ کو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے مطابق عمل پیرا نہیں، اس جماعت کے پنڈال میں جگہ پاسکتا ہے، مگر وہ جو اس کریڈ ہی کو صحیح باور نہیں کرتا اس کے احاطہ میں کوئی جگہ پانے کا مستحق نہیں ہے؟ اسی پر ہر جماعت کے اصول کو قیاس کیا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب تک کوئی جماعت اپنے اصولِ کار، اساس جماعت اور عقیدہ کو اتنی اہمیت نہ دے گی، اس کی اہمیت جو سب اہمیتوں کو بڑھ کر ہونی چاہئے قائم نہیں رہ سکتی، اور ملت کی وہ دیوار جس کو اس قدر سخت اور مستحکم ہونا چاہئے کہ باہر کے سیلاب کا ایک قطرہ بھی اس کے اندر نہ جاسکے، اگر اس میں اصول و عقیدہ پر ایمان کا مطالبہ کئے بغیر ہر کس و ناکس کو داخلہ کی اجازت دے دی جائےتو اس مستحکم دیوار میں یقیناً رخنے پر جائیں گے اور وہ ایک لمحہ کے لئے بھی کسی سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور وہ جماعت ایسے پراگندہ اصول و افراد کا مجموعہ ہوگی جس کو کسی اتحاد و اشتراک اور جامعیت کا رشتہ باہم متحد و مجموع نہیں کرتا۔
مستحکم جماعتیں وہ ہیں جو اپنے کریڈ پر شدت کے ساتھ جمی رہتی ہیں اور جو اس کریڈ کو تسلیم نہیں کرتا، رکنِ جماعت نہ ہونے کی حیثیت سے وہ ان کی جماعتی برادری میں کوئی اعزاز نہیں رکھتا، کیا ایک مسلمان جبکہ کسی سیاسی جماعت کا رکن ہو تو اس کے لئے تو اصولِ کار کی یہ سخت جائز بلکہ مستحسن ہو، مگر وہی اسلامی جماعت کےممبر کی حیثیت سے اپنے اخلاقی اصول کار، اساس ملت اور مذہبی بِنائے وحدت میں یہ شدت رَوا رکھے تو کس عقل سے وہ ملات کے قابل ٹھہرایا جائے، حالانکہ ہر دلی عقیدہ کا لازمی نتیجہ اسی قسم کی شدّت اور استحکام ہونا چاہئے، پھر اگر ایک جگہ وہ ہو اور دوسری جگہ نہ ہو تو اس کے صاف معنیٰ ہیں کہ ایک کو دل کے ساتھ جو تعلق ہے وہ دوسرے کو نہیں۔
نظامِ اسلام:
اب اگر اسلام اور اسلام کے قانون اور مذہب کو سمجھنا ہے تو اس کی اصل بنیاد پر نظر رکھنا چاہئے، جس پر اس کی پوری عمارت تعمیر ہوئی ہے، وہ بنیاد اقتصادیات کا کوئی نکتہ، دولت کا کوئی خزانہ، نسل و رنگ کا کوئی امتیاز اور ملک و وطن کی کوئی تجدید نہیں ہے بلکہ صرف ایک ہے اور وہ دنیا کی سب سے بڑی، لازوال اور وسیع و عالمگیر صداقت یعنی خدائے واحد پر ایمان ہے، یہ ہے اسلام کی ملت اور برادری کا اصل رشتہ اسی سے اس کی مذہب اور اس کے قانون کی تمام تقسیمیں اور امتیازات کی حدیث قائم ہوئی ہیں، اس کی حیثیت اسلام کی مملکت میں وہ ہے جو کل روم میں رومیت کی اور آج روس میں اصول بالشویت کی ہے۔
اس برادری کے دینی اور دنیاوی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس جماعت کے فارمولے پر دستخط کرے اور اس کے کریڈ کو دل وجان سے قبول کرے، آج تمام مہذّب دنیا کسی عالمگیر برادری کی بنیاد کو تلاش کرنے میں حیران و سرگرداں ہے، مگر نہیں ملتی، حالانکہ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی طرح آج بھی اسلام یہ آواز بلند کر رہا ہے کہ:
<
’’اے اہل کتاب آؤ! ہم اس ایک بات پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے نزدیک یکساں ہے کہ خدائے واحد کے سواء کسی اور کی پرستش نہ کریں اور خدا کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں‘‘۔
یہی توحیدِ اسلام کا وہ نظام نامہ ہے جس پر اس کے دین اور اس کی دنیا دونوں کی بنیاد ہے۔
توحید دنیا کی غیر متبدّل حقیقت ہے!
یہ توحید یعنی عرصۂ ہستی کا صرف ایک فرمانروائے مطلق ماننا جس کے سامنے ہر جسمانی و روحانی طاقت ادب سے جھکی ہوئی ہے اور اس کی بندۂ فرمان ہے، اور ساری دنیا اسی ایک کی مخلوق و محکوم ہے اور دنیا کی ساری قومیں اس کے آگے بحیثیت مخلوق کے برابر حیثیت رکھتی ہیں، دنیا کی وہ عظیم الشان حقیقت ہے جو سر تا پا صداقت اور حق ہے، اور ایسی عالمگیر ہے جو عرصۂ وجود کے ایک ایک ذرّہ کو محیط ہے اور ایسی لا زوال ہے کہ جس کو کبھی فناء نہیں اور ایسی کھلی اور واضح کہ جس کے تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہیں، اور ایسی خیرِ مجسم ہے جو ہمارے اندر ہر قسم کی نیکیوں کی تحریک کرتی ہے اور جو ایسی تسکین اور تسلی ہو جو ہر مصیبت اور مشکل کے وقت ہمارے لئے صبر و استقلال کی چٹان بن جاتی ہے اور ایسا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ جو کسی وقت ٹوٹ نہیں سکتا اور اس قدر وسیع کہ جس کے احاطۂ عام کے لئے اندر مخلوقات کی ایک ایک فرد داخل ہوکر اخلاقی حقوق و واجبات کی برادری قائم کرسکتی ہے اور خالق و مخلوق دونوں کی وابستگی اور محبت کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
غرض یہ ایسی عالمگیر حقیقت ہے جو سر تا پا صداقت اور حق ہے، جو کبھی نہ بدل سکی اور نہ بدلے گی، زبانوں میں جو انقلاب ہو خیالات میں جو تغیر ہو تمدّنوں میں جو اُتار چڑھاؤ ہو، قوموں میں جو تفرقے پیدا ہوں، مجازی حقیقتوں، مادی فائدوں اور سیاسی غایتوں میں جو اختلاف بھی پیدا ہو، مگر وہ ایک حقیقت ہے جو اپنی جگہ مسلم رہے گی اور جس میں کوئی تغیر اور انقلاب پیدا نہ ہوگا، کیونکہ اس کی بنیاد ایک ایسی لازوال ہستی کے یقین پر ہے جو مادّیات کی دنیا کی طرح دم بدم مٹتی اور بنتی ہے، لحظ بہ لحظہ متغیر اور منقلب نہیں۔
وہ ایک ایسی عالمگیر اور محیط ہستی کا تخیل ہے جس کے احاطۂ عام کے اندر تمام قومیں اور تمام مملکتیں بلکہ تمام مخلوقات یکساں استحقاق کے ساتھ داخل ہیں، اس کی ملکیت میں سیاہ و سپید، زنگی و رومی، ہندی و فرنگی، عربی و عجمی، امیر و غریب، عورت ومرد، شاہ پسند و جمہوریت پسند، حاکم و محکوم، آقا و غلام اور عالم و جاہل سب برابری کے ساتھ یکساں شامل ہیں، اور اس سے ایسی برادری کا رشتہ قائم ہوتا ہے جو قوموں میں میل، مملتوں میں اتحاد اور مخلوقات میں فرائض و واجبات کا احساس پیدا کرتا ہے۔
وہ خود مجسم خیر اور سر تا پا نیکی ہے، اس کی عقیدت اور محبت ہماری اندر نیکیوں کی تحریک اور برائیوں کی نفرت پیدا کرتی ہے، تاریکی میں بھی اس کی دیکھنے والی آنکھوں اور خلوتوں میں بھی اس کی جھانکنے والی نگاہوں کا سچا عقیدہ نازک سے نازک موقع پر بھی ہم کو برائیوں سے بچاتا اور نیکیوں کے لئے اُبھارتا ہے۔
جب ہمارا سہارا ٹوٹ جاتا ہے، ہر اعتماد شکست کھاجاتا ہے اور ہر امید منقطع ہوجاتی ہے اور جب افراد و قوم کے صبر و استقلال کے پاؤں ڈگمگا جاتے ہییں اور ان کے وجود کی کشتی منجدھار میں پھنس جاتی ہے، اس وقت اسی ایک کی مدد کا سہارا کام آتا ہے اور اسی ایک کی نصرت کا وثوق فتح و ظفر سے ہمکنار کرتا ہے اور مایوسیوں اور ناامیدیوں کے ہر بادل کو چھانٹ کر رحمتِ الٰہی کے نور سے آنکھوں کو پُر نور اور دلوں کو مسرور کردیتا ہے۔
اب کوئی بتائے کہ کسی ایسی قوم کے لئے جو اپنے کو دائمی اور ہمیشہ کے لئے روئے زمین پر آئی ہو وار آخر الامم اور غیر منسوخ ملت ہونے کی مدعی ہو، اس کی اساسِ ملت بننے کے لئےہر روز بدل جانے والے اور ہر صدی میں منقلب ہوجانے والے تخیلات اور نظریات کبھی اساسِ ملت قرار پاسکتے ہیں، اور ایسی قوم کے لئے جوکسی نسل، کسی رنگت اور کسی قطعۂ زمین میں اپنے کو محدود نہ کرے، اس عالمگیر خدائی برادری سے بڑھ کر کوئی برادری نہیں مناسب ہوسکتی ہے۔
عقیدۂ توحید کی اخلاقی حیثیت:
پھر ایسا عقیدہ جو تنہاء ہماری ملت کا اساس ہی نہ ہو بلکہ ہمارے عمل کی بنیاد ہو اس خلّاقِ عالم اور علّام الغیوب کے ایمان کے سواء کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، یہ لازوال اور زندۂ جاوید ہستی ہماری ملت کی لازوال اور زندۂ جاوید بناتی ہے، یہ عالمگیر اور محیط ہستی ہمارے اندر عالمگیر اخوت اور عمومی برادری کا رشتہ قائم کرتی ہے، وہ خیرِ مجسم اور سرا پا نیک ہستی ہم کو خیر کی دعوت اور نیکی کی صدا دیتی ہے، اس کے کمالی اوصاف ہم کو اپنے اخلاقی کمال کا نصب العین عطا کرتے ہیں، اس کے اسماءِ حسنیٰ اور صفاتِ کاملہ کا عقیدہ ہم کو ہر حیثیت سے حسین اور کامل بننے کا درس دیتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوگا کہ خدا وار اس کی ذات و صفات پر اعتقاد محض نظریہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی حیثیت تمام تر عملی ہے، اس کی صفاتِ عالیہ ہمارے اوصافِ حسنہ کے لئے نمونہ ہیں، اور اس کے محامد کریمہ ہمارے اعمال و اخلاق کی تصحیح کے لئے تحریرِ اوراق کا مسطر ہیں۔
خیر و شر کی تمیز:
جس طرح دنیا کی دوسری چیزیں فی نفسہٖ نہ خیر ہیں اور نہ شر ہم ان کو خیر یا شر صرف ان کے موقعِ استعمال کے لحاظ سے کہتے ہیں، آگ فی نفسہٖ نہ خیر ہے نہ شر، لیکن جب کوئی ظالم اس آگ سے کسی غریب کا جھونپڑا جلاکر خاکِ سیاہ کردیتا ہے تو وہ شر ہوجاتی ہے،لیکن جب اسی آگ سے کوئی رحم دل انسان چولہا گرم کرکے کسی بھوکے لئے کھانا پکاتا ہے تو وہ خیر ہوجاتی ہے، اسی طرح نیک و بد اعمال بظاہر یکساں ہیں اور ان میں نیک و بد کی تمیز نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس غرض و غایت کا لحاظ نہ کیا جائے جس کے لئے وہ کام کیا جاتا ہے، ایک ڈاکو کا ایک مسافر کو قتل کردینا اور ایک حکومت کا کسی ڈاکو کو پھانس دینا یکساں اتلافِ جان کا فعل ہے؛ لیکن پھر دنیا کاگر ایک کو خیر اور ایک کو شر کہتی ہے تو وہ اس غرض و غایت کی بناء پر ہے جس کے لئے یہ دونوں قتل کئے گئے ہیں، ڈاکو جس قتل کا مرتکب ہوا ہے اس سے اس کا مقصود مسافر کے مال پر ظالمانہ قبضہ تھا اور اس راہ میں اس کے مالک کے ناحق قتل کا آخری نتیجہ راستہ کی بد امنی ور ملک کی ویرانی ہے، اور سزا دینے والی حکومت کی غرض لوگوں کی جان و مال کی حفاظت، راستہ کا امن اور ملک کو آباد کرنا ہے، اس لئے پہلا فعل شر اور دوسرا خیر ہے۔
خیر و شر کی فلسفیانہ تحقیق اور ان کی باہمی تمیز نہایت مشکل ہے، جس کو نہ ہر عامی وجاہل سمجھ سکتا ہے اور نہ اس سے متاثر ہوسکتا ہے، حالانکہ خیر و شر کے اکثر امور پر تمام دنیا متفق ہے، اس لئے مذہب نے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک کے لئے ایک آسان اصول یہ بنادیا ہے کہ وہ تمام باتیں جن کو خدائے تعالیٰ پسند کرتا ہے خیر ہے اور جن کو ناپسند کرتا ہے وہ شر ہے، اس کے اس اصول سے نہ خیر و شر کی حقیقت بدلتی ہے اور نہ ان کے نفع و ضرر کا پہلو بدلتا ہے، نہ دنیا کے فائدے اور نقصان میں کمی بیشی ہوتی ہے، ہاں یہ ہوتا ہے کہ اس اصول کی تاثیر دلوں میں ایسی راسخ ہوجاتی ہے کہ جنگلی اور صحرائی سے لے کر مہذب و تعلیم یافتہ تک اس اصول کے ماتحت خیر پر عمل کرنے اور شر سے بچنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، چنانچہ آج دنیا میں جس قدر بھی خیر کا وجود ہے اور شر سے احتراز ہے وہ اسی پیغمبرانہ تعلیم کا نتیجہ ہے فلسفیانہ نکتہ آفرینیوں کا نہیں، ارسطو اور اسپنسر کے اصولِ اخلاق کو پڑھ کر اور سمجھ کر کتنے نیک اور خوش اخلاق پیدا ہوئے اور حضرت مسیح و حضرت علیہما الصلوٰۃ و السلام کی تعلیم و تاثیر نے کتنوں کو خوش اخلاق اور نیک کردار بنایا، اور آج دنیا میں لندن و نیویارک کے بازاروں سےلے کر افریقہ کے صحراؤں اور جنگلوں اور ہندوستان کے دیہاتوں تک میں نیکی کی اشاعت اور برائی سے پرہیز کی تعلیم انبیاء کے پیروؤں کے ذریعہ ہو رہی ہے یا فلسفیوں کے بالشویکوں کے ذریعہ انجام پارہی ہے یا نازیوں کے؟ سوشلسٹوں کے ذریعہ یا فسسٹوں کے؟ دل کا چین اخلاق کی طاقت اور عالمگیر انسانی برادری کی دولت اگر ممکن ہے تو وہ صرف اس توحید کے ذریعہ جس کی دعوت اسلام دیتا ہے اور اس ایمان کی بدولت جس کو اسلام دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، جس کی وسعت میں ساری دنیا آرام کرسکتی ہے اور جس کے سایہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے سارے امتیازات مٹ جاتے ہیں اور جس کی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ آسمان و زمین کی بنیادیں اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو ہٹ جائیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکتی۔
بہ شکریہ انوارِ اسلام
Jan 26 2015
Imaan ki Ahmiyat – Allama Syed Sulaiman Nadvi RA
Imaan ki Ahmiyat – Allama Syed Sulaiman Nadvi RA
ایمان کی اہمیت:- حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ
جماعتوں کی تنظیم کسی ذہنی اساسِ ملت اور بنیادِ عمل سے ہوتی ہے!
دنیا کی وہ تمام عظیم الشان قومیں جنہوں نے دنیا میں کوئی بڑا کام کیا ہے یا جو دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے پورے نظامِ ہستی کو کسی ایک قانون پر مبنی کریں اور اپنی تمام منتشر قوتوں کو کسی ایک اصول کے تحت مجتمع کریں، زندگی کے سینکڑوں شعبے اور بقائے ہستی اور ترقی کے ہزارہا شاخ در شاخ اعمال جو دیکھنے میں تمام تر منتشر، پراگندہ، متفرق اور ایک دوسرے سے الگ نظر آتے ہیں، ان سب کے درمیان ایک واحد نظام، ایک متحدہ اصول اور ایک مشترکہ جامعیت پیدا کریں، جن کا شیرازہ ان متفرق و پراگندہ اوراق کو ایک منظم کتاب بنادے۔
دنیا جب سے بنی ہے تب سے آج تک ہزارہا قومیں پیدا ہوئیں اور مریں؛ لیکن کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک کہ اس کے اندر اس کی زندگی کا کوئی واحد نظام نہیں پیدا ہوا، اور کسی واحد متخیلہ نے ان کے اندر یہ اہمیت نہیں پیدا کرلی ہے کہ وہ اس کے تمام افراد کی زندگی کی غرض و غایت اور اس کے تمام اعمال کا مرکز و مرجع اور جہت و قبلہ نہ بن گیا ہو، وہی واحد متخیلہ بڑھ کر واحد جماعت اور اس سے بھی زیادہ پھیل کر ایک واحد ملت کی تخلیق و تکوین کرتا ہے۔
ہم اس کو ایک مثال میں سمجھانا چاہتے ہیں، روم کی سلطنت کا آغاز گاؤں سے ہوا اور رفتہ رفتہ یہ نقطہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ صدیق میں ایک عظیم الشان سلطنت بن گئی، اس دائرہ کا نقطۂ خیال، مرکزِ اتحاد، جہتِ اشتراک، اساسِ جامعیت، رومیت قرار پائی، جس نے رومیت کے اصول کو تسلیم کیا اس کو شہرِ روم کے باشندوں کے حقوق عطا ہوئے اور جس نے قبول نہ کیا یا جس کو یہ شرف خود رومیوں نے عطا نہیں کیا وہ ان حقوق سے محروم رہا، صدیوں تک یہ رومیت رومی قوم کی زندگی کا شعلۂ حیات رہی اور اس کی روشنی سے پورا رومن امپائر اسپین سے لے کر شام تک جگمگاتا رہا، مگر جیسے جیسے یہ روشنی ماند پڑتی گئی اندھیرا چھاتا گیا اور جیسےسے رومی عمارت کی یہ مستحکم بنیاد کمزور پڑتی گئی ڈہتی گئی، یہاں تک کہ ایک دن یہ عمارت گر کر زمین کے برابر ہوگئی۔
الغرض قوموں کی موت و حیات کسی ایک ’’متخیلہ‘‘ کی موت و حیات پر موقوف ہے، جس کی زندگی سے زندگی اور جس کی موت سے موت ہے، گذشتہ جنگ میں اور اس جنگ میں بھی آپ سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ انگریز، جرمن یا جرمن انگریز سے لڑ رہے ہیں، نہیں!انگریزیت جرمنیت سے یا جرمنیت انگریزیت سے لڑ رہی تھی اور لڑ رہی ہے، قوم قوم سے نہیں لڑ رہی ہے بلکہ ایک یقینی تخیل دوسرے یقینی تخیل سے لڑتا ہے۔
قوم کی زندگی کا وہ یقینی تخیل اس کے تمام کاموں کی اساس و بنیاد بن جاتا ہے، پوری قوم اور قوم کے تمام افراد اس ایک نقطہ پر جمع ہوجاتے ہیں، وہ نقطۂ ماسکہ ان کی پوری زندگی کا محور بن جاتا ہے، اسی ایک تخیل کا رشتہ منتشر افراد کو بھائی بھائی بناکر ایک قوم کے مشترکہ افراد ترتیب دیتا ہے اور ایک واحد، متحد، منظم اور قوی قوم بناکر کھڑا کردیتا ہے۔
جب کبھی دو قوموں کا مقابلہ ہوگا تو ہمیشہ اس کو فتح ہوگی جس کا نقطۂ تخیل زبردست ہوگا اور جس کے افراد اس رشتۂ حیات میں سب سے زیادہ مستحکم بندھے ہوں گے اور جو اس مشترک اساس و بنیاد پر سب سے زیادہ متفق و متحد ہوں گے، عربوں نے اسی قوت سے قیصر و کسریٰ کو شکستِ فاش دی، عربوں کے پاس ایرانیوں کے خزانے اور نہ رومیوں کے اسلحہ تھے، مگر ان کے پاس وہ قوتِ ایمانی تھی جس سے ایرانی اور رومی محروم تھے۔
جب کوئی قوم تنزّل پذیر ہوتی ہے تو اس کی وہی قوتِ ایمانی کمزور ہوجاتی ہے، اس کی وہی مشترک اساس و بنیاد منہدم ہونے لگتی ہے اور قوم کی زندگی کا مقصد اس مشترکہ قومی غرض و غایت سے ہٹ کر اپنے اپنے نفس، اپنے اپنے خاندان، اپنی اپنی جماعت میں بٹ جاتا ہے، اس لئے اس میں قومی خائن پیدا ہوتے ہیں جن کے پیشِ نظر اس مشترکہ جامعیت کے فوائد و نقصانات کے بجائے خود اپنی ذات و خاندان کا فائدہ و نقصان ہوتا ہے۔
مٹھی بھر انگریزوں نے ہندوستان کے روپئے سے اور ہندوستان ہی کے سپاہیوں سے خود ہندوستان کو فتح کیا، حالانکہ اس وقت پورے ملک میں اودھ، روہیل کھنڈ، بنگال، مرہٹہ، میسور اور حیدرآباد کی ایسی عظیم الشان طاقتیں تھیں جن کے بس میں تھا کہ انگریزوں کو پوری طرح شکست دے دیں، مگر ایسا نہ ہوسکا، اس لئے کہ انگریزوں کے سامنے ایک متحدہ و مشترکہ تخیل تھا جس پر پوری قوم متفق تھی، جو انگریز جہاں بھی تھا چاہے وہ سپاہی ہو، یا گودام کا کلرک ہو، یا سوداگر ہو، یا ڈاکٹر ہو، یا جنرل ہو یا گورنر ہو ہر ایک کے سامنے ایک ہی بلند مقصد تھا اور وہ انگلستان کی سربلندی اور عظمت، لیکن ہندوستانیوں کے سامنے باوجود طاقت و قوت کے کوئی ایک متحدہ غرض، مشترکہ جامعیت، واحد اساسِ کار اور متفقہ بنیادِ عمل نہ تھی جس کا بچاؤ، جس کی حفاظت اور جس کا اِعلاء پوری قوم کی غرض و غایت اور بنیاد و اساس ہوتی، ہر نواب، ہر رئیس، ہر سپہ سالار، ہر سپاہی اور ہر نوکر کا مقصد اپنی فکر اور اپنی ترقی تھی، اس حالت میں نتیجہ معلوم۔
اب ایک اور حیثیت سے نظر ڈالئے، دنیا کی ہر متمدن قوم کے پورے نظامِ زندگی کا ایک اصل الاصول ہوتا ہے، فرض کرو کہ آج روسی بالشوسٹ کے سارے نظام کا ایک واحد نقطۂ خیال ہے، اور وہ سرمایہ داری کی مخالفت ہے جو اس نظام کی اصل اساس ہے، اب جس قدر اس نظام کی شاخیں، شعبے، صیغے اور کام ہیں سب ایک اصل الاصول یعنی ’’سرمایہ داری کی مخالفت‘‘ پر مبنی ہیں، اسی طرح ہر ترقی یافتہ قوم کے تمدن اور نظامِ ہستی کا ایک اصولی نقطہ ہوتا ہے جس کے تحت میں اس تمدّن اور نظامِ ہستی کے تمام شعبہ اور فروع ہوتے ہیں۔
اسی طرح آج انگریزی جد و جہد کی بنیاد، انگریزی سرمایہ داری، امریکن تمدّن کی بنیاد امریکن سرمایہ داری، نازی تمدّن کی بنیاد جرمن قوم کی سربلندی اور فسست کی بنیاد پرانی رومی قیصریت کی دوبارہ تعمیر پر ہے، اگر کسی تمدّن اور نظام کا یہ سرا نکال دیا جائے تو اس تمدن کے تمام اجزاء اور اس نظام کے تمام شعبے بے معنیٰ، بے سود اور بے اساس ہوکر رہ جائیں، اور چند ہی روز میں وہ تمام سر رشتے تارِ عنکبوت ہوکر نابود ہوجائیں، اسی لئے ہر قومی تمدّن اور نظامِ ملت کو سمجھنے کے لئے اس کے اس اساسِ کار، سر رشتۂ خیال اور اصل الاصول کو سمجھنا چاہئے، جب تک وہ سِرا ہاتھ نہ آئے گا اس نظامِ ملت کا الجھاؤ سلجھ نہیں سکتا۔
ملتوں کا اختلاف متخیلہ کے اختلاف سے ہے
اس نقطہ کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں گو ہزاروں ملتیں اور قومیتیں ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک ملت و قومیت کا اصل انفرادی تشخص اور امتیازی وجود اس کے گوشت پوست، ہڈی اور رنگ و روغن سے نہیں یہ اوپری سطح اور ظاہری قشر پر کے نشانات اور خطوط ہیں، ان کا اصل انفرادی اور مستقل تشخص اور امتیازی وجود ان ایمانیات اور یقینیات سے ہے جو ہر ایک کے دل میں بسے اور ہر ایک کے رگ و ریشہ میں رچے ہوئے ہیں۔
آج ہندوستان میں ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی، جین، سکھ اور ہزاروں قومیں آباد ہیں، شکل و صورت اور رنگ و روپ کے لحاظ سے ان میں کوئی تفاوت نہیں، اگر ہے تو ہر ایک کے اس متخیلہ میں ہے جس سے اس کی ملت کی تعمیر ہوئی ہے، اس لئے کسی ملت کے متخیلہ کو بدل دینے کے معنیٰ اس ملت کو مٹادینے کے مترادف ہے، دنیا میں جو کمزور قومیں فناء ہوئی ہیں ان کی صورت یہی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنا متخیلہ ایمانی چھوڑ کر کسی دوسری طاقتور قوم کے متخیلۂ ایمانی کو قبول کرلیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قوم مٹ گئی اور دوسری قوم میں ضم ہوکر وہ خود فناء ہوگئی، ہندوستان کے یونانی، سیتھین اور بودھ کیا ہوئے؟ ایرین ہندوؤں میں سما گئے، ایران کے مجوسی کدھر گئے؟ مسلمانوں میں مل گئے، مصر کے قبطی کہاں گئے؟ عربوں میں شامل ہوگئے، سسلی اور اسپین کے عرب کیا ہوئے؟ اٹلی اور اسپین والوں میں گھل گئے۔
تجدید کی سعی بھی اسی متخیلہ کی مدد سے ممکن ہے
کسی قوم و ملت کی اس تعمیری حقیقت سے باخبر رہنا صرف اس لئے ضروری نہیں کہ وہ ہے اور وہ اس سے بنی ہے، بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی تجدید و اصلاح کی جب کبھی ضرورت پیش آئے تو اس حقیقت کا واقف اسی کے ذریعہ سے اس کی تجدید و مرمّت کرے، اس کی وہ تعمیری حقیقت وہ ساز ہوتا ہے جس کے چھیڑنے سے اس قومیت و ملت کا ہر تار اپنی جگہ پر حرکت کرنے لگتا ہے، اہلِ توحید کے لئے توحید کی آواز اہلِ صلیب کے لئے صلیب کی پکار، گاؤ پرست کے لئے گاؤ کی آواز سحر و طلسم کا حکم رکھتی ہے، جس سے ایک ایک لمحہ میں قوم کی قوم میں جان پڑ جاتی ہے اور سست و ناکارہ قوم بھی کروٹیں بدلنے لگتی ہے، اور آواز کی طاقت کے مطابق سر گرمِ عمل ہوجاتی ہے۔
فرض کرو دنیا میں آج چالیس کروڑ کی تعداد میں ایک ملت آباد ہے جس کا نام مسلمان ہے، اس ملت کی حقیقت کیا ہے؟ توحیدِ الٰہی اور رسالتِ محمدیؐ پر ایمان، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، اگر کوئی اس ملت کی حقیقتِ تعمیری کو مٹا ڈالے تو یہ چالیس کروڑ ملت واحدہ چالیس کروڑ قومیتوں میں منقسم ہوکر دم کے دم میں فناء ہوجائے گی اور یہ چالیس کروڑ افراد کا کارواں جو ایک صدائے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے جرس پر حرکت کر رہا ہے، اب اس کی حرکت کے لئے مختلف آوازوں کے چالیس کروڑ جرسوں کی ضرورت پیش آئے گی جس سے دنیا کی قوموں کا تصادم بجائے کم ہونے کے حدّ قیاس سے زیادہ بڑھ جائے گا اور ان کے باہمی جنگ و جدول کو کوئی ایک متحدہ آواز روک نہیں سکتی۔
الغرض ملت کی یہ تعمیری حقیقت ہر ملت کی روح ہوتی ہے، اس کی بقاء سے اس کی زندگی اور اس کی موت سے اس کی فناء ہوتی ہے، یہی ملت کے جسم کا گرم خون ہے جس سے رگ رگ میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور سعی و عمل کی قوت بیدار ہوتی ہے۔
کسی قوم کی اس اساسِ ملت اور بنیادِ تعمیر سے ہٹ کر جب کبھی اس تجدید کا کام کیا جائے گا تو وہ ساری کوشش بیکار جائے گی، فرض کرو کہ ایک ہندو قوم ہے اس کی قومیت کی بنیاد وہ خاص تخیلات و جذبات ہیں جو ہزار سال سے اس میں پیدا ہوکر اس کی حقیقت کے اجزاء بن گئے ہیں، ذات پات، چھوت چھات، گائے اور گنگا وہ مسالے ہیں جن سے اس کی قومیت کی تعمیر ہوئی ہے، بودھ کے عہد سے آج تک مختلف وقتوں میں بیسیوں ریفارمر اس قوم میں پیدا ہوئے جنہوں نے اس قوم کی ماہیت کے ان اجزاء کو بدل دینا چاہا، مگر یہ کیا آج تک ممکن ہوا؟ اور جب کبھی اس آواز میں عارضی کامیابی ہوئی تو بودھ، جین، کبیر پنتھی اور سکھ قومیں الگ الگ بن گئیں، مگر ہندو قومیت اپنی جگہ پر قائم رہی۔
مسلمانوں میں اسلامی حکومت کے زوال کے بعد سے آج تک بیسیوں تحریکیں مسلمانوں کی تجدید اور نشأۃ ثانیہ کے نام سے اٹھیں اور پھیلیں، مگر جو کامیابی مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کو حاصل ہوئی اور اس نے مسلمانوں کی ذہنی و عملی قویٰ کو بیدار کرنے میں جو عظیم الشان کام کیا، اس کی صرف یہی وجہ تھی کہ وہ تجدید اسلام کے اصل و اساس، نظامِ حقیقی کو سامنے رکھ کر شروع کی گئی تھی اور اس کے بعد بھی موجودہ زمانہ تک اسی تحریک کو فروغ ہوسکا جو اسی اساسِ ملت کے نام سے پیش کی جاتی رہی، اس کامیابی کا عارضی اور ہنگامی ہونا در اصل خود کارکنوں اور تحریک کے علم برداروں کے عارضی یقین اور ہنگامی ایمان کا نتیجہ ہے۔
ایمان کے بغیر عمل ممکن نہیں!
اب اس تشریح کے بعد اس کے تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہ ہوگا کہ دنیا میں کوئی ترقی یافتہ قوم یا ترقی چاہنے والی قوم ممکن ہی نہیں جس کے پاس چند ایمانیات نہ ہوں یا یوں کہو کہ چند اصولِ کار، اصولِ حیات یا اصولِ نظام نہ ہوں، جن سے اس کی قومیت کی تخلیق ہوتی ہے اور جن سے اس کی ملت و تمدن و حیاتِ اجتماعی کی عمارت قائم ہوتی ہے اور جو اس کے منتشر افراد کے درمیان رشتۂ اشتراک کا کام دیتے ہیں، اور جن کے تحت میں اس قوم کے نظامِ حیات کے تمام شعبے مکمل ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کافر و مشرک قومیں بھی اس سے خالی نہیں، ان کے بھی تمام اعمال و افعال ان کے چند یقینی تخیلات اور عقائد کے تحت ہی میں آجاتے ہیں، اس حالت میں یہ کہنا کہ ایمانیات کے بغیر ترقی کے حسنِ عمل یا انسانیت کی نیکئ کردار کا وجود ہوتا ہے، حقائق سے نامحرمی کا ثبوت ہے، ایمان کے بغیر حسنِ عمل اور نیکئ کردار کیا بلکہ نفسِ عمل اور نفسِ کردار ہی کا وجود ممکن نہیں، اب اگر بحث ہوسکتی ہے تو اس میں نہیں کہ ایمانیات کے بغیر حسنِ عمل اور نیکی کردار کا وجود ہوسکتا ہے یا نہیں؟ بلکہ اس میں کہ ان ایمانیات کے تحت میں حسنِ عمل اور نیکی کردار کا وجود زیادہ بہتر ہوسکتا ہے، یا ان ایمانیاں کے تحت میں؟ لیکن یہ نہیں کوئی کہہ سکتا کہ کسی ’’ایمان‘‘ کے بغیر کوئی عمرل، کسی نظامِ حیات کے بغیر کوئی بلند کارنامۂ حیات اور کسی بنیاد کے بغیر کوئی مستحکم عمارت قائم ہوسکتی ہے، آپ اس کا نام انسانیت رکھیں، قومیت رکھیں، وطنیت رکھیں، بالشوزم رکھیں، بت پرستی رکھیں یا توحید یا خدا شناسی رکھیں، جو چاہے رکھیں اور جو چاہے قرار دیں، بہر حال یہ مقدمہ اپنی جگہ پر مسلَّم ہے کہ ’’ایمان کے بغیر عملِ صالح کا وجود ممکن ہی نہیں‘‘، اب سوال یہ ہے کہ ہمارا وہ اساسی خیال جس پر ہماری ملت کی بنیاد ہو اور جو ہمارے تمام اعمال کا سرچشمہ بنے کیا ہونا چاہئے؟
نسل و وطن کے عقیدہ کی ناکامی!
دنیا کی قوموں نے اساسِ ملت کی بنیاد جغرافیائی حدود اور نسلی خصوصیت کو قرار دیا، رومیوں کی ہزار سالہ حکومت رومی وطنیت کے سہارے پر قائم رہی، ہندوؤں، پارسیوں اور یہودیوں کی قومیت نسلی امتیاز پر مبنی ہے، یورپ کی موجودہ قومیتیں، نسل و وطن کی دوہری دیواروں پر کھڑی ہیں، لیکن خود غور کرو کہ جغرافیائی حدود اور نسلی و وطنی خصوصیات نے قوموں کو کتنا تنگ، محدود خیال اور متعصب بنادیا ہے، دنیا کی اکثر خونریزیاں، لڑائیاں اور قومی منافرتیں انہی جذبات نے پیدا کی ہیں، قدیم تاریخ میں ایران و روم کی صد سالہ جنگ اور خود یورپ کی گذشتہ عالمگیر جنگ جس میں انسانوں نے انسانوں کو درندوں کی طرح چیرا اور پھاڑا، اسی نسلی و وطنی جذبات کی شعلہ افروزی تھی اور آج کا خونی تماشا بھی اسی جذبہ کا نتیجہ ہے۔
یہ نسلی اور وطنی افتراق قوموں کے درمیان و ہ خلیج ہے جس کو انسانوں کے ہاتھ کبھی پاٹ نہیں سکتے، نہ تو فطرۃً کسی نسل و قومیت کا کوئی پیدا شدہ انسان دوسری نسل و قومیت میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ ایک مقام کا پیدا شدہ دوسرے مقام کا پیدا شدہ بن سکتا ہے، نہ کالا گورا بن سکتا ہے، نہ گورا کالا اور نہ فرنگی زنگی بن سکتا ہے، نہ زنگی فرنگی، نہ جرمن کو انگریز بنایا جاسکتا ہے اور نہ انگریز کو جرمن، نہ افغانی ہندوستانی بن سکتا ہے اور نہ ہندوستانی افغانی، آج پولینڈ کے کھنڈروں سے لے کر رومانیا کے روغنی چشموں تک جو زمین خون سے لالہ زار ہے اس کا سینہ کیا اسی نسلی و وطنی خونخواریوں سے داغ دار نہیں؟
غرض نسل و وطن کے دائرے اس مضبوطی سے فطرۃً محدود ہیں کہ ان کے اندر تمام دنیا تو کیا، چند قوموں کے سمانے کی بھی وسعت نہیں ہے، ان دونوں کے جذبات و احساسات صرف ایک مختصر و محدود قوم کی جامعیت کا کام دے سکتے ہیں، کسی عالمگیر امن و صلح اور انسانی اخوّت و برادری کی بنیاد اس پر رکھی ہی نہیں جاسکتی۔
پھر ان دونوں محدود تصورات کے ذریعہ سے اگر انسانوں میں کچھ شریفانہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں تو وہ انہی تنگ جغرافیائی اور نسلی دائروں تک محدود رہیں گے اور کبھی تمام دنیا کے اس کے اندر سماجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں ان اساسی تصورت کے ذریعہ جن بلند انسانی اخلاق اور کیرکٹر کا پیدا کرنا مقصود ہے، ان میں سے صرف نسل و وطن کی حفاظت کی خاطر شجاعت، ایثار و قربانی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں ،مگر عمومی نیکی، تواضع، خاکساری، رحم و شفقت، عفت و عصمت، صدق اور امانت و دیانت وغیرہ سینکڑوں ایجابی اور سلبی اخلاق ہیں جو ان کے ذریعہ نہ کبھی پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔
آج کل یورپ کی تمام جنگ و جدل اور باہمی ہنگامہ آرائی اور تقابل کا وہ پتھر جس سے ان کی دولت اور تہذیب و تمدن کا شیشہ چور چور ہو رہا ہے یہی تنگ و محدود وطنیت و قومیت کا عقیدہ ہے، یہ وہ دیوتا ہے جس پر یورپ کی تمام قومیں بھینٹ چڑھ رہی ہیں، ہر قوم کے تمام دولت مندوں کی دولتیں، تمام عالموں کا علم، تمام سائنس والوں کی سائنس، تمام صنّاعوں کی صنعتیں، تمام موجدوں کی ایجادیں، اپنی قوم کے سواء دنیا کی دوسری انسانی قوموں کی گرفتاری، محکومی، بربادی اور ہلاکت میں صرف ہورہی ہیں۔
آج نازازم اور فسزم کا دور ہے، جس نے ایک بدترین مذہب کی صورت اختیار کرلی ہے، جس میں ہر قسم کی حیوانی قوّت کی نمائش، ہر قسم کی ہلاکت اور انسانی بربادی کا مہیب ترین منظر اور قوت کے دیوتا کے سامنے ہر اخلاقی اور قانونی آئین کی قربانی کا تماشا سب کے سامنے ہے، یہ جو کچھ ہے یہ وہی قومیت اور وطنیت کی خونخوارانہ بُت پرستی کا عبرتناک نظارہ ہے، جس سے نوعِ انسانی کی کسی بھلائی کی توقع نہیں ہوسکتی۔
اقتصادی عقیدہ کا فریب:
سوشلزم اور بالشوزم اور دوسرے اقتصادی خیالات سے بھی بھلائی کی توقع نہیں کہ اس نے خود انسانوں کو سرمایہ دار و غیر سرمایہ دار دو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے وہ سب کچھ کیا ہے اور کرنا چاہتی ہے جو کبھی کسی مذہب اور مذہبی محکمۂ تفتیش نے انجام دیا ہے، قوموں کے ساتھ ان کی ناانصافی کا تماشا آج بھی دنیا ترکستان سے لے کر فین لینڈ تک دیکھ رہی ہے، اگر زبردستی کوئی بری چیز ہے تو مذہب سے زبردستی روکنا بھی اتنی ہی بری چیز ہے جتنا زبردستی سے کسی مذہب کو پھیلانا، اگر مسلمانوں کا گرجاؤں کا توڑنا اور عیسائیوں کا مسجدوں کا منہدم کرنا ناجائزہے تو ملحدوں کا ان دونوں کو مسمار کرنا بھی ناجائز ہے۔
پھر ان تخیلات میں جن کی بنیاد محض پیٹ اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہے، کسی اخلاقی نصب العین بننے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے، اسی لئے ان کا محدود اقتصادی نظریہ پورے نظامِ ہستی اور نظامِ زندگی کا معمہ حل نہیں کرسکتا۔
ان سب کے ماوراء یہ ہے کہ ضرورت تو یہ ہے کہ نسلیت و وطنیت کے تنگ دائروں سے نکل کر جس عمومی تصور کو اساسِ ملت بنایا جائے، ان میں بقاء اور دوام کی صلاحیت ہو، سوسائیٹیاں اور جماعتیں جن کی بنیاد کسی مادّی خود غرضی اور منفعت اندوزی پر رکھی جائے وہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں، چنانچہ جب سے دنیا بنی ہے خدا جانے مادّی اغراض کی بناء پر کتنی جماعتی اور مجلسیں قائم ہوئیں اور مٹ گئیں، انجمنیں روز بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں، اور سوسائیٹیاں روز پیدا ہوتی ہیں اور مرتی ہیں، ایسی ناپائیدار اور سطحی چیزیں جامعیتِ ملت کی بنیاد اور اساس نہیں بن سکتیں اور نہ وہ ہمارے نظامِ حیات کا اصول اور معیار قرار پاسکتی ہیں۔
صحیح ایمان کی ضروری خصوصیات:
غرض عالمگیر اور دائمی اساسِ ملت اور صحیح بنیادِ عمل بننے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اساس و بنیاد قرار دی جائے اس میں حسبِ ذیل خصوصیتیں ہوں:
(۱) وہ کوئی مادّی غرض و غایت کی چیز نہ ہو جو ہمیشہ بدل جاتی رہے۔
(۲) وہ کوئی محدود وطنی، نسلی بُت نہ ہو جو اپنے نسل و وطن سے باہر جاکر زندہ نہ رہ سکے۔
(۳) وہ قومی، نسلی اور وطنی منافرتوں اور تفرقوں کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ کر عالمگیر اتحاد اور اخوت کی بنیاد ڈال سکے۔
(۴) وہ تخیل عقیدہ بنکر ہمارے نیک افعال کا محرّک اور بُرے افعال کا مانع بنے، وہ انسانوں کو نیکی کے لئے اُبھارے اور برائی سے روک سکے۔
(۵) وہ ایک ایسا دائمی صحیح اور سچا عقیدہ ہو جس کو مان کر اس برادری میں داخل ہونے میں کسی کو دقت نہ ہو۔
(۶) وہ ایک طرف اپنے بندوں اور اپنے خالق کے ساتھ گرویدگی اور بندگی کا تعلق پیدا کرے اور دوسری طرف اپنی ہم جنس مخلوقات کےساتھ محبت اور ادائے حقوق کا جذبہ پیدا کرے۔
اسلام میں عقائد کی حقیقت اور اہمیت:
ان چند عقلی مبادی کے ثبوت کے بعد اب آئیے اسلام کے اصول عقائد و مبادی کا جائزہ لیں، اسلام میں جس حقیقت کو عقائد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ در حقیقت یہی چند ذہنی اصول و مبادی ہیں جو جماعت کا کریڈ اور تمام انسانی افکار و خیالات کی بنیاد و اساس ہیں، ان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات اسی محور کے گرد چکر کھاتے ہیں، یہی وہ نقطہ ہے جس سے انسانی عمل کا ہرخط نکلتا ہے اور اس کے دائرۂ حیات کا ہر خط اسی پر جاکر ختم ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے تمام افعال اور حرکات ہمارے ارادہ کے تابع ہیں، ہمارے ارادہ کا محرک ہمارے خیلات اور جذبات ہیں، اور ہمارے خیالات اور جذبات پر ہمارے اندرونی عقائد حکومت کرتے ہیں، عام بول میں انہیں چیزوں کی تعبیر ہم ’’دل‘‘ کے لفظ سے کرےت ہیں، اسلام کے معلم نے بتایا کہ انسان کے تمام اعضاء میں اس کا دل ہی نیکی اور بدی کا گھر ہے، فرمایا:
انسان کے بدن میں گوشت کا ٹکڑا ہے جو اگر درست ہے تو تمام بدن درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو تمام بدن بگڑ گیا، ہاں وہ ٹکڑا دل ہے۔قرآن پاک نے دل (قلب) کی تین کیفیتیں بیان کی ہیں، سب سے پہلے قلبِ سلیم (سلامت رَو دل) ہے، جو ہر گناہ سے پاک رہ کر بالطبع نجات اور سلامت روی کے راستہ پر چلتا ہے، دوسرا اس کے مقابل میں قلبِ اثیم (گنہگار دل) ہے، یہ وہ ہے جو ہمیشہ گناہوں کی راہ اختیار کرتا ہے، اور تیسرا قلبِ منیب (رجوع ہونے والا دل) ہے، یہ وہ ہے جو اگر کبھی بھٹکتا اور بے راہ بھی ہوتا ہے تو فوراً نیکی اور حق کی طرف رجوع ہوجاتا ہے۔
غرض یہ سب نیرنگیاں اسی ایک بے رنگ ہستی کی ہیں جس کا نام دل ہے، ہمارے اعمال کا ہر محرم ہمارے اسی دل کا ارادہ اور نیت ہے، اسی بھاپ کی طاقت سے اس مشین کا ہر پُرزہ چلتا اور حرکت کرتا ہے، اسی لئے آپؐ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔ (صحیح بخاری:آغازِ کتاب) تمام کاموں کا مدار نیت پر ہے۔
آج کل علمِ نفسیات نے بھی اس مسئلہ کو بداہۃً ثابت کردیا ہے کہ انسان کی عملی اصلاح کے لئے اس کی قلبی اور دماغی اصلاح مقدم ہے اور انسان کے دل اور ارادہ پر اگر کوئی چیز حکمران ہے تو وہ اس کا عقیدہ ہے، صحیح اور صالح عمل کے لئے ضروری یہ ہے کہ چند صحیح اصول و مقدمات کا ہم اس طرح تصور کریں کہ وہ دل کا غیر مشکوک یقین اور غیر متزلزل عقیدہ بن جائیں اور اسی صحیح یقین اور مستحکم عقیدہ کے تحت میں ہم اپنے تمام کام انجام دیں۔جس طرح اقلیدس کی کوئی شکل چند اصولِ موضوعہ اور اصول متعارفہ کے مانے بغیر نہ بن سکتی ہے اور نہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح انسان کا کوئی عمل صحیح اور درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے لئے بھی چند مبادی اور چند اصول موضوعہ ہم پہلے تسلیم نہ کرلیں جن کو ہم عقیدہ کہتے ہیں۔بظاہر عقل ہمارے ہر کام کے لئے ہم کو رہنما نظر آتی ہے، لیکن غور سے دیکھئے کہ ہماری عقل ابھی آزاد نہیں، وہ ہمارے دلی یقین، ذہنی رجحانات اور اندرونی جذبات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اسی لئے اس پا بہ زنجیر عقل کے ذریعہ ہم اپنے دلی خیالات، ذہنی رجحانات اور اندرونی جذبات پر قابو نہیں پاسکتے، اگر پاسکتے ہیں تو اپنی صحیح دلی یقینیات اور چند مضبوط دماغی و ذہنی تصورات کے ذریعہ، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے ’’ایمان‘‘ کا ذکر ہمیشہ عملِ صالح کے ذکر سے پہلے لازمی طور پر کیا ہے، اور ایمان کے بغیر کسی عمل کو قبولیت کے قابل نہیں سمجھا ہے کہ ایمان کے عدم سے دل کے ارادہ اور خصوصاً اس مخلصانہ ارادہ کا بھی عدم ہوجاتا ہے جس پر حسنِ عمل کا دار و مدار ہے، عبد اللہ بن جدعان ایک قریشی تھا، اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ ’’یا رسول اللہؐ! عبداللہ بن جدعان نے جاہلیت میں جو نیکی کے کام کئے ان کا ثواب اس کو ملے گا؟ آپؐ نےفرمایا: نہیں اے عائشہ! کیونکہ کسی دن اس نے یہ نہیں کہا کہ بارِ الہا! میرے گناہوں کو قیامت میں بخش دے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، غزوات قلمی نسخہ دار المصنفین، ابن حنبل:۶،۱۴۹، مطبوعہ مصر)بدر کی لڑائی کے موقع پر ایک مشرک نے جس کی بہادری کی بڑی دھوم تھی حاضر ہوکر کہا: اے محمدؐ! میں بھی تمہاری طرف سے لڑنے کے لئے چلنا چاہتا ہوں کہ مجھے بھی غنیمت کا کچھ مال ہاتھ آئے، آپؐ نےفرمایا: کیا تم اللہ عزّ و جل اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں! فرمایا: واپس چلے جاؤ! کہ میں اہلِ شرک سے مدد کا خواستگار نہیں‘‘ دوسری دفعہ وہ پھر آیا اور وہی پہلی درخواست پیش کی، مسلمانوں کو اس کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے اس کی اس درخواست پر خوشی ہوئی اور وہ دل سے چاہتے تھے کہ وہ ان کی فوج میں شریک ہوجائے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پھر وہی سوال کیا: ’’کیا تم کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان ہے؟‘‘ اس نے پھر نفی میں جواب دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا: ’’میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا‘‘، غالباً مسلمانوں کی تعداد کی کمی اور اس کی بہادری کے باوجود اس سے آپؐ کی بے نیازی کی اس کیفیت نے اس کے دل پر اثر کیا، تیسری دفعہ جب اس نے اپنی درخواست پیش کی اور آپؐ نے فرمایا: ’’تم کو خدا اور رسولؐ پر ایمان ہے؟‘‘ تو اس نے اثبات میں جواب دیا، تو اسلامی فوج میں ایک مجاہد کی حیثیت سےاس کو داخل ہونے کی اجازت ملی، (صحیح مسلم:۲،۱۰۶، مطبوعہ مصر) اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ جماعت میں داخل ہونے کے لئے اس کے کریڈ اور عقیدہ کو تسلیم کرنا اس جماعت کی مضبوطی کی سب سے پہلی شناخت ہے۔غرض اسلام کے نقطۂ نگاہ سے بھی ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے فقدان سے ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی، کیونکہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی اثر و فائدے سے خالی اور بے نتیجہ ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول ہمارے اعمال کی غرض و غایت ہے، یہ نہ ہو تو ہمارے تمام کام بے نظام اور بے مقصد ہوکر رہ جائیں، وہ ہمارے دل کا نور ہے، وہ نہ ہو تو پوری زندگی تیرہ و تاریک نظر آئے اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ریاء، نمائش، جاہ پسندی، خود غرضی اور شہرت طلبی وغیرہ کے دنی جذبات اور پست محرکات کے سواء کچھ اور نہ رہ جائے۔
ایمان کے اجزاء:
اسلام نے چونکہ علم و عمل، تصور اور فعل، عقلیت اور عملیت میں لزوم ثابت کیا ہے اور عقائد کے اتنے ہی حصہ کا یقین و اقرار ضروری قرار دیا جو عمل کی بنیا اور اخلاق و عبادات کی اساس قرار پاسکے اور دل کی اصلاح و تزکیہ میں کام آسکے، اور اسی لئے اس نے عقائد کے فلسفیانہ الجھاؤ اور تصوّرات و نظریات کی تشریح و تفصیل کرکے عملیت کو برباد نہیں کیا، چند سیدھے سادے اصول ہیں جو تمام ذہنی سچائیوں اور واقعی حقیقتوں کا جوہر اور خلاصہ ہیں اور انہی پر یقین کرنے کا نام ایمان ہے، اور صریح الفاظ میں اس ایمان کے صرف پانچ اصول تقلین کئے: (۱) خدا پر ایمان، (۲) خدا کے فرشتوں پر ایمان، (۳) خدا کے رسولوں پر ایمان، (۴) خدا کی کتابوں پر ایمان، اور (۵) اعمال کی جزاء اور سزاء کے دن پر ایمان۔
ان اجزائے ایمانی کی حکمت:
(۱) اللہ تعالیٰ پر ایمان کہ وہ اس دنیا کا تنہاء خالق اور مالک ہے اور ہر ظاہر و باطن سے آگاہ ہے تاکہ وہی ہمارے تمام کاموں کا قبلۂ مقصود قرار پاسکے اور اس کی رضا جوئی اور اس کی مرضی کی تعمیل ہمارے اعمال کی تنہاء غرض وغایت ہو، اور ہم جلوت کے سواء خلوت میں بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ سکیں، اور ہر نیکی کو اس لئے کریں ار وہر برائی سے اس لئے بچیں کہ یہی ہمارے خالق کا حکم ہے اور یہی اس کی مرضی ہے، اس طرح اعمال ناپاک اغراض اور ناجائز خواہشات سے مبرّا ہوکر خالص ہوسکیں، اور جس طرح ہمارے جسمانی اعضاء گناہوں سے پاک ہوں، ہمارا دل بھی ناپاک خیالات اور ہوا و ہوس کی آمیزش سے پاک ہو اور اس کے احکام اور اس کے پیغام کی سچائی پر دل سے ایسا یقین ہو کہ ہمارے ناپاک جذبات، ہمارے غلط استدلالات، ہماری گمراہ خواہشیں بھی اس یقین میں شک اور تذبذب پیدا نہ کرسکیں۔
(۲) خدا کے رسولوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ خدا کے ان احکام اور ہدایات اور اس کی مرضی کا علم انہی کے واسطے سے انسانوں کو پہنچا ہے، اگر ان کی صداقت، سچائی اور راستبازی کو کوئی تسلیم نہ کرے تو پیغامِ ربانی اور احکامِ الہٰی کی صداقت اور سچای بھی مشکوک و مشتبہ ہوجائے اور انسانوں کے سامنے نیکی، نزاہت اور معصومیت کا کوئی نمونہ موجود نہ رہے، جو انسان کے قوائے عملی کی تحریک کا باعث بن سکے، پھر اچھے اور بُرے، صحیح اور غلط کاموں کے درمیان ہماری عقل کے سواء ہمارے جو جذبات کی محکوم ہے کوئی اور چیز ہمارے سامنے ہماری رہنمائی کے لئے نہیں ہوگی۔
(۳) خدا کے فرشتوں پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں، مادیت اور روحانیت کے مابین واسطہ ہیں، مخلوقات کو قانونِ الٰہی کے مطابق چلاتے ہیں اور ہمارے اعمال و افعال کے ایک ایک حرف کو ہر دم اور ہر لحظہ ریکارڈ کرتے جاتے ہیں، تاکہ ہم کو ان کا اچھا یا بُرا معاوضہ مل سکے۔
(۴) خدا کے احکام و ہدایات جو رسولوں کے ذریعہ انسانوں کو پہنچائے گئے ہیں ان کو دور دراز ملکوں اور آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوا کہ وہ تحریری شکلوں میں یعنی کتابوں اور صحیفوں میں یا لفظ و آواز سے مرکب ہوکر ہماری سینوں میں محفوظ رہیں، اس لے خدا کی کتابوں اور صحیفوں کی صداقت اور جو کچھ ان میں ہے اس کی سچائی پر ایمان لانا ضروری ہے، ورنہ رسولوں کے بعد خدا کے احکام اور ہدایتوں کے جاننے کا ذریعہ مسدود ہوجائے اور ہمارے لئے نیکی اور بدی کی تمیز کا کوئی ایسا معیار باقی نہ رہے جس پر تمام ادنیٰ و اعلیٰ، جاہل و عالم اور بادشاہ و رعایا سب متفق ہوسکیں۔
(۵) اعمال کی باز پرس اور جواب دہ کا یقین اور اس کے مطابق جزاء اور سزاء کا خیال نہ ہو تو دنیاوی قوانین کے باوجود دنیائے انسانیت سراپا درندگی اور بہیمیت بن جائے، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسانوں کو جلوت و خلوت میں ان کی ذمہ داری محسوس کراتا ہے، ا سلئے روز جزاء اور یومِ آخرت پر ایمان رکھے بغیر انسانیت کی صلاح و فلاح ناممکن ہے اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے اس پر بے حد زور دیا ہے؛ بلکہ مکی وحی کا بیشتر حصہ اسی کی تلقین اور تبلیغ پر مشتمل ہے۔
یہی پانچ باتیں اسلام کے ایمانیات کے اصلی عناصر ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں پر اس کی کتابوں پر، اس کے فرشتوں پر اور روزِ جزاء پر ایمان لانا یہ عقائدِ خمسہ یکجا طور پر سورۂ بقرہ میں متعدد دفعہ کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئے ہیں۔
وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ۔ (البقرۃ:۱۷۷)
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ۔ (البقرۃ:۲۸۵)
پیغمبر پر جو کچھ اتارا گیا اس پر وہ خود اور تمام مومن ایمان لائے، یہ سب لوگ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔
سورۂ نساء میں ان ہی عقائد کی تعلیم ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا۔ (النساء:۱۳۶)
ایمان و عمل کا تلازم:
سچا ایمان اور حسنِ عمل در حقیقت لام و ملزوم ہیں، اگر کوئی یہ کہے کہ ایک مومن بدکار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ تو یہ سوال حقیقت میں خود تضاد کو مستلزم ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ کوئی مومن ہو کر بدکاری اور چوری نہیں کرسکتا، اگر کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان مسلوب ہوجاتا ہے، اور یہ بالکل واضح ہے کہ جب کوئی مومن برائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے ایمان یعنی اصول اور جذباتِ فاسدہ کے درمیان کش مکش ہوتی ہے، تھوڑی دیر یہ لڑائی قائم رہتی ہے، اگر ایمان اور اصول نے فتح پائی تو وہ اپنے کو بچالیتا ہے اور اگر جذبات غالب آتے ہیں تو ایمان اور اصول کا تخیل اس وقت دب کر اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے اس پر بناء پر سچا مومن اور بدکردار ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے، اگر ہے تو حقیقت میں ایمان ہی کامل نہیں، یہاں بحث رسمی ایمان و مومن سے نہیں بلکہ اس ایمان سے ہے جس کے معنیٰ غیر متزلزل یقین اور ناقابلِ شک اعتقاد کے ہیں،جہاں کہیں رسمی و ظاہری ایمان کے ساتھ برائی اور بدکرداری کا وجود ہے، وہ در حقیقت ایمان کا نقص اور یقین کی کمی بھی ایمان ہی کی کمی کا نتیجہ ہے۔
ایمان کے بغیر کوئی عمل درست نہیں!
لیکن بہر حال عقلی فرض اور رسمی ایمان کے لئے لحاظ سے یہ سوال ہوسکتا ہے، اور یہ مانا جاسکتا ہے کہ ایک بدکردار مومن اور نیک اخلاق کافر و مشرک میں اگر پہلا نجات کا مستحق ہے اور دوسرا نہیں ہے تو ایسا کیوں؟ اس کا جواب شرعی اور عقلی دونوں حیثیتوں سے بالکل ظاہر ہے، اسلام نے نجات کا مدار ایمان اور عمل دنوں پر رکھا ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
اس لئے کامل نجات کا مستحق وہی ہے جو مومن بھی ہے اور نیک کردار بھی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کفر و شرک کے گناہ کےسواء اپنے بندہ کا ہر گناہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے، البتہ شرک و کفر کو معاف نہ فرمائے گا اور اس کی سزا ضرور ہی وہ دے گا، چنانچہ ارشاد ہے:
قرآن پاک نے ان لوگوں کے کاموں کی مثال جو ایمان سے محروم ہیں اس راکھ سے دی ہے جس کو ہوا کے جھونکے اڑا اُڑا کر فناء کردیتے ہیں اور ان کا کوئی وجود پھر باقی نہیں رہتا، اسی طرح وہ شخص جو ایمان سے محروم ہیں، ان کے کام بھی بے بنیاد اور بے اصل ہیں:
سورۂ نور میں ایمان کی دولت سے محروم لوگوں کے اعمال کی مثال سراب سے دی گئی ہے کہ اس کے وجود کی حقیقت فریبِ نظر سے زیادہ نہیں۔
ان کی ایک اور مثال ایسی سخت تاریکی سے دی گئی ہے جس میں ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتتا اور جس میں ہوش و حواس اور اعضاء کی سلامتی کے باوجود ان سے فائدہ اٹھانا ناممکن ہے۔
الغرض ایمان کے بغیر عمل کی بنیاد کسی بلند اور صحیح تخلیل پر قائم نہیں ہوسکتی، اس لئے ریاء، نمائش اور خود غرضی کے کاموں کو کوئی عزت نہیں دی جاتی، وہ کام جو گو بظاہر نیک ہوں لیکن کرنے والے کا ان سے اصلی مقصد نام و نمود پیدا کرنا ہوتا ہے، اخلاقی نقطۂ نظر سے تمام دنیا ان کو بے وقعت اور ہیچ سمجھتی ہے، اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کیا اور فرمایا:
مومن و کافر کا فرق:
اس تفصیل سے معلوم ہوگا کہ ایک بدکردار رسمی مومن کے لئے نجات کی امید ممکن ہے، لیکن ایک حقیقی کافر و مشرک کے لئے نہیں، اور اس کی عقلی وجہ ظاہر ہے، لیکن ایک حقیقی کافر و مشرک کے درمیان وہی فرق ہے جو ایک چور اور ڈاکو کے درمیان ہے، ہر قانون دان جانتا ہے کہ ان دونوں میں قانون کی نظر میں کون مجرم زیادہ ہے، چور گو برائی کرتا ہے تاہم حکومت کا خوف اس کے دل میں ہے، مگر ڈاکو حکومت سے برسرِ پیکار ہوکر قتل و غارت کا مرتکب ہوتا ہے، اس لئے ڈاکو چور سے زیادہ سزاء کا مستحق ہے، بدکردار رسمی مومن گو گنہگار ہے مگر کبھی کبھی خوف الٰہی سے تھرّا جاتا ہے، کبھی کبھی خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا ہے اور کبھی اپنے گناہوں پر خدا کے حضور میں شرمندہ اور نادم بھی ہوتا ہے، مگر کافر و مشرک اگر کچھ اچھے کام بھی کریں، تاہم اپنی دوسری برائیوں کے استغفار کے لئے خدا کے سامنے سرنگِوں نہیں ہوتے۔
وہ خدا نام کسی کے قائل ہی نہیں جس کے خوف سے وہ تھرّائیں، جس کی بارگاہ میں وہ گڑ گڑائیں اور جس کی محبت سرشار ہوکر وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں، اس لئے اس مجرم کے لئے جس نے کسی مجبوری سے معذور ہوکر چھپ کر کسی قانونِ سلطنت کی نافرمانی کی رحم و بخشش کا موقع ہے، لیکن اس باغی کے لئے جو سرے سے سلطانِ وقت کو اور اس کے قانون ہی کو تسلیم نہیں کرتا رحم و بخشش کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن یہ محض ایک تمثیل تھی، ورنہ ظاہر ہے کہ خدا کو اس کی حاجت نہیں کہ اس کے بندے اس کی حکومت کو تسلیم کریں: فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ۔ ’’بے شک خدا دنیا سے بے نیاز ہے‘‘۔
بلکہ اصل یہ ہے کہ ایک کافر و مشرک اس اصولِ کار کو تسلیم نہیں کرتا جس پر مذہبی نیکیوں کی بنیاد ہے اور ایک رسمی مومن اس اصول کو تسلیم کرتا ہے، اس کی نسبت توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل عمل بھی کرے گا، لیکن جو ہنوز اصول کا مخالف ہے اس کے لوٹنے کے لئے ابھی بڑی دشوار منزل باقی ہے۔
ایمان یعنی اساسِ ملت اور بنیادِ عمل کی اہمیت:
اس خالص مذہبی نقطۂ نظر سے ہٹ کر بھی اگر مومن و کافر کے باہمی فرق و امتیاز پر غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ گو بہت سے بظاہر نیک لوگوں کو جو کافر ہیں اپنے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بہت سے بظاہر بُرے لوگوں کو جو مومن ہیں اپنے اندر داخل کرنا پڑتا ہے، تاہم اس موقع پر اس نکتہ کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ اس ’’اپنے‘‘ اور ’’غیر‘‘ کی وجہ تقسیم کیا ہے؟ جب اس وجہِ تقسیم کو ہم سامنے رکھیں گے تو ہم کو ناگزیر طور پر ایسا کرنا ہی پڑے گا، وجہ تقسیم خیرات کرنےوالا اور نہ خیرات کرنے والا یا جھوٹ بولنے والا اور نہ جھولنے والا نہیں ہے؛ بلکہ ایک خدا پر ایمان والا اور ایک دستور العمل (قرآن مجید) کو صحیح ماننے والا ہے، اس بناء پر اس وجہِ تقسیم کی رُو سے ایسا ہونا لازم ہے۔
یہ طریقۂ امتیاز کچھ اسلام یا مذہب ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر تحریک، ہر جماعت اور ہر اصولِ سیاست؛ بلکہ تمام انسانی تحریکات اور جماعتوں کا اصولِ تقسیم یہی ہے، ہر تحریک کا ایک صب العین اور ہر جماعت کا ایک عقیدہ (کریڈ) ہوتا ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کریڈ کے مطابق پورے جوش و خروش کے ساتھ عمل کرتے ہیں، یہ اس مذہب کے مومنین صالحین ہیں، دوسرے وہ ہیں جو اس کریڈ کے مطابق عمل نہیں رکھتے، یہ اس مذہب کے غیر صالح مومنین ہیں، لیکن ایک تیسری جماعت ہے جو سرے سے اس کریڈ ہی کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ اس کو بنیادِ عمل قرار دیتی ہے، گو اس تیسری جماعت کے بعض افراد بڑے فیاض و مخیّر ہوں یا بڑے عالم و فاضل ہوں، تاہم اس جماعت کے دائرہ کے اندر جس کا وہ کریڈ ہے ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، کیا یہی وجہ نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے کریڈ پر یقین رکھنے والا اس کے مطابق کرنے والا اور وہ بھی جو نفس کریڈ کو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے مطابق عمل پیرا نہیں، اس جماعت کے پنڈال میں جگہ پاسکتا ہے، مگر وہ جو اس کریڈ ہی کو صحیح باور نہیں کرتا اس کے احاطہ میں کوئی جگہ پانے کا مستحق نہیں ہے؟ اسی پر ہر جماعت کے اصول کو قیاس کیا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب تک کوئی جماعت اپنے اصولِ کار، اساس جماعت اور عقیدہ کو اتنی اہمیت نہ دے گی، اس کی اہمیت جو سب اہمیتوں کو بڑھ کر ہونی چاہئے قائم نہیں رہ سکتی، اور ملت کی وہ دیوار جس کو اس قدر سخت اور مستحکم ہونا چاہئے کہ باہر کے سیلاب کا ایک قطرہ بھی اس کے اندر نہ جاسکے، اگر اس میں اصول و عقیدہ پر ایمان کا مطالبہ کئے بغیر ہر کس و ناکس کو داخلہ کی اجازت دے دی جائےتو اس مستحکم دیوار میں یقیناً رخنے پر جائیں گے اور وہ ایک لمحہ کے لئے بھی کسی سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور وہ جماعت ایسے پراگندہ اصول و افراد کا مجموعہ ہوگی جس کو کسی اتحاد و اشتراک اور جامعیت کا رشتہ باہم متحد و مجموع نہیں کرتا۔
مستحکم جماعتیں وہ ہیں جو اپنے کریڈ پر شدت کے ساتھ جمی رہتی ہیں اور جو اس کریڈ کو تسلیم نہیں کرتا، رکنِ جماعت نہ ہونے کی حیثیت سے وہ ان کی جماعتی برادری میں کوئی اعزاز نہیں رکھتا، کیا ایک مسلمان جبکہ کسی سیاسی جماعت کا رکن ہو تو اس کے لئے تو اصولِ کار کی یہ سخت جائز بلکہ مستحسن ہو، مگر وہی اسلامی جماعت کےممبر کی حیثیت سے اپنے اخلاقی اصول کار، اساس ملت اور مذہبی بِنائے وحدت میں یہ شدت رَوا رکھے تو کس عقل سے وہ ملات کے قابل ٹھہرایا جائے، حالانکہ ہر دلی عقیدہ کا لازمی نتیجہ اسی قسم کی شدّت اور استحکام ہونا چاہئے، پھر اگر ایک جگہ وہ ہو اور دوسری جگہ نہ ہو تو اس کے صاف معنیٰ ہیں کہ ایک کو دل کے ساتھ جو تعلق ہے وہ دوسرے کو نہیں۔
نظامِ اسلام:
اب اگر اسلام اور اسلام کے قانون اور مذہب کو سمجھنا ہے تو اس کی اصل بنیاد پر نظر رکھنا چاہئے، جس پر اس کی پوری عمارت تعمیر ہوئی ہے، وہ بنیاد اقتصادیات کا کوئی نکتہ، دولت کا کوئی خزانہ، نسل و رنگ کا کوئی امتیاز اور ملک و وطن کی کوئی تجدید نہیں ہے بلکہ صرف ایک ہے اور وہ دنیا کی سب سے بڑی، لازوال اور وسیع و عالمگیر صداقت یعنی خدائے واحد پر ایمان ہے، یہ ہے اسلام کی ملت اور برادری کا اصل رشتہ اسی سے اس کی مذہب اور اس کے قانون کی تمام تقسیمیں اور امتیازات کی حدیث قائم ہوئی ہیں، اس کی حیثیت اسلام کی مملکت میں وہ ہے جو کل روم میں رومیت کی اور آج روس میں اصول بالشویت کی ہے۔
اس برادری کے دینی اور دنیاوی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس جماعت کے فارمولے پر دستخط کرے اور اس کے کریڈ کو دل وجان سے قبول کرے، آج تمام مہذّب دنیا کسی عالمگیر برادری کی بنیاد کو تلاش کرنے میں حیران و سرگرداں ہے، مگر نہیں ملتی، حالانکہ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی طرح آج بھی اسلام یہ آواز بلند کر رہا ہے کہ:
<
’’اے اہل کتاب آؤ! ہم اس ایک بات پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے نزدیک یکساں ہے کہ خدائے واحد کے سواء کسی اور کی پرستش نہ کریں اور خدا کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں‘‘۔
یہی توحیدِ اسلام کا وہ نظام نامہ ہے جس پر اس کے دین اور اس کی دنیا دونوں کی بنیاد ہے۔
توحید دنیا کی غیر متبدّل حقیقت ہے!
یہ توحید یعنی عرصۂ ہستی کا صرف ایک فرمانروائے مطلق ماننا جس کے سامنے ہر جسمانی و روحانی طاقت ادب سے جھکی ہوئی ہے اور اس کی بندۂ فرمان ہے، اور ساری دنیا اسی ایک کی مخلوق و محکوم ہے اور دنیا کی ساری قومیں اس کے آگے بحیثیت مخلوق کے برابر حیثیت رکھتی ہیں، دنیا کی وہ عظیم الشان حقیقت ہے جو سر تا پا صداقت اور حق ہے، اور ایسی عالمگیر ہے جو عرصۂ وجود کے ایک ایک ذرّہ کو محیط ہے اور ایسی لا زوال ہے کہ جس کو کبھی فناء نہیں اور ایسی کھلی اور واضح کہ جس کے تسلیم کرنے میں کسی کو عذر نہیں، اور ایسی خیرِ مجسم ہے جو ہمارے اندر ہر قسم کی نیکیوں کی تحریک کرتی ہے اور جو ایسی تسکین اور تسلی ہو جو ہر مصیبت اور مشکل کے وقت ہمارے لئے صبر و استقلال کی چٹان بن جاتی ہے اور ایسا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ جو کسی وقت ٹوٹ نہیں سکتا اور اس قدر وسیع کہ جس کے احاطۂ عام کے لئے اندر مخلوقات کی ایک ایک فرد داخل ہوکر اخلاقی حقوق و واجبات کی برادری قائم کرسکتی ہے اور خالق و مخلوق دونوں کی وابستگی اور محبت کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔
غرض یہ ایسی عالمگیر حقیقت ہے جو سر تا پا صداقت اور حق ہے، جو کبھی نہ بدل سکی اور نہ بدلے گی، زبانوں میں جو انقلاب ہو خیالات میں جو تغیر ہو تمدّنوں میں جو اُتار چڑھاؤ ہو، قوموں میں جو تفرقے پیدا ہوں، مجازی حقیقتوں، مادی فائدوں اور سیاسی غایتوں میں جو اختلاف بھی پیدا ہو، مگر وہ ایک حقیقت ہے جو اپنی جگہ مسلم رہے گی اور جس میں کوئی تغیر اور انقلاب پیدا نہ ہوگا، کیونکہ اس کی بنیاد ایک ایسی لازوال ہستی کے یقین پر ہے جو مادّیات کی دنیا کی طرح دم بدم مٹتی اور بنتی ہے، لحظ بہ لحظہ متغیر اور منقلب نہیں۔
وہ ایک ایسی عالمگیر اور محیط ہستی کا تخیل ہے جس کے احاطۂ عام کے اندر تمام قومیں اور تمام مملکتیں بلکہ تمام مخلوقات یکساں استحقاق کے ساتھ داخل ہیں، اس کی ملکیت میں سیاہ و سپید، زنگی و رومی، ہندی و فرنگی، عربی و عجمی، امیر و غریب، عورت ومرد، شاہ پسند و جمہوریت پسند، حاکم و محکوم، آقا و غلام اور عالم و جاہل سب برابری کے ساتھ یکساں شامل ہیں، اور اس سے ایسی برادری کا رشتہ قائم ہوتا ہے جو قوموں میں میل، مملتوں میں اتحاد اور مخلوقات میں فرائض و واجبات کا احساس پیدا کرتا ہے۔
وہ خود مجسم خیر اور سر تا پا نیکی ہے، اس کی عقیدت اور محبت ہماری اندر نیکیوں کی تحریک اور برائیوں کی نفرت پیدا کرتی ہے، تاریکی میں بھی اس کی دیکھنے والی آنکھوں اور خلوتوں میں بھی اس کی جھانکنے والی نگاہوں کا سچا عقیدہ نازک سے نازک موقع پر بھی ہم کو برائیوں سے بچاتا اور نیکیوں کے لئے اُبھارتا ہے۔
جب ہمارا سہارا ٹوٹ جاتا ہے، ہر اعتماد شکست کھاجاتا ہے اور ہر امید منقطع ہوجاتی ہے اور جب افراد و قوم کے صبر و استقلال کے پاؤں ڈگمگا جاتے ہییں اور ان کے وجود کی کشتی منجدھار میں پھنس جاتی ہے، اس وقت اسی ایک کی مدد کا سہارا کام آتا ہے اور اسی ایک کی نصرت کا وثوق فتح و ظفر سے ہمکنار کرتا ہے اور مایوسیوں اور ناامیدیوں کے ہر بادل کو چھانٹ کر رحمتِ الٰہی کے نور سے آنکھوں کو پُر نور اور دلوں کو مسرور کردیتا ہے۔
اب کوئی بتائے کہ کسی ایسی قوم کے لئے جو اپنے کو دائمی اور ہمیشہ کے لئے روئے زمین پر آئی ہو وار آخر الامم اور غیر منسوخ ملت ہونے کی مدعی ہو، اس کی اساسِ ملت بننے کے لئےہر روز بدل جانے والے اور ہر صدی میں منقلب ہوجانے والے تخیلات اور نظریات کبھی اساسِ ملت قرار پاسکتے ہیں، اور ایسی قوم کے لئے جوکسی نسل، کسی رنگت اور کسی قطعۂ زمین میں اپنے کو محدود نہ کرے، اس عالمگیر خدائی برادری سے بڑھ کر کوئی برادری نہیں مناسب ہوسکتی ہے۔
عقیدۂ توحید کی اخلاقی حیثیت:
پھر ایسا عقیدہ جو تنہاء ہماری ملت کا اساس ہی نہ ہو بلکہ ہمارے عمل کی بنیاد ہو اس خلّاقِ عالم اور علّام الغیوب کے ایمان کے سواء کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، یہ لازوال اور زندۂ جاوید ہستی ہماری ملت کی لازوال اور زندۂ جاوید بناتی ہے، یہ عالمگیر اور محیط ہستی ہمارے اندر عالمگیر اخوت اور عمومی برادری کا رشتہ قائم کرتی ہے، وہ خیرِ مجسم اور سرا پا نیک ہستی ہم کو خیر کی دعوت اور نیکی کی صدا دیتی ہے، اس کے کمالی اوصاف ہم کو اپنے اخلاقی کمال کا نصب العین عطا کرتے ہیں، اس کے اسماءِ حسنیٰ اور صفاتِ کاملہ کا عقیدہ ہم کو ہر حیثیت سے حسین اور کامل بننے کا درس دیتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوگا کہ خدا وار اس کی ذات و صفات پر اعتقاد محض نظریہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی حیثیت تمام تر عملی ہے، اس کی صفاتِ عالیہ ہمارے اوصافِ حسنہ کے لئے نمونہ ہیں، اور اس کے محامد کریمہ ہمارے اعمال و اخلاق کی تصحیح کے لئے تحریرِ اوراق کا مسطر ہیں۔
خیر و شر کی تمیز:
جس طرح دنیا کی دوسری چیزیں فی نفسہٖ نہ خیر ہیں اور نہ شر ہم ان کو خیر یا شر صرف ان کے موقعِ استعمال کے لحاظ سے کہتے ہیں، آگ فی نفسہٖ نہ خیر ہے نہ شر، لیکن جب کوئی ظالم اس آگ سے کسی غریب کا جھونپڑا جلاکر خاکِ سیاہ کردیتا ہے تو وہ شر ہوجاتی ہے،لیکن جب اسی آگ سے کوئی رحم دل انسان چولہا گرم کرکے کسی بھوکے لئے کھانا پکاتا ہے تو وہ خیر ہوجاتی ہے، اسی طرح نیک و بد اعمال بظاہر یکساں ہیں اور ان میں نیک و بد کی تمیز نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس غرض و غایت کا لحاظ نہ کیا جائے جس کے لئے وہ کام کیا جاتا ہے، ایک ڈاکو کا ایک مسافر کو قتل کردینا اور ایک حکومت کا کسی ڈاکو کو پھانس دینا یکساں اتلافِ جان کا فعل ہے؛ لیکن پھر دنیا کاگر ایک کو خیر اور ایک کو شر کہتی ہے تو وہ اس غرض و غایت کی بناء پر ہے جس کے لئے یہ دونوں قتل کئے گئے ہیں، ڈاکو جس قتل کا مرتکب ہوا ہے اس سے اس کا مقصود مسافر کے مال پر ظالمانہ قبضہ تھا اور اس راہ میں اس کے مالک کے ناحق قتل کا آخری نتیجہ راستہ کی بد امنی ور ملک کی ویرانی ہے، اور سزا دینے والی حکومت کی غرض لوگوں کی جان و مال کی حفاظت، راستہ کا امن اور ملک کو آباد کرنا ہے، اس لئے پہلا فعل شر اور دوسرا خیر ہے۔
خیر و شر کی فلسفیانہ تحقیق اور ان کی باہمی تمیز نہایت مشکل ہے، جس کو نہ ہر عامی وجاہل سمجھ سکتا ہے اور نہ اس سے متاثر ہوسکتا ہے، حالانکہ خیر و شر کے اکثر امور پر تمام دنیا متفق ہے، اس لئے مذہب نے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک کے لئے ایک آسان اصول یہ بنادیا ہے کہ وہ تمام باتیں جن کو خدائے تعالیٰ پسند کرتا ہے خیر ہے اور جن کو ناپسند کرتا ہے وہ شر ہے، اس کے اس اصول سے نہ خیر و شر کی حقیقت بدلتی ہے اور نہ ان کے نفع و ضرر کا پہلو بدلتا ہے، نہ دنیا کے فائدے اور نقصان میں کمی بیشی ہوتی ہے، ہاں یہ ہوتا ہے کہ اس اصول کی تاثیر دلوں میں ایسی راسخ ہوجاتی ہے کہ جنگلی اور صحرائی سے لے کر مہذب و تعلیم یافتہ تک اس اصول کے ماتحت خیر پر عمل کرنے اور شر سے بچنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، چنانچہ آج دنیا میں جس قدر بھی خیر کا وجود ہے اور شر سے احتراز ہے وہ اسی پیغمبرانہ تعلیم کا نتیجہ ہے فلسفیانہ نکتہ آفرینیوں کا نہیں، ارسطو اور اسپنسر کے اصولِ اخلاق کو پڑھ کر اور سمجھ کر کتنے نیک اور خوش اخلاق پیدا ہوئے اور حضرت مسیح و حضرت علیہما الصلوٰۃ و السلام کی تعلیم و تاثیر نے کتنوں کو خوش اخلاق اور نیک کردار بنایا، اور آج دنیا میں لندن و نیویارک کے بازاروں سےلے کر افریقہ کے صحراؤں اور جنگلوں اور ہندوستان کے دیہاتوں تک میں نیکی کی اشاعت اور برائی سے پرہیز کی تعلیم انبیاء کے پیروؤں کے ذریعہ ہو رہی ہے یا فلسفیوں کے بالشویکوں کے ذریعہ انجام پارہی ہے یا نازیوں کے؟ سوشلسٹوں کے ذریعہ یا فسسٹوں کے؟ دل کا چین اخلاق کی طاقت اور عالمگیر انسانی برادری کی دولت اگر ممکن ہے تو وہ صرف اس توحید کے ذریعہ جس کی دعوت اسلام دیتا ہے اور اس ایمان کی بدولت جس کو اسلام دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، جس کی وسعت میں ساری دنیا آرام کرسکتی ہے اور جس کے سایہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے سارے امتیازات مٹ جاتے ہیں اور جس کی بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ آسمان و زمین کی بنیادیں اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو ہٹ جائیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکتی۔
بہ شکریہ انوارِ اسلام
By silsilaekamaliya • Important Articles • Tags: Imaan Ki Ahmiyat