Jun 8 2015
Maulana Muhammad Hussain Sahab
Maulana Muhammad Hussain Sahab
حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ
حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ کو پہلی مرتبہ مغل گدہ میں دیکھا تھا ۔احقر مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھا۔مولوی محمد جعفر صاحب صدر مدرس تھے حافظ عزیز الرحمٰن صاحب اور مولوی احمد شریف صاحب وغیرہ مدرسہ مغل گدہ میں کار گذار تھے مولوی عبد القادر صاحب منشی (اہل کار ) مدرسہ تھے دفتر ی کاروبار موصوف کے تفویض تھے عبدالقادر صاحب مدرس کے صاحبزادہ جامعہ عثمانیہ میں ملازم تھے عبدالرزاق نام تھا عبدالرزاق صاحب نے مولانا محمد حسین صاحب قبلہ سے بیعت کرلی تھی اور مغل گدہ اپنے والد صاحب کو اپنے حضرت سے بیعت کروانے کے لئے لیکر آئے تھے محمد حسین صاحب کاقیام عبد القادر صاحب ہی کے مکان میں تھا وہیں سب ملاقات کرتے رہے احقر نے بھی اسی مکان میں حضرت سے پہلی مرتبہ ملاقات کی محمد جعفر صاحب حافظ عزیز الرحمٰن صاحب مولوی احمد شریف صاحب اور دیگر اساتذہ آبادی کے حضرات ۔مولانا محمد حسین صاحب سے ملاقات کرتے رہے لوگ آتے ہی حضر ت بیان شروع کردیتے مولوی محمد جعفر صاحب مولوی کامل نظامیہ تھے حضرت کو سن کر اپنے تأثر کا اظہار فرمایا تھا کہ مولانا محمد حسین صاحب قبلہ بہت وسیع العلم ہیں بعد میں معلوم ہوا ہوگا کہ رفیع الحال بھی ہیں احقر کا ابتدائی زمانہ تھا دلچسپی سے سنتا رہا مولوئی محبوب حسین صاحب منشی ٹپہ بھی حضرت محمد حسین صاحب کو جانتے تھے حضرت بھی منشی صاحب سے واقف تھے ۔
حضرت محبوب حسین صاحب پہلے ادھونی کے مشائخ صاحبان کے مرید تھے ان کا ذکر وشغل شروع ہوچکا تھا اور،اوراد،و، وظائف اور عملیات بھی شروع ہوچکے تھے پھر کچھ عرصہ بعد حضرت شاہ محمد صاحب صدیقی پہاڑی کی طرف رجوع ہوگئے اور ذکر وشغل فرمایا حضرت شاہ محمد صاحب صدیقی نے حضرت محبوب حسین صاحب کو باضابطہ اجازت بھی دے دی تھی خواجہ پہاڑی میں عطاء خلافت کی اس تقریب میں احقر بھی شریک تھا کالے رنگ کا عمامہ اسی وقت باندھا گیا تھا اس کے بعد مولانا محبوب حسین صاحب اکثر کالا شملہ باندھا کرتے تھے کچھ عرصہ بعد مولانا محبوب حسین صاحب کا تبادلہ ونپرتی پر ہوا، اور وہاں حضرت محمد حسین صاحب سے ملاقات ہوئی اور حضرت سے گہرا تعلق ہوگیا اور حضرت کی مجلسوں سے استفادہ شروع ہوگیا علمی مسائل سامنے آئے اور طما نیت قلبی حاصل ہوئی مشائخ آدھونی سے مسائل سنے لیکن سمجھنے کا موقع نہ ملا تھا اور شاہ محمد صاحب صدیقی سے اعیان ثابتہ عین ہیں یا غیر ۔ مخلوق ہیں یا غیر مخلوق ان مسائل میں تشفی نہیں ہوسکی تھی ان مسائل میں حضرت محمدحسین صاحب کی خدمت میں اطمینان کلی نصیب ہوا ،اور سیر حاصل معلومات ملے اس سلسلہ میں کئی مرتبہ مولوئی محبوب حسین صاحب نے احقر سے کہا کہ خطیب صاحب (یہ احقر کا خاندانی نام تھا ) ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں حضرت محمد حسین صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہو ا بیشمار علماء ومشائخ سے ان مسائل پر گفتگو کر چکا ہوں کہیں تشفی نہ ہو سکی مسئلۂ تقدیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی آخر میں مولانا محبوب حسین صاحب نے حضرت محمد حسین صاحب سے گہرا تعلق پیدا کرلیا تھا اور حضرت محمد حسین صاحب نے مولانا محبوب حسین صاحب کو زبانی اجازت بھی دے دی تھی مولانا محبوب حسین صاحب نے احقر کو تحریری خلافت نامہ عنایت فرمایا ۔
حضرت محمد حسین صاحب جب مغل گدہ تشریف لائے اور عبد القادر مدرس کے مکان میں ٹھیرے ہوئے تھے تو اسی وقت احقر کے ساتھ مولوئی جہانگیر صاحب بھی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے موصوف احقر کے ساتھ محبوب حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور کچھ ذکر بھی کیا کرتے اب مولانا محمد حسین صاحب سے ملاقات ہوئی تو حضرت نے ان سے بات چیت فرمائی حالات دریافت کئے نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام غلام جہانگیر بتلایا یہ سن کر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ آپ جہانگیر بادشاہ کے غلام ہیں ؟۔۔ میں تمہارا نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھتا ہوں تمام احباب کو توجہ دلائی گئی ۔
کہ سب احباب ان کو عبد الرحمٰن پکاریں گے دوسری مرتبہ عبدالرحمٰن صاحب نے حضرت ناظم صاحب سے ملاقات کی تو حضرت نے پوچھا کہ کیا آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں موصوف نے سمجھا کہ بحث کرنا چاہتے ہیں پوچھ رہے ہیں اس لئے جواب دیا کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا حضرت سن کر خاموش ہو گئے یہ احقر کی حضرت سے پہلی ملاقات تھی بعد میں عبد الرحمٰن صاحب کے ساتھ حیدرآباد کی آمد و رفت شروع ہوئی اور حضرت کے گھر پر ملاقاتیں ہوتی رہیں مولوی عبد الر حمٰن صاحب تو کچھ دن حضرت ناظم صاحب کے مکان ہی میں قیام پذیر تھے اور ایک خانگی یا سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے اس طرح عبد الرحمٰن صاحب کو حضرت ناظم صاحب کی خدمت میں رہنے کا ایک بہترین موقع مل گیا احقر کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا اور ۲۷ ؍ رمضان المبارک سہ شنبہ میں احقر نے حضرت محمد حسین صاحب سے بیعت کرلی اس دور میں حضرت ناظم صاحب کے مکان کو آنے جانے والے حضرات میں مولوی سید حسن صاحب ۔مولوی جمیل احمد صاحب ۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ۔صابر میاں صاحب ۔ عبدالخالق صاحب ۔الیاس برنی صاحب ۔ عبدالحلیم صاحب ۔غلام دستگیر صاحب۔ رشید صاحب ۔ مولا نامناظر احسن گیلانیؒ صاحب ۔خاص طور پر قابل ذکر ہیں
ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب کی بیعت کی مجلس میں احقر شریک رہا مٹھائی منگوائی اور حضرت کے سامنے پیش کی گئی حضرت نے مٹھائی کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں نے دیکھ لیا اسکے بعد مٹھائی تقسیم ہوئی مجھے اچّھی طرح یاد ہے کہ بیعت سے پہلے ڈاکٹر ولی الدین صاحب نے حضرت محمد حسین صاحب قبلہ سے تین مہینے تک بحث و مباحثہ کیا تھا اور آخر میں بیعت کرلی تھی ان دنوں احقر بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوتا رہا ۔جن حضرات کو محمد حسین صاحب سے خلافت ملی تھی وہ حسب ذیل ہیں
۔۱۔سید حسن صاحب ۔۲۔جمیل احمد صاحب ۔۳۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ۔۴۔مولانا مناظراحسن گیلانی صاحب ۔۵۔صابر میاں صاحب ۔۶۔الیاس برنی صاحب ۔۷۔مولانا فضل اللہ صاحب (موصوف نے خلافت واپس کردی تھی ) ۔۸۔مولانا اکرام علی صاحب کریم نگر ۔۹۔مولانا مسعود الحسن صاحب (صاحبزادہ ) آخری مرتبہ حضرت سے ملاقات کرکے حیدرآباد سے مغل گدہ جا رہا تھا تو حضرت نے فرمایا تھا کہ تعطیلات کے بعد آپ آئیے ہم آپ کو خلافت دیں گے ۔اسی اثنا میں حضرت کا انتقال ہو گیا حضرت مولانا محمد حسین صاحب نے نارائن پور کے قیام کے دوران میں مولانا ضمیر الدین صاحب نقشبندی سے بیعت کرلی تھی اور ان کے بعد بھی غالباً اور کئی مشائخ سے بیعت کی تھی اور مجاہدات اور ریاضات کافی کرچکے تھے احقر نے یہ بھی سنا تھا کہ کوئی ذکر یا شغل ایسا نہیں جو محمد حسین صاحب نے نہ کیا ہو بعض اذکار واشغال تو الٹے لٹک کر بھی کرچکے تھے آخر میں حضرت کمال اللہ شاہ صاحب (مچھلی والے شاہ صاحب ) سے ملاقات ہوئی اور یہاں عملاً یافت حق اور شہود حق نصیب ہوا ۔حضرت محمد حسین صاحب قبلہ سے احقر نے یہ بھی سنا کہ اگر یہ علم مجھے پہلے نصیب ہوجاتا تو پندرہ بیس سال کی محنت و ریاضت بچ جاتی ۔حضرت کے پاس کشف وکرامات عام اور معمولی چیز یں تھیں یافت حق وشہود حق نصیب اصل تھی ایک مرتبہ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جتنی کرامتوں کا ظہور ہوا ہے اگر وہ لوگوں کو معلوم ہوجائے تو میں بھی پہلے بزرگوں کی طرح مشہور ہو جا ؤں جیسے حضرت جنیدؒ و غوث پاکؒ مشہور ہیں ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضور اکرم ا کو دیکھا ہے دوسری مرتبہ ارشاد فرمایاکہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت غوث پاکؒ کو دیکھا ہے اور غوث پاکؒ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ بزرگ ہیں ۔
بے شمار حضرات کا تجربہ ہے کہ انہوں نے حضرت ناظم صاحب سے کچھ سوالات پوچھنا چاہے اور حضرت کی مجلس میں بغیر پوچھے ہی ان سارے سوالات کے جوابات مل گئے ۔
حضرت نے فرمایاکہ میں نے تصوف اور سلوک کو ایسا کردیا ہے جیسے متقدمین میں تھا اصطلاحات کو بالکل ترک کردیا گیا ہے اور قرآن وحدیث ہی پیش نظر ہے ایک صاحب نے فرمایاکہ حضرت میں بات چیت کرنا چاہتا ہوں ،بشرطیکہ آپ مولانا کی مثنوئی پیش نہ فرمائیں ۔حضرت نے فرمایا کہ مثنوئی پیش نہ کی جائے گی لیکن آپ قرآن وحدیث میں چوں وچرا نہ کریں ۔ونپرتی کے دور میں حضرت ناظم صاحب نے کلمۂ طیبہ کا رسالہ لکھا تھا جس میں سوال وجواب کی صورت میں دین کی ضروری تعلیم تفصیلی آگئی تھی اس میں عوام کے بعض غلط معتقدات اور اعمال کی نشان دہی بھی کی گئی تھی ۔حضرت کی ٹھیک کتاب وسنت کی محتاط تعلیم ہی کی وجہ سے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اور مولانا فضل اللہ صاحب اور ڈاکٹر ولی الدین صاحب وغیرہ اور علماء دیوبند حضرت سے بہت قریب ہوگئے تھے ۔
حیدرآباد کے مشائخین میں حضرت محمد حسین صاحب قبلہ کے علاوہ کوئی دوسرے شیخ ایسے نہیں ہیں جن کے سامنے علماء دیوبند نے زانوئے ادب طے کیا ہو ۔
حضرت نے ارشاد فرمایاکہ سات سال بے روزگاری میں گزرے ملازمت وغیرہ کچھ نہ تھی اور گھر کے پورے اخرجات شان وشوکت کے ساتھ چلتے رہے۔ (۱)ایک مرتبہ گھر میں ٹہل رہا تھا پھاٹک بند تھی پھاٹک کے پاس پکارنے کی آواز آئی پھاٹک کھول کر دیکھا کوئی نظر نہ آیا ایک ہزار ،روپے کی پوٹلی رکھی ہوئی تھی اسے گھر لایا گیا ۔(۲)ایک مرتبہ گھر میں پیسوں کی ضرورت تھی دل میں صرف یہ خیال آیاکہ اللہ میں کیا ہوگیا ہوں اتنا خیال آنا تھا کہ کچھ ضرورت سے ڈسک کھولا تو اس کے اندر پورے ایک ہزار روپے جمع ہوئے تھے یہ تو نمونے کی دو باتیں ہوئیں نہیں معلوم اور کتنے واقعات ہوچکے ہوں گے ۔
Jul 3 2015
Shab e Qadr – Shah Kamal ur Rahman Sahab
شبِ قدر
حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
شانِ نزول
پہلا سبب: ایک دن حضور اکرم ا نے صحابہ کرامؓ سے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا حال بیان فرمایا کہ اس نے ایک ہزار مہینے عبادت کی روز دن کو روزہ رکھتا رات عبادت الٰہی میں مصروف رہتا۔ اور دن کو روز ہ کی حالت میں کفار سے جہاد کرتا رہتا۔ اس کے اس نیک عمل ‘پیہم جدو جہد اور کارِ ثواب میں بکثرت مشغولیت کی بات سن کر صحابہؓ کو رشک ہوا۔
کہنے لگے یا رسول اﷲ ! ہم اس شخص کے ثواب کو کیسے پہنچ سکیں گے کہ ہماری عمریں بھی بہت کم ہیں۔ اس میں بھی کچھ حصہ سو نے میں کچھ حصہ تلاش معاش میں کچھ حصہ دیگر ضروریات میں اور کچھ امراض وکاہلی میں بسر ہوجاتا ہے عبادت کیلئے وقت بہت کم ملتا ہے حضور ا اس حقیقت بیانی کو سن کر کچھ ملول سے ہوئے تو دفع ملال کیلئے یہ سورۃ ناز ل ہوئی جس میں شب قدر کی اہمیت ‘فضیلت‘حقیقت‘ بتاکر بہت بڑی نعمت سے سرفراز کیا گیا۔
دوسرا سبب: ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ جب حضورؐ نے دیکھا کہ آپ کی امت کی عمر یں بالعموم ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں اور اگلی امتوں کی عمر یں سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس کی رہیں تو آپ کی تسلی کیلئے اور اس امت کے عمل خیر اور عظمت کو بڑھانے کیلئے اﷲ نے شب قدر کی دولت عطا فرمائی۔
تیسرا سبب: بنی اسرائیل کی چار منتخب اور برگزیدہ ہستیوں یعنی حضرت ایوب، زکریاؑ ، حزقیل ؑ اور یو شع ں نے ایک لمحہ لغزش میں گزارے بغیر اسّی سال تک عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔ تو اس پر صحابہ ؒ نے رشک کیا‘ اپنی عمروں کے قلیل ہونیکی وجہ سے بڑے ثواب کے حصول کی مشکل محسوس کی توحضرت جبرائیلںآئے اور منجانب اﷲ سورہ قدر لائے اور اسی۰۸ برس کی عبادات سے بڑھ کر اور بہتر رات کی خوشخبری سنائی۔
چوتھا سبب: بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا بڑا نیک تھا اس وقت کے رسول پر وحی آئی کہ اس بادشاہ سے کہو کہ جو آرزو ہو بیان کرے تو اس نے یہ آرزو ظاہر کی کہ میں چاہتا ہوں کہ اموال اور اولاد کے ذریعہ راہ خدا میں جہاد کروں تو اﷲ نے اس بادشاہ کو ہزار لڑکے دیے چنانچہ وہ بادشاہ اس کے بعد اپنے ایک بیٹے کو جہاد پر روانہ کرتا جب وہ شہید ہوتاتو دوسرے کو بھیجتا۔ ایک ہزار مہینوں تک اسی طرح کرتا رہا۔ سب بچے شہید ہوگئے تو آخر میں خود اس نے جہاد کیا اور شہید ہوا۔ اس کے پاکیزہ عمل کرنیکی فکر صحابہث کو دامن گیر ہوئی تو اﷲ تعالی نے اپنے فضل سے سورہ قدر نازل فرمائی۔
وجوہِ تسمیہ
اس رات کو شب قدر کیوں کہتے ہیں ؟
پہلی وجہہ
قدر کے معنی شرف اور بزرگی کے آتے ہیں۔ جیسے کسی کی بزرگی بیان کرنا ہوتو کہتے ہیں ’’عالی قدر‘‘ یعنی اعلیٰ مرتبہ۔ چوں کہ طاعات کا اس رات میں رتبہ بڑھ جاتا ہے ‘ فرمانبردار بن کر بندے عالی قدر اور عالی مرتبہ ہوتے ہیں۔ فرشتے ذی مرتبہ انسانوں کی قدر کرتے ہیں انھیں سلام کرتے ان سے مصافحہ کرتے اور ان کو دعا دیتے ہیں اسلئے اسے شب قدر کہتے ہیں۔
دوسری وجہہ
اﷲ تعالی نے ’’ قدر‘‘ لفظ اس سورۃ میں تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے۔ چوں کہ یہ عالی قدر کتاب عالی مرتبہ فرشتے کے ذریعہ اور شرف و قدر والی امت پر لیلۃ القدر میں نازل ہوئی۔ اسلئے اسے قدر کہا جاتا ہے۔
تیسری وجہ
’’قدر‘‘ کے ایک معنیٰ تنگی کے بھی آتے ہیں۔ چوں کہ اس شب میں عام و خاص ملائکہ کے ناز ل ہونے کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ ا سلئے اسے قدر کہتے ہیں۔
چوتھی وجہ
قدر کے ایک معنی تقدیرکے ہیں۔ کائنات میں ہونے والے سال بھر کے تقدیری امور کے جو فیصلے ہوتے ہیں ان سے متعلق امور قدر میں ظاہر ہوتے ہیں اور ملائکہ کے حوالہ کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔
پانچویں وجہ
اس شب کی ساری عظمتیں بتاکر قدر کرنے کی دعوت دی گئیں ہے۔ ا س لئے اس کو شب قدر سے موسوم کیا گیا۔
خصوصیت امت محمدیہ ؑ
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؑ نے فرمایا کہ شب قدر حق تعالیٰ نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔
تفسیری پہلو
نزول ملائکہ کے بارے میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں کہ ملائکہ نے جب تجھے دیکھا تھا تو مجھ سے نفرت ظاہر کی تھی اور عرض کیا تھا فتنہ مچانے والے اور خون بہانے والوں کو آپ پیدا فرماتے ہیں۔ اس کے بعد والدین نے جب تجھے دیکھا تھا جب کہ تو منی کا قطرہ تھا تجھ سے نفرت کی تھی کپڑے کو لگ جاتا تو دھونے کی نوبت آتی لیکن جب حق نے اس قطرہ کو بہتر صورت دیدی تو والدین کو بھی پیار کی نوبت آئی اور آج جب کہ تو شب قدر میں معرفت الٰہی اور طاعت میں مشغول ہے تو ملائکہ بھی اس فقرہ کی معذرت کرنے کیلئے اتر تے ہیں ۔
روح سے مراد ؟
بقول جمہور مفسرین کے روح سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں۔ لفظ روح سے اور بھی کئی مراد یں مفسرین اور شارحین نے نقل کئے ہیں مگر امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ یہی زیادہ صحیح ہے:
عن انسؓ قال قال ؑ اذا کان لیلۃ القدر نزل جبرائیلؑ فی کبکبۃ الملائکۃ یصلون علی کل عبد قائم اوقاعد یذکر اﷲ ( بیہقی)
بہ روایت حضرت انسؓ ارشاد رسول اللہ امنقول ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرائیل ؑ ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور ہر اس شخص کیلئے جو کھڑے یابیٹھے اﷲ کا ذکر کر رہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دعاء رحمت کرتے ہیں۔
ارشادِ محبوب سبحانی ؒ
حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فرشتے حضرت جبرائیل ؑ سے کہنے سے متفرق ہوجاتے ہیں۔ اور کوئی گھر چھوٹا یا بڑا جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور فرشتے وہاں نہ جاتے ہوں لیکن اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا سور ہو یا حرام کاری کی وجہ سے جنبی ہو یا تصویر ہو۔ (شب قدر کے فضائل سے محروم لوگوں کے اَتے پتے ملتے ہیں اﷲ تعالی ہی حفاظت فرمائے)
عن انسؓ قال دخل رمضان فقال رسول اﷲ ان ھذا لشھر قدحضرکم فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولایحرم خیرہا الا محروم (ابن ماجہ )
ارشاد رسول ؑ ہے تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر جو حقیقتاً محروم ہو۔
جزائے قدر اعمال
عن ابی ھریرہؓ قال قال رسولا من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ۔ جو شخص شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ عبادت کیلئے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
نوٹ :
ایمان و احتساب کا مطلب تلاوت‘ذکر ‘دعا‘ عبادت میں مشغول ہونا اور ثواب کی نیت ویقین سے بشاشت قلبی سے اﷲ کو راضی کر تے رہو۔
نوٹ:
جبرائیل ؑ اور فرشتے جس کسی کو عبادت میں مشغول دیکھتے ہیں اس کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں دعاء رحمت وسلامتی کو ہی سلام فرما یا گیا ہے۔
فضائل شب قدر
۱) حق تعالی کی توجہ خاص اور شان تقرب کا اس رات میں ظہور ہوتا ہے۔
۲)عبادتوں کی حلاوت بڑھ جاتی ہے کثرت طاعت پر دل متوجہ ہوتا ہے۔
۳)ملائکہ جوق در جوق بکثرت باذن رب اتر تے رہتے ہیں اور عالم پر کیف و روحانی ہوجاتا ہے۔
۴)عالم غیب کا عالم شہادت سے، عالم بالا کا عالم ناسوت سے ایک خاص ربط و میلان ہویدا رہتا ہے اس لیے تجلیات و انوار کی یہ بارش باعث قدر و فضیلت بنتی ہے۔
۵)اس شب میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا ۔
۶)فرشتے اسی شب پیدا کئے گئے۔
۷)جنت اسی شب سنواری جاتی ہے۔
۸)آدم علیہ والسلام کی پیدائش کا مادہ اسی شب جمع کیا گیا۔
۹)اس رات کیا ہوا نیک عمل اﷲ کے نزدیک سلیمانی بادشاہت سے بھی بڑھ کر ہے۔
۱۰)شبِ قدر تیس ہزار دنوں اور تیس ہزار راتوں سے بڑھ کر فضیلت رکھتی ہے۔
۱۱)شب قدر میں فرشتے صالحین کے پاس آتے اور انھیں سلام کرتے ان کو خوشخبری دیتے اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔
۱۲)حضور ا نے فرمایا کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ اس رات قیام کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
۱۳)شب قدر ایک ہزار مہینے یعنی ۳۸ سال چار مہینے سے زیادہ مرتبہ والی ہے۔
۱۴)حضور ا نے فرمایا جس شخص نے شب قدر میں مغرب و عشاء جماعت سے پڑھی اس نے شب قدر سے حصہ پالیا۔
۱۵)جس نے سورۃ القدر پڑھی اس نے ایک چوتھائی قرآن پڑھا۔
فوائد سورۂ قدر
*جو شخص صبح شام تین تین مرتبہ سورۃ قدر پڑھے تو سب لوگ اس کی عزت کریں گے اور مراتب علوی کے واسطے ہمیشہ ورد رکھنا عجیب و غریب ہے۔ اور اگر کسی چینی برتن پر مریض کو پلائیں توانشاء اﷲ شفاء ہوگی۔
*حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جو شخص شب قدر میں بعد نماز عشاء سورۃ قدر سات مرتبہ پڑھے اﷲ تعالی اس کو ہر بلا سے محفوظ رکھے گا۔
*۳۶ مرتبہ سورۃ قدر پڑھ کر پانی پر دم کرکے لباس پر چھڑک لیں اور پہنیں ۔ اس لباس کے جسم پر رہنے تک رزق میں وسعت رہے گی۔
*جو شخص سورۃ قدر ایک ہزار مرتبہ بہ روز جمعہ پڑھے گا تو وہ انشاء اللہ خواب میں حضوراکرم ا کے دیدار سے مشرف ہوگا۔
تعینِ قدر میں رکاوٹ کیوں ہوئی؟
عن عبادہ ابن الصامتؓ قال خرج النبی ؑ لیخبرنا بلیلۃ القدر فتلاحی رجلان من المسلمین فقال خرجت لاخبرکم لیلۃ القدر فتلاحی فلان‘ وفلان‘ فرفعت و عسی ان یکون خیرا لکم قالتسموھا فی التاسعۃ والسابعۃ والخامسہ (مشکوۃ)
حضرت عبادہؓ نے کہا کہ حضورؐ کو شب قدر دکھائی گئی تو آپ ؐہمیں اطلاع دینے کیلئے نکلے۔ اس اثناء میں دو شخص آپس میں لڑرہے تھے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ میں اس لئے باہر آیا تھا کہ تمہیں شب قدر سے مطلع کروں کہ کونسی رات ہے مگر دو شخصوں کی خصومت اور نزاع اور جھگڑے کے سبب وہ رات اٹھالی گئی پس تم لوگ اس کو ۲۵‘۲۷‘۲۹‘ کو تلاش کرو۔
شب قدر چھپائے جانے کی حکمتیں
حکمت
(۱)بندے ہر وقت خدا کی طرف متوجہ رہیں۔
(۲)تلاش اور جستجو کا ثواب دلایا جائے ۔
(۳)تمام راتوں کی قدر کرنا نصیب ہو۔
(۴)غفلت اور کوتاہی سے بچیں۔
(۵)شب قدر میں کئے ہوئے اعمال پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں ۔
(۶)شب قدر ظاہر ہوتی تو نیک لوگ ثواب کما لیتے مگر بد نصیب گنہگار لوگ اپنی خراب عادتوں کی وجہ سے اس شب میں نحوست کا شکار ہوتے اور قہر خدا میں گرفتار ہوتے اسی لئے قدر چھپائی گئی اس کو بھی حق کی رحمت خاص کہا جاسکتا ہے۔
علامات شب قدر
۱)شب قدر کی صبح سورج صاف بے شعاع چودھویں رات کے چاند کی طرح نکلتا ہے۔
۲)درخت سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔
۳)ہر مکان نورانی معلوم ہوتا ہے۔
۴)دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
۵)موسم معتدل رہتا ہے نہ زیادہ گرمی نہ زیادہ سردی بلکہ خوشگوار موسم رہتا ہے
۶)فرشتوں کا سلام اور خطاب اہل دل سنتے ہیں۔
۷)عبادت میں لذت معلوم ہوتی ہے۔
۸)شب قدر میں شیطان نہیں نکلتا۔
۹)حضرت ایوب بن خالد ؒ اور حضرت عبدہ بن ابی البابہؓ شب قدر میں انھوں نے کھارے پانی کو میٹھا پایا ہے۔
۱۰)حضرت جبرئیل ؑ اور فرشتے عبادت گذار مسلمانوں سے سلام و مصافحہ کرتے ہیں۔
۱۱)جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل نرم پڑجاتے ہیں ‘آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔
دعاء قدر
By silsilaekamaliya • Important Articles • Tags: hazrat maulana shah muhammad hassan sahab, Shab e Qadr - Shah Kamal ur Rahman Sahab