حضرت مولانا حسین احمدمدنی ؒ نے ایک بار فرمایا تھا ’’حفاظت اسلام کے نعرے تو بہت بلند کئے جاتے ہیں مگر عملی پہلوئوں سے ہم خود گریزاں رہتے ہیں۔ اسلام کوئی مجسم نہیں جس کی حفاظت کے لیے لائولشکر کی ضرورت ہو۔ آپ اپنے اندر اسلام سمولیجئے آپ بھی محفوظ ہو جائیں گے اور اسلام بھی محفوظ ہوجائے گا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کے موقف کی وضاحت میں کہا’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سوبرس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ۔ اسلام کی تعلیم ،اسلام کی تاریخ ،اسلام کےعلوم وفنون ،اسلا م کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرافرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی اس میں مداخلت کرے۔ ‘‘
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی نے فارغ التحصیل علما سے خطاب کے دوران انتباہ دیاتھا اگر قوم کو ہمہ وقتہ نمازی نہیں سوفیصد تہجد گزاربنادیاجائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہیں کیاگیا اور ملک کے احوال سے واقف نہ کرایا تو ممکن ہے کہ ملک میںآئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نماز وں پر پابندی عائد کردی جائے ۔ اسی احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اشاروں اشاروں میں وارننگ دی کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام،شعائر اسلام اور قوانین شریعت پر سرجیکل اسٹرائک کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے ان کی داغ بیل تو مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد سے ہی پڑگئی تھی۔ ملت نے اکابرین ملت کی رہنمائی میں حکمت وتدبر کے ساتھ ان کا سامناکیاتھا۔ بجزمخالفت کی موجیں بہت مضطرب رہیں۔ آزمائشوں کے ساحل پر لاکر پٹکتی رہیں لیکن ایمان ویقین کی کشتی طوفان نوح کا مقابلہ کرتی رہی اور بپھرتی موجوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے، یہی نہیں مسلمانوں کا موقف بھی طے کردیاگیا کہ وہ کونسے امور ہیں جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہ جو خطرات ہیں ان سے آگہی حصول علم دین کی طرح ہی ضروری ولازمی ہے ۔ سیاسی شعور کے بغیر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
مودی سرکار نے ایک ساتھ اتنے محاذ کھول دیے ہیں کہ ترجیحات طے کرنی مشکل ہوگئی ہیں۔ جان ومال کا ضیاع تو کسی صورت قبول کیاجاسکتاہے مگر جب نوبت دین پر دست درازی کے ارادوں کو دھار دینے تک پہنچ جائے اور اس کے لئے آئین کا پلو تھاماجائے تو پھر سوچنے سمجھنے کے لئے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لا پر ہاتھ ڈالنے کی کہانی نئی نہیں ہے یہ خدمات جلیلہ تو کانگریس کے نرم ہاتھ بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ بی جے پی تو کانگریس کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے ۔ ہماری کمزوریاں ،نادانیاں اپنی جگہ مگر کانگریس مسائل کی جننی ہے اس سے وہ لوگ بھی انکارنہیں کرسکتے جن کی رگوں میں پیدائشی کانگریسی خون دوڑ رہا ہے ۔
دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تلوار لٹکادی گئی ،رام مندر کی تعمیر کے لئے میدان ہموار کرنا شروع کردیا گیا ،بڑے یقین واعتماد کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ بہت جلد تمام قانونی رکاوٹیں دور کرلی جائیں گی اور تعمیر کاآغاز ہوجائے گا۔ مسلکی اختلافات کو ہونے دینے ،ہندوووٹوں کو متحد کرنے اور مسلمانوں کو بانٹنے کی بات کھلم کھلا کی جارہی ہے۔
وزیراعظم مودی سرجیکل اسٹرائک کا موازنہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائی سے کرتے ہیں یعنی جو کام اسرائیل غزہ میں کرتا ہے وہ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں کردکھایا۔ اس بیان میں کتنے معانی پوشیدہ ہیں وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان دشمنی کا بخار حب الوطنی کے تیز انجکشنوں سے بڑھایا جارہا ہے اس کا بالواسطہ مقصد پوشیدہ نہیں ہے۔ بات بات پر پاکستان روانگی کی دھمکیاں ۔ دیش بھکتی کے بدلتے پیمانے،وہاٹس اپ پر متنازع پوسٹ ڈالنے پر منہاج انصاری کی پولیس حراست میں مار مار کر گردن کی ہڈی توڑ دینا اور پھر اس کی دردناک موت ،نجیب کی جے این یو میں پراسرار گمشدگی اس سے پہلے مارپیٹ ، کس طرف اشارہ کرتے ہیں اور ملک کو کدھر لے جارہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کو انتہائی خاموشی کے ساتھ دھیرے دھیرے خانہ جنگی کی گود میں دھکیلا جارہا ہے وہیں فوج کو مقدس گائے بناکر آگے بڑھایاجارہا ہے ۔ ہرمخالف آواز کو دبادینا چاہتے ہیں جب سوچ پر پہرے بیٹھا دیے جائیں اور اختلافات کو تہذیب کے دائرے میں مقید کرنے کی بجائے کچل دیاجائے تو اس رویہ کے انڈے سے فسطائیت کا ڈائناسورپیداہوتا ہے۔ سائرہ بانو کیس کی آڑ میں جس طرح کاماحول تخلیق کیاجارہا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ مسلمانوں کو آئین اور عدالت کے ساتھ ٹکرائو کی حالت میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا تمام تر فائدہ وہ طاقتیں اٹھانا چاہیں گی جو مسلمانوںکو مظلوم کی بجائے ظالم ثابت کرنے پر تلی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جلسے جلوسوں، مظاہروں دھرنوں سے گریز کرنے کا مشورہ دے کر سردست وقوع پذیر ہونے والی اس کشیدگی سے بچالیا جو فسطائی طاقتیں چاہتی ہیں ، ان کی چال ناکام بنادی شورشرابہ ہیجانی سیاست ،گرماگرم تقریر یںمسائل پیداکرتی ہیں، آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکاتی ہیں۔ مسلم جماعتوں کا یہ حکمت بھرا اقدام ان سیاسی طالع آزمائوں کی امیدوں پر اسکائی لیپ بن کر گرا جو اس بہانے آگے تک کاسفر شارٹ کٹ کے ذریعہ طے کرنا چاہتے تھے جومسلمانوں کو سڑکوں پر اتارکر ہنگامہ آرائی کا طوفان پیدا کرکے نشان زد ہدف تک پہنچنے کے لئے بے قرار ہیں۔
ہمیں اس پہلو پر ہرحالت میں غورکرناہوگا کہ ملک جن خطرات کی طرف بڑھ رہا ہے وہ در اصل کیا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔سوال اب صرف مذہبی آزادی کانہیں ہے آزادی رائے کا ہے جس پر غداری کاجامہ پہنادیاگیا ہے۔ ماضی سے بے خبر تاریخ سے ناآشنا اور حکمت وتدبر کے شعور کو پائے حقارت سے ٹھکرانے والے طوفانوں کی آستینوں میں پوشیدہ بجلیوں کے بارے میں کتنے حساس ہیں کہنامشکل ہے ۔ اعتدال پسند طبقہ جنگ ہارتا نظر آنے لگا ہے۔ آج اگر سرجیکل اسٹرائیکل پرسوال اٹھانااورپاکستانی فنکاروں کی وکالت کرنا غداری ہے تو کل اخلاق کے قتل کے خلاف آواز اٹھانا،روہت ویمولا کی خودکشی پر احتجاج منہاج الدین انصاری کی پولیس حراست میں سفاکانہ موت کی مذمت،گائے کی آڑ میں دلتوں کی بے رحمانہ پٹائی پر اظہار ناراضگی بھی غداری کے زمرے میں آسکتی ہے ۔ اگر کیرل کے ایک مسلم اسکول کے خلاف اس لئے مقدمہ درج کیاگیا کہ اس کے نصاب میں ایسی کتابیں داخل ہیں جن میں اسلام پر جان نچھاور کرنے کی تعلیم دی جارہی تھی اور یہ قابل دست اندازی پولیس ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تفتیش کادائرہ کہاں تک بڑھ سکتا ہے۔ پھر فقہ کی کتابوں میں باب الجہاد ہونے پر اعتراض ہوگا۔ اسلامی غزوات کامطالعہ تاریخی ودینی کتابوں میں کافر جیسے الفاظ کی موجودگی پرسوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ منافرت اور دہشت گردی پر اکسانے کاالزام لگادیاجائے تو حیرت نہیںہوگی۔ مشتعل بھیڑ انصاف کرنے کی حمایت ،گئورکشکوںکو تحفظ فراہمی کامطالبہ ،اقلیتوں پر ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی حب الوطنی پر شبہ ،حکومت کی مخالفت کو غداری سے تعبیرکرنا، آئینی اداروںکی بے وقعتی کی حوصلہ افزائی ،دادری قتل کے ملزم کو شہیدکادرجہ،سرکار کی طرف سے 25لاکھ کامعاوضہ اور اس کی لاش پر قومی جھنڈے کی موجودگی اس پر مجرمانہ خاموشی سیکولر قوتوں کی منافقت یاپسپائی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایسا ماحول جہاں بھیڑپیروںسے کچل دے یاقتل کردے ،لکھتے ہوئے بھی ڈرلگنے لگے، بولتے ہوئے سوچناپڑے۔ملک اسی سمت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ تصور کیاجاسکتا ہے کہ جہاں آزادی رائے کو بھی برداشت نہ کرنے کا ماحول تخلیق کیاجارہا ہو وہ دوسروں کی مذہبی آزادی کیسے برداشت کرسکتا ہے ۔ ان ایٹمی ذراسابھرےحالات سے نمٹنے کے لئے موثرہمہ پہلو ،تدبروحکمت سے بھرپور لائحہ عمل بناناہوگا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصہ دکھاناہوگا ورنہ ذاتی مسلکی گروہی اورجماعتی عصبیتیں لےڈوبیں گی اورکوئی اظہارتعزیت بھی نہیں کرے گا ابھی مہلت عمل باقی ہے۔(ملت ٹائمز) بہ شکریہ ملت ٹائمز
qasimsyed2008@gmail.com
Call for uniform civil code is based on bigotry or Intolerance
یکساں سول کوڈ کا مطالبہ قومی یکجہتی یا تعصب پرستی
شعیب عالم قاسمی
آج کل ہندوستان میں جدھر دیکھیئے ہر طرف یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا نعرہ لگائے جا رہے ہیں ہر زبان مسلمانوں پر یکساں سول کوڈ مسلط کرنے اور تھوپنے کی وکالت کرتی نظر آتی ہے مگر جہاں تک یکساں سول کوڈ کی معقولیت کی بات ہے تو اس سلسلہ میں تمام جماعتیں اور ارباب دانش تہی مایہ اور صفر ہیں کیونکہ ان کے پاس علمی حیثیت سے اس کی معقولیت کی کوئی دلیل نہیں ہے صرف اس لنگڑے لولے استدلال کے کہ اس اقدام کے ذریعہ ہندوستان کے تمام فرقوں کے درمیان میل ملاپ قائم ہوجائے گا سیکولرازم کو مضبوطی ملی گی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی- جس کے نتیجہ میں ملک کی بقاء سالمیت اور اتحاد کو تقویت ملے گی لیکن حقیقت اور واقعاتی اعتبار سے یہ ایک دھوکہ فریب اور بڑا مغالطہ ہے-
ذرا دیکھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کیا ہے ؟ اور اس کے نفاذ کی کیا حالت ہے- واقعہ یہ ہے ہندوستان میں ہندو،سکھ، بودھ اور جین فرقوں کا سول کوڈ مشترک ہے یعنی ان چار فرقوں کے لیے ایک ہی سول کوڈ عائلی قانون یا سول پرسنل لاء پایا جاتا ہے – مگر اس مشترکہ کوڈ کے باوجود کیا ان چاروں فرقوں میں قومی یکجہتی امن و سلامتی کا تصور پروان چڑھا ہے اور کیا ان کے درمیان الفت و محبت اور بھائی چارہ پیدا ہوگیا ہے؟ حالات اور واقعات اس کا بین ثبوت ہیں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے – آخر یکساں سول کوڈ کے باوجود سکھ ہندوؤں کے ساتھ رہنے کے بجائے دور کیوں بھاگ رہا ہے؟ یہ فرقہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہنا چاہتا ؟ پھر کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ یکساں سول کوڈ کے باوجود نومبر 1984ء میں دہلی اور دوسرے مقامات پر سکورں کا قتلِ عام کیا گیا اور ان کی املاک و جائداد کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ جوڑ نے کے بجائے توڑ کیوں رہاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک فرقہ کی جارحانہ فرقہ پرستی ہے جس سے ہر ایک خوفزدہ ہے اور ہر ایک کو اپنی انفرادیت خطرے میں نظر آرہی ہے-
اسی طرح کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ مشترکہ لاء ہونے کے بعد بھی ہندو دھرم کے اعلی ذات والے لوگ ادنیٰ ذاتی لوگوں کو دبائے ہوئے ہیں؟ دلتوں کے سلسلے میں ہر روز دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے ہی ہم مذہب اور ہم قانون افراد کے بیجا ظلم و ستم اور جارحیت کا نشانہ بن کر خاک و خون میں تڑپتے دکھائی دیتے ہیں؟ حتی کہ ان کو مندر میں بھی داخلہ کی اجازت نہیں دی جاتی ظاہر ہے کہ جب ہندو فرقہ اپنے ہی مختلف طبقات کے ساتھ باوجود اپنے مشترکہ کوڈ اور قانون کے محبت اور رواداری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا تو بلا دوسرے مذاہب کے ساتھ کیا کرے گا؟ اپنی نیک نیتی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ پہلے اپنے ہی مختلف طبقات میں اس کا مظاہرہ کرکے ایک اچھا نمونہ اور مثال پیش کرتا، پھر دوسروں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا مگر تنگ نظری، تعصب اور ذات پات کے بھیدوں کو اپنے تمام مفاسد کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے اس قسم کے “عالمی بھائی چارے” کی دعوت ایک عجیب اور بے جوڑ سی بات ہے-
یہ تمام حقائق اور واقعات اس کا ثبوت ہے کہ محض “ایک کوڈ”کے تبدیل کردینے سے دلوں کی حالت اور کیفیت نہیں بدل جائے گی – یہ کوئی جادو نہیں ہے کہ اس کے ذریعے تمام مذاہب اور تمام فرقوں کی کایا پلٹ جائے گی بلکہ اس قسم کی تبدیلی شاید یکساں غذا،یکساں لباس، یکساں کلچر اور یکساں زبان سے بھی نہ آئے کیوں کہ اس صورت میں قبائلی، خاندانی اور گروہی مفادات سر اٹھانے لگتے ہیں جیسا کہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے موجودہ تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ دوسری جنگ عظیم ہے جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے تھے ایک ہی مذہب (عیسائیت ) کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے درمیان برپا ہوئی تھی جو سب کے سب اپنا یکساں سول کوڈ رکھتے تھے مگر یہ مشترکہ کوڈ ان کے درمیان تاریخ کے سب سے بڑے خون خرابے کو بھی کسی طرح نہ روک سکا اس قسم کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں اور یہ ایسے حقائق و واقعات ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا – مگر ہندوستان کا حال اس کے بالکل برعکس ہے – یہاں مختلف اقوام، مختلف مذاہب، مختلف مسالک،مختلف فرقوں ،مختلف تہذیبوں، اور مختلف عقائد و نظریات کے لوگ آباد ہیں اور مختلف زبانیں بیل پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف و متضاد ہیں اور اسی بناء پر یہ عناصر متعدد گروپوں اور ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے اور باہم دست و گریباں رہتے ہیں، ہر ایک اپنی بڑائی جتانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا نظر آتا ہے، پرو علاقہ پرستی کا جنون آج کل جس طرح پھیل رہا ہے اور مختلف تحریکیں آج جس طرح اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف محاذ بنا رہی ہے سابقہ ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی – اسی طرح ہندو فرقہ واریت اور ہندو احیاء پرستی کی تحریکیں آج جس منظم پیمانے پر سرگرم عمل ہیں ان سے تمام ہی اقلیتیں خائف اور پریشان ہیں – غرض جس طرف دیکھیئے دشمنی، عناد و منافرت، تعصب اور جارحانہ فرقہ پرستی کے مناظر نظر آتے ہیں ایسے سنگین اور انتہائی دھماکہ خیز حالات میں ان فرقہ پرست طاقتوں کو کچل کر امن قائم کرنے کے بجائے یکساں سول کوڈ کا راگ ایک بے وقت کی راگنی ہی نہیں بلکہ ایک کھوکھلا نعرہ اور تعصب پرستی ہی نہیں تو اور کیا ہے؟ غرض اس طرح کے منطقی اقدامات کے ذریعہ کچھ فائدہ حاصل ہونے والا نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے لہذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کی منافرت اور بلاوجہ کشیدگی پیدا کرکے فضاء مکدر کرنے کی بجائے اقلیتوں کو اعتماد میں لے کر ان کے خدشات کو دور کیا جائے اور جس قومی یکجہتی کا نعرہ اس ملک میں بلند کیا جاتا ہے اس کو معقول اور واقعاتی بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کی جائے – اس سلسے میں ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو بار بار قومی دھارے (مین اسٹریم) میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے اور ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مین اسٹریم سے کٹے ہوئے ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ دھارا کیا ہے اور کہاں بہے رہا ہے – ظاہر ہے آج سرکاری اور غیر سرکاری تمام محکموں اور ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر اس قسم کی دعوت یا الزام ایک عجیب سی بات ہے – مسلمانوں سے اچھوتوں جیسا سلوک کرنا پرا الٹا انہی کو الزام بیک دینا سیاست کی بازی گری نہیں تو پرع اور کیا ہے-
قومی یکجہتی مشترکہ سول کوڈ سے کبھی اور کسی بھی صورت میں پیدا نہیں ہوسکتی اصل چیز ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ سب کے سب “جیو اور جینے دو” کے اصول کے مطابق امن و سلامتی محبت اور خلوص کے ساتھ رہیں گے تو ہر ایک چنر اور سکون کی سانس لے گا اور سب کو پلنےو اور پوچلنے کا موقع ملے گا کیونکہ چمن کی رونق اور اس کی زینت کے لیے گلہائے رنگا رنگ کا وجود ضروری ہے – یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی لاکھ کوشش کرکے بی چمن سے “عدم مساوات ” کو ختم کرکے ہر ہر اعتبار سے “یکسانیت ” لے آئے کیوں کہ یہ فطرت اور قانون خداوندی کے خلاف ایک جنگ ہوگی جو کبھی جیتی نہیں جاسکتی –
Shuaibalamqasmi786@gmail.com
9997786088
بہ شکریہ ملت ٹائمز Click here to Download in PDF
Uniform Civil Code: How secular are we?,Can Narendra Modi Be Trusted With The Uniform Civil Code?,Let’s debate Uniform Civil Code,Uniform Civil Code: Whether a Directive to Promote Unity?, Debate on Uniform Civil Code,Uniform Civil Code Unity or Bigotry,Nikah Teen Talq aur Uniform Civil Code, nikah in quran,nikah in islam, Tripple Talaq DEBATE, On Triple Talaq And Uniform Civil Code, Uniform Civil Code – Triple talaq debate, Divorce in Islam, triple talaq, Justification for triple talaq, Serious about Uniform Civil Code?, Uniform civil code,
Triple Talaq – Polygamy Facts and Fiction- Burhan Uddin Qasmi
Uniform Civil Code, Triple Talaq and Polygamy (multiple marriages) in Islam
یکساں سول کوڈ، طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج :حقائق اور افسانے
مولانا برہان الدین قاسمی
آئین ہند کی دفعہ 25بنیادی حقوق سے متعلق ہے جس کی عبارت اس طرح ہے : “تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے ، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے ۔”(بھارت کا آئین (یکم جولائی 2013 تک ترمیم شدہ)، ص 52، مطبوعہ این سی پی یو ایل، وزارت ترقی انسانی وسائل) آئین ہند کی دفعہ 44جو کہ ایک ہدایتی اصول(Directive Principle) ہے ، کے الفاظ اس طرح ہیں: “مملکت یہ کوشش کرے گی )کہ( بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔” )ایضاً، ص 62) سیدھی سی بات یہ ہے کہ کوئی ڈائریکٹیو پرنسپل ۔ جس کی حیثیت ایک مشورے یا اختیاری کام کی ہے کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کر سکتا۔ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی لانے کی خارجی کوششوں کو ہمیشہ ہندوستانی مسلمانوں نے بالعموم مذہب اور مذہبی احکام میں دخل اندازی تصور کیا ہے ۔ چنانچہ اس طرح کی تمام کوششیں آئین کے ذریعے دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
بی جے پی حکومت نے عدالت عظمی میں جو حالیہ حلف نامہ داخل کر کے مسلم پرسنل لا سے طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے وہ یقیناً غیر معقول، غیر ضروری اور ایک انتخابی حربہ ہے ۔ اسی طرح سے لا کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ سوال نامہ بھی غیر تسلی بخش اور جانب دارانہ ہے جس کو اقلیتی طبقات اور دلت ایک سازش کا حصہ تصور کرتے ہیں جو یکساں سول کوڈکے پردے میں برہمنی قانون تھوپنے اوراختلافات کا بیج بونے کے لیے رچی جا رہی ہے ۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔ کسی بھی خاص مذہب یا اکثری طبقے کے مذہب کو سرکاری مذہب ہونے کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ۔ آئین کی دفعہ 29اور 30نے مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا مکمل حق دیا ہے ۔
طلاق ثلاثہ اور مسلم سماج:
حکومت اور کچھ میڈیا والے طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج کے مسئلے کو کچھ اس طرح پیش کر رہے ہیں گویا طلاق ثلاثہ اور تعدد ازواج صرف مسلمانوں کے درمیان عام ہے ، جب کہ حقائق بالکل دوسری کہانی سناتے ہیں۔ مردم شماری 2011کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی جملہ مطلقہ عورتوں میں 68فیصد عورتیں ہندو ہیں، جب کہ مسلم مطلقہ عورتوں کی تعداد صرف23.33 فیصد ہے ۔ مردم شماری 2011سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ 1000میں سے5.5 ہندو جوڑے علاحدگی اخیتار کر لیتے ہیں، اس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جنھیں ان کے شوہروں نے معلق کر رکھا ہے ۔ اس فہرست میں ایک نام حالیہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی اہلیہ محترمہ جسودا بین کا بھی ہے ۔
چنانچہ قانونی طور پر طلاق یافتہ خواتین کی تعداد کے ساتھ علاحدگی کا شکار1.8خواتین کو بھی جوڑ لیا جائے تو ہندؤوں کے درمیان ایسی عورتوں کی تعداد 1000میں 8.3 ہوجاتی ہے ۔ اس حقیقت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندؤوں کے درمیان طلاق یا علاحدگی کی شرح مسلمانوں کے درمیان طلاق کی شرح سے بہت زیادہ ہے ، جو کہ مردم شماری 2011کے مطابق 1000میں صرف 5.63 ہے ، جب کہ مسلمانوں کے درمیان علاحدگی یا معلق چھوڑنے کے معاملات خال خال ہی ملتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں طلاق یا بدنام زمانہ طلاق ثلاثہ کی شکل میں زوجین میں علاحدگی کا ایک آسان طریقہ موجود ہے ۔ لیکن بدقسمی یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے جنون میں معاملات کو سنگین بنانے کے لیے افسانوں کے پیچھے بھاگنے کا عادی ہے اور اس طرح کی چیزوں کو “جہادیوں کا اسلام” بنام “حقیقی اسلام” کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں طلاق ثلاثہ ایک مجلس میں ممنوع اور لائق مذمت ہے ۔ اسلام نہ تو طلاق ثلاثہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ہی تعدد ازدواج کو ضروری قرار دیتا ہے اور یہ اعمال مسلمانوں میں عام بھی نہیں ہیں۔ سروے کے مطابق بہت کم افراد ہی طلاق ثلاثہ کی راہ اپناتے ہیں اور وہ بھی جہالت کی وجہ سے ۔ مگر اس کے باوجود اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے یا کسی کا تین طلاق دینا ثابت ہوجاتا ہے تو یہ بحیثیت میاں بیوی اس جوڑے کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ کچھ خوش فہم آزاد خیال نام نہاد مسلمان جن کا تعلق اسلام سے سوائے ان کے عربی یا اسلامی ناموں کے کچھ نہیں ہے بڑی قوت کے ساتھ یہ مغالطہ پھیلا رہے ہیں کہ طلاق ثلاثہ جیسی کوئی چیز اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں ، بلکہ ملاؤں کی اپنی ایجاد ہے ۔ لیکن ہمارے سامنے قرآن پاک کی آیت موجود ہے جس میں کہا گیا ہے :
“طلاق دو ہیں۔(اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق بیوی کو روک رکھے (یعنی رجوع کر لے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے ۔”(سورہ بقرہ:229)
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو طلاق تک شوہر کو اختیار ہے کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے یا اس کے عدت کی تکمیل تک چھوڑے رکھے اور اس کے بعد خوس اسلوبی کے ساتھ اسے آزاد کر دے ۔ آیت کے اخیر تک قرآن نے عورتوں کے حقوق کی تکمیل کے سلسلے میں اللہ سے ڈرنے اور رشتے کی ڈور کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد کی آیت واضح طور پر تیسری طلاق کو بیان کرتی ہے ۔ اس تیسری طلاق کی نوبت اس وقت آتی ہے جب حالات انتہائی سنگین ہو جائیں اور دونوں کا ایک ساتھ جینا محال ہو۔ قرآن کہتا ہے :
“پھر اگر شوہر نے تیسری طلاق دے دی تو وہ مطلقہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کر لے ۔ اگر شوہر ثانی اسے طلاق دے دیتا ہے (یا انتقال کر جاتا ہے) تو اس عورت اور اس کے پہلے شوہر کے لیے ایک دوسرے سے رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے ذریعہ (قائم کردہ) حدود کو باقی رکھ سکیں گے ۔ یہ اللہ کے حدود ہیں جو وہ جاننے والوں پر واضح کرتا ہے ۔” (سورہ بقرہ:230)
میں نے اپنے ایک سابقہ مضمون “طلاق طلاق طلاق: ایک نافذ العمل جرم” میں تفصیل کے ساتھ یہ بات واضح کی ہے کہ تین طلاق کس طرح نبی کرم ﷺکے زمانے سے ہی نافذ سمجھی جاتی رہی ہے ۔ گو کہ نبی ﷺنے اپنے کچھ اصحاب کے ذریعے طلاق کے غلط استعمال اور اسلام کی روح کی پیروی نہ کیے جانے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار فرمایا، تاہم انھوں نے ایک سے زائد مواقع پر ایک مجلس کی تین طلاق کے بعد میاں بیوی کے درمیان علاحدگی کا فیصلہ فرمایا۔ خلیفۂ اول ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسی پر عمل ہوتا رہا۔ بعد ازاں خلیفۂ دوم عمر رضی اللہ عنہ نے اگر چہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے پر سزا عائد کی،تاہم انھوں نے اس طرح کی طلاق کو نافذ ضرور قرار دیا۔ اسی طرح سے زمانۂ مابعد کے خلفاء، ائمہ، محدثین، فقہاء، مذاہب اربعہ حنفی، شافعی، مالکی اور جنبلی کا آج تک یہی مذہب رہا ہے ۔
جو لوگ خالی ڈھول کی طرح فضا میں باطل کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہ یقیناً فتنہ پرور ہیں، جو اسلامی علوم اور اس کے دیوانی و فوجداری قوانین سے سے یکسر نا بلد ہیں۔ ایسے افراد عالمی پیمانے پر کچھ میڈا ہاؤسس کے لیے آلۂ کار کا کام ضرور کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم عوام نے ہمیشہ ان کو مسترد کیا ہے ۔ یہاں اس بات کو واضح کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بلند آہنگ ٹی وی میزبان اور جنونی “بھکت” بشمول وزارت قانون کے یہ بات بڑی زور و شور سے کہتے آرہے ہیں کہ بہت سے مسلم ممالک نے طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ یہ ایک دوسرا جھوٹ اور فریب ہے ۔ طلاق ثلاثہ پر مسلمان، خواہ بحیثیت جماعت ہو یا بحیثیت ا فراد، پابندی عائد کر ہی نہیں سکتے ۔ مسلم علماء کے درمیان صرف اختلاف اس بات کا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی گردانی جائیں گی یا فقظ ایک ۔ کچھ مسلم ممالک میں چند شرائط کے ساتھ تین طلاق کو صرف ایک طلاق تصور کیا گیا ہے ، جب کہ زیادہ تر ممالک نے اس کے استعمال کو غیر قانونی تصور کیا ہے ، لیکن اس کو نافذ ضرور مانا ہے ۔ سعودی عرب کے آئین کے الفاط اس طرح ہیں: “طلاق ثلاثہ غیر قانونی، لیکن نافذ ہے ۔”
سعودی عرب کی ہیۂ کبار العلماء کے ایک پروگرام میں اس مسئلے کو پیش کیا گیا اور مکمل غور و فکر کے بعد انھوں نے یہ فیصلہ کیاکہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوں گی۔
پاکستانی آئیں کے الفاظ یہ ہیں: تین طلاقیں دینا حتمی اور نافذ ہیں یہاں تک کہ دوسری شادی کر لی جائے ۔
[Law of Divorce and Khula in Pakistan, page: 8: by Barrister Ali Shaikh]
تاہم دوسرے ممالک کے مسلمان خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں کس طرح سے اسلام پر عمل کر رہے ہیں یہ بات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہندوستانی مسلمان اور ان کے علماء معتدل اسلام پر عمل کرنے کے حوالے سے پوری دنیا میں مشعل بردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ہندوستانی علماء صدیوں تک بیشتر ممالک کے لیے مستند مرجع کی حیثیت کے حامل رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے پیچھے اسلامیات پر تصانیف کا ایک عظیم ذخیرہ چھوڑا ہے جس سے دنیا آج تک استفادہ کر رہی ہے ۔ چنانچہ شرعی حدود کے اندر ان کی آج بھی وہی آزاد حیثیت رہنی چاہیے جس کے حامل وہ ماضی میں رہ چکے ہیں۔ طلاق ثلاثہ یقیناًقانون کا المناک استعمال ہے ۔ کچھ مسلمان مرد اس قانونی نظام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ انھیں اس کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے اور غلط استعمال کے سد باب کے لیے انہیں سزا بھی دی جانی چاہیے ۔ اسی طرح سے جو لوگ عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آتے ہیں یا طلاق دیے بغیر اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر انھیں پوری زندگی ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں، ایسے افراد کے لیے بھی کوئی سزا تجویز کی جانی چاہیے ۔ مگر طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کرنا یا مسلم پرسنل لا میں تبدیلی لانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ مردوں کو عورتوں کے حقوق اور ان کے احترام کے سلسلے میں حساس بنانامسئلے کا سب سے بہترین حل ہے ۔
اسلام تعدد ازدواج کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا
اسلام سخت شرائط کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے ، جن کا پورا کرنا انتہائی دشوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر ہند کے مسلم معاشرے میں تعدد ازواج کا رواج عام نہیں ہے ۔ گنے چنے لوگ ہی ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ بسااوقات یہ کام پہلی بیوی کی خواہش پر یا کم از کم باہمی رضا مندی سے بھی ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ایک سے زائد شادی ضرورت کی وجہ سے کرتے ہیں، جیسے کہ پہلی بیوی کسی دائمی مرض میں مبتلا ہو یا کسی کو اولاد یا اولاد نرینہ کی خواہش ہو، جب کہ کچھ لوگ غلط مقصد سے بھی متعدد شادیاں کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اگر کچھ دوسری عورتوں سے شادی کرنے کے بعد پہلی بیوی پر ظلم کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی جرم گردانا جائے گا، اس کے لیے قانون کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کو آئینی طور پر ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے وہ تعدد ازدواج کے سلسلے میں مسلمانوں سے کہیں آگے ہیں۔ کتنے ہندوستانی تعدد ازدواج میں مبتلا ہیں؟ اس سلسلے میں آج حتمی اعداد و شمار کا ملنا مشکل ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مردم شماری 1961کے بعد سے مذہب یا کمیونٹی کے لحاظ سے شادی کے معاملات پر غور نہیں کیا گیا ہے ۔تا ہم موجودہ سروے سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ تعدد ازدواج کا رواج سب سے کم مسلمانوں میں ہے ۔ پورے مسلم سماج کا زیادہ سے زیادہ 5.7 حصہ تعدد ازدواج کے قانون پر عمل کرتا ہے ۔ ہندؤوں کے درمیان تعدد ازدواج کے واقعات کی شرح اس سے زائد یعنی5.8 ہے ، اگرچہ دوسرے طبقات جیسے بودھ اور جین مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان اس کا تناسب اور بھی زیادہ ہے ۔7.9 فیصد بدھسٹ اور6.7 فیصد جین ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ اور سب سے آگے قبائلی ہیں جن میں15.52 فیصد لوگ ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 25سکھ ازم، جین ازم اور بدھ ازم کو ہندو مذہب کا ہی حصہ تصور کرتی ہے ، اگر چہ یہ مذاہب آئینی طور پر اپنی مستقل شناخت کے لیے مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئین ہند کی دفعہ 25کے فقرہ (2) کے ذیلی فقرہ(ب) کی تشریح دوم ملاحظہ فرمائیں: “تشریح 2۔فقرہ (2) کے ذیلی فقرہ (ب) کی تشریح میں ہندوؤں کے حوالے کی یہ تعبیر کی جائے گی کہ اس میں سکھ، جین اوربدھ مذہب کے پیروکار شامل ہیں ۔” چنانچہ اگر آپ آئین کے ذریعہ کی گئی ہندو مت کی تعریف کو سامنے رکھ کر غور کریں تو ہندؤوں میں تعدد ازدواج کا تناسب بڑھ کر20.4 ہوجاتا ہے ، جس میں سکھ شامل نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ان کے تعلق سے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اب اہم نکتہ یہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ مردم شماری 1961کے اعداد و شمار کے مطابق5.7 فیصد مسلمان اور20.4 فیصد ہندو ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ برخلاف حکومت ہند اور کچھ تانیثی تحریک کے علمبرداروں کے دعوے کے کہ تعدد ازدواج ایک غیر اسلامی عمل ہے اور قرآن اس کی اجازت نہیں دیتا، قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ پیش ہے :
” اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت(کافی ہے)۔” (سورہ نساء:3)
خلاصہ یہ کہ تعدد ازدواج ایک مشروط آپشن ہے ، تاہم اسلام نے اس کی اجازت دی ہے ۔ مالیگا ؤں مہاراشٹر میں امید ڈاٹ کام کے صحافیوں کی ایک جماعت نے مسلمانوں کے درمیان تعدد ازدواج کے واقعات کے تعلق سے حقیقی اعداد و شمار معلوم کرنے کے لیے زمینی سطح پر ایک سروے کیا۔مالیگاؤں شہر میں مسلمان اکثریت میں ہیں، جس کی کل ۷ لاکھ آبادی کا ۸۷۔۔۔۵۹ فیصد مسلمان ہے ۔ مذکورہ سروے کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے :
“مودی سرکار اور کچھ خواتین کارکنان کے ذریعے تعدد ازدواج پر پابندی کے مطالبے کی عرضی دائر کیے جانے کے بعد اس موضوع پر گرما گرم بحث کے دوران امید ڈاٹ کام نے ایک فوری سروے کیا جس کے مطابق پورے شہر میں جہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں صرف دو مرد ایسے ملے جن کے پاس تین بیویاں ہیں۔” رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے : “پورے مالے گاؤں شہر میں جہاں ۵ لاکھ مسلمان آباد ہیں، صرف ۱۵۱ مردوں کے پاس ۲ بیویاں ہیں، جب کہ کسی کے پاس بھی ۴ بیویاں نہیں ہیں۔
مالے گاؤں میں کیے گئے حالیہ سروے اور مردم شماری 1961کے اعداد و شمار سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعدد ازدواج پر پابندی لگانے سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوگا، اور اس سے تعدد ازواج کا رواج نہ تو ختم ہوگا اور نہ ہی عورتوں پر ظلم کا سلسلہ۔ اس لیے کہ ایک سے زائد بیوی رکھنے والے زیادہ ترمرد ملک میں وہ ہیں جنھیں قانون تعدد ازدواج کی اجازت نہیں دیتا۔
یکساں سول کوڈ ملک میں کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ؟
تنوع بھارت کی خوبصورتی ہے ۔ آئین ہند تمام شہریوں کے لیے “سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف” کا خواہاں ہے ۔ اس نے مذہبی اور نسلی اقلیات اور سماجی و اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقات جیسے درج فہرست برادریاں اور درج فہرست قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ جس طرح مختلف قسم کے پھولوں سے باغ کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ، اسی طرح سے مختلف ثقافتوں اور رنگوں کے حامل افراد ہی اس عظیم ملک کی خوبصورتی ہیں۔ یہ ہندوستان کا سب سے بنیادی تصور ہے ۔ ایک ملک ایک قانون کا نظریہ یہاں ممکن نہیں ہے ۔ آدی واسی لوگوں کی اپنی تہذیب اور رسوم و رواج ہیں۔ ایک مرد کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہو سکتی ہیں، اسی طرح ایک عورت بھی ایک سے زائد شوہر رکھ سکتی ہے ۔ ان کے یہاں شادی کے مختلف طریقے ہیں اور میت کی تدفین کے لیے مختلف رسوم۔ ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد مختلف مقامات پر مختلف مذہبی رسوم پر عمل کرتی ہے ۔ ہندو، مسلم اور دیگر اقلیتوں کے پرسنل قوانین کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوگا کہ ان قوانین میں واضح اختلافات جن میں عقیدہ جاتی تقدس بھی شامل ہے کسی بھی پرسنل لاء میں یکسانیت کی اجازت نہیں دیتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خود ہندو قانون کا تنوع کچھ اس طرح کا ہے کہ صرف یکساں ہندو قانون کا امکان خارج ہوجاتا ہے ۔
ہندو میرج ایکٹ 1955کے تحت اگر صرف شادی کی بات کی جائے تو ہندو کی تعریف کے ذیل میں آنے والے مختلف افراد کی شادیاں ان کے اپنے اپنے رسوم و رواج کے مطابق انجام دی جائیں گی۔ مثال کے طور پر شمالی ہند میں رائج سپت پدھی طریقۂ ازدواج کے مطابق شادی کا عمل مکمل اور نافذ تصور کیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی جوڑا مقدس آگ کے گرد سات چکر لگا لے ، جنھیں “سات پھیرے ” سے تعبیر کیاجاتا ہے تو اسے رشتۂ ازدواج میں بندھنا تصور کیا جاتا ہے ۔دوسری طرف جنوب میں ازدواج کے سویامریا تھائی اور سیرتھی روتھا طریقے رائج ہیں۔ ان طریقوں کے مطابق اگر طرفین کی جانب سے رشتے داروں کے سامنے یہ اعلان کر دیا جائے کہ یہ جوڑا ایک دوسرے سے شادی کر رہا ہے ، یا جوڑا ایک دوسرے کو ہار پہنا دے ، یا ایک دوسرے کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دے ، یا اگر دولہا دلہن کی گردن میں تھالی یا منگلیم باندھ دے تو شادی مکمل سمجھی جاتی ہے ۔اسی طرح سے جنوبی ہند میں ایک ہندو اپنی چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد، یہاں تک کہ اپنی بھانجی اور بھتیجی سے شادی کر سکتا ہے ، مگر ملک کے دوسرے حصوں کے ہندو ایسے رشتے داروں سے شادی نہیں کر سکتے ۔نیز یہ کہ ہندو قانون کے تحت شادی کے نافذ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو کم از کم ایک پارٹی کے رسوم و رواج کے مطابق انجام دیا جائے ۔ چنانچہ اگر کوئی جین کسی بدھسٹ سے سکھ مذہب کی رسوم کے مطابق شادی کرے تو اس کو نافذ نہیں سمجھا جائے گا۔ (شکنتلا بنام نیل کنٹھ 1972ماہ ایل آر31، پارس دیوان کے ذریعہ فیملی لا میں درج کردہ)
چنانچہ یہ سوال بالکل فطری ہے کہ آیا ان متنوع قوانین کو یکساں کرنا اور سب کے لیے یکساں یا عام قانون بنانا ممکن اور قابل عمل ہے ، جو تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہو؟ ہندوستان کے پاس پہلے سے ہی اسپیشل میرج ایکٹ 1954کی شکل میں ایک اختیاری قانون موجود ہے ۔ اس قانون میں ان لوگوں کے لیے جو کسی مذہبی قانون سے بچنا چاہتے ہیں، دیکھیے مماثل قوانین جیسے انڈین سکسیشن ایکٹ 1952 شادی سے متعلق تمام امور، جیسے طلاق، نان نفقہ اور وراثت کے لیے ایک بہترین قانونی خاکہ موجود ہے ۔ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا شوشہ ایک مغالطہ اور سیاسی حربہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ یہ بات قطعاً ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تمام پھدکتے ہوئے چوزوں کو ایک چھوٹی سی ٹوکری میں اکٹھا کر دیا جائے ۔ اس لیے موجودہ حکومت لا کمیشن آف انڈیا کے ذریعے عام آدمی کے لیے یہ ہسٹریائی ماحول کیوں پیدا کر رہی اس کے پس پردہ مقاصد کا ادراک کوئی کر پائے یا نہ کر پائے جناب مودی یا وہ لوگ جو ناگپور میں واقع آر ایس ایس کے دفتر میں بیٹھے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگر وزیر اعظم نریندر مودی حقیقت میں مسلمان عورتوں کو ہندوستان میں خود کفیل بنانا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے لکھنؤ کی اپنی حالیہ تقریر میں دعوی کیا ہے ، تو انھیں تین قابل عمل حکمت عملیوں پر دھیان دینا چاہیے(الف)وہ بہادری کے ساتھ مسلمان عورتوں کو روزگار اور تعلیم میں مناسب رزرویشن دیں، اس طرح سے یہ عورتیں رفتہ رفتہ خود کفیل ہو جائیں گی،(ب) وہ منشیات کے غلط استعمال پر پابندی عائد کر سکتے ہیں جس نے مسلم خواتین سمیت تمام عورتوں کو مظالم کا شکار بنا رکھا ہے ، (د)وہ فوری طور پر فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے ایک قانون بنا سکتے ہیں جس کی مسلمان عورتیں وقتاً فوقتاً بری طرح شکار ہو تی رہتی ہیں۔ کیا مودی اور ان کی حکومت ان میں سے کسی ایک پر بھی غور کر ے گی؟(ملت ٹائمز)
مضمون نگار مر کز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائر یکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ ممبئی کے ایڈیٹر ہیں۔
بہ شکریہ ملت ٹائمز Click here to Download in PDF
Uniform civil code: Triple talaq – polygamy,uniform civil code and article 44,polygamy in islam,Uniform Civil Code: How secular are we?,Can Narendra Modi Be Trusted With The Uniform Civil Code?,Let’s debate Uniform Civil Code,Uniform Civil Code: Whether a Directive to Promote Unity?, Debate on Uniform Civil Code,Uniform Civil Code Unity or Bigotry,Nikah Teen Talq aur Uniform Civil Code, nikah in quran,nikah in islam, Tripple Talaq DEBATE, On Triple Talaq And Uniform Civil Code, Uniform Civil Code – Triple talaq debate, Divorce in Islam, triple talaq, Justification for triple talaq, Serious about Uniform Civil Code?, Uniform civil code,
Oct 29 2016
Wake Up Call for Muslim Ummah – Qasim Syed
Wake Up Call for Muslim Ummah
کہیں دیر نہ ہوجائے
قاسم سید
حضرت مولانا حسین احمدمدنی ؒ نے ایک بار فرمایا تھا ’’حفاظت اسلام کے نعرے تو بہت بلند کئے جاتے ہیں مگر عملی پہلوئوں سے ہم خود گریزاں رہتے ہیں۔ اسلام کوئی مجسم نہیں جس کی حفاظت کے لیے لائولشکر کی ضرورت ہو۔ آپ اپنے اندر اسلام سمولیجئے آپ بھی محفوظ ہو جائیں گے اور اسلام بھی محفوظ ہوجائے گا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کے موقف کی وضاحت میں کہا’’ میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سوبرس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ۔ اسلام کی تعلیم ،اسلام کی تاریخ ،اسلام کےعلوم وفنون ،اسلا م کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرافرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی اس میں مداخلت کرے۔ ‘‘
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی نے فارغ التحصیل علما سے خطاب کے دوران انتباہ دیاتھا اگر قوم کو ہمہ وقتہ نمازی نہیں سوفیصد تہجد گزاربنادیاجائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہیں کیاگیا اور ملک کے احوال سے واقف نہ کرایا تو ممکن ہے کہ ملک میںآئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نماز وں پر پابندی عائد کردی جائے ۔ اسی احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اشاروں اشاروں میں وارننگ دی کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام،شعائر اسلام اور قوانین شریعت پر سرجیکل اسٹرائک کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے ان کی داغ بیل تو مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد سے ہی پڑگئی تھی۔ ملت نے اکابرین ملت کی رہنمائی میں حکمت وتدبر کے ساتھ ان کا سامناکیاتھا۔ بجزمخالفت کی موجیں بہت مضطرب رہیں۔ آزمائشوں کے ساحل پر لاکر پٹکتی رہیں لیکن ایمان ویقین کی کشتی طوفان نوح کا مقابلہ کرتی رہی اور بپھرتی موجوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے، یہی نہیں مسلمانوں کا موقف بھی طے کردیاگیا کہ وہ کونسے امور ہیں جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہ جو خطرات ہیں ان سے آگہی حصول علم دین کی طرح ہی ضروری ولازمی ہے ۔ سیاسی شعور کے بغیر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
مودی سرکار نے ایک ساتھ اتنے محاذ کھول دیے ہیں کہ ترجیحات طے کرنی مشکل ہوگئی ہیں۔ جان ومال کا ضیاع تو کسی صورت قبول کیاجاسکتاہے مگر جب نوبت دین پر دست درازی کے ارادوں کو دھار دینے تک پہنچ جائے اور اس کے لئے آئین کا پلو تھاماجائے تو پھر سوچنے سمجھنے کے لئے کیا باقی رہ جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لا پر ہاتھ ڈالنے کی کہانی نئی نہیں ہے یہ خدمات جلیلہ تو کانگریس کے نرم ہاتھ بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ بی جے پی تو کانگریس کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے ۔ ہماری کمزوریاں ،نادانیاں اپنی جگہ مگر کانگریس مسائل کی جننی ہے اس سے وہ لوگ بھی انکارنہیں کرسکتے جن کی رگوں میں پیدائشی کانگریسی خون دوڑ رہا ہے ۔
دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تلوار لٹکادی گئی ،رام مندر کی تعمیر کے لئے میدان ہموار کرنا شروع کردیا گیا ،بڑے یقین واعتماد کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ بہت جلد تمام قانونی رکاوٹیں دور کرلی جائیں گی اور تعمیر کاآغاز ہوجائے گا۔ مسلکی اختلافات کو ہونے دینے ،ہندوووٹوں کو متحد کرنے اور مسلمانوں کو بانٹنے کی بات کھلم کھلا کی جارہی ہے۔
وزیراعظم مودی سرجیکل اسٹرائک کا موازنہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائی سے کرتے ہیں یعنی جو کام اسرائیل غزہ میں کرتا ہے وہ ہم نے مقبوضہ کشمیر میں کردکھایا۔ اس بیان میں کتنے معانی پوشیدہ ہیں وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان دشمنی کا بخار حب الوطنی کے تیز انجکشنوں سے بڑھایا جارہا ہے اس کا بالواسطہ مقصد پوشیدہ نہیں ہے۔ بات بات پر پاکستان روانگی کی دھمکیاں ۔ دیش بھکتی کے بدلتے پیمانے،وہاٹس اپ پر متنازع پوسٹ ڈالنے پر منہاج انصاری کی پولیس حراست میں مار مار کر گردن کی ہڈی توڑ دینا اور پھر اس کی دردناک موت ،نجیب کی جے این یو میں پراسرار گمشدگی اس سے پہلے مارپیٹ ، کس طرف اشارہ کرتے ہیں اور ملک کو کدھر لے جارہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کو انتہائی خاموشی کے ساتھ دھیرے دھیرے خانہ جنگی کی گود میں دھکیلا جارہا ہے وہیں فوج کو مقدس گائے بناکر آگے بڑھایاجارہا ہے ۔ ہرمخالف آواز کو دبادینا چاہتے ہیں جب سوچ پر پہرے بیٹھا دیے جائیں اور اختلافات کو تہذیب کے دائرے میں مقید کرنے کی بجائے کچل دیاجائے تو اس رویہ کے انڈے سے فسطائیت کا ڈائناسورپیداہوتا ہے۔ سائرہ بانو کیس کی آڑ میں جس طرح کاماحول تخلیق کیاجارہا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ مسلمانوں کو آئین اور عدالت کے ساتھ ٹکرائو کی حالت میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا تمام تر فائدہ وہ طاقتیں اٹھانا چاہیں گی جو مسلمانوںکو مظلوم کی بجائے ظالم ثابت کرنے پر تلی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جلسے جلوسوں، مظاہروں دھرنوں سے گریز کرنے کا مشورہ دے کر سردست وقوع پذیر ہونے والی اس کشیدگی سے بچالیا جو فسطائی طاقتیں چاہتی ہیں ، ان کی چال ناکام بنادی شورشرابہ ہیجانی سیاست ،گرماگرم تقریر یںمسائل پیداکرتی ہیں، آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکاتی ہیں۔ مسلم جماعتوں کا یہ حکمت بھرا اقدام ان سیاسی طالع آزمائوں کی امیدوں پر اسکائی لیپ بن کر گرا جو اس بہانے آگے تک کاسفر شارٹ کٹ کے ذریعہ طے کرنا چاہتے تھے جومسلمانوں کو سڑکوں پر اتارکر ہنگامہ آرائی کا طوفان پیدا کرکے نشان زد ہدف تک پہنچنے کے لئے بے قرار ہیں۔
ہمیں اس پہلو پر ہرحالت میں غورکرناہوگا کہ ملک جن خطرات کی طرف بڑھ رہا ہے وہ در اصل کیا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔سوال اب صرف مذہبی آزادی کانہیں ہے آزادی رائے کا ہے جس پر غداری کاجامہ پہنادیاگیا ہے۔ ماضی سے بے خبر تاریخ سے ناآشنا اور حکمت وتدبر کے شعور کو پائے حقارت سے ٹھکرانے والے طوفانوں کی آستینوں میں پوشیدہ بجلیوں کے بارے میں کتنے حساس ہیں کہنامشکل ہے ۔ اعتدال پسند طبقہ جنگ ہارتا نظر آنے لگا ہے۔ آج اگر سرجیکل اسٹرائیکل پرسوال اٹھانااورپاکستانی فنکاروں کی وکالت کرنا غداری ہے تو کل اخلاق کے قتل کے خلاف آواز اٹھانا،روہت ویمولا کی خودکشی پر احتجاج منہاج الدین انصاری کی پولیس حراست میں سفاکانہ موت کی مذمت،گائے کی آڑ میں دلتوں کی بے رحمانہ پٹائی پر اظہار ناراضگی بھی غداری کے زمرے میں آسکتی ہے ۔ اگر کیرل کے ایک مسلم اسکول کے خلاف اس لئے مقدمہ درج کیاگیا کہ اس کے نصاب میں ایسی کتابیں داخل ہیں جن میں اسلام پر جان نچھاور کرنے کی تعلیم دی جارہی تھی اور یہ قابل دست اندازی پولیس ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تفتیش کادائرہ کہاں تک بڑھ سکتا ہے۔ پھر فقہ کی کتابوں میں باب الجہاد ہونے پر اعتراض ہوگا۔ اسلامی غزوات کامطالعہ تاریخی ودینی کتابوں میں کافر جیسے الفاظ کی موجودگی پرسوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ منافرت اور دہشت گردی پر اکسانے کاالزام لگادیاجائے تو حیرت نہیںہوگی۔ مشتعل بھیڑ انصاف کرنے کی حمایت ،گئورکشکوںکو تحفظ فراہمی کامطالبہ ،اقلیتوں پر ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی حب الوطنی پر شبہ ،حکومت کی مخالفت کو غداری سے تعبیرکرنا، آئینی اداروںکی بے وقعتی کی حوصلہ افزائی ،دادری قتل کے ملزم کو شہیدکادرجہ،سرکار کی طرف سے 25لاکھ کامعاوضہ اور اس کی لاش پر قومی جھنڈے کی موجودگی اس پر مجرمانہ خاموشی سیکولر قوتوں کی منافقت یاپسپائی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایسا ماحول جہاں بھیڑپیروںسے کچل دے یاقتل کردے ،لکھتے ہوئے بھی ڈرلگنے لگے، بولتے ہوئے سوچناپڑے۔ملک اسی سمت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ تصور کیاجاسکتا ہے کہ جہاں آزادی رائے کو بھی برداشت نہ کرنے کا ماحول تخلیق کیاجارہا ہو وہ دوسروں کی مذہبی آزادی کیسے برداشت کرسکتا ہے ۔ ان ایٹمی ذراسابھرےحالات سے نمٹنے کے لئے موثرہمہ پہلو ،تدبروحکمت سے بھرپور لائحہ عمل بناناہوگا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصہ دکھاناہوگا ورنہ ذاتی مسلکی گروہی اورجماعتی عصبیتیں لےڈوبیں گی اورکوئی اظہارتعزیت بھی نہیں کرے گا ابھی مہلت عمل باقی ہے۔(ملت ٹائمز)
بہ شکریہ ملت ٹائمز
qasimsyed2008@gmail.com
By silsilaekamaliya • Muslim Personal Law • Tags: Can Narendra Modi Be Trusted With The Uniform Civil Code?, Debate on Uniform Civil Code, Divorce in Islam, Justification for triple talaq, Let's debate Uniform Civil Code, nikah in islam, nikah in quran, Nikah Teen Talq aur Uniform Civil Code, On Triple Talaq And Uniform Civil Code, polygamy in islam, Serious about Uniform Civil Code?, triple talaq, Tripple Talaq DEBATE, Uniform civil code, Uniform Civil Code - Triple talaq debate, uniform civil code and article 44, Uniform Civil Code Unity or Bigotry, Uniform Civil Code: How secular are we?, Uniform civil code: Triple talaq - polygamy, Uniform Civil Code: Whether a Directive to Promote Unity?, Wake Up Call for Muslim Ummah - Qasim Syed, WAKE UP CALL TO MUSLIM UMMAH, wakeup before its too late, wakeup call, کہیں دیر نہ ہوجائے