اقوالِ زرین – حضرت حسن بصریؒ
۱۔خدا کی قسم !اگر تم میں سے کوئی شخص اس زمانے کو دیکھ لیتا جسے میں نے دیکھا اوران لوگوں سے ملاقات کرتا جنہیں میں نے دیکھا ہے تو اس کی صبح شام اس حال میں ہوتی کہ وہ اپنے اعمال کی کمی اوران کے اعمال واخلاق کے کمال پر پریشانوسرگرداں رہتا ،تم میں بہت زیادہ کوشش کرنے والا خود کو کھیل کود میں مصروف خیال کرتا اور تم میں بڑھ چڑھ کر عمل کرنے والا خود کوکو تاہ گردانتا۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۴)
۲۔اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جن کے دل آخرت کے غم میں غمگین رہتے ہیں وہ کسی کے بارے میں بدخواہی نہیں کرتے،ان کے نفوس پاک دامن ہیں اور ان کی ضروریات کم ہیں،جب ان پر سختی کے دن آتے ہیں تو وہ صبر کرتے ہیں اورآخرت کی آسانیوں کو مد نظر رکھ کر دنیا کی مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں،جب رات چھا جاتی ہے تو وہ اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوکر گریہ وزاری میں لگ جاتے ہیں، اللہ کی خشیت سے ان کے آنسو بہہ بہہ جاتے ہیں اوراللہ کے خوف سے ان کے دل لرزرہے ہوتے ہیں،وہ اپنا دن اس حال میں گزارتے ہیں کہ وہ بردباری اورتقویٰ کا پیکر معلوم ہوتے ہیں،وہ اپنے حالات کو یوں چھپا کر رکھتے ہیں کہ ان کی عفت کی بنا پر دیکھنےوالا انہیں مال دار خیال کرتا ہے،خشیت نے ان کا یہ حال کردیا کہ آپ انہیں مریض خیال کریں گے حالانکہ وہ مریض نہیں ہیں ؛بلکہ جہنم کے خوف نے انہیں بیمار کردیا ہے،وہ لوگ حلال چیزوں سے بھی اتنا زہد برتتے ہیں جتنا تم حرام چیزوں سے بھی نہیں کرتے،جتنا تم اپنی آنکھوں سے اپنی دنیا کو دیکھتے ہو وہ اس سے زیادہ اپنے دل (کی آنکھ)سے اپنے دین پر نگاہ رکھتے ہیں،ان کو اپنی نیکیوں پر سزا ملنے کا اتنا ڈر ہوتا ہے جتنا تمہیں اپنے گناہوں پر بھی نہیں ہوتا،یاد رکھو!یہ لوگ اللہ کی جماعت ہیں اور اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۴)
۳۔اے ابن آدمی! اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے تجھے دونوں کا نفع حاصل ہوگا، اگر تونے آخرت کو دنیا کے بدلے بیچا تو تجھے دونوں کا نقصان ہوگا۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۱)
۴۔اے ابن آدم! جب تم لوگوں کو خیر کے اعمال میں مصروف دیکھو تو اس میں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اورجب لوگوں کو بدی کا شکار دیکھو تو ان پر رشک مت کرو۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۱)
۵۔اے ابن آدم!یادرکھ،جب سے تیری ماں نے تجھے پیدا کیا ہے اس وقت سے تو اپنی عمر کم کررہا ہے۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۲)
۶۔اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو دیکھے اورتفکر کرے،تفکر کرنے کے بعد عبرت حاصل کرے،اللہ تعالیٰ اس شخص پر بھی رحم کرے جو دیکھے اورصبر کرے،بہت سے لوگ دیکھتے ہیں لیکن صبر نہیں کرتے۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۲)
۷۔مؤمن وہ نہیں جو دین کو اپنی رائے سے حاصل کرے ؛بلکہ مؤ من تو وہ ہے جو دین کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حاصل کرے،یعنی دین کے حصول کے لئے انہیں ذرائع کو استعمال کرے جو اللہ تعالی نے مقرر کئے ہیں۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۲)
۸۔اے ابن آدم!ایمان سجنے سنورنے اوراظہار خواہش کا نام نہیں ہے؛بلکہ ایمان تو وہ ہے جو دل میں بیٹھا ہو اور عمل اس کی تصدیق کرے۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۳)
۹۔جو شخص مجمع میں اپنی مذمت بیان کرے،اس نے درحقیقت اپنی مدح کی(کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس وقت لوگ اس کی مدح کریں گے)اوریہ کیدنفس ہے کہ لوگوں سے اپنی مدح کرا کے خوش ہونا چاہتا ہے جس کی سبیل یہ نکالی ہے کہ خود اپنی مذمت کرنے لگےاور یہ علامات ریا میں سے ہے۔
(ثمرات الاوراق:۱۱۰)
۱۰۔اہل جنت کا دخول جنت میں اوراہل جہنم کا جہنم میں ان کے اعمال کی وجہ سے ہوگا،ہر فریق کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت یا دوزخ میں رہنا محض نیت پر مبنی ہوگا؛کیونکہ اہل جنت کی نیت یہ تھی کہ اگر وہ ہمیشہ دنیا میں رہتے تو اطاعت کرتے اوراہل دوزخ کی نیت یہ تھی کہ اگر زندہ رہتے تو ہمیشہ کفر و شرک کرتے۔
(تنبہ المغترین:۹)
۱۱۔ایک مرتبہ حسن بصریؓ نے ایک جماعت کو دیکھا جو بعض مسائل علمیہ میں بحث و مجادلہ کررہے تھے فرمایا:
((ھؤلاء قوم ملوا العبادۃ وخف علیھم القول وقل ورعھم فتکلموا))
“یہ لوگ عبادت سے اکتا گئے اورباتیں بنانا انہیں آسان معلوم ہوا اور تقوی ان کا کم ہوگیا اس لئے کلام کو مشغلہ بنالیا”
(ثمرات الاوراق:۲۱۵)
۱۲۔فتنہ جب اول ظاہر ہوتا ہے تو اس کو عالم ہی پہچانتا ہے اورجب ختم ہوجاتا ہے تو ہر جاہل بھی اس کو پہچان لیتا ہے۔
(طبقات ابن سعد:۷/۱۲۱)
۱۳۔اہل بدعت اورخواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے والوں کی نہ باتیں سنو،نہ ان سے مناظرے کرو اورنہ ان کی ہم نشینی اختیار کرو۔
(طبقات ابن سعد:۷/۱۲۱)
۱۴۔فقیہ وہ شخص ہے جو متقی اورزاہد اوربڑوں سے بڑھنے کی فکر نہ کرے اورچھوٹوں سے تمسخر نہ کرے۔
(طبقات ابن سعد:۷/۱۲۹)
۱۵۔ایسا دائمی خوف،جو دل کے ساتھ وابستہ ہوچکا ہو،خشوع کہلاتا ہے۔
(الرسالۃ القشیریۃ:۲۰۰)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے حضرت حسن بصریؓ سے درخواست کی کہ انہیں خلیفہ عادل کی صفات سے مطلع کریں،حضرت حسن بصریؓ نے انہیں لکھا:
امام عادل،کو اللہ تعالیٰ نے ہر ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنے والا اورہر ظلم کا قلع قمع کرنے والا بنایا ہے،وہ ہر فاسد کے لئے صلاح،ہر ضعیف کے لئے قوت،ہر مظلوم کے لئے انصاف اورہر غمگین کے لئے جائے پناہ بنایا ہے۔
امام عادل،اس مشفق نگران کی طرح ہے جو اپنے اونٹوں کے ساتھ مشفقت اورنرمی کا معاملہ کرتا ہے اوران کے لئے بہترین چراگاہ تلاش کرتا ہے،انہیں نقصان دہ چارے اورہلاک کرنے والے درندوں سے بچاتا ہے،انہیں گرمی سردی کی تکلیف سے دوررکھتا ہے۔
امام عادل،اس شفیق باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرتا ہے،بچپن میں ان کے لئے محنت وکوشش کرتا ہے اوربڑے ہونے پر انہیں تعلیم دیتا ہے،زندگی بھر ان کے لئے کماتا اور محنت کرتا ہے اوراپنے مرنے کے بعد ان کے لئے ذخیرہ چھوڑجاتا ہے۔
امام عادل،اس شفقت کرنے والی اورمہربان ماں کی طرح ہے جس نے بڑی تکلیف کے ساتھ اپنے بچے کو پیٹ کے اندر رکھا اور اس کو تکلیف کے ساتھ جنا،وہ اس کو بچپن سے اس طرح پالتی ہے کہ اس کے بیدار رہنے سے خود بھی بیدار رہتی ہے اوراس کے سکون سے ماں کو بھی سکون ملتا ہے،کبھی اس کو دودھ پلاتی ہے اور کبھی اس کا دودھ چھڑاتی ہے،اس کی عافیت سے خوش ہوتی ہے اوربیماری سے غمگین۔
امام عادل،یتیموں کا نگران ہے،غریبوں کے لئے ذخیرہ کرنے والا ہے،چھوٹوں کی پرورش کرتا ہے اوربڑوں کے نان نفقہ کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔
امام عادل، پسلیوں کے درمیان دل کی طرح ہے،تمام اعضاء اس کی درستگی سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اوراس کے بگاڑ سے تمام اعضاء میں بگاڑ آجاتا ہے۔
امام عادل، اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے،وہ اللہ تعالیٰ کا کلام خود سنتا ہے اوربندوں کو سناتا ہے،اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور بندوں کو دکھاتا ہے،وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار ہوتا ہے اوربندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی طرف لاتا ہے۔
اس کے بعد حضرت حسن بصریؒ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کو مزید نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
“اے امیر مؤمنین!جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالک بنایا ہے ان میں اس غلام کی طرح نہ ہوجائیں جس کو اس کے مالک نے امانت دار سمجھ کر اپنے مال کی حفاظت پر مقرر کیا لیکن اس نے مال کو تباہ کردیا اوراس کے اہل وعیال کو مفلسی میں ڈال دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اہل وعیال فقیر ومحتاج ہوگئے اوراس کا مال برباد ہوگیا۔
اے امیر مؤ منین!جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے خباثت اورخواہشات سے روکنے کے لئے حدود نازل کی ہیں اورجب حاکم ہی ان برائیوں میں مبتلا ہوجائے تو آپ خود اندازہ کرلیجئے کہ اللہ تعالی اسے کیسی سزادے گا،اللہ تعالیٰ نے قصاص کو اپنے بندوں کی زندگی بناکر نازل کیا ہے توجب وہی شخص لوگوں کو قتل کرنے لگے جسے قصاص لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تو نظام عالم کی بربادی کی کیا انتہا ہوگی۔
اے امیر مؤمنین !موت کو یاد کیجئے،تاکہ موت کے بعد آنے والی پریشانیوں سے نجات حاصل ہوسکے۔
اے امیر مؤمنین!جس جگہ آپ آج ہیں اسے چھوڑ کر ایک دوسرے گھر میں منتقل ہونا ہے،وہ ایک گڑھا ہے جس میں ڈال کر آپ کے دوست احباب رخصت ہوجائیں گے،وہاں آپ کو ایک لمبا عرصہ گزارنا ہے،آپ کو اس دن کے لئے توشہ اکٹھا کرنا چاہیے جس دن ہر شخص اپنے ماں باپ، بیوی بچوں اوربھائی بہن سے الگ ہوجائے گا، اس وقت کا استحضار کیجئے جب مردوں کو زندہ کرکے قبروں سے نکالا جائے گا،جو باتیں دلوں میں تھیں اب ظاہرکردی جائیں گی اورنامہ أعمال نہ کسی چھوٹے گناہ کو چھوڑے گا نہ کسی بڑے کو۔
اے امیر مؤ مومنین!امید کے خاتمے اورموت کی آمد سے پہلے رعایا کے ساتھ نرمی کیجئے، کسی کے ساتھ خلاف شرع اورظالمانہ سلوک ہرگز روانہ رکھیں،قوی لوگوں کو ضعیفوں پر مسلط نہ کریں کیونکہ وہ کسی مسلمان کے حق میں نہ قرابت کا لحاظ رکھتے ہیں اورنہ عہدو پیمان کا،اگر آپ نے ایسا کیا تو اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کا وبال بھی آپ پر ہوگا اوراپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔ جن چیزوں سے وہ راحت کی زندگی گزارتے ہیں اس سے آپ دھوکہ کا شکار ہرگز نہ ہوں ؛کیونکہ اس میں آپ کا نقصان ہے، اسی طرح ان لوگوں کے دھوکہ میں بھی ہرگز نہ آئیں جو دنیا میں مزے سے رہتے ہیں،اپنی آج کی طاقت کو ملاحظہ نہ کریں ؛بلکہ اپنی اس وقت کی طاقت کو مد نظر رکھیں جب آپ کو فرشتوں،انبیاء اوررسولوں کی موجودگی میں اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا جائے گا اوراس حی وقیوم ذات کے سامنے چہرے جھکے ہوئے ہوں گے۔
اے امیر مؤمنین! اگرچہ میں نے آپ کو اس درجہ کی نصیحت نہیں کی جو ارباب علم و دانش کا خاصہ ہے لیکن میں نے آپ کے ساتھ خیر خواہی اوربھلائی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑدی،آپ میرے خط کو اس دوست کی کڑوی دوائی کی طرح سمجھیں جو صرف اس لئے بد ذائقہ دوائی کھلاتا ہے تاکہ میرے چاہنے والے کو عافیت اورصحت نصیب ہوجائے۔
اے امیر مؤ منین! آپ پر سلامتی نازل ہو اوراللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت ہو۔
(نفحۃ العرب:۹۸،۱۰۲)
(۱)جس کے پاس ادب نہیں اس کے پاس علم نہیں ہوتا ، اور جس کو صبر کرنا نہیں آتا اس کا دین کامل نہیں ہوتا ، اور جس کے پاس تقویٰ نہیں ہوتا وہ کبھی اللہ کا مقرب نہیں بن سکتا ۔
(۲)ابدال نہ ہوتے تو زمین دھنسادی جاتی ، صالحین نہ ہوتے تو برے لوگ ہلاک ہوجاتے ، علماء نہ ہوتے تو عوام الناس جانور ہوتے ، حکمراں نہ ہوتے تو لوگ ایک دوسرے کو ہلاک کردیتے ، بے وقوف نہ ہوتے تو دنیا خراب ہو جاتی ،اس لئے کہ عقل کی قدر سمجھ میں نہ آتی ، اور ہوا نہ ہوتی تو سب چیزیں سڑ جاتیں۔
(۳)چھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے آدمی کا دل فاسد ہوجاتا ہے اور جب دل فاسد ہوجاتا ہے تو تما م اعضاء و جوارح فاسد ہوجاتے ہیں : توبہ کی امید پر نافرمانی کرنا ، علم حاصل کرنا مگر عمل نہ کرنا ، اگر کچھ عمل کریں بھی تو اس میں اخلاص کی فکر نہ کر نا ، اللہ کا رزق کھانا مگر شکر گزار نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تقسیم سے خوش نہ رہنا ، اور اپنے مردوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا مگر عبرت حاصل نہ کرنا ۔
(۴)جس شخص نے دنیا کو آخرت پر مقدم رکھا اس کو اللہ تعالیٰ چھ سزائیں دیتے ہیں : بے انتہا آرزوئیں ، ایسی حرص کہ جس میں قناعت کا نام نہ ہو ، عبادت کی حلاوت سے محرومی ، قیامت کے دن کی ہول ، حساب کی شدت ، اور حسرت و نامرادی ۔
(۵)فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ایک جوان صالح کے ساتھ بصرہ کے بازار میں کسی کام سے گشت لگا رہا تھا کہ اتنے میں ہماری نظر ایک طبیب پر پڑی جو کرسی پر بیٹھاتھا اوراس کے اطراف عورتوں ، بچوں اور مروں کا اژدہام تھا ہر شخص اپنی تکلیف کا اظہار کرتا تو وہ ان کو دوا بتلا دیتا ، یہ دیکھ کر میرا ساتھی نوجوان آگے بڑھا اور اس نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کے ہاں کوئی دوا ایسی ہے جس سے گناہ دھل جائیں اور دل کے روحانی مرضوں سے شفا ملے ؟ انہوں نے جواب دیا کیوں نہیں ! جوان نے کہا تو پھر دیجئے ،اس نے کہا لکھو نسخہ !فقر کی جڑیں ، تواضع کی جڑیں ، اور توبہ کی جڑیں ہم وزن لےلو ، پھر انہیں رضا کے ہاون میں رکھ کر قناعت کے دستہ سے کوٹو ، پھر اس کو تقویٰ کی ہانڈی میں ڈال کر حیاء کا پانی اس میں ملاؤ ، پھر اسے محبت کی آگ میں جوش دو ، اس کے بعد شُکر کے پیالہ میں ڈال کر امید کے پنکھے سے اسے ٹھنڈا کرو اور تعریفِ باری کے چمچہ سے نوش کرلو ۔
پس اگر تم نے یہ نسخہ استعمال کرلیا تو تم دنیا و آخرت کی تمام بیماریوں و بلاؤں سے محفوظ رہوگے ۔
(۶)عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جو عالم اپنے علم پر عمل کرتا ہے وہ یقیناً ولی اللہ ہے ۔
(۷)جس نے محفل میں اپنے آپ کو برا کہا اس نے اپنی تعریف کی ، اور یہ ریا کی علامت ہے ۔
(۸)لوگ اعمال کے بدلہ جنت اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور نیت کی وجہ سے اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
(۹)اہلِ علم زمانہ کے چراغ ہیں ، اور ہر عالم اپنے زمانہ کی روشنی ہے کہ اس کے علم سے اسکے اقران روشنی حاصل کرتے ہیں ؛اگر عالم نہ ہوتے تو لوگ کوڑے کرکٹ کی طرح ہوتے ۔
(۱۰)فاسق کی مخالفت کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قرب کا سبب ہے (اس سے مراد اس کے ساتھ دل سے رنجیدہ ہونا ہے ،اور ظاہراً مخالفت کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کو راہ راست پر لانا چاہئےبغض صرف اس کی صفات ِ فسق کے ساتھ خاص ہونا چاہئے ) ۔
(۱۱)جو دعویٰ کرے کہ وہ کسی بندے سے محض اللہ کے لئے محبت کرتاہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اس سے ناراض نہ ہو تو وہ جھوٹا ہے ۔
(۱۲)گناہ میں غرق ہونے کی علامت روزہ اور شب بیداری میں دل کا خوش نہ ہونا ہے ۔
(۱۳)اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجرموں کو دنیا و آخرت میں ذلیل کرنے کا عہد کرلیا ہے، انسان رات میں کوئی گناہ بھی کرے صبح کو اس کے چہرہ پر ذلت ہوتی ہے ۔
(۱۴)ہمارے اسلاف کا یہ حال تھا کہ جو رات میں تلاوت قرآن مجید کرے اس کے چہرے سے لوگ پہچان لیتے تھے ، اس کے تغیر رنگ اور زردیِ چہرہ اور لاغری کی وجہ سے ؛ اور آج کل لوگ ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک رات میں سارا قرآن مجید ختم کرتے ہیں لیکن ان کے چہروں سے معلوم ہی نہیں ہوتا ۔
(۱۵)چار چیزیں شقاوت سے ہیں : کثرت عیال ، قلت مال ، بُرا پڑوسی ، اور خائن عورت ، حدیث شریف میں آیا ہے اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ عورت کو حیا اور شرم سے پردہ نہ دیتا تو عورت مٹی کی ایک مٹھی کے برابر بھی نہ ہوتی۔
(۱۶)جو تہجد کو چھوڑتا ہے وہ کسی نہ کسی گناہ کی باعث چھوڑتا ہے ، پس ہر روز غروب کے وقت تم اپنے نفسوں کی جانچ پڑتال کرلیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلیا کرو تاکہ رات کو تہجد کی نماز ادا کرسکو ۔
(۱۷)علماء پر اس وقت تک اللہ کی رحمت رہی جب تک انہوں نے امراء کی طرف میلان نہیں کیا ، اور جب وہ امراء کی طرف مائل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور ان پر ایسے ظالموں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کو سخت تکلیفیں دیں اور ان کے دلوں میں رعب بھر دیا ۔
(۱۸)جو شخص تیرے پاس چغلی کرے وہ دوسرے کے پاس تیری چغلی بھی ضرور کرے گا ، اور جو ایسی صفات سے تیری تعریف کرے جو تجھ میں موجود نہیں ہیں تو وہ ایسی ہی باتوں سے تیری مذمت بھی کرے گا جو تجھ میں موجود نہ ہوں ۔
(۱۹)مروّت کے معنیٰ دریافت کئے جانے پر آپ نے فرمایا جس امر سے آدمی اللہ کے نزدیک معیوب سمجھا جائے اس کے ترک کرنے کا نام مروّت ہے ؛ علماء سلف کا اتفاق ہے کہ سخاوت اور مروّت واجب ہے اور اس کا چھوڑنا منافقین کے اخلاق میں سے ہے ۔
(۲۰)اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو نعمت دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ عباد اللہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے ، پس اگر جو مانگے انہیں دیدے تو خیر ورنہ نعمت چھین لیتا ہے ۔
(۲۱)کسی نے پوچھا کہ ریاضت کرنے والے خوبصورت کیوں ہوتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ اللہ کے ساتھ خلوت کرتے ہیں تو وہ انہیں اپنے نور سے حصّہ دیتا ہے ۔
(۲۲)آدمی کے متواضع ہونے کی علا مت یہ ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد جس سے بھی ملاقات ہو اس کو اپنے سے افضل جانے ۔
(۲۳)جو شخص گناہ کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا قرب بڑھ جاتا ہے ۔
(۲۴)ایک آدمی کی عداوت کے بدلے میں ایک ہزار شخص کی محبت نہ خریدو ۔
(۲۵)دنیا تمہاری سواری ہے اگر تم اس پر سوار رہو گے توتم کو سوار رکھے گی اور اگر وہ تم پر سوار ہوگئی تو تم کو ہلاک کردے گی۔
(۲۶)اگر تم کو کسی سے عداوت ہوجائے اور وہ شخص اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہے تو اس کے ساتھ دشمنی کرنے سے پرہیز کرنا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے سپرد نہ فرمائیں گے ، اور اگر نافرمان ہے تو خود اس کی نافرمانی ہی اس کے لئے کافی ہے ، تو پھر اس سے عداوت کرکے اپنے کو تعب میں نہ ڈالو ۔
(۲۷)میں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دنیا کو طلب کیا ہو اور اس کو آخرت مل گئی ہو ، بر خلاف اس کے کہ جس نے بھی آخرت کو طلب کیا اس کو دنیا بھی مل گئی .
بہ شکریہ انوارِ اسلام
May 11 2015
Aqwal e Zareen Hazrath Hassan Basri RA
Aqwal e Zareen Hazrath Hassan Basri RA
اقوالِ زرین – حضرت حسن بصریؒ
۱۔خدا کی قسم !اگر تم میں سے کوئی شخص اس زمانے کو دیکھ لیتا جسے میں نے دیکھا اوران لوگوں سے ملاقات کرتا جنہیں میں نے دیکھا ہے تو اس کی صبح شام اس حال میں ہوتی کہ وہ اپنے اعمال کی کمی اوران کے اعمال واخلاق کے کمال پر پریشانوسرگرداں رہتا ،تم میں بہت زیادہ کوشش کرنے والا خود کو کھیل کود میں مصروف خیال کرتا اور تم میں بڑھ چڑھ کر عمل کرنے والا خود کوکو تاہ گردانتا۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۴)
۲۔اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جن کے دل آخرت کے غم میں غمگین رہتے ہیں وہ کسی کے بارے میں بدخواہی نہیں کرتے،ان کے نفوس پاک دامن ہیں اور ان کی ضروریات کم ہیں،جب ان پر سختی کے دن آتے ہیں تو وہ صبر کرتے ہیں اورآخرت کی آسانیوں کو مد نظر رکھ کر دنیا کی مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں،جب رات چھا جاتی ہے تو وہ اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوکر گریہ وزاری میں لگ جاتے ہیں، اللہ کی خشیت سے ان کے آنسو بہہ بہہ جاتے ہیں اوراللہ کے خوف سے ان کے دل لرزرہے ہوتے ہیں،وہ اپنا دن اس حال میں گزارتے ہیں کہ وہ بردباری اورتقویٰ کا پیکر معلوم ہوتے ہیں،وہ اپنے حالات کو یوں چھپا کر رکھتے ہیں کہ ان کی عفت کی بنا پر دیکھنےوالا انہیں مال دار خیال کرتا ہے،خشیت نے ان کا یہ حال کردیا کہ آپ انہیں مریض خیال کریں گے حالانکہ وہ مریض نہیں ہیں ؛بلکہ جہنم کے خوف نے انہیں بیمار کردیا ہے،وہ لوگ حلال چیزوں سے بھی اتنا زہد برتتے ہیں جتنا تم حرام چیزوں سے بھی نہیں کرتے،جتنا تم اپنی آنکھوں سے اپنی دنیا کو دیکھتے ہو وہ اس سے زیادہ اپنے دل (کی آنکھ)سے اپنے دین پر نگاہ رکھتے ہیں،ان کو اپنی نیکیوں پر سزا ملنے کا اتنا ڈر ہوتا ہے جتنا تمہیں اپنے گناہوں پر بھی نہیں ہوتا،یاد رکھو!یہ لوگ اللہ کی جماعت ہیں اور اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۴)
۳۔اے ابن آدمی! اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے تجھے دونوں کا نفع حاصل ہوگا، اگر تونے آخرت کو دنیا کے بدلے بیچا تو تجھے دونوں کا نقصان ہوگا۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۱)
۴۔اے ابن آدم! جب تم لوگوں کو خیر کے اعمال میں مصروف دیکھو تو اس میں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اورجب لوگوں کو بدی کا شکار دیکھو تو ان پر رشک مت کرو۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۱)
۵۔اے ابن آدم!یادرکھ،جب سے تیری ماں نے تجھے پیدا کیا ہے اس وقت سے تو اپنی عمر کم کررہا ہے۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۲)
۶۔اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو دیکھے اورتفکر کرے،تفکر کرنے کے بعد عبرت حاصل کرے،اللہ تعالیٰ اس شخص پر بھی رحم کرے جو دیکھے اورصبر کرے،بہت سے لوگ دیکھتے ہیں لیکن صبر نہیں کرتے۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۲)
۷۔مؤمن وہ نہیں جو دین کو اپنی رائے سے حاصل کرے ؛بلکہ مؤ من تو وہ ہے جو دین کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حاصل کرے،یعنی دین کے حصول کے لئے انہیں ذرائع کو استعمال کرے جو اللہ تعالی نے مقرر کئے ہیں۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۲)
۸۔اے ابن آدم!ایمان سجنے سنورنے اوراظہار خواہش کا نام نہیں ہے؛بلکہ ایمان تو وہ ہے جو دل میں بیٹھا ہو اور عمل اس کی تصدیق کرے۔
(روضۃ الخطباء:۴۱۳)
۹۔جو شخص مجمع میں اپنی مذمت بیان کرے،اس نے درحقیقت اپنی مدح کی(کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس وقت لوگ اس کی مدح کریں گے)اوریہ کیدنفس ہے کہ لوگوں سے اپنی مدح کرا کے خوش ہونا چاہتا ہے جس کی سبیل یہ نکالی ہے کہ خود اپنی مذمت کرنے لگےاور یہ علامات ریا میں سے ہے۔
(ثمرات الاوراق:۱۱۰)
۱۰۔اہل جنت کا دخول جنت میں اوراہل جہنم کا جہنم میں ان کے اعمال کی وجہ سے ہوگا،ہر فریق کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت یا دوزخ میں رہنا محض نیت پر مبنی ہوگا؛کیونکہ اہل جنت کی نیت یہ تھی کہ اگر وہ ہمیشہ دنیا میں رہتے تو اطاعت کرتے اوراہل دوزخ کی نیت یہ تھی کہ اگر زندہ رہتے تو ہمیشہ کفر و شرک کرتے۔
(تنبہ المغترین:۹)
۱۱۔ایک مرتبہ حسن بصریؓ نے ایک جماعت کو دیکھا جو بعض مسائل علمیہ میں بحث و مجادلہ کررہے تھے فرمایا:
((ھؤلاء قوم ملوا العبادۃ وخف علیھم القول وقل ورعھم فتکلموا))
“یہ لوگ عبادت سے اکتا گئے اورباتیں بنانا انہیں آسان معلوم ہوا اور تقوی ان کا کم ہوگیا اس لئے کلام کو مشغلہ بنالیا”
(ثمرات الاوراق:۲۱۵)
۱۲۔فتنہ جب اول ظاہر ہوتا ہے تو اس کو عالم ہی پہچانتا ہے اورجب ختم ہوجاتا ہے تو ہر جاہل بھی اس کو پہچان لیتا ہے۔
(طبقات ابن سعد:۷/۱۲۱)
۱۳۔اہل بدعت اورخواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے والوں کی نہ باتیں سنو،نہ ان سے مناظرے کرو اورنہ ان کی ہم نشینی اختیار کرو۔
(طبقات ابن سعد:۷/۱۲۱)
۱۴۔فقیہ وہ شخص ہے جو متقی اورزاہد اوربڑوں سے بڑھنے کی فکر نہ کرے اورچھوٹوں سے تمسخر نہ کرے۔
(طبقات ابن سعد:۷/۱۲۹)
۱۵۔ایسا دائمی خوف،جو دل کے ساتھ وابستہ ہوچکا ہو،خشوع کہلاتا ہے۔
(الرسالۃ القشیریۃ:۲۰۰)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے حضرت حسن بصریؓ سے درخواست کی کہ انہیں خلیفہ عادل کی صفات سے مطلع کریں،حضرت حسن بصریؓ نے انہیں لکھا:
امام عادل،کو اللہ تعالیٰ نے ہر ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنے والا اورہر ظلم کا قلع قمع کرنے والا بنایا ہے،وہ ہر فاسد کے لئے صلاح،ہر ضعیف کے لئے قوت،ہر مظلوم کے لئے انصاف اورہر غمگین کے لئے جائے پناہ بنایا ہے۔
امام عادل،اس مشفق نگران کی طرح ہے جو اپنے اونٹوں کے ساتھ مشفقت اورنرمی کا معاملہ کرتا ہے اوران کے لئے بہترین چراگاہ تلاش کرتا ہے،انہیں نقصان دہ چارے اورہلاک کرنے والے درندوں سے بچاتا ہے،انہیں گرمی سردی کی تکلیف سے دوررکھتا ہے۔
امام عادل،اس شفیق باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرتا ہے،بچپن میں ان کے لئے محنت وکوشش کرتا ہے اوربڑے ہونے پر انہیں تعلیم دیتا ہے،زندگی بھر ان کے لئے کماتا اور محنت کرتا ہے اوراپنے مرنے کے بعد ان کے لئے ذخیرہ چھوڑجاتا ہے۔
امام عادل،اس شفقت کرنے والی اورمہربان ماں کی طرح ہے جس نے بڑی تکلیف کے ساتھ اپنے بچے کو پیٹ کے اندر رکھا اور اس کو تکلیف کے ساتھ جنا،وہ اس کو بچپن سے اس طرح پالتی ہے کہ اس کے بیدار رہنے سے خود بھی بیدار رہتی ہے اوراس کے سکون سے ماں کو بھی سکون ملتا ہے،کبھی اس کو دودھ پلاتی ہے اور کبھی اس کا دودھ چھڑاتی ہے،اس کی عافیت سے خوش ہوتی ہے اوربیماری سے غمگین۔
امام عادل،یتیموں کا نگران ہے،غریبوں کے لئے ذخیرہ کرنے والا ہے،چھوٹوں کی پرورش کرتا ہے اوربڑوں کے نان نفقہ کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔
امام عادل، پسلیوں کے درمیان دل کی طرح ہے،تمام اعضاء اس کی درستگی سے ٹھیک ہوجاتے ہیں اوراس کے بگاڑ سے تمام اعضاء میں بگاڑ آجاتا ہے۔
امام عادل، اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے،وہ اللہ تعالیٰ کا کلام خود سنتا ہے اوربندوں کو سناتا ہے،اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور بندوں کو دکھاتا ہے،وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار ہوتا ہے اوربندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی طرف لاتا ہے۔
اس کے بعد حضرت حسن بصریؒ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کو مزید نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
“اے امیر مؤمنین!جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالک بنایا ہے ان میں اس غلام کی طرح نہ ہوجائیں جس کو اس کے مالک نے امانت دار سمجھ کر اپنے مال کی حفاظت پر مقرر کیا لیکن اس نے مال کو تباہ کردیا اوراس کے اہل وعیال کو مفلسی میں ڈال دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اہل وعیال فقیر ومحتاج ہوگئے اوراس کا مال برباد ہوگیا۔
اے امیر مؤ منین!جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے خباثت اورخواہشات سے روکنے کے لئے حدود نازل کی ہیں اورجب حاکم ہی ان برائیوں میں مبتلا ہوجائے تو آپ خود اندازہ کرلیجئے کہ اللہ تعالی اسے کیسی سزادے گا،اللہ تعالیٰ نے قصاص کو اپنے بندوں کی زندگی بناکر نازل کیا ہے توجب وہی شخص لوگوں کو قتل کرنے لگے جسے قصاص لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تو نظام عالم کی بربادی کی کیا انتہا ہوگی۔
اے امیر مؤمنین !موت کو یاد کیجئے،تاکہ موت کے بعد آنے والی پریشانیوں سے نجات حاصل ہوسکے۔
اے امیر مؤمنین!جس جگہ آپ آج ہیں اسے چھوڑ کر ایک دوسرے گھر میں منتقل ہونا ہے،وہ ایک گڑھا ہے جس میں ڈال کر آپ کے دوست احباب رخصت ہوجائیں گے،وہاں آپ کو ایک لمبا عرصہ گزارنا ہے،آپ کو اس دن کے لئے توشہ اکٹھا کرنا چاہیے جس دن ہر شخص اپنے ماں باپ، بیوی بچوں اوربھائی بہن سے الگ ہوجائے گا، اس وقت کا استحضار کیجئے جب مردوں کو زندہ کرکے قبروں سے نکالا جائے گا،جو باتیں دلوں میں تھیں اب ظاہرکردی جائیں گی اورنامہ أعمال نہ کسی چھوٹے گناہ کو چھوڑے گا نہ کسی بڑے کو۔
اے امیر مؤ مومنین!امید کے خاتمے اورموت کی آمد سے پہلے رعایا کے ساتھ نرمی کیجئے، کسی کے ساتھ خلاف شرع اورظالمانہ سلوک ہرگز روانہ رکھیں،قوی لوگوں کو ضعیفوں پر مسلط نہ کریں کیونکہ وہ کسی مسلمان کے حق میں نہ قرابت کا لحاظ رکھتے ہیں اورنہ عہدو پیمان کا،اگر آپ نے ایسا کیا تو اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کا وبال بھی آپ پر ہوگا اوراپنے بوجھ کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔ جن چیزوں سے وہ راحت کی زندگی گزارتے ہیں اس سے آپ دھوکہ کا شکار ہرگز نہ ہوں ؛کیونکہ اس میں آپ کا نقصان ہے، اسی طرح ان لوگوں کے دھوکہ میں بھی ہرگز نہ آئیں جو دنیا میں مزے سے رہتے ہیں،اپنی آج کی طاقت کو ملاحظہ نہ کریں ؛بلکہ اپنی اس وقت کی طاقت کو مد نظر رکھیں جب آپ کو فرشتوں،انبیاء اوررسولوں کی موجودگی میں اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا جائے گا اوراس حی وقیوم ذات کے سامنے چہرے جھکے ہوئے ہوں گے۔
اے امیر مؤمنین! اگرچہ میں نے آپ کو اس درجہ کی نصیحت نہیں کی جو ارباب علم و دانش کا خاصہ ہے لیکن میں نے آپ کے ساتھ خیر خواہی اوربھلائی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑدی،آپ میرے خط کو اس دوست کی کڑوی دوائی کی طرح سمجھیں جو صرف اس لئے بد ذائقہ دوائی کھلاتا ہے تاکہ میرے چاہنے والے کو عافیت اورصحت نصیب ہوجائے۔
اے امیر مؤ منین! آپ پر سلامتی نازل ہو اوراللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت ہو۔
(نفحۃ العرب:۹۸،۱۰۲)
(۱)جس کے پاس ادب نہیں اس کے پاس علم نہیں ہوتا ، اور جس کو صبر کرنا نہیں آتا اس کا دین کامل نہیں ہوتا ، اور جس کے پاس تقویٰ نہیں ہوتا وہ کبھی اللہ کا مقرب نہیں بن سکتا ۔
(۲)ابدال نہ ہوتے تو زمین دھنسادی جاتی ، صالحین نہ ہوتے تو برے لوگ ہلاک ہوجاتے ، علماء نہ ہوتے تو عوام الناس جانور ہوتے ، حکمراں نہ ہوتے تو لوگ ایک دوسرے کو ہلاک کردیتے ، بے وقوف نہ ہوتے تو دنیا خراب ہو جاتی ،اس لئے کہ عقل کی قدر سمجھ میں نہ آتی ، اور ہوا نہ ہوتی تو سب چیزیں سڑ جاتیں۔
(۳)چھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے آدمی کا دل فاسد ہوجاتا ہے اور جب دل فاسد ہوجاتا ہے تو تما م اعضاء و جوارح فاسد ہوجاتے ہیں : توبہ کی امید پر نافرمانی کرنا ، علم حاصل کرنا مگر عمل نہ کرنا ، اگر کچھ عمل کریں بھی تو اس میں اخلاص کی فکر نہ کر نا ، اللہ کا رزق کھانا مگر شکر گزار نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تقسیم سے خوش نہ رہنا ، اور اپنے مردوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا مگر عبرت حاصل نہ کرنا ۔
(۴)جس شخص نے دنیا کو آخرت پر مقدم رکھا اس کو اللہ تعالیٰ چھ سزائیں دیتے ہیں : بے انتہا آرزوئیں ، ایسی حرص کہ جس میں قناعت کا نام نہ ہو ، عبادت کی حلاوت سے محرومی ، قیامت کے دن کی ہول ، حساب کی شدت ، اور حسرت و نامرادی ۔
(۵)فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ایک جوان صالح کے ساتھ بصرہ کے بازار میں کسی کام سے گشت لگا رہا تھا کہ اتنے میں ہماری نظر ایک طبیب پر پڑی جو کرسی پر بیٹھاتھا اوراس کے اطراف عورتوں ، بچوں اور مروں کا اژدہام تھا ہر شخص اپنی تکلیف کا اظہار کرتا تو وہ ان کو دوا بتلا دیتا ، یہ دیکھ کر میرا ساتھی نوجوان آگے بڑھا اور اس نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کے ہاں کوئی دوا ایسی ہے جس سے گناہ دھل جائیں اور دل کے روحانی مرضوں سے شفا ملے ؟ انہوں نے جواب دیا کیوں نہیں ! جوان نے کہا تو پھر دیجئے ،اس نے کہا لکھو نسخہ !فقر کی جڑیں ، تواضع کی جڑیں ، اور توبہ کی جڑیں ہم وزن لےلو ، پھر انہیں رضا کے ہاون میں رکھ کر قناعت کے دستہ سے کوٹو ، پھر اس کو تقویٰ کی ہانڈی میں ڈال کر حیاء کا پانی اس میں ملاؤ ، پھر اسے محبت کی آگ میں جوش دو ، اس کے بعد شُکر کے پیالہ میں ڈال کر امید کے پنکھے سے اسے ٹھنڈا کرو اور تعریفِ باری کے چمچہ سے نوش کرلو ۔
پس اگر تم نے یہ نسخہ استعمال کرلیا تو تم دنیا و آخرت کی تمام بیماریوں و بلاؤں سے محفوظ رہوگے ۔
(۶)عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جو عالم اپنے علم پر عمل کرتا ہے وہ یقیناً ولی اللہ ہے ۔
(۷)جس نے محفل میں اپنے آپ کو برا کہا اس نے اپنی تعریف کی ، اور یہ ریا کی علامت ہے ۔
(۸)لوگ اعمال کے بدلہ جنت اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور نیت کی وجہ سے اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
(۹)اہلِ علم زمانہ کے چراغ ہیں ، اور ہر عالم اپنے زمانہ کی روشنی ہے کہ اس کے علم سے اسکے اقران روشنی حاصل کرتے ہیں ؛اگر عالم نہ ہوتے تو لوگ کوڑے کرکٹ کی طرح ہوتے ۔
(۱۰)فاسق کی مخالفت کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قرب کا سبب ہے (اس سے مراد اس کے ساتھ دل سے رنجیدہ ہونا ہے ،اور ظاہراً مخالفت کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کو راہ راست پر لانا چاہئےبغض صرف اس کی صفات ِ فسق کے ساتھ خاص ہونا چاہئے ) ۔
(۱۱)جو دعویٰ کرے کہ وہ کسی بندے سے محض اللہ کے لئے محبت کرتاہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اس سے ناراض نہ ہو تو وہ جھوٹا ہے ۔
(۱۲)گناہ میں غرق ہونے کی علامت روزہ اور شب بیداری میں دل کا خوش نہ ہونا ہے ۔
(۱۳)اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجرموں کو دنیا و آخرت میں ذلیل کرنے کا عہد کرلیا ہے، انسان رات میں کوئی گناہ بھی کرے صبح کو اس کے چہرہ پر ذلت ہوتی ہے ۔
(۱۴)ہمارے اسلاف کا یہ حال تھا کہ جو رات میں تلاوت قرآن مجید کرے اس کے چہرے سے لوگ پہچان لیتے تھے ، اس کے تغیر رنگ اور زردیِ چہرہ اور لاغری کی وجہ سے ؛ اور آج کل لوگ ایسے ہوگئے ہیں کہ ایک رات میں سارا قرآن مجید ختم کرتے ہیں لیکن ان کے چہروں سے معلوم ہی نہیں ہوتا ۔
(۱۵)چار چیزیں شقاوت سے ہیں : کثرت عیال ، قلت مال ، بُرا پڑوسی ، اور خائن عورت ، حدیث شریف میں آیا ہے اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ عورت کو حیا اور شرم سے پردہ نہ دیتا تو عورت مٹی کی ایک مٹھی کے برابر بھی نہ ہوتی۔
(۱۶)جو تہجد کو چھوڑتا ہے وہ کسی نہ کسی گناہ کی باعث چھوڑتا ہے ، پس ہر روز غروب کے وقت تم اپنے نفسوں کی جانچ پڑتال کرلیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلیا کرو تاکہ رات کو تہجد کی نماز ادا کرسکو ۔
(۱۷)علماء پر اس وقت تک اللہ کی رحمت رہی جب تک انہوں نے امراء کی طرف میلان نہیں کیا ، اور جب وہ امراء کی طرف مائل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور ان پر ایسے ظالموں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کو سخت تکلیفیں دیں اور ان کے دلوں میں رعب بھر دیا ۔
(۱۸)جو شخص تیرے پاس چغلی کرے وہ دوسرے کے پاس تیری چغلی بھی ضرور کرے گا ، اور جو ایسی صفات سے تیری تعریف کرے جو تجھ میں موجود نہیں ہیں تو وہ ایسی ہی باتوں سے تیری مذمت بھی کرے گا جو تجھ میں موجود نہ ہوں ۔
(۱۹)مروّت کے معنیٰ دریافت کئے جانے پر آپ نے فرمایا جس امر سے آدمی اللہ کے نزدیک معیوب سمجھا جائے اس کے ترک کرنے کا نام مروّت ہے ؛ علماء سلف کا اتفاق ہے کہ سخاوت اور مروّت واجب ہے اور اس کا چھوڑنا منافقین کے اخلاق میں سے ہے ۔
(۲۰)اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو نعمت دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ عباد اللہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے ، پس اگر جو مانگے انہیں دیدے تو خیر ورنہ نعمت چھین لیتا ہے ۔
(۲۱)کسی نے پوچھا کہ ریاضت کرنے والے خوبصورت کیوں ہوتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ اللہ کے ساتھ خلوت کرتے ہیں تو وہ انہیں اپنے نور سے حصّہ دیتا ہے ۔
(۲۲)آدمی کے متواضع ہونے کی علا مت یہ ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد جس سے بھی ملاقات ہو اس کو اپنے سے افضل جانے ۔
(۲۳)جو شخص گناہ کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا قرب بڑھ جاتا ہے ۔
(۲۴)ایک آدمی کی عداوت کے بدلے میں ایک ہزار شخص کی محبت نہ خریدو ۔
(۲۵)دنیا تمہاری سواری ہے اگر تم اس پر سوار رہو گے توتم کو سوار رکھے گی اور اگر وہ تم پر سوار ہوگئی تو تم کو ہلاک کردے گی۔
(۲۶)اگر تم کو کسی سے عداوت ہوجائے اور وہ شخص اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہے تو اس کے ساتھ دشمنی کرنے سے پرہیز کرنا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے سپرد نہ فرمائیں گے ، اور اگر نافرمان ہے تو خود اس کی نافرمانی ہی اس کے لئے کافی ہے ، تو پھر اس سے عداوت کرکے اپنے کو تعب میں نہ ڈالو ۔
(۲۷)میں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دنیا کو طلب کیا ہو اور اس کو آخرت مل گئی ہو ، بر خلاف اس کے کہ جس نے بھی آخرت کو طلب کیا اس کو دنیا بھی مل گئی .
بہ شکریہ انوارِ اسلام
By silsilaekamaliya • Aqwal e Zareen • Tags: Aqwal e Zareen, Aqwal e Zareen Hassan Basri