Rights of Allah, Abdullah
اللہ اور بندے کے حقوق
اللہ کا حق تنزیہہ ہے کیونکہ اسکی شان لَیْسَ کَمِثْلِہٖہے اسکے مثل کوئی شئی نہیں یہ اسکی شان ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ کیلئے حضورﷺنے ارشادفرمایا
ماعرفناک حق معرفتک
ہم نے نہیں پہچانا تجھ کو جیسا پہچانے کا حق ہے
لہٰذا تنزیہ الہ کا وہ حق جس میں مخلوق خالق کا احاطہ نہیں کر سکتی
اور بندے کا حق تشبیہ ہے تشبیہ اسکو کہتے ہیں کہ اللہ کو آفاق وانفس میں دیکھنا اور پانا جسکا تذکرہ
سَنُرِیْھِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ میں مذکور ہے
اللہ اور بندے کے لوازم کے عرفان سے دو ذات کا قائل ہونا سمجھ میں آتا ہے
اللہ اور بندے کے آداب کے عرفان سے وحدت الوجود مفہوم ہوتا ہے
اللہ اور بندے کے حقوق کے عرفان سے اللہ کامطلق ہونا اور بندے کے مقید ہونے کی نسبت سمجھ میں آتی ہے
لوازم کا عرفان ہو اور علم کو برتے تو راز فقیری کھلتا ہے
آداب کا عرفان ہو اور بر محل علم کو برت رہا ہو تو تو تکبر دور ہوجاتا ہے تواضع کا پیکر بن جاتا ہے
حقوق کا عرفان ہو اور علم کا صحیح استعمال ہو تو معیت وقرب الٰہی کھلنے لگتا ہے عبدیت کے مقام پر مضبوطی سے جما ہوا رہتا ہے
معبود کیلئے فعل ثابت اگر فعل نہ ہو تو مجبور ۔
معبود کیلئے صفات ثابت اگر صفات نہ ہوں تو معطل۔
معبودکیلئے وجو ثابت اگر وجود نہ ہو تو عدم ۔مگر اللہ معدوم نہیں ہے بلکہ موجود ہے اگر کوئی ان سے انکارکرتا ہے تو (یعنی افعال صفات وجود سے) تو کافر ہوجاتا ہے ۔
اگر کوئی ان کو مان کرانکار کرتا ہے تو مرتد ہوجاتاہے ۔
اگر ان میں کوئی شک کرتا ہے تو منافق ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی اسکی تصدیق کرتا ہے تو مؤمن ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اس بیان سے ثابت ہوا کہ اللہ کیلئے وجود وصفات وافعال ثابت ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افعال کا صدور کس پر ہو ؟
ظاہر ہے کہ افعال کاصدور غیر اللہ یا ماسویٰ اللہ پر ہوگا ۔
اس غیر اللہ یا ماسوی اللہ کو ہم قرآنی الفاظ میں یا اصطلاح قرآن میں (شئی) بھی کہتے ہیں فعل ہمیشہ مؤثر ہوتا ہے اور جس پر اثر کرتا ہے ہم اسے متأ ثر یا آثار کہتے ہیں لہٰذا کائنات کی تمام اشیا ء کو ہم آثار اللہ کہیں گے ان کو آثار اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ فعل کا اثر قبول کرنے والے ہیں یعنی آثار اپنی استعداد کی موافق اللہ کے فعل کو کام میں لاتے ہیں ب اللہ کیلئے چار چیزیں ثابت ہوئیں ۔وجود صفات ۔ افعال۔ آثار۔ ان چاروں چیزوں کو صوفیا کی اصطلاح میں اعتبارات الٰہیہ کہتے ہیں ۔جبکہ آثار کو ہم ماسوی اللہ مان چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ما سوی اللہ خود اللہ کاعتبار کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہیکہ آثار میں اللہ کے چاروں اعتبارات پائے جاتے ہیں ( یعنی آثار میں اللہ کا وجود بھی ہے صفات بھی ہے افعال بھ ہے اور یہ خود اللہ کے آثار بھی ہیں اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آثار اللہ بھی ہیں اور ماسوی اللہ بھی ہیں اب یہ دونوں ایک کس طرح پر ہیں ؟ اس کی تشریح حسب ذیل ہے
چونکہ آثار خود بخود موجود نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ کی وجود بخشی کی وجہ سے موجو ہیں ۔اس لئے ان کو وجود الہ ہی کے وجود ک وجہ سے ان کے صفات کمالیہ اللہ ہی کے صفات کمال کی وجہ سے اوران کے افعال اللہ ہی کے افعال کی وجہ سے ،یہ تینوں رخ ،اللہ پاک کے خود اپنے ذاتی اعتبا ر ہیں جو ہر شئی میں پائے جاتے ہیں ۔اسی حد تک شئی کا اللہ کااعتبارہونا ثابت ہے۔اب شئی کا دوسرا رخ صفات نقصانیہ ہے یعنی اسکی اپنی ذات جس میں اللہ کی صفات پائے جارہے ہیں۔یا الہ کی چیزیں پائی جارہی ہیں مُظہر یعنی اللہ کو اپنے ظہور کیلئے مَظہر یعنی ماسوی اللہ چاہئے یہی چاہت باعث تخلیق کائنات ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ آثار اللہ ایک حیثیت سے اللہ کے اعتبار ہیں دوسری حیثیت سے ماسوی اللہ ہیں اور یہی کامل التحقیق صوفیا کاکمال ہے
کہ وہ جامع الاضداد ہوتے ہین ۔۔۔۔۔۔۔جب ذات خلق میں یہ سب عاریتاً اور امانتاً ہوں تو پھر ذات خلق کے اپنے اعتبارات کیا ہیں ؟ ذات خلق کے بھی اپنے اعتبارات ہیں اور وہ بھی چار ہیں جواسکے اصلی اورحقیقی ہیں اور وہ یہ ہیں ۔فقیر۔ذلیل۔
عاجز ۔ اور جاہل۔ یہاں فقیر کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ جو وجود سے خالی ہو ۔ذلیل ،سے مراد یہ کہ وہ جو صفات کمال سے متصف وموصوف نہ ہو۔عاجز۔ایسا کہ جوفعل سے عاری ہو۔
اور جاہل۔ وہ جو علم نہ رکھتا ہو۔ذات خلق اگر اعتبارات الٰہیہ کواپنے ذاتی سمجھلے تواس سے دوغلطیاں سرزدہوں گی
ایک غلطی تو یہ کہ غیر کی چیز کوا پنی سمجھ بیٹھا تو لہٰذا غاصب ہوا دوسری غلطی یہ کہ اپنی چیز کو بھلادیا تو غافل ہوا ۔اس اعتبار سے ایک جرم کی دوسزائیں ہوئیں۔
ایک سزااسکے غصب کی اوردوسری سزااسکی غفلت کی
یہ ایک حقیقت ہے کہ الہ غاصب کو سخت سے سخت سزا دیتے ہیں کیونکہ غصب شرک ہے ۔۔اس سے کہیں کمتر سزا غافل کو ملتی ہے کہ ۔کیونکہ غفلت گناہ ہے
کلمے میں ترتیب وتناسب کا پایا جانا۔
ترتیب کی تعریف:۔جس چیز کو جہاں ہونا چاہئے اس کا وہیں پایاجاناترتیب ہے ۔مثلاً انسان کے اعتبار سے جہاں ہاتھ کوہوناچاہئے اس کا وہیں موجود ہونا ترتیب ہے اس طرح پاؤں سر ناک کان حلق آنکھ او منھ وغیرہ کا اپنے محل اور مقام پر پایا جانا ترتیب ہے ۔تناسب کی تعریف :۔
جس کو جتنا ہونا چاہئے اس کا اتنا ہی پایا جاناتناسب ہے ۔مثلاً ۔نسان کے اعتبار سے ہاتھ بڑے ہوں اور نہ ہی چھوٹے بلکہ متوسط ہوں یہی تناسب ہے اسی طرح پاؤں نہ تو بڑے ہوں اور نہ چھوٹے بلکہ اوسط ہوںیہی تناسب ہے او ر سر آنکھ کان ناک منھ وغیرہ کا بھی نہ بڑاہونا اور نہ چھوٹا ہونا بلکہ اوسط ہونا ہی تناسب ہے ۔
مختصراً یہ کہ ترتیب میں ہر شئی کا اپنے محل اور مقام پر ہونااہم ہوتاہے اور تناسب میں ہرشئی کی مقداراہم ہوتی ہے
کسی انسان کو خوبصور ت اسی وقت کہ جاتا ہے جب کہ اس کے اعضا میں ترتیب وتناسب برقرار ہو ۔اگر ان دونوں یعنے ترتیب و تناسب میں سے کوئی ایک یا دونوں بگڑ جائیں تو انسان خوبصورت ہونے کے بجائے بد صورت ہوجاتا ہے ۔
کلمۂ طیبہ دنیا ودین کا خوبصورت ترین کلمہ ہے اسکی خوبصورتی کا قائم رکھنا ہر مسلم ومؤمن کا فرض ہے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کلمہ کی ترتیب اوراسکا تناسب کیا ہے ؟
ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ اعتبارات الٰہیہ چار ہیں ۔آثار اللہ۔ افعال اللہ۔ صفات اللہ ۔ ذات اللہ ۔ انہیں اعتبارات الٰہیہ کے ذریعہ ہم پہلے کلمہ کی ترتیب معلوم کریں گے آثار اللہ پر کامل غور وفکر کے بعد اللہ ہی کو معبود قرار دیتے ہیں لہٰذا معبود صرف اللہ کو کہنا کلمہ کا پہلا مقام ہے ۔افعال اللہ پر کامل غوروفکرکرنے کے بعداللہ ہی کواپنامقصودقراردیتے ہیں لہٰذاکلمہ کا دوسرا مقام اللہ ہی کو اپنا مقصود کہنا ہے۔
صفات اللہ پر کامل ور وفکر کرنے کے بعد اللہ ہ کو ہم موجود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمہ کا تیسرا مقام صرف اللہ ہی کو موجود کہناہے ۔اللہ کے وجود پر کاملغور وفکرکرنے کے بعد اللہ ہی کو ہم مشہود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمے کا چوتھا مقام صرف اللہ ہی کو مشہود کہنا ہے اب کلمہ کی ترتیب یہ ہوئی کہ اللہ ہی ہمارا معبود ہے !جو معبود ہوگا وہی مقصود بھی ہوگا جو مقصود ہوگا وہی موجود بھی ہوگا اور جو موجود ہوگا وہی مشہود بھی ہوگا کلمے کو خوبصورت رکھنے کیلئے اس ترتیب کیحفاظت لازمی ہے ۔
اسی طرح کلمہ کے تناسب پر ایک غائر نظر ڈالیں گے ہمیں معلوم ہے کہ افراط وتفریط سے بچکر اسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ،یہاں بھی ہم ارتبارات الٰہیہ سے کام لیں گے ۔آثار میں افراط کرنا شرک جلی ہے ۔اورآثار میں تفریط کرنا تعطیل ہے (یعنی اللہ کو معل ٹھیرانا ہے ) التہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید اسمائی ہے
اسی طرح افعال میں فراط کرنا شرک خفی ہے اور افعال میں تفریط کرنا تعطیل ہے(یعنی اللہ کے افعال کومعطل ٹھیرانا) ہے البتہ افراط وتفریط سے بچکر توحید اوسط پر قائم رہناتوحید افعالی ہے ۔ صفات میں افراط کرنا شرک اخفیٰ ہے اور صفات کی تفریط اسکی تعطیل ہے(یعنی اللہ کی صفات کو معطل ٹھیرانا ہے) البتہ افراط وتفریط سے بچ کراوسط پرقائم رہنا توحیدصفاتی ہے ۔
اسی طرح وجود میں افراط شرک خفی الاخفیٰ ہے اور وجود میں تفریط اسکی تعطیل ہے (یعنی اللہ کے وجود کو معطل کردینا ہے ) لبتہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید وجودی ہے ،لہٰذا کلمہ کو خوبصورت رکھنے کیلئے چاروں اعتبارات الٰہیہ میں افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ۔
جو کوئی مسلم مؤمن کلمۂ طیبہ کو ترتیب وتناسب کے ساتھ آراستہ کرکے اس کلمہ کاعلم اوراسکا عمل اللہ کے دربارمیں پیش کرتاہے تواللہ تعالیٰ ایسے مسلم سے تمام حجابات اٹھادیتے ہیں اوراپناقرب عنایت فرماتے ہیں قرب حق میں وہ لذت ہے جسکوصرف ایک عاشق ہی خوب جانتاہے
جسکااظہارنہ توزبان کرسکتی ہے اورنہ آنکھ میںیاراہے کہ دیکھ سکے اورنہ ہی کان میں قوت ہے کہ وہ سنکرسمجھ سکے
Jan 8 2015
Rights of Allah, Abdullah
Rights of Allah, Abdullah
اللہ اور بندے کے حقوق
اللہ کا حق تنزیہہ ہے کیونکہ اسکی شان لَیْسَ کَمِثْلِہٖہے اسکے مثل کوئی شئی نہیں یہ اسکی شان ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ کیلئے حضورﷺنے ارشادفرمایا
ہم نے نہیں پہچانا تجھ کو جیسا پہچانے کا حق ہے
لہٰذا تنزیہ الہ کا وہ حق جس میں مخلوق خالق کا احاطہ نہیں کر سکتی
اور بندے کا حق تشبیہ ہے تشبیہ اسکو کہتے ہیں کہ اللہ کو آفاق وانفس میں دیکھنا اور پانا جسکا تذکرہ
اللہ اور بندے کے لوازم کے عرفان سے دو ذات کا قائل ہونا سمجھ میں آتا ہے
اللہ اور بندے کے آداب کے عرفان سے وحدت الوجود مفہوم ہوتا ہے
اللہ اور بندے کے حقوق کے عرفان سے اللہ کامطلق ہونا اور بندے کے مقید ہونے کی نسبت سمجھ میں آتی ہے
لوازم کا عرفان ہو اور علم کو برتے تو راز فقیری کھلتا ہے
آداب کا عرفان ہو اور بر محل علم کو برت رہا ہو تو تو تکبر دور ہوجاتا ہے تواضع کا پیکر بن جاتا ہے
حقوق کا عرفان ہو اور علم کا صحیح استعمال ہو تو معیت وقرب الٰہی کھلنے لگتا ہے عبدیت کے مقام پر مضبوطی سے جما ہوا رہتا ہے
معبود کیلئے فعل ثابت اگر فعل نہ ہو تو مجبور ۔
معبود کیلئے صفات ثابت اگر صفات نہ ہوں تو معطل۔
معبودکیلئے وجو ثابت اگر وجود نہ ہو تو عدم ۔مگر اللہ معدوم نہیں ہے بلکہ موجود ہے اگر کوئی ان سے انکارکرتا ہے تو (یعنی افعال صفات وجود سے) تو کافر ہوجاتا ہے ۔
اگر کوئی ان کو مان کرانکار کرتا ہے تو مرتد ہوجاتاہے ۔
اگر ان میں کوئی شک کرتا ہے تو منافق ہوجاتا ہے ۔اگر کوئی اسکی تصدیق کرتا ہے تو مؤمن ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اس بیان سے ثابت ہوا کہ اللہ کیلئے وجود وصفات وافعال ثابت ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افعال کا صدور کس پر ہو ؟
ظاہر ہے کہ افعال کاصدور غیر اللہ یا ماسویٰ اللہ پر ہوگا ۔
اس غیر اللہ یا ماسوی اللہ کو ہم قرآنی الفاظ میں یا اصطلاح قرآن میں (شئی) بھی کہتے ہیں فعل ہمیشہ مؤثر ہوتا ہے اور جس پر اثر کرتا ہے ہم اسے متأ ثر یا آثار کہتے ہیں لہٰذا کائنات کی تمام اشیا ء کو ہم آثار اللہ کہیں گے ان کو آثار اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ فعل کا اثر قبول کرنے والے ہیں یعنی آثار اپنی استعداد کی موافق اللہ کے فعل کو کام میں لاتے ہیں ب اللہ کیلئے چار چیزیں ثابت ہوئیں ۔وجود صفات ۔ افعال۔ آثار۔ ان چاروں چیزوں کو صوفیا کی اصطلاح میں اعتبارات الٰہیہ کہتے ہیں ۔جبکہ آثار کو ہم ماسوی اللہ مان چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ما سوی اللہ خود اللہ کاعتبار کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہیکہ آثار میں اللہ کے چاروں اعتبارات پائے جاتے ہیں ( یعنی آثار میں اللہ کا وجود بھی ہے صفات بھی ہے افعال بھ ہے اور یہ خود اللہ کے آثار بھی ہیں اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آثار اللہ بھی ہیں اور ماسوی اللہ بھی ہیں اب یہ دونوں ایک کس طرح پر ہیں ؟ اس کی تشریح حسب ذیل ہے
چونکہ آثار خود بخود موجود نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ کی وجود بخشی کی وجہ سے موجو ہیں ۔اس لئے ان کو وجود الہ ہی کے وجود ک وجہ سے ان کے صفات کمالیہ اللہ ہی کے صفات کمال کی وجہ سے اوران کے افعال اللہ ہی کے افعال کی وجہ سے ،یہ تینوں رخ ،اللہ پاک کے خود اپنے ذاتی اعتبا ر ہیں جو ہر شئی میں پائے جاتے ہیں ۔اسی حد تک شئی کا اللہ کااعتبارہونا ثابت ہے۔اب شئی کا دوسرا رخ صفات نقصانیہ ہے یعنی اسکی اپنی ذات جس میں اللہ کی صفات پائے جارہے ہیں۔یا الہ کی چیزیں پائی جارہی ہیں مُظہر یعنی اللہ کو اپنے ظہور کیلئے مَظہر یعنی ماسوی اللہ چاہئے یہی چاہت باعث تخلیق کائنات ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ آثار اللہ ایک حیثیت سے اللہ کے اعتبار ہیں دوسری حیثیت سے ماسوی اللہ ہیں اور یہی کامل التحقیق صوفیا کاکمال ہے
کہ وہ جامع الاضداد ہوتے ہین ۔۔۔۔۔۔۔جب ذات خلق میں یہ سب عاریتاً اور امانتاً ہوں تو پھر ذات خلق کے اپنے اعتبارات کیا ہیں ؟ ذات خلق کے بھی اپنے اعتبارات ہیں اور وہ بھی چار ہیں جواسکے اصلی اورحقیقی ہیں اور وہ یہ ہیں ۔فقیر۔ذلیل۔
عاجز ۔ اور جاہل۔ یہاں فقیر کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ جو وجود سے خالی ہو ۔ذلیل ،سے مراد یہ کہ وہ جو صفات کمال سے متصف وموصوف نہ ہو۔عاجز۔ایسا کہ جوفعل سے عاری ہو۔
اور جاہل۔ وہ جو علم نہ رکھتا ہو۔ذات خلق اگر اعتبارات الٰہیہ کواپنے ذاتی سمجھلے تواس سے دوغلطیاں سرزدہوں گی
ایک غلطی تو یہ کہ غیر کی چیز کوا پنی سمجھ بیٹھا تو لہٰذا غاصب ہوا دوسری غلطی یہ کہ اپنی چیز کو بھلادیا تو غافل ہوا ۔اس اعتبار سے ایک جرم کی دوسزائیں ہوئیں۔
ایک سزااسکے غصب کی اوردوسری سزااسکی غفلت کی
یہ ایک حقیقت ہے کہ الہ غاصب کو سخت سے سخت سزا دیتے ہیں کیونکہ غصب شرک ہے ۔۔اس سے کہیں کمتر سزا غافل کو ملتی ہے کہ ۔کیونکہ غفلت گناہ ہے
کلمے میں ترتیب وتناسب کا پایا جانا۔
جس کو جتنا ہونا چاہئے اس کا اتنا ہی پایا جاناتناسب ہے ۔مثلاً ۔نسان کے اعتبار سے ہاتھ بڑے ہوں اور نہ ہی چھوٹے بلکہ متوسط ہوں یہی تناسب ہے اسی طرح پاؤں نہ تو بڑے ہوں اور نہ چھوٹے بلکہ اوسط ہوںیہی تناسب ہے او ر سر آنکھ کان ناک منھ وغیرہ کا بھی نہ بڑاہونا اور نہ چھوٹا ہونا بلکہ اوسط ہونا ہی تناسب ہے ۔
مختصراً یہ کہ ترتیب میں ہر شئی کا اپنے محل اور مقام پر ہونااہم ہوتاہے اور تناسب میں ہرشئی کی مقداراہم ہوتی ہے
کسی انسان کو خوبصور ت اسی وقت کہ جاتا ہے جب کہ اس کے اعضا میں ترتیب وتناسب برقرار ہو ۔اگر ان دونوں یعنے ترتیب و تناسب میں سے کوئی ایک یا دونوں بگڑ جائیں تو انسان خوبصورت ہونے کے بجائے بد صورت ہوجاتا ہے ۔
کلمۂ طیبہ دنیا ودین کا خوبصورت ترین کلمہ ہے اسکی خوبصورتی کا قائم رکھنا ہر مسلم ومؤمن کا فرض ہے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کلمہ کی ترتیب اوراسکا تناسب کیا ہے ؟
ہمیں اس بات کا پتہ ہے کہ اعتبارات الٰہیہ چار ہیں ۔آثار اللہ۔ افعال اللہ۔ صفات اللہ ۔ ذات اللہ ۔ انہیں اعتبارات الٰہیہ کے ذریعہ ہم پہلے کلمہ کی ترتیب معلوم کریں گے آثار اللہ پر کامل غور وفکر کے بعد اللہ ہی کو معبود قرار دیتے ہیں لہٰذا معبود صرف اللہ کو کہنا کلمہ کا پہلا مقام ہے ۔افعال اللہ پر کامل غوروفکرکرنے کے بعداللہ ہی کواپنامقصودقراردیتے ہیں لہٰذاکلمہ کا دوسرا مقام اللہ ہی کو اپنا مقصود کہنا ہے۔
صفات اللہ پر کامل ور وفکر کرنے کے بعد اللہ ہ کو ہم موجود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمہ کا تیسرا مقام صرف اللہ ہی کو موجود کہناہے ۔اللہ کے وجود پر کاملغور وفکرکرنے کے بعد اللہ ہی کو ہم مشہود قرار دیتے ہیں لہٰذا کلمے کا چوتھا مقام صرف اللہ ہی کو مشہود کہنا ہے اب کلمہ کی ترتیب یہ ہوئی کہ اللہ ہی ہمارا معبود ہے !جو معبود ہوگا وہی مقصود بھی ہوگا جو مقصود ہوگا وہی موجود بھی ہوگا اور جو موجود ہوگا وہی مشہود بھی ہوگا کلمے کو خوبصورت رکھنے کیلئے اس ترتیب کیحفاظت لازمی ہے ۔
اسی طرح کلمہ کے تناسب پر ایک غائر نظر ڈالیں گے ہمیں معلوم ہے کہ افراط وتفریط سے بچکر اسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ،یہاں بھی ہم ارتبارات الٰہیہ سے کام لیں گے ۔آثار میں افراط کرنا شرک جلی ہے ۔اورآثار میں تفریط کرنا تعطیل ہے (یعنی اللہ کو معل ٹھیرانا ہے ) التہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید اسمائی ہے
اسی طرح افعال میں فراط کرنا شرک خفی ہے اور افعال میں تفریط کرنا تعطیل ہے(یعنی اللہ کے افعال کومعطل ٹھیرانا) ہے البتہ افراط وتفریط سے بچکر توحید اوسط پر قائم رہناتوحید افعالی ہے ۔ صفات میں افراط کرنا شرک اخفیٰ ہے اور صفات کی تفریط اسکی تعطیل ہے(یعنی اللہ کی صفات کو معطل ٹھیرانا ہے) البتہ افراط وتفریط سے بچ کراوسط پرقائم رہنا توحیدصفاتی ہے ۔
اسی طرح وجود میں افراط شرک خفی الاخفیٰ ہے اور وجود میں تفریط اسکی تعطیل ہے (یعنی اللہ کے وجود کو معطل کردینا ہے ) لبتہ افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا توحید وجودی ہے ،لہٰذا کلمہ کو خوبصورت رکھنے کیلئے چاروں اعتبارات الٰہیہ میں افراط وتفریط سے بچکر اوسط پر قائم رہنا ہی کلمہ کا تناسب ہے ۔
جو کوئی مسلم مؤمن کلمۂ طیبہ کو ترتیب وتناسب کے ساتھ آراستہ کرکے اس کلمہ کاعلم اوراسکا عمل اللہ کے دربارمیں پیش کرتاہے تواللہ تعالیٰ ایسے مسلم سے تمام حجابات اٹھادیتے ہیں اوراپناقرب عنایت فرماتے ہیں قرب حق میں وہ لذت ہے جسکوصرف ایک عاشق ہی خوب جانتاہے
جسکااظہارنہ توزبان کرسکتی ہے اورنہ آنکھ میںیاراہے کہ دیکھ سکے اورنہ ہی کان میں قوت ہے کہ وہ سنکرسمجھ سکے
Related posts:
By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh