Reason for Creating the Universe
تخلیق عالم کی غایت کیا ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن
یہ قرآن کا اعلان ہے جو ہر قسم کے ریب وشک سے پاک ہے ۔اور عبادت بھی کیسی
لا تشرکو به شیا
کی قید کے ساتھ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا کہ
وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا
تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو تمام انبیا کا پیغام یہی تھا
یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ
یہی حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام تک سبہوں نے یہی پیغام پہنچایا اور حکم سنایا اور آخر میں حضور اکرم سرور کونین ا نے با آےۃ قرآنی اظہار فرمایا
قُلْ یٰٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا اَلَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ
میں تم سب کی طرف ایک اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس اللہ کی بادشاہی آسمانوں اور زمینوں میں وہی معبود وہی زندگی اور موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ۔
کلمہ طیبہ کے قال سے تسلیم حاصل ہوتی ہے اور علم سے تحقیق حاصل ہوتی ہے بلا ثبوت کلمہ کو قبول کرنے کو تسلیم کہتے ہیں اور اسی سے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا اسکو قبول کرلینے کے بعد اسکا ثبوت دینے کو تحقیق کہتے ہیں اور تحقیق قبول سے افضل ہے مگر قبول تحقیق پر مقدم ہے
لا الٰہ الا اللہ ۔۔اس میں لا کے ذریعہ غیر اللہ کے الٰہ ہونے کی نفی کی جاتی ہے اور الا کے ذریعہ اللہ ہی کے الٰہ ہونے کا اثبات کیا جاتا ہے اللہ اسم ذات ہے ہستئ محض ہے موجود بالذات ہے قائم بخود ہے الٰہ اسم وصفی ہے کلمۂ طیبہ میں اجمالی بیان بھی ہے اور تفصیل بھی اور تحقیق بھی ہے
دعوت ۔ تسلیم وتصدیق کی
ترغیب ۔ ادراک و تحقیق کی
اعتبارات الوہیت چار ہیں:(۱)آثار(۲)افعال(۳)صفات (۴)ذات
اللہ الٰہ ہیں اور حضرت محمد ﷺ رسول ہیں مرکز مخلوقات ہیں ۔حضرت محمدﷺ عبدا للہ بھی ہیں اور نور اللہ بھی ہیں رسول اللہ بھی ہیں سراہے ہوئے بھی ہیں بھیجے ہوئے بھی ہیں ۔محمد آقا ﷺکا اسم ذاتی ہے اس کے علاوہ آپﷺکے بے شمار اسما وصفات ہیں حضورﷺ سب کیلئے رسول ہیں اللہ کی الوہیت سمجھاتے ہیں اور اللہ کی معیت بتا تے ہیں
کلمۂ طیبہ کے یہ دووں اجزا قرآن میں ہیں دو مختلف جگہوں پر ہیں بارہ بارہ ہیں بے نقطہ ہیں نورانی ہیں اجمالی تسلیم سے نجات ملتی ہے اورتفصیلی تحقیق سے یافت ملتی ہے درجات ملتے ہیں ۔محمد رسول اللہ ﷺ حق کی تجلئ اول ہیں مظہر حق ہیں نور ہیں آئینۂ ذات ہیں باعث نمود کائنات ہیں رحمت عالم ہیں مقام محبوبی پر جلوہ افروز ہیں مقام محمود سے ممدوح وموصوف ہیں۔
کلمۂ طیبہ میں (تین) عنوان بنتے ہیں۔ اللہ۔ بندہ۔ رسول۔
آنحضور ﷺ کی دو شانیں ہیں پہلی شان لفظ محمد میں پوشیدہ ہے اور دوسری شان لفظ رسول میں پوشیدہ ہے حضور ﷺ کی پہلی شان محمد ابن عبد اللہ کی اور دوسری شان رسول اللہ کی دونوں شانیں اس آیت میں ظاہر ہیں قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌآپ کہہ دیجئے کہ سوائے اسکے نہیں کہ میں تم جیسا آدمی ہوں مگر وحی کی جاتی ہے میری جانب کہ تمہارا وہی ایک معبود ہے یہی دو شانیں کلمۂ شہادت سے بھی ثابت ہیں محمد بن عبد اللہ سے عبدیت کا اثبات ہوتا ہے اور رسول اللہﷺ سے رسالت کا اثبات ہوتا ہے اور لا الٰہ الا اللہ سے الوہیت کا اثبات ہوتا ہے تین لفظ خاص ہوئے اللہ بندہ رسول یہ تینوں لفظ کلمہ کی تحقیق ہی میں ہیں ایک ذات اللہ کی اور وسری ذات بندے کی کمال اللّٰہی سلسلہ میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اللہ کے لوازم کیا ہیں اور بندے کے لوازم کیا ہیں اللہ کے آداب کیا ہیں اور بندے کے آداب کیا ہیں اللہ کے حقوق کیا ہیں اور بندے کے حقوق کیا ہیں۔
اللہ کے لوازم صفات کمالیہ (حیات علم ارادہ قدرت سما عت بصارت کلام )
بندے کے لوازم صفات ناقصہ (موت جہل اضطرار عجز بہرہ پن اندھا پ گونگا پن )
اللہ کا ادب کیا ہے؟
اللہ کا ادب یہ ہے کہ اللہ اللہ ہی ہے چاہے وہ کتنا ہی تنزل یعنی تمثل یعنی ظہور کرے
بندے کا ادب کیا ہے ؟
بندے کا ادب یہ ہے کہ بندہ بندہ ہی ہے کتنا ہی عروج یعنی ترقی کرے
Jan 8 2015
Reason for Creating the Universe
Reason for Creating the Universe
تخلیق عالم کی غایت کیا ہے
میں تم سب کی طرف ایک اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس اللہ کی بادشاہی آسمانوں اور زمینوں میں وہی معبود وہی زندگی اور موت دیتا ہے تو اللہ پر اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ۔
کلمہ طیبہ کے قال سے تسلیم حاصل ہوتی ہے اور علم سے تحقیق حاصل ہوتی ہے بلا ثبوت کلمہ کو قبول کرنے کو تسلیم کہتے ہیں اور اسی سے کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا اسکو قبول کرلینے کے بعد اسکا ثبوت دینے کو تحقیق کہتے ہیں اور تحقیق قبول سے افضل ہے مگر قبول تحقیق پر مقدم ہے
لا الٰہ الا اللہ ۔۔اس میں لا کے ذریعہ غیر اللہ کے الٰہ ہونے کی نفی کی جاتی ہے اور الا کے ذریعہ اللہ ہی کے الٰہ ہونے کا اثبات کیا جاتا ہے اللہ اسم ذات ہے ہستئ محض ہے موجود بالذات ہے قائم بخود ہے الٰہ اسم وصفی ہے کلمۂ طیبہ میں اجمالی بیان بھی ہے اور تفصیل بھی اور تحقیق بھی ہے
دعوت ۔ تسلیم وتصدیق کی
ترغیب ۔ ادراک و تحقیق کی
اعتبارات الوہیت چار ہیں:(۱)آثار(۲)افعال(۳)صفات (۴)ذات
اللہ الٰہ ہیں اور حضرت محمد ﷺ رسول ہیں مرکز مخلوقات ہیں ۔حضرت محمدﷺ عبدا للہ بھی ہیں اور نور اللہ بھی ہیں رسول اللہ بھی ہیں سراہے ہوئے بھی ہیں بھیجے ہوئے بھی ہیں ۔محمد آقا ﷺکا اسم ذاتی ہے اس کے علاوہ آپﷺکے بے شمار اسما وصفات ہیں حضورﷺ سب کیلئے رسول ہیں اللہ کی الوہیت سمجھاتے ہیں اور اللہ کی معیت بتا تے ہیں
کلمۂ طیبہ کے یہ دووں اجزا قرآن میں ہیں دو مختلف جگہوں پر ہیں بارہ بارہ ہیں بے نقطہ ہیں نورانی ہیں اجمالی تسلیم سے نجات ملتی ہے اورتفصیلی تحقیق سے یافت ملتی ہے درجات ملتے ہیں ۔محمد رسول اللہ ﷺ حق کی تجلئ اول ہیں مظہر حق ہیں نور ہیں آئینۂ ذات ہیں باعث نمود کائنات ہیں رحمت عالم ہیں مقام محبوبی پر جلوہ افروز ہیں مقام محمود سے ممدوح وموصوف ہیں۔
کلمۂ طیبہ میں (تین) عنوان بنتے ہیں۔ اللہ۔ بندہ۔ رسول۔
آنحضور ﷺ کی دو شانیں ہیں پہلی شان لفظ محمد میں پوشیدہ ہے اور دوسری شان لفظ رسول میں پوشیدہ ہے حضور ﷺ کی پہلی شان محمد ابن عبد اللہ کی اور دوسری شان رسول اللہ کی دونوں شانیں اس آیت میں ظاہر ہیں قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌآپ کہہ دیجئے کہ سوائے اسکے نہیں کہ میں تم جیسا آدمی ہوں مگر وحی کی جاتی ہے میری جانب کہ تمہارا وہی ایک معبود ہے یہی دو شانیں کلمۂ شہادت سے بھی ثابت ہیں محمد بن عبد اللہ سے عبدیت کا اثبات ہوتا ہے اور رسول اللہﷺ سے رسالت کا اثبات ہوتا ہے اور لا الٰہ الا اللہ سے الوہیت کا اثبات ہوتا ہے تین لفظ خاص ہوئے اللہ بندہ رسول یہ تینوں لفظ کلمہ کی تحقیق ہی میں ہیں ایک ذات اللہ کی اور وسری ذات بندے کی کمال اللّٰہی سلسلہ میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اللہ کے لوازم کیا ہیں اور بندے کے لوازم کیا ہیں اللہ کے آداب کیا ہیں اور بندے کے آداب کیا ہیں اللہ کے حقوق کیا ہیں اور بندے کے حقوق کیا ہیں۔
اللہ کے لوازم صفات کمالیہ (حیات علم ارادہ قدرت سما عت بصارت کلام )
بندے کے لوازم صفات ناقصہ (موت جہل اضطرار عجز بہرہ پن اندھا پ گونگا پن )
اللہ کا ادب کیا ہے؟
اللہ کا ادب یہ ہے کہ اللہ اللہ ہی ہے چاہے وہ کتنا ہی تنزل یعنی تمثل یعنی ظہور کرے
بندے کا ادب کیا ہے ؟
بندے کا ادب یہ ہے کہ بندہ بندہ ہی ہے کتنا ہی عروج یعنی ترقی کرے
Related posts:
By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh