Qaal e Saheeh – Kalima e Tayyeba
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال صحیح
کلمۂ طیبہ
کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ ہے اس میں عموماً لفظ طیب استعمال ہوتا ہے طیب کے معنیٰ پاک کے ہیں اور طیب سے دو مرادیں واضح ہیں ۔
(۱) پاک چیز وہ ہے جس سے ناپاکیاں دور کردی گئی ہوں اور ایسے وقت مراد یہ ہوتی ہے کہ کلمۂ طیبہ کا اقرار کرنے والا اور تصدیق کرنے والا کفر اور شرک کی نجاستوں سے اور ضلالت وگمراہی کی ناپاکیوں سے دور ہوجاتا ہے اور ایک معنی پسندیدہ کے آتے ہیں کلمہ پڑھنے والا شخص اللہ کے نزدیک محبوب وپسندیدہ ہوجاتا ہے ۔کوئی بھی شخص اللہ کا محبوب وپسندیدہ اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اپنی پسند ترک کرتا ہے اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پسند کردہ چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔
کلمۂ طیبہ لا سے شروع ہوتا ہے اور لا کے معنیٰ نہیں کے ہیں
نفی کا حصول بغیر انکار کے ناممکن ہے تو یہاں مراد اس طرح بیٹھے گی کہ وہ دو طرح کا انکار ہے جس کے بعد ایک اقرار وجود میں آتا ہے پہلا ذات حق سے صفات نقص وزوال کا انکار کرنا ضروری ہے ۔اور مخلوقات سے ان میں کمالات کے اصلی اور ذاتی ہونے کا انکار ان دونوں طرح کے انکار سے ایک اقرار ہویدا ہوتا ہے
اللہ ایک ایسی ذات ہے جوجامع جمیع الکمالات ہے موصوف بہ صفات کمال ہے اور ہر نقص وزوال سے پاک ذات ہے ۔
اس کلمہ کی بڑی اہمیت اور فضیلت وعظمت ہے اور قرآن مجید میں خاص طور پر اس کلمہ کو جاننے اس کا علم حاصل کرنے کا حکم ہے ۔چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
فاعلم انہ لا الٰہ الا اﷲ
آنحضرتﷺ کو مخاطب فرماکر اللہ پاک نے فرمایا کہ آپ لاالٰہ الا اللہ کا علم حاصل کیجئے
اس کلمۂ طیبہ کی ابتدائی لیکن نہایت اہم بات پیش کی جارہی ہے عام طور پر خانوادوں میں طریقت کا علم ہے نہیں اور اگرہے بھی تو کامل نہیں اور اگر کسی درجہ میں دستیاب ہے تو تو بے شمار پردے حائل ہیں ہمیں سلسلوں اور روحانیت کا تفصیلی علم والد ماجد حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحب ؒ سے ملا ویسے دیگر اولاء اللہ سے بھی استفادہ ہواخاص طور پر کمال اللّٰہی سلسلہ کے حضرت درویش میر شبیر علی صاحب چشتی بی ائے بی ایڈ (علیگ ) جانشین حضرت شاہ سید حسین ؒ خلیفۂ اول حضرت شاہ کمال اللہ ؒ سے قال صحیح سے استفادہ ہے حق تعالیٰ افادیت عامہ کی شکل پیدا فرمادے آمین
Jan 8 2015
Qaal e Saheeh – Kalima e Tayyeba
Qaal e Saheeh – Kalima e Tayyeba
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال صحیح
کلمۂ طیبہ
کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ ہے اس میں عموماً لفظ طیب استعمال ہوتا ہے طیب کے معنیٰ پاک کے ہیں اور طیب سے دو مرادیں واضح ہیں ۔
(۱) پاک چیز وہ ہے جس سے ناپاکیاں دور کردی گئی ہوں اور ایسے وقت مراد یہ ہوتی ہے کہ کلمۂ طیبہ کا اقرار کرنے والا اور تصدیق کرنے والا کفر اور شرک کی نجاستوں سے اور ضلالت وگمراہی کی ناپاکیوں سے دور ہوجاتا ہے اور ایک معنی پسندیدہ کے آتے ہیں کلمہ پڑھنے والا شخص اللہ کے نزدیک محبوب وپسندیدہ ہوجاتا ہے ۔کوئی بھی شخص اللہ کا محبوب وپسندیدہ اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اپنی پسند ترک کرتا ہے اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پسند کردہ چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔
کلمۂ طیبہ لا سے شروع ہوتا ہے اور لا کے معنیٰ نہیں کے ہیں
نفی کا حصول بغیر انکار کے ناممکن ہے تو یہاں مراد اس طرح بیٹھے گی کہ وہ دو طرح کا انکار ہے جس کے بعد ایک اقرار وجود میں آتا ہے پہلا ذات حق سے صفات نقص وزوال کا انکار کرنا ضروری ہے ۔اور مخلوقات سے ان میں کمالات کے اصلی اور ذاتی ہونے کا انکار ان دونوں طرح کے انکار سے ایک اقرار ہویدا ہوتا ہے
اللہ ایک ایسی ذات ہے جوجامع جمیع الکمالات ہے موصوف بہ صفات کمال ہے اور ہر نقص وزوال سے پاک ذات ہے ۔
اس کلمہ کی بڑی اہمیت اور فضیلت وعظمت ہے اور قرآن مجید میں خاص طور پر اس کلمہ کو جاننے اس کا علم حاصل کرنے کا حکم ہے ۔چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
Related posts:
By silsilaekamaliya • Qaal e Saheeh • Tags: Qaal e Saheeh