Mufassir e Quran Hazrath Maulana Shah Mohammed Kamal ur Rahman Sahab DB, Son and Successor of Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab R.A
زکوٰۃ
مفسرِقرآن حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم، خلیفہ سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ
حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
الحمد ﷲ الذی جاعل الظلمت والنور نشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ شھادۃ ادخرھا لیوم النشور۔ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ باعث الکون وصاحب الجیش المنصور صلی اﷲ علیہ وعلی اٰلہ واصحابہ مصباح الھدی والنور وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا الی یوم النشور. أما بعد!
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)
ترجمہ: بے شک اتارا ہم نے اس قرآن کو قدر کی رات میں اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر کام کیلئے سلامتی کی رات ہے۔ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک رہتا ہے۔
شانِ نزول پہلا سبب:ایک دن حضور اکرم ا نے صحابہ کرامؓ سے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا حال بیان فرمایا کہ اس نے ایک ہزار مہینے عبادت کی روز دن کو روزہ رکھتا رات عبادت الٰہی میں مصروف رہتا۔ اور دن کو روز ہ کی حالت میں کفار سے جہاد کرتا رہتا۔ اس کے اس نیک عمل ‘پیہم جدو جہد اور کارِ ثواب میں بکثرت مشغولیت کی بات سن کر صحابہؓ کو رشک ہوا۔
کہنے لگے یا رسول اﷲ ! ہم اس شخص کے ثواب کو کیسے پہنچ سکیں گے کہ ہماری عمریں بھی بہت کم ہیں۔ اس میں بھی کچھ حصہ سو نے میں کچھ حصہ تلاش معاش میں کچھ حصہ دیگر ضروریات میں اور کچھ امراض وکاہلی میں بسر ہوجاتا ہے عبادت کیلئے وقت بہت کم ملتا ہے حضور ا اس حقیقت بیانی کو سن کر کچھ ملول سے ہوئے تو دفع ملال کیلئے یہ سورۃ ناز ل ہوئی جس میں شب قدر کی اہمیت ‘فضیلت‘حقیقت‘ بتاکر بہت بڑی نعمت سے سرفراز کیا گیا۔ دوسرا سبب:ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ جب حضورؐ نے دیکھا کہ آپ کی امت کی عمر یں بالعموم ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں اور اگلی امتوں کی عمر یں سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس کی رہیں تو آپ کی تسلی کیلئے اور اس امت کے عمل خیر اور عظمت کو بڑھانے کیلئے اﷲ نے شب قدر کی دولت عطا فرمائی۔ تیسرا سبب: بنی اسرائیل کی چار منتخب اور برگزیدہ ہستیوں یعنی حضرت ایوب، زکریاؑ ، حزقیل ؑ اور یو شع ں نے ایک لمحہ لغزش میں گزارے بغیر اسّی سال تک عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔ تو اس پر صحابہ ؒ نے رشک کیا‘ اپنی عمروں کے قلیل ہونیکی وجہ سے بڑے ثواب کے حصول کی مشکل محسوس کی توحضرت جبرائیلںآئے اور منجانب اﷲ سورہ قدر لائے اور اسی۰۸ برس کی عبادات سے بڑھ کر اور بہتر رات کی خوشخبری سنائی۔ چوتھا سبب: بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا بڑا نیک تھا اس وقت کے رسول پر وحی آئی کہ اس بادشاہ سے کہو کہ جو آرزو ہو بیان کرے تو اس نے یہ آرزو ظاہر کی کہ میں چاہتا ہوں کہ اموال اور اولاد کے ذریعہ راہ خدا میں جہاد کروں تو اﷲ نے اس بادشاہ کو ہزار لڑکے دیے چنانچہ وہ بادشاہ اس کے بعد اپنے ایک بیٹے کو جہاد پر روانہ کرتا جب وہ شہید ہوتاتو دوسرے کو بھیجتا۔ ایک ہزار مہینوں تک اسی طرح کرتا رہا۔ سب بچے شہید ہوگئے تو آخر میں خود اس نے جہاد کیا اور شہید ہوا۔ اس کے پاکیزہ عمل کرنیکی فکر صحابہث کو دامن گیر ہوئی تو اﷲ تعالی نے اپنے فضل سے سورہ قدر نازل فرمائی۔
وجوہِ تسمیہ
اس رات کو شب قدر کیوں کہتے ہیں ؟
پہلی وجہہ
قدر کے معنی شرف اور بزرگی کے آتے ہیں۔ جیسے کسی کی بزرگی بیان کرنا ہوتو کہتے ہیں ’’عالی قدر‘‘ یعنی اعلیٰ مرتبہ۔ چوں کہ طاعات کا اس رات میں رتبہ بڑھ جاتا ہے ‘ فرمانبردار بن کر بندے عالی قدر اور عالی مرتبہ ہوتے ہیں۔ فرشتے ذی مرتبہ انسانوں کی قدر کرتے ہیں انھیں سلام کرتے ان سے مصافحہ کرتے اور ان کو دعا دیتے ہیں اسلئے اسے شب قدر کہتے ہیں۔ دوسری وجہہ
اﷲ تعالی نے ’’ قدر‘‘ لفظ اس سورۃ میں تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے۔ چوں کہ یہ عالی قدر کتاب عالی مرتبہ فرشتے کے ذریعہ اور شرف و قدر والی امت پر لیلۃ القدر میں نازل ہوئی۔ اسلئے اسے قدر کہا جاتا ہے۔ تیسری وجہ
’’قدر‘‘ کے ایک معنیٰ تنگی کے بھی آتے ہیں۔ چوں کہ اس شب میں عام و خاص ملائکہ کے ناز ل ہونے کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ ا سلئے اسے قدر کہتے ہیں۔ چوتھی وجہ
قدر کے ایک معنی تقدیرکے ہیں۔ کائنات میں ہونے والے سال بھر کے تقدیری امور کے جو فیصلے ہوتے ہیں ان سے متعلق امور قدر میں ظاہر ہوتے ہیں اور ملائکہ کے حوالہ کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔ پانچویں وجہ
اس شب کی ساری عظمتیں بتاکر قدر کرنے کی دعوت دی گئیں ہے۔ ا س لئے اس کو شب قدر سے موسوم کیا گیا۔ خصوصیت امت محمدیہ ؑ
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؑ نے فرمایا کہ شب قدر حق تعالیٰ نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے پہلی امتوں کو نہیں ملی۔ تفسیری پہلو
نزول ملائکہ کے بارے میں علامہ رازی ؒ لکھتے ہیں کہ ملائکہ نے جب تجھے دیکھا تھا تو مجھ سے نفرت ظاہر کی تھی اور عرض کیا تھا فتنہ مچانے والے اور خون بہانے والوں کو آپ پیدا فرماتے ہیں۔ اس کے بعد والدین نے جب تجھے دیکھا تھا جب کہ تو منی کا قطرہ تھا تجھ سے نفرت کی تھی کپڑے کو لگ جاتا تو دھونے کی نوبت آتی لیکن جب حق نے اس قطرہ کو بہتر صورت دیدی تو والدین کو بھی پیار کی نوبت آئی اور آج جب کہ تو شب قدر میں معرفت الٰہی اور طاعت میں مشغول ہے تو ملائکہ بھی اس فقرہ کی معذرت کرنے کیلئے اتر تے ہیں ۔ روح سے مراد ؟
بقول جمہور مفسرین کے روح سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں۔ لفظ روح سے اور بھی کئی مراد یں مفسرین اور شارحین نے نقل کئے ہیں مگر امام رازی ؒ فرماتے ہیں کہ یہی زیادہ صحیح ہے:
عن انسؓ قال قال ؑ اذا کان لیلۃ القدر نزل جبرائیلؑ فی کبکبۃ الملائکۃ یصلون علی کل عبد قائم اوقاعد یذکر اﷲ ( بیہقی)
بہ روایت حضرت انسؓ ارشاد رسول اللہ امنقول ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرائیل ؑ ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور ہر اس شخص کیلئے جو کھڑے یابیٹھے اﷲ کا ذکر کر رہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دعاء رحمت کرتے ہیں۔ ارشادِ محبوب سبحانی ؒ
حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فرشتے حضرت جبرائیل ؑ سے کہنے سے متفرق ہوجاتے ہیں۔ اور کوئی گھر چھوٹا یا بڑا جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور فرشتے وہاں نہ جاتے ہوں لیکن اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا سور ہو یا حرام کاری کی وجہ سے جنبی ہو یا تصویر ہو۔ (شب قدر کے فضائل سے محروم لوگوں کے اَتے پتے ملتے ہیں اﷲ تعالی ہی حفاظت فرمائے)
عن انسؓ قال دخل رمضان فقال رسول اﷲ ان ھذا لشھر قدحضرکم فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولایحرم خیرہا الا محروم (ابن ماجہ )
ارشاد رسول ؑ ہے تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر جو حقیقتاً محروم ہو۔ جزائے قدر اعمال
عن ابی ھریرہؓ قال قال رسولا من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ۔ جو شخص شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ عبادت کیلئے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔ نوٹ :
ایمان و احتساب کا مطلب تلاوت‘ذکر ‘دعا‘ عبادت میں مشغول ہونا اور ثواب کی نیت ویقین سے بشاشت قلبی سے اﷲ کو راضی کر تے رہو۔ نوٹ:
جبرائیل ؑ اور فرشتے جس کسی کو عبادت میں مشغول دیکھتے ہیں اس کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں دعاء رحمت وسلامتی کو ہی سلام فرما یا گیا ہے۔
فضائل شب قدر
۱) حق تعالی کی توجہ خاص اور شان تقرب کا اس رات میں ظہور ہوتا ہے۔
۲)عبادتوں کی حلاوت بڑھ جاتی ہے کثرت طاعت پر دل متوجہ ہوتا ہے۔
۳)ملائکہ جوق در جوق بکثرت باذن رب اتر تے رہتے ہیں اور عالم پر کیف و روحانی ہوجاتا ہے۔
۴)عالم غیب کا عالم شہادت سے، عالم بالا کا عالم ناسوت سے ایک خاص ربط و میلان ہویدا رہتا ہے اس لیے تجلیات و انوار کی یہ بارش باعث قدر و فضیلت بنتی ہے۔
۵)اس شب میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا ۔
۶)فرشتے اسی شب پیدا کئے گئے۔
۷)جنت اسی شب سنواری جاتی ہے۔
۸)آدم علیہ والسلام کی پیدائش کا مادہ اسی شب جمع کیا گیا۔
۹)اس رات کیا ہوا نیک عمل اﷲ کے نزدیک سلیمانی بادشاہت سے بھی بڑھ کر ہے۔
۱۰)شبِ قدر تیس ہزار دنوں اور تیس ہزار راتوں سے بڑھ کر فضیلت رکھتی ہے۔
۱۱)شب قدر میں فرشتے صالحین کے پاس آتے اور انھیں سلام کرتے ان کو خوشخبری دیتے اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔
۱۲)حضور ا نے فرمایا کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ اس رات قیام کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔
۱۳)شب قدر ایک ہزار مہینے یعنی ۳۸ سال چار مہینے سے زیادہ مرتبہ والی ہے۔
۱۴)حضور ا نے فرمایا جس شخص نے شب قدر میں مغرب و عشاء جماعت سے پڑھی اس نے شب قدر سے حصہ پالیا۔
۱۵)جس نے سورۃ القدر پڑھی اس نے ایک چوتھائی قرآن پڑھا۔
فوائد سورۂ قدر
*جو شخص صبح شام تین تین مرتبہ سورۃ قدر پڑھے تو سب لوگ اس کی عزت کریں گے اور مراتب علوی کے واسطے ہمیشہ ورد رکھنا عجیب و غریب ہے۔ اور اگر کسی چینی برتن پر مریض کو پلائیں توانشاء اﷲ شفاء ہوگی۔
*حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جو شخص شب قدر میں بعد نماز عشاء سورۃ قدر سات مرتبہ پڑھے اﷲ تعالی اس کو ہر بلا سے محفوظ رکھے گا۔
*۳۶ مرتبہ سورۃ قدر پڑھ کر پانی پر دم کرکے لباس پر چھڑک لیں اور پہنیں ۔ اس لباس کے جسم پر رہنے تک رزق میں وسعت رہے گی۔
*جو شخص سورۃ قدر ایک ہزار مرتبہ بہ روز جمعہ پڑھے گا تو وہ انشاء اللہ خواب میں حضوراکرم ا کے دیدار سے مشرف ہوگا۔
تعینِ قدر میں رکاوٹ کیوں ہوئی؟
عن عبادہ ابن الصامتؓ قال خرج النبی ؑ لیخبرنا بلیلۃ القدر فتلاحی رجلان من المسلمین فقال خرجت لاخبرکم لیلۃ القدر فتلاحی فلان‘ وفلان‘ فرفعت و عسی ان یکون خیرا لکم قالتسموھا فی التاسعۃ والسابعۃ والخامسہ (مشکوۃ)
حضرت عبادہؓ نے کہا کہ حضورؐ کو شب قدر دکھائی گئی تو آپ ؐہمیں اطلاع دینے کیلئے نکلے۔ اس اثناء میں دو شخص آپس میں لڑرہے تھے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ میں اس لئے باہر آیا تھا کہ تمہیں شب قدر سے مطلع کروں کہ کونسی رات ہے مگر دو شخصوں کی خصومت اور نزاع اور جھگڑے کے سبب وہ رات اٹھالی گئی پس تم لوگ اس کو ۲۵‘۲۷‘۲۹‘ کو تلاش کرو۔
شب قدر چھپائے جانے کی حکمتیں
حکمت
(۱)بندے ہر وقت خدا کی طرف متوجہ رہیں۔
(۲)تلاش اور جستجو کا ثواب دلایا جائے ۔
(۳)تمام راتوں کی قدر کرنا نصیب ہو۔
(۴)غفلت اور کوتاہی سے بچیں۔
(۵)شب قدر میں کئے ہوئے اعمال پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں ۔
(۶)شب قدر ظاہر ہوتی تو نیک لوگ ثواب کما لیتے مگر بد نصیب گنہگار لوگ اپنی خراب عادتوں کی وجہ سے اس شب میں نحوست کا شکار ہوتے اور قہر خدا میں گرفتار ہوتے اسی لئے قدر چھپائی گئی اس کو بھی حق کی رحمت خاص کہا جاسکتا ہے۔
علامات شب قدر
۱)شب قدر کی صبح سورج صاف بے شعاع چودھویں رات کے چاند کی طرح نکلتا ہے۔
۲)درخت سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔
۳)ہر مکان نورانی معلوم ہوتا ہے۔
۴)دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
۵)موسم معتدل رہتا ہے نہ زیادہ گرمی نہ زیادہ سردی بلکہ خوشگوار موسم رہتا ہے
۶)فرشتوں کا سلام اور خطاب اہل دل سنتے ہیں۔
۷)عبادت میں لذت معلوم ہوتی ہے۔
۸)شب قدر میں شیطان نہیں نکلتا۔
۹)حضرت ایوب بن خالد ؒ اور حضرت عبدہ بن ابی البابہؓ شب قدر میں انھوں نے کھارے پانی کو میٹھا پایا ہے۔
۱۰)حضرت جبرئیل ؑ اور فرشتے عبادت گذار مسلمانوں سے سلام و مصافحہ کرتے ہیں۔
۱۱)جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل نرم پڑجاتے ہیں ‘آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔
دعاء قدر
عن عائشۃؓ قالت قلت یا رسول اﷲ ارایت ان علمت ای لیلۃ القدر مااتول فیھا قال قولی۰ اللھم انّک عفو تحب العفو فاعف عنی۰
حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں حضور ؑ نے فرمایا کہو اے اﷲ تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو پس معاف کردے مجھ کو بھی۔
بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو زکوٰۃ سے بالکل بے پروا ہیں ، العیاذ باﷲ وہ تو زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں ، ان کی سوچ تو یہ ہے کہ یہ ڈھائی فیصد کیوں دیں ؟ بس جو مال آرہا ہے وہ آئے ، دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں جن کو زکوٰۃ کا کچھ نہ کچھ احساس ہے ، وہ زکوٰۃ نکالتے بھی ہیں لیکن زکوٰۃ نکالنے کا جو صحیح طریقہ ہے وہ طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ جب ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض کی گئی تو اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک حساب لگاکر زکوٰۃ نکالی جائے، بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کون حساب کتاب کرے ، کون سارے اسٹاک کو چیک کرے، لہٰذا بس اندازہ کرکے زکوٰۃ نکال دیتے ہیں ، اب اس اندازے میں غلطی بھی واقع ہوسکتی ہے اور زکوٰۃ نکالنے میں کمی بھی ہوسکتی ہے ، اور اگر زکوٰۃ زیادہ نکال دی جائے انشائﷲ مواخذہ نہیں ہوگا ، لیکن اگر ایک روپیہ بھی کم ہوجائے یعنی جتنی زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس سے ایک روپیہ کم زکوٰۃ نکالی تو یادرکھئے وہ ایک روپیہ جو آپ نے حرام طریقے سے اپنے پاس روک لیا ہے وہ ایک روپیہ سارے مال کو برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس لئے ہم زکوٰۃ اس طرح نکالیں جس طرح اﷲ اور اس کے رسول ا نے ہمیں بتایا ہے اور اس کو حساب کتاب کے ساتھ نکالیں ۔ صرف اندازہ سے نہ نکالیں ۔
زکوٰۃ کا نصاب:
زکوٰۃ کا نصاب یہ ہے: ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا نقد روپیہ یا زیور یا سامانِ تجارت وغیرہ، جس شخص کے پاس یہ مال اتنی مقدار میں موجود ہوتو اس کو صاحب ِ نصاب کہاجاتا ہے۔
اموالِ زکوٰۃ کون کونسے ہیں ؟
(۱) نقد روپیہ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو ، چاہے وہ نوٹ ہوں یا سکے ہوں ۔
(۲) سونا چاندی، چاہے وہ زیور کی شکل میں ہو یا سکے کی شکل میں ہو، بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ رہتا ہے کہ جو خواتین کا استعمالی زیور ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے ، یہ بات درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ سونے چاندی کے زیور پر زکوٰۃ واجب ہے ، لیکن اگر سونے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا زیور چاہے پلاٹینم ہی کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ، اسی طرح ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ نہیں جب تک تجارت کے لئے نہ ہوں بلکہ ذاتی استعمال کے لئے ہوں ۔
سامانِ تجارت کی قیمت کے تعین کا طریقہ
دوسری چیز جس پر زکوٰۃ فرض ہے وہ ہے ’’سامانِ تجارت‘‘ مثلاً کسی دکان میں سامان برائے فروخت رکھاہوا ہے ، اس سارے اسٹاک پر زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ اسٹاک کی قیمت لگاتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ آدمی زکوٰۃ نکالتے وقت یہ حساب لگائے کہ اگر میں پورا اسٹاک اکھٹا فروخت کروں تو بازار میں اس کی کیا قیمت لگے گی، دیکھئے ایک ’’ریٹل پرائس‘‘ ہوتی ہے اور دوسری ’’ہول سیل پرائس‘‘، تیسری صورت یہ ہے کہ پورا اسٹاک اکھٹا فروخت کرنے کی صورت میں کیا قیمت لگے گی ، لہٰذا جب دکان کے اندر جو مال ہے اس کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جارہا ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ تیسری قسم کی قیمت لگائی جائے ، وہ قیمت نکال کر پھر اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں نکالنا ہوگا، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ عام’’ہول سیل قیمت‘‘ سے حساب لگاکر اس پر زکوٰۃ ادا کردی جائے۔
مالِ تجارت میں کیا کیا داخل ہے؟
اس کے علاوہ مالِ تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو ، لہٰذا اگر کسی شخص نے بیچنے کی غرض سے کوئی پلاٹ خریدا یا زمین خریدی یاکوئی مکان خریدا یا گاڑی خریدی اور اس مقصد سے خریدی کہ اس کو بیچ کرنفع کماؤں گا، تو یہ سب چیزیں مالِ تجارت میں داخل ہیں ، لہٰذا اگر کوئی پلاٹ، کوئی زمین ، کوئی مکان خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ میں اس کو فروخت کروں گا تو اس کی مالیت پرزکوٰۃ واجب ہے، بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ’’انویسمنٹ‘‘ کی غرض سے پلاٹ خرید لیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اس پر اچھے پیسے ملیں گے تو اس کو فروخت کردوں گا اور فروخت کرکے اس سے نفع کماؤں گا، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ، لیکن پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنوالیں گے، یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے ، یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے ، کوئی ایک نیت واضح نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خرید کر ڈال دیا ہے ، اب اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ آئندہ کسی وقت اس کو مکان بناکر وہاں رہائش اختیار کرلیں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کرائے پر چڑھادیں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ فروخت کردیں گے تو اس صورت میں اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، لہٰذا زکوٰۃ صرف اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو، یہاں تک کہ اگر پلاٹ خریدتے وقت شروع میں یہ نیت تھی کہ اس پر مکان بناکر رہائش اختیار کریں گے ، بعد میں ارادہ بدل گیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ اب اس کو فروخت کرکے پیسے حاصل کرلیں گے تو محض نیت اور ارادہ کی تبدیلی سے فرق نہیں پڑتا ، جب تک آپ اس پلاٹ کو واقعتا فروخت نہیں کردیں گے اور اس کے پیسے آپ کے پاس نہیں آجائیں گے اس وقت تک اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، بہرحال ہر وہ چیز جسے خریدتے وقت ہی اس کو فروخت کرنے کی نیت ہو ، وہ مال ِ تجارت ہے اور اس کی مالیت پرڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہے ۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مالیت اس دن کی معتبر ہوگی جس دن آپ زکوٰۃ کا حساب کررہے ہیں ، مثلاً ایک پلاٹ آپ نے ایک لاکھ روپئے میں خریدا اور آج اس پلاٹ کی قیمت دس لاکھ ہوگئی، اب دس لاکھ پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی ، ایک لاکھ پر نہیں نکالی جائے گی۔
کارخانہ کی کن کن اشیاء پر زکوٰۃ واجب ہے؟
اگر کوئی شخص فیکٹری کا مالک ہے تو اس فیکٹری میں جو تیار شدہ مال ہے اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے ، اسی طرح جو مال تیاری کے مختلف مراحل میں ہے یا خام مال کی شکل میں ہے اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے ، البتہ فیکٹری کی مشینری ، بلڈنگ، گاڑیوں وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں، اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی کاروبار میں شرکت کے لئے روپیہ لگایا ہوا ہے ، اور اس کاروبار کا کوئی مناسب حصہ اس کی ملکیت ہے تو جتنا حصہ اس کی ملکیت ہے اس حصے کی بازاری قیمت کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوگی۔
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ نقد روپیہ جس میں بینک بیلنس اور فائینانشیل انسٹرومنٹس بھی داخل ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہے ، اور سامانِ تجارت جس میں تیار مال ، خام مال اور جو تیاری کے مراحل میں ہیں ، اس کے علاوہ ہر چیز جو آدمی نے فروخت کی غرض سے خریدی ہو وہ بھی سامانِ تجارت میں داخل ہے۔
واجب الوصول قرضوں پر زکوٰۃ
ان کے علاوہ بہت سی رقمیں وہ ہوتی ہیں جو دوسروں سے واجب الوصول ہوتی ہیں، مثلاً دوسروں کو قرض دے رکھا ہے یا مثلاً مال ادھار فروخت کررکھا ہے اور اس کی قیمت ابھی وصول ہونی ہے ، تو جب آپ زکوٰۃ کا حساب لگائیں اور اپنی مجموعی مالیت نکالیں تو بہتر یہ ہے کہ ان قرضوں کو واجب الوصول رقموں کو آج ہی آپ اپنی مجموعی مالیت میں شامل کرلیں، اگرچہ شرعی حکم یہ ہے کہ جو قرضے ابھی وصول نہیں ہوئے تو جب تک وصول نہ ہوجائیں اس وقت تک شرعاً ان پرزکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی، لیکن جب وصول ہوجائیں تو جتنے سال گزرچکے ہیں ان تمام پچھلے سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، مثلاً فرض کریں کہ آپ نے ایک شخص کو ایک لاکھ روپیہ قرضہ دے رکھا تھااور پانچ سال کے بعد وہ قرضہ آپ کو واپس ملا تو اگرچہ اس ایک لاکھ روپئے پر ان پانچ سالوں کے دوران تو زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں تھی ، لیکن جب وہ ایک لاکھ روپئے وصول ہوگئے تو ان گذشتہ پانچ سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، توچونکہ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ یک مشت ادا کرنے میں بعض اوقات دشواری ہوتی ہے، لہٰذا بہتریہ ہے کہ ہر سال اس قرض کی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کردی جایا کرے، لہٰذا جب زکوٰۃ کا حساب لگائیں تو ان قرضوں کو بھی مجموعی مالیت میں شامل کرلیا کریں ۔
قرضوں کی منہائی
پھر دوسری طرف یہ دیکھیں کہ آپ کے ذمے دوسرے لوگوں کے کتنے قرضے ہیں ؟ اور پھر مجموعی مالیت میں سے ان قرضوں کو منہا کردیں ، منہا کرنے کے بعد جو باقی بچے وہ قابل ِ زکوٰۃ رقم ہے ، اس کا ڈھائی فیصد نکال کر زکوٰۃ کی نیت سے ادا کریں ، بہتر یہ ہے کہ جو رقم زکوٰۃ کی بنے اتنی رقم الگ نکال کر محفوظ کرلیں ، پھر وقتاً فوقتاً اس کو مستحقین میں خرچ کرتے رہیں ، بہرحال زکوٰۃ کا حساب لگانے کا یہ طریقہ ہے۔
زکوٰۃ مستحق کو ادا کریں
دوسری طرف زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بھی شریعت نے احکام بتائے ہیں، میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اﷲ جل جلالہٗ نے یہ نہیں فرمایا کہ زکوٰۃ نکالو، نہ یہ فرمایا کہ زکوٰۃ پھینکو، بلکہ فرمایا: اٰتوا الزکوۃ ’’زکوٰۃ ادا کرو‘‘ یعنی یہ دیکھو کہ اس جگہ پر زکوٰۃ جائے جہاں شرعاً زکوٰۃ جانی چاہئے، بعض لوگ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ زکوٰۃ نکال کر کسی کے حوالے کردی اور اس کی تحقیق نہیں کی کہ یہ صحیح مصرف پر خرچ کرے گا یا نہیں؟ آج بے شمار ادارے دنیا میں کام کررہے ہیں ، ان میں بہت سے ادارے ایسے بھی ہوں گے جن میں بسا اوقات اس بات کا لحاظ نہیں ہوتا کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح مصرف پر خرچ ہورہی ہے یا نہیں ؟ اس لئے فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرو یعنی جو مستحق ِ زکوٰۃ ہے اس کو ادا کرو۔
مستحق کون؟
اس کے لئے شریعت نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ زکوٰۃ صرف انہی اشخاص کو دی جاسکتی ہے جو صاحب ِ نصاب نہ ہوں، یہاں تک کہ اگر ان کی ملکیت میں ضرورت سے زائد ایسا سامان موجود ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتا ہے تو بھی وہ مستحق ِ زکوٰۃ نہیں رہتا، مستحق ِ زکوٰۃ وہ ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا کوئی سامان ضرورت سے زائد نہ ہو۔
کن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
یہ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم انسان کے اندر یہ طلب اور جستجو خود بخود پیدا کرتا ہے کہ میرے پاس زکوٰۃ کے اتنے پیسے موجود ہیں ان کو صحیح مصرف میں خرچ کرنا ہے ، اس لئے وہ مستحقین کو تلاش کرتا ہے ، وہ کون کون لوگ مستحق ہیں اور ان مستحقین کی فہرست بناتا ہے ، پھرزکوٰۃ پہنچاتا ہے ، یہ بھی انسان کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے محلے میں ، ملنے جلنے والوں میں ، عزیزواقارب اور رشتہ داروں میں ، دوست احباب میں جو مستحق ِ زکوٰۃ ہوں ان کو زکوٰۃ ادا کریں ، ان میں سب سے افضل یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ ادا کریں ، اس میں ڈبل ثواب ہے ، زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب بھی ہے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب بھی ہے اور تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ، صرف دو رشتے ایسے ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ، ایک ولادت کا رشتہ ہے ، لہٰذا باپ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا ، دوسرا نکاح کا رشتہ ، لہٰذا شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی ، ان کے علاوہ باقی تمام رشتوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً بھائی کو، بہن کو ، چچا کو، پھوپھی کو، ماموں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، البتہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ مستحق ِ زکوٰۃ ہواور صاحب ِ نصاب نہ ہو۔
ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کے لئے شرعاً کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے اور نہ کوئی زمانہ مقرر ہے کہ اس زمانے میں یا اس تاریخ میں زکوٰۃ ادا کی جائے ، بلکہ ہر آدمی کی زکوۃ کی تاریخ جدا ہوتی ہے ، شرعاً زکوٰۃ کی اصل تاریخ وہ ہے جس تاریخ اور جس دن آدمی پہلی مرتبہ صاحب ِ نصاب بنا۔ بہ شکریہ انوارِ اسلام
اﷲ جل ِ شانہ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس آخری امت کو بڑی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے، دوسری ساری امتوں کے مقابلہ میں اس امت کو کچھ خصوصی امتیازات عطافرمائے ہیں، انھیں امتیازی فضائل میں سے شب ِ قدر بھی ہے، جو سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے اور صرف اس رات کو عبادات میں مشغول کردینے والوں کو ایک ہزار مہینے کی خالص عبادت سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے: لیلۃ القدر خیر من الف شھر۔ (یعنی ایک شب ِ قدر بہتر ہے ایک ہزار مہینے سے ) قرآن کریم نے اس رات کی عبادت کو ایک ہزار مہینے کی عبادت کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر فرمایا ہے اور اس میں زیادت کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی کہ کتنا زیادہ، اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ اس کو ایک ہزار سال کے برابر بنادیں ۔
امت ِ مرحومہ پر اس خاص امتیازی انعام کی ایک وجہ حدیث شریف میں یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی کچھ طویل طویل عمریں بطور ِ وحی دکھلائی گئیں (جو تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں سال کی ہوتی تھیں )اس کے بالمقابل یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کی امت کی عمریں ان کے مقابل بہت کم ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی، اس واقعہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب ِ مبارک پر یہ اثر کیا کہ اس حساب سے تو میری امت اعمال ِ صالحہ اور عبادات میں سب سے کم رہ جائے گی، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب ِ مبارک سے اس غم کو دور کرنے کے لئے لیلۃ القدر کی سورۃ نازل فرماکر بتلادیا کہ آپ فکر نہ کریں، اس امت کے عمل کی قیمت بہت بڑھادی گئی ہے کہ صرف ایک رات میں ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرسکتے ہیں ،تاکہ دوسری امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے، یہ حدیث مؤطا امام ِ مالکؒ نے اور ترغیب وترہیب میں حافظ منذریؒ نے نقل کی ہے۔
شب ِقدر کو شب ِ قدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کی عمریں اور رزق اور بھلے بُرے مختلف قسم کے حالات جو روز ِ اوّل سے لوح ِ محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں ،اس رات میں اس سال کاپورا بجٹ اور سب کی مقداریں فرشتوں کے حوالہ کردی جاتی ہیں کہ کس کی کتنی عمر ہوگی ، کتنا رزق ملے گا ، وہ کیسے کیسے حالات سے گذرے گا ، سورۂ دخان کی آیت میں حق تعالیٰ نے اس رات کو لیلہ مبارکہ کے نام سے ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ، اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ یعنی اس رات میں طے کردیا جائے گا کہ ہر کام حکمت والا ہماری طرف سے، اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ نزول ِ قرآن اس رات میں ہوا اور در ِ منثور کی ایک روایت میں ہے کہ اسی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا، سنن ِ بیہقی میں حضرت انسؓ کے واسطے سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ شب ِ قدر میں جبرئیل امین فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وعبادات میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من قام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ یعنی جس شخص نے قیام کیا شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ خالص ثواب کی نیت سے کوئی دنیوی غرض نہیں اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوگئے، قیام کرنے سے مراد کسی عبادت میں لگنا ہے جس میں نماز پڑھنا بھی داخل ہے اور ذکر وتلاوت وغیرہ بھی۔
گناہوں کی معافی کے متعلق شریعت کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ تو نفلی عبادات اور دوسری عبادات اور دوسری نیکیوں کے ذریعہ بھی خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صغیرہ گناہ کی معافی کی قید نہیں لگائی بلکہ عام رکھا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اول تو مومن سے گناہ ِ کبیرہ میں مبتلا ہونا بہت بعید ہے اور اگر ہو بھی گیا تو مومن کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک توبہ نہ کرلے، اور فرض کروکہ پہلے غفلت ہی ہوتی رہی اب جبکہ شب ِ قدر میں وہ اﷲ کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے اپنی مغفرت کی دعاء اور دوسری مرادیں مانگ رہا ہے تو یقینا اس کو اپنے پچھلے کئے ہوئے گناہوں پر ندامت وشرمندگی بھی ہوگی اور آئندہ ان سے بچتے رہنے کا پختہ ارادہ بھی کرے گا ، اسی کا نام توبہ ہے، اس سے معلوم ہواکہ شب ِ قدر کی عبادت کے لئے پچھلے گناہوں سے توبہ لازم وملزوم ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ آج شب ِ قدر ہے تو میں کیا دعا مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو: اللّٰھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔ یعنی اے میرے معبود! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں ، میرے گناہوں کو معاف فرما، اس حدیث میں شب ِ قدر کی سب سے بڑی عبادت توبہ ہی کو قرار دیا ہے ، اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس مبارک رات میں اپنے سب پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور معافی مانگنے کا پورا اہتمام کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شب ِ قدر اس امت کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امتیازی انعام ہے کہ ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کے برابر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کردیا ہے، ایک ہزار مہینے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں ، پھر اس میں رحمت کے فرشتوں کا نزول اور عبادت گذار کے لئے رحمت کی دم بدم دعائیں بھی ہیں اور تمام گناہوں سے مغفرت کا وعدہ بھی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ منادی بھی ہوتی ہے کہ ہم سے جو دعا مانگی جائے گی قبول کریں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص شب ِ قدر کی برکات سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس بھلائی سے صرف وہی شخص محروم ہوگا جو بڑا ہی بدنصیب ہوگا، یہ روایت ابن ِ ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
اب یہ سوال باقی رہ گیا کہ مبارک رات کونسی رات ہے؟ اس کے متعلق اتنی بات تو خود قرآن کریم نے متعین کردی ہے کہ یہ رات ماہ ِ رمضان کی کوئی رات ہوگی، اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس کی مزید توضیح وتعیین بذریعہ وحی الٰہی اس طرح فرمائی ہے کہ مشکوٰۃ میں بحوالہ بخاری شریف حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب ِ قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، یعنی اکیس(۲۱) پچیس (۲۵) ستائیس (۲۷) انتیس(۲۹)ان راتوں میں سے کوئی رات شب ِ قدر ہوگی اور بعض روایات میں ستائیسویں شب کے متعلق مزید رجحان ثابت ہوتا ہے،یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی احکام میں اکیسویں شب وہ کہلائے گی جو ۲۰/تاریخ کے بعد ۲۱/تاریخ سے پہلے آئے، اسی طرح ۲۳، ۲۵وغیرہ کو سمجھئے ، اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کو پورا کون دریافت کرسکتا ہے، یہاں بالتصریح کسی ایک رات کو متعین کرکے نہ بتلانے اور عشرہ اخیرہ رمضان کی پانچ طاق راتوں میں دائر کردینے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے شوق ِ عبادت اور فکر ِ آخرت کی آزمائش ہو کہ شب ِ قدر کی برکات حاصل کرنے کے لئے ان پانچوں راتوں میں بیدار رہ کر عبادت کی کوشش کرے، غور کیجئے کہ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں کتنی ملازمتیں ایسی ہیں کہ ان میں ملازم کو پوری رات بیدار رہناپڑتا ہے، ہوائی جہازوں کے پائلٹ، ریلوں کے چلانے والے رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے ، ملوں اور کارخانوں کے مزدور فانی فوائد اور چند ٹکوں کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گذارتے ہیں ۔ اگر اﷲ کے نیک بندے سال بھر میں صرف پانچ راتیں اتنی بڑی نعمت کے لئے جاگیں کہ تراسی سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب ملے گا، فرشتوں کی دعائیں ملیں گی،سب پچھلے گناہوں کی مغفرت حاصل ہوگی ، دین ودنیا کی سب مرادیں حاصل ہوں گی تو کیا مشکل کام ہے ۔ اور قربان جائیے حق تعالیٰ کے فضل وانعام کے ان راتوں میں بھی تمام رات جاگنا شرط نہیں کچھ سوبھی رہے تو اس مقصد میں خلل نہیں آتا۔
اور حضرت سعید بن مسیب ؒ کی روایت تویہ ہے کہ جو شخص اسی رات میں عشاء کی نماز جماعت سے پڑھے پھر صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی وہ بھی لیلۃ القدر کی برکات سے محروم نہیں رہتا، پھر یہ رات غروب ِ آفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتی ہے جو بیمار ہو یا بہت کمزور یا کم ہمت ہوں اور مغرب کے بعد سے ہی عبادت میں لگ جائیں ، نماز ِ عشاء جماعت سے پڑھیں تو وہ بھی شب ِ قدر کی خیر وبرکت سے محروم نہیں ہوں گے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان راتوں میں جاگنے اور عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
یہ بات سب مسلمانوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ ایسی خاص راتوں میں اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعاء تو سبھی کریں گے، ضرورت اس کی ہے کہ پورے عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لئے دعاء کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو تمام ظاہری اور باطنی فتنوں اور سب پریشانیوں سے محفوظ رکھیں ۔
Jul 4 2015
Zakat – Maulana Kamal ur Rahman Sahab
Zakat
Mufassir e Quran Hazrath Maulana Shah Mohammed Kamal ur Rahman Sahab DB, Son and Successor of Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab R.A
زکوٰۃ
مفسرِقرآن حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم، خلیفہ سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ
Download
By silsilaekamaliya • Maulana Kamal ur Rahman Sahab - Bayanaat • Tags: Zakat, زکوٰۃ