Khair o Shar
Maulana Kamal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
خیر وشر
حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم
تصوف کے بیسیوں مسائل ہیں لیکن حضرتؒ کی افہام وتفہیم کے بعد اور لسانی تفہیمات سننے اورسمجھنے کاموقع ملااورکلیدمعرفت علم علیم اورمعلوم کے نکات کھلنے کے بعدانشراح سے پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے اب مسائل تصوف میں خیروشر مشکل سمجھاگیا ہے لیکن قادریہ ۔کمالیہ ۔سلسلہ کے بزرگوں نے کتاب وسنت کے تحت ہر مسئلہ کا حل پیش کیا ہے اور کیا جاسکتا ہے
ایمان مفصل میں خیروشرکا کاتذکرہ ہے
وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اﷲ
ِ کے جملہ میں ان دونوں عنوانات یعنی خیروشرکاذکر ہے۔ خیروشرکا اندازہ اللہ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ خالق خیروشر ہیں اوربندہ کاسب خیروشر ہے ۔
خیر بھلائی کوکہتے ہیں اورشربرائی کوکہتے ہیں باعتبار تخلیق فعل خیر خوشگوار امر ہوتاہے اورشرناگوارہوتاہے فکر صحیح کے نتیجہ میں بہت سی باتیں کھلتی ہیں بہت سی چیزیں وہ جو چاہتا ہے اور ہت سی چیزیں وہ ہیں جو وہ نہیں چاہتا فطرتانسانی مرغوبات کا حصول چاہتی ہے صحت پسند ہے بیماری نا پسند ہے راحت پسند ہے اور مصائب ناپسند ہیں زندگی پسند ہے اور موت ناپسد ہے ایسے ہی بعض چیزوں کے حصول کیلئے بیقرار رہتا ہے اور ہت بیتاب قرار چاہتی ہے یہ نمونے اور اضداد
تمیز اور پہچان کیلئے رکھے گئے ہیں مغربی مفکرین خیر وشر کے مسائل میں حیران وپریشان ہیں مشہور فلسفی جان اسٹوٹ رائل کا خیال ہے اللہ کی ذات خیر مطلق ہے لیکن قادر مطلق نہیں قادر مطلق ہونے کی صورت میں شر کا ظہور نہیں ہونا چاہئے
تھا لیکن شر موجود ہے اور ناقابل انکار حقیقت ہے دو قسم کے سلسلہ دنیا میں ہیں ایک طرف ملائکہ کا سلسلہ جوخیرمحض ہے اوران کے مقابلے میں شیاطین ہیں جو شر محض ہیں ملائکہ اور فرشتے ہر بات میں خیر اور بھلائی کی طرف چلتے ہیں اور
شیاطین ہربات میں برائی اور نافرمانی کی طرف چلتے ہیں فرشتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لَایَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمرِہٖ یَعْمَلُوْنَ
یہ اللہ کے پاکباز مکرم بندے ہیں اور فرمایا ل
لَایَعْصُوْنَ اﷲَ مَا اَمْرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔
اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے خدا کا جو حکم ہو بجا لاتے ہیں اس سے سر مو تجاوز نہیں کرتے اور ان میں عصیاں کا نشان نہیں اور شیاطین کے بارے میں فرمایا کہ
وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا
شیطان کاکام ہی کفر کرناہے اور کفران نعمت ہے فرشتے جہاں ہوں گے خوشبو کی طرف دوڑیں گے اور شیاطین جہاں ہوں گے بدبو کی طرف دوڑیں گے حدیث میں آیا ہے کہ جہاں مساجدہیں اور ذکر اللہ کی مجالس
ہواکرتی ہیں وہاں فرشتوں کا ہجوم ہوتا ہے اور جتنی کوڑیاں اور گندگی کے اڈے ہیں وہاں شیاطین کاہجوم ہوتا ہے فرشتوں کا کام دعاء کرنااوروں کیلئے بھلائی چاہنا ہوتاہے اورشیاطین کاکام برائی کرنا کرانا اوربرائی چاہنا اورتکالیف کا سامان کرنا ہوتا ہے
فرشتے جو ہمہ جہت خیر ہوتے ہیں۔
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔
جو ملائکہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں عرش کے اطراف ارد گرد اربوں کھربوں فرشتے ہیں ان کا کام کیا ہے حق تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شیاطین کیا کرتے رہتے ہیں
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ
َ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ میں ایک ایک انسان کو گمراہ کرکے رہوں گا ۔
خیر کا ذکر جو بعض دعاؤں میں آیا ہے
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ
ٖ ائے اللہ میں مانگتاہوں ہر اک خیر سب کاسب اس وقت کااورآئندہ کا۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرِخَزَاءِنِہٖ بِیَدِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِالَّذِیْ ھُوَ بِیَدِکَ کُلِّہٖ
صحیح حاکم میں حضرت ابن مسعودؓ اور ابن حبان میں حضرت عمرؓ کی روایت میں ان دو جملوں میں دو اہم باتیں ہیں ایک توبہ کرنا ہے خزانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ عوہ ہر خیر وبھلائی جو دست قدرت میں ہے اسکی مانگ ہے پہلے جملے میں ہے کہ ائے اللہ میں مانگتا ہوں ہر بھلائی
جس کے خزانے تیرے قبضۂ قدرت میں ہے اور دوسرے جملے میں کا مفہوم یہ ہے کہ مانگتا ہوں وہ سب کی سب بھلائی کہ وہ تیرے قبضہ میں ہے
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنٰی وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ.
ائے اللہ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں مالداری کے برے فتنہ سے اور محتاجی کے برے فتنہ سے اور مسیح دجال کے برے فتنہ سے ان دعاؤں میں مالداریغریبی اورمسیح دجال کے شر کا ذکر ہے
ایک دعا میں ہے اَللّٰہُمَّ قِنِّیْ شَرِّ نَفْسِیْ ائے اللہ مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ رکھ اس سے اندازہ لگتا ہے کہ نفس اصل شریر ہے ۔
ایک دعااس طرح ہے
خُذْ اِلَی الْخَیْرِ بِنَاصِیَۃِ وَجَعَلَ السَّلَامَۃَ مُنْتَھٰی رِضَاءً
اورکشاں کشاں لیجامجھے خیرکی طرف کردے اسلام کومیری انتھا پسند
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَ الْمَسْءَلَۃِ وَخَیْرَالدُّعَاءِ وَخَیْرَ النَّجَاحِ وَخَیْرَ الْعَمَلِ وَخَیْرَ الثَّوَابِ وَخَیْرَ الْحَیٰوۃِ وَخَیْرَ الْمَمَاتِ.
ائے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں سب سے اچھا سوال اور سب سے اچھی دعا اور سب سے اچھی کامیابی اور سب سے اچھا عمل اور سب سے اچھا بدلاور سب سے اچھی زندگی اور سب سے اچھی موت ان دعاؤں سےاندازہ ہوتا ہے کہ تمام ہی اعمال میں خیروشرکے پہلورہتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سُوْءِ الْعُمْرِ وَمِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ وَمِنْ شَرِّ لِسَانِیْ۔
ان مذکورہ دعاؤں میں زندگی سماعت بصارت اور زبان کے شرور سے پناہ مانگی گئی ہے ۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطَنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعَہْ
ائے اللہ میں پناہ چاہتاہوں تیرے اس حیوان کی برائی سے جو پیٹ کے بل چلتاہے۔اوراس حیوان کی برائی سے جودوپیروں سے چلتا ہے اوراس حیوان کی برائی سے جوچارپیروں سے چلتاہے یعنی دوندوں پرندوں درندوں وغیرہ کے شرورسے تیری پناہ (کل محسوس موجود) یعنی ہر محسوس موجود ہے برائے تسہیل مسئلہ کی تفہیم کیلئے ایک وجدانی تمثیل یاد رکھئے بیت الخلا سے واپسی کے بعد جو دعا کی جاتی ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِی
ْساری تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے میری تکلیف کو دور کیا اور مجھے عافیت دی دعاکے الفاظ پرغورکریں تکلیف ہمارے ندر ہے اس کے دور کرنے کی نسبت اللہ کی طرف ہے یعنی دفع شر پر اللہ قادر ہیں اور علم صحیح کی روشنی میں معلوم ہوا کہ فاعل حقیقی کون ۔
نتیجہ دیکھئے
بندہ میں غلاظت اور شرکا ظہور نہ ہوتا تو ،تو خیر کی معرفت کیسے ہوتی اس تمثیل میں بندہ کی معرفت نقص اور شر کے ساتھ ہوئی اور اللہ کی معرفت کمال خیر کے ساتھ ہوئی تو معلوم ہواکہ اپنی ذات محل شر اور اللہ کی ذات خیر ہی خیر ذات مخلوق میںشر کے سوا کچھ نہیں اور اللہ میں خیر کے سوا کچھ نہیں،اس کے سوا پہچان کیا ہو ۔
Jan 13 2015
Aqwal e Zareen – Maruf e Karkhi R.A
Aqwal e Zareen – Maruf e Karkhi R.A
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ بہت بلند پایہ ولی اللہ گذرے ہیں، آپ کی پیدائش ایک عیسائی گھرانے میں ہوئی، جوان ہوئے تو اپنے آبائی مذہب متنفر ہوکر گھر کوخیر باد کہہ دیا اور تلاشِ حق میں سرگرداں ہوگئے، بالآخر حضرت امام علی بن موسی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پر اسلام قبول کیا اور اسلامی تعلیمات سےبہرہ ور ہوئے، بعد ازاں اپنے والدین کو بھی مشرب بہ اسلام کیا، آپ کا تصوف اور طریقت میں بہت بلند مقام ہے جو کہ آپ نے بہت سخت مجاہدے اور ریاضت کے بعدحاصل کیا، آپ کے ہزاروں مریدین با اخلاص میں سرّی سقطیؒ جیسے ولئ کامل بھی شامل تھے۔
آپ کے ملفوظات ملاحظہ فرمائیں:
(۱) عقلمند وہ ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اول روز وہی کرے جو تیسرے روز کرے گا۔
(۲) خلق سے دور رہنے سے انسان دنیا کی تکلالیف سے بچتا ہے۔
(۳) وہ بستی جو کبھی ویران نہ ہو عدل ہے۔
(۴) وہ تلخی کہ جس کا آخر شیرینی ہو صبر ہے۔
(۵) وہ شیرینی جسکا آخر تلخ ہو شہوت ہے۔
(۶) وہ بیماری جس سے لوگوں کو بھاگنا چاہئے عیش و عشرت ہے۔
(۷) درویشی یہ ہے کہ کسی چیز پر طمع نہ کرےجب بے طلب کوئی لائے تو منع نہ کرے اور جب لے لے تو جمع نہ کرے۔
(۸) بغیر اچھے عمل کئے ہوئے جنت کی آرزو گناہ کے مترادف ہے۔
(۹) سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صحیح عمل کئے بغیر شفاعت کی امید غرور کے سوا اور کچھ نہیں۔
(۱۰) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے بغیر اللہ کی رحمت کا امیدار ہونا صرف جہالت اور حماقت ہے۔
(۱۱) جواں مرد وہ ہے جو وعدہ نبھانے والا ہو وعدہ تو ڑنے والا نہ ہو۔
(۱۲) مومن کی پہچان یہ ہے کہ اس کی تعریف کرے جس نے اس سے کبھی احسان کا سلوک بھی کیا ہو۔
(۱۳) مسلمان کو چاہئے کہ بغیر مانگے حاجت مند کی حاجت پوری کرے اور اس کے مانگنے سے پہلے بخشش کرے۔
(۱۴) محبت تعلیم و تربیت سے نہیں بلکہ عطائے حق سے حاصل ہوتی ہے۔
(۱۵) اپنی زندگی کو مختصرخیال کرو اور نیک اعمال کی طرف توجہ مرکوز رکھو۔
(۱۶) اللہ پر توکل رکھو تاکہ تمہارا نفس تمہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔
(۱۷) تم اللہ سے چیزیں طلب کرو اور اس بات کا احساس پیدا کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
(۱۸) طالبِ دولت کبھی راحت نہیں پاسکتا۔
(۱۹) دین اور حق بات کے بغیر کی جانے والی گفتگو لاحاصل اور باعث گمراہی ہے۔
(۲۰) کھلا شرک یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کی جائے اور چھپا ہوا شرک یہ ہے کہ غیر اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔
(۲۱) نیک عالم وہ ہے جو کسی سے بھی ملے اُسے اپنے سے برتر خیال کرے، خواہ وہ برا ہو یا چھوٹا، عالم ہو یا جاہل، مسلمان ہو یا کافر۔
(۲۲) شیطان کو بخیل مسلمان اچھا اور گناہگار سخی بُرا لگتا ہے۔
(۲۳) مومن وہ ہے جو اللہ کے نام پر دھوکہ کھا جائے۔
(۲۴) دولت مندوں کی دوستی سے بچو! یہ دین سے دور کردیتی ہے۔
(۲۵) صحیح اعتقاد کے بغیر عبادت فضول ہے۔
(۲۶) اگر بدعتی شخص تم کو ہوا پر چلتا ہوا بھی نظر آئے تو فریب نہ کھاؤ۔
(۲۷) محبت سیکھنے اور سکھانے والی چیز نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے۔
(۲۸) رنج و الم صرف مومنوں کی آزمائش ہوتے ہیں۔
By silsilaekamaliya • Aqwal e Zareen • Tags: Aqwal e Zareen