حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ کو پہلی مرتبہ مغل گدہ میں دیکھا تھا ۔احقر مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھا۔مولوی محمد جعفر صاحب صدر مدرس تھے حافظ عزیز الرحمٰن صاحب اور مولوی احمد شریف صاحب وغیرہ مدرسہ مغل گدہ میں کار گذار تھے مولوی عبد القادر صاحب منشی (اہل کار ) مدرسہ تھے دفتر ی کاروبار موصوف کے تفویض تھے عبدالقادر صاحب مدرس کے صاحبزادہ جامعہ عثمانیہ میں ملازم تھے عبدالرزاق نام تھا عبدالرزاق صاحب نے مولانا محمد حسین صاحب قبلہ سے بیعت کرلی تھی اور مغل گدہ اپنے والد صاحب کو اپنے حضرت سے بیعت کروانے کے لئے لیکر آئے تھے محمد حسین صاحب کاقیام عبد القادر صاحب ہی کے مکان میں تھا وہیں سب ملاقات کرتے رہے احقر نے بھی اسی مکان میں حضرت سے پہلی مرتبہ ملاقات کی محمد جعفر صاحب حافظ عزیز الرحمٰن صاحب مولوی احمد شریف صاحب اور دیگر اساتذہ آبادی کے حضرات ۔مولانا محمد حسین صاحب سے ملاقات کرتے رہے لوگ آتے ہی حضر ت بیان شروع کردیتے مولوی محمد جعفر صاحب مولوی کامل نظامیہ تھے حضرت کو سن کر اپنے تأثر کا اظہار فرمایا تھا کہ مولانا محمد حسین صاحب قبلہ بہت وسیع العلم ہیں بعد میں معلوم ہوا ہوگا کہ رفیع الحال بھی ہیں احقر کا ابتدائی زمانہ تھا دلچسپی سے سنتا رہا مولوئی محبوب حسین صاحب منشی ٹپہ بھی حضرت محمد حسین صاحب کو جانتے تھے حضرت بھی منشی صاحب سے واقف تھے ۔
حضرت محبوب حسین صاحب پہلے ادھونی کے مشائخ صاحبان کے مرید تھے ان کا ذکر وشغل شروع ہوچکا تھا اور،اوراد،و، وظائف اور عملیات بھی شروع ہوچکے تھے پھر کچھ عرصہ بعد حضرت شاہ محمد صاحب صدیقی پہاڑی کی طرف رجوع ہوگئے اور ذکر وشغل فرمایا حضرت شاہ محمد صاحب صدیقی نے حضرت محبوب حسین صاحب کو باضابطہ اجازت بھی دے دی تھی خواجہ پہاڑی میں عطاء خلافت کی اس تقریب میں احقر بھی شریک تھا کالے رنگ کا عمامہ اسی وقت باندھا گیا تھا اس کے بعد مولانا محبوب حسین صاحب اکثر کالا شملہ باندھا کرتے تھے کچھ عرصہ بعد مولانا محبوب حسین صاحب کا تبادلہ ونپرتی پر ہوا، اور وہاں حضرت محمد حسین صاحب سے ملاقات ہوئی اور حضرت سے گہرا تعلق ہوگیا اور حضرت کی مجلسوں سے استفادہ شروع ہوگیا علمی مسائل سامنے آئے اور طما نیت قلبی حاصل ہوئی مشائخ آدھونی سے مسائل سنے لیکن سمجھنے کا موقع نہ ملا تھا اور شاہ محمد صاحب صدیقی سے اعیان ثابتہ عین ہیں یا غیر ۔ مخلوق ہیں یا غیر مخلوق ان مسائل میں تشفی نہیں ہوسکی تھی ان مسائل میں حضرت محمدحسین صاحب کی خدمت میں اطمینان کلی نصیب ہوا ،اور سیر حاصل معلومات ملے اس سلسلہ میں کئی مرتبہ مولوئی محبوب حسین صاحب نے احقر سے کہا کہ خطیب صاحب (یہ احقر کا خاندانی نام تھا ) ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں حضرت محمد حسین صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہو ا بیشمار علماء ومشائخ سے ان مسائل پر گفتگو کر چکا ہوں کہیں تشفی نہ ہو سکی مسئلۂ تقدیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی آخر میں مولانا محبوب حسین صاحب نے حضرت محمد حسین صاحب سے گہرا تعلق پیدا کرلیا تھا اور حضرت محمد حسین صاحب نے مولانا محبوب حسین صاحب کو زبانی اجازت بھی دے دی تھی مولانا محبوب حسین صاحب نے احقر کو تحریری خلافت نامہ عنایت فرمایا ۔
حضرت محمد حسین صاحب جب مغل گدہ تشریف لائے اور عبد القادر مدرس کے مکان میں ٹھیرے ہوئے تھے تو اسی وقت احقر کے ساتھ مولوئی جہانگیر صاحب بھی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے موصوف احقر کے ساتھ محبوب حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور کچھ ذکر بھی کیا کرتے اب مولانا محمد حسین صاحب سے ملاقات ہوئی تو حضرت نے ان سے بات چیت فرمائی حالات دریافت کئے نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام غلام جہانگیر بتلایا یہ سن کر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ آپ جہانگیر بادشاہ کے غلام ہیں ؟۔۔ میں تمہارا نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھتا ہوں تمام احباب کو توجہ دلائی گئی ۔
کہ سب احباب ان کو عبد الرحمٰن پکاریں گے دوسری مرتبہ عبدالرحمٰن صاحب نے حضرت ناظم صاحب سے ملاقات کی تو حضرت نے پوچھا کہ کیا آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں موصوف نے سمجھا کہ بحث کرنا چاہتے ہیں پوچھ رہے ہیں اس لئے جواب دیا کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا حضرت سن کر خاموش ہو گئے یہ احقر کی حضرت سے پہلی ملاقات تھی بعد میں عبد الرحمٰن صاحب کے ساتھ حیدرآباد کی آمد و رفت شروع ہوئی اور حضرت کے گھر پر ملاقاتیں ہوتی رہیں مولوی عبد الر حمٰن صاحب تو کچھ دن حضرت ناظم صاحب کے مکان ہی میں قیام پذیر تھے اور ایک خانگی یا سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے اس طرح عبد الرحمٰن صاحب کو حضرت ناظم صاحب کی خدمت میں رہنے کا ایک بہترین موقع مل گیا احقر کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا اور ۲۷ ؍ رمضان المبارک سہ شنبہ میں احقر نے حضرت محمد حسین صاحب سے بیعت کرلی اس دور میں حضرت ناظم صاحب کے مکان کو آنے جانے والے حضرات میں مولوی سید حسن صاحب ۔مولوی جمیل احمد صاحب ۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ۔صابر میاں صاحب ۔ عبدالخالق صاحب ۔الیاس برنی صاحب ۔ عبدالحلیم صاحب ۔غلام دستگیر صاحب۔ رشید صاحب ۔ مولا نامناظر احسن گیلانیؒ صاحب ۔خاص طور پر قابل ذکر ہیں
ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب کی بیعت کی مجلس میں احقر شریک رہا مٹھائی منگوائی اور حضرت کے سامنے پیش کی گئی حضرت نے مٹھائی کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں نے دیکھ لیا اسکے بعد مٹھائی تقسیم ہوئی مجھے اچّھی طرح یاد ہے کہ بیعت سے پہلے ڈاکٹر ولی الدین صاحب نے حضرت محمد حسین صاحب قبلہ سے تین مہینے تک بحث و مباحثہ کیا تھا اور آخر میں بیعت کرلی تھی ان دنوں احقر بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوتا رہا ۔جن حضرات کو محمد حسین صاحب سے خلافت ملی تھی وہ حسب ذیل ہیں
۔۱۔سید حسن صاحب ۔۲۔جمیل احمد صاحب ۔۳۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ۔۴۔مولانا مناظراحسن گیلانی صاحب ۔۵۔صابر میاں صاحب ۔۶۔الیاس برنی صاحب ۔۷۔مولانا فضل اللہ صاحب (موصوف نے خلافت واپس کردی تھی ) ۔۸۔مولانا اکرام علی صاحب کریم نگر ۔۹۔مولانا مسعود الحسن صاحب (صاحبزادہ ) آخری مرتبہ حضرت سے ملاقات کرکے حیدرآباد سے مغل گدہ جا رہا تھا تو حضرت نے فرمایا تھا کہ تعطیلات کے بعد آپ آئیے ہم آپ کو خلافت دیں گے ۔اسی اثنا میں حضرت کا انتقال ہو گیا حضرت مولانا محمد حسین صاحب نے نارائن پور کے قیام کے دوران میں مولانا ضمیر الدین صاحب نقشبندی سے بیعت کرلی تھی اور ان کے بعد بھی غالباً اور کئی مشائخ سے بیعت کی تھی اور مجاہدات اور ریاضات کافی کرچکے تھے احقر نے یہ بھی سنا تھا کہ کوئی ذکر یا شغل ایسا نہیں جو محمد حسین صاحب نے نہ کیا ہو بعض اذکار واشغال تو الٹے لٹک کر بھی کرچکے تھے آخر میں حضرت کمال اللہ شاہ صاحب (مچھلی والے شاہ صاحب ) سے ملاقات ہوئی اور یہاں عملاً یافت حق اور شہود حق نصیب ہوا ۔حضرت محمد حسین صاحب قبلہ سے احقر نے یہ بھی سنا کہ اگر یہ علم مجھے پہلے نصیب ہوجاتا تو پندرہ بیس سال کی محنت و ریاضت بچ جاتی ۔حضرت کے پاس کشف وکرامات عام اور معمولی چیز یں تھیں یافت حق وشہود حق نصیب اصل تھی ایک مرتبہ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جتنی کرامتوں کا ظہور ہوا ہے اگر وہ لوگوں کو معلوم ہوجائے تو میں بھی پہلے بزرگوں کی طرح مشہور ہو جا ؤں جیسے حضرت جنیدؒ و غوث پاکؒ مشہور ہیں ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضور اکرم ا کو دیکھا ہے دوسری مرتبہ ارشاد فرمایاکہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت غوث پاکؒ کو دیکھا ہے اور غوث پاکؒ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ بزرگ ہیں ۔
بے شمار حضرات کا تجربہ ہے کہ انہوں نے حضرت ناظم صاحب سے کچھ سوالات پوچھنا چاہے اور حضرت کی مجلس میں بغیر پوچھے ہی ان سارے سوالات کے جوابات مل گئے ۔
حضرت نے فرمایاکہ میں نے تصوف اور سلوک کو ایسا کردیا ہے جیسے متقدمین میں تھا اصطلاحات کو بالکل ترک کردیا گیا ہے اور قرآن وحدیث ہی پیش نظر ہے ایک صاحب نے فرمایاکہ حضرت میں بات چیت کرنا چاہتا ہوں ،بشرطیکہ آپ مولانا کی مثنوئی پیش نہ فرمائیں ۔حضرت نے فرمایا کہ مثنوئی پیش نہ کی جائے گی لیکن آپ قرآن وحدیث میں چوں وچرا نہ کریں ۔ونپرتی کے دور میں حضرت ناظم صاحب نے کلمۂ طیبہ کا رسالہ لکھا تھا جس میں سوال وجواب کی صورت میں دین کی ضروری تعلیم تفصیلی آگئی تھی اس میں عوام کے بعض غلط معتقدات اور اعمال کی نشان دہی بھی کی گئی تھی ۔حضرت کی ٹھیک کتاب وسنت کی محتاط تعلیم ہی کی وجہ سے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اور مولانا فضل اللہ صاحب اور ڈاکٹر ولی الدین صاحب وغیرہ اور علماء دیوبند حضرت سے بہت قریب ہوگئے تھے ۔
حیدرآباد کے مشائخین میں حضرت محمد حسین صاحب قبلہ کے علاوہ کوئی دوسرے شیخ ایسے نہیں ہیں جن کے سامنے علماء دیوبند نے زانوئے ادب طے کیا ہو ۔
حضرت نے ارشاد فرمایاکہ سات سال بے روزگاری میں گزرے ملازمت وغیرہ کچھ نہ تھی اور گھر کے پورے اخرجات شان وشوکت کے ساتھ چلتے رہے۔ (۱)ایک مرتبہ گھر میں ٹہل رہا تھا پھاٹک بند تھی پھاٹک کے پاس پکارنے کی آواز آئی پھاٹک کھول کر دیکھا کوئی نظر نہ آیا ایک ہزار ،روپے کی پوٹلی رکھی ہوئی تھی اسے گھر لایا گیا ۔(۲)ایک مرتبہ گھر میں پیسوں کی ضرورت تھی دل میں صرف یہ خیال آیاکہ اللہ میں کیا ہوگیا ہوں اتنا خیال آنا تھا کہ کچھ ضرورت سے ڈسک کھولا تو اس کے اندر پورے ایک ہزار روپے جمع ہوئے تھے یہ تو نمونے کی دو باتیں ہوئیں نہیں معلوم اور کتنے واقعات ہوچکے ہوں گے ۔
Jun 8 2015
Maulana Muhammad Hussain Sahab
Maulana Muhammad Hussain Sahab
حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ
حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ کو پہلی مرتبہ مغل گدہ میں دیکھا تھا ۔احقر مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھا۔مولوی محمد جعفر صاحب صدر مدرس تھے حافظ عزیز الرحمٰن صاحب اور مولوی احمد شریف صاحب وغیرہ مدرسہ مغل گدہ میں کار گذار تھے مولوی عبد القادر صاحب منشی (اہل کار ) مدرسہ تھے دفتر ی کاروبار موصوف کے تفویض تھے عبدالقادر صاحب مدرس کے صاحبزادہ جامعہ عثمانیہ میں ملازم تھے عبدالرزاق نام تھا عبدالرزاق صاحب نے مولانا محمد حسین صاحب قبلہ سے بیعت کرلی تھی اور مغل گدہ اپنے والد صاحب کو اپنے حضرت سے بیعت کروانے کے لئے لیکر آئے تھے محمد حسین صاحب کاقیام عبد القادر صاحب ہی کے مکان میں تھا وہیں سب ملاقات کرتے رہے احقر نے بھی اسی مکان میں حضرت سے پہلی مرتبہ ملاقات کی محمد جعفر صاحب حافظ عزیز الرحمٰن صاحب مولوی احمد شریف صاحب اور دیگر اساتذہ آبادی کے حضرات ۔مولانا محمد حسین صاحب سے ملاقات کرتے رہے لوگ آتے ہی حضر ت بیان شروع کردیتے مولوی محمد جعفر صاحب مولوی کامل نظامیہ تھے حضرت کو سن کر اپنے تأثر کا اظہار فرمایا تھا کہ مولانا محمد حسین صاحب قبلہ بہت وسیع العلم ہیں بعد میں معلوم ہوا ہوگا کہ رفیع الحال بھی ہیں احقر کا ابتدائی زمانہ تھا دلچسپی سے سنتا رہا مولوئی محبوب حسین صاحب منشی ٹپہ بھی حضرت محمد حسین صاحب کو جانتے تھے حضرت بھی منشی صاحب سے واقف تھے ۔
حضرت محبوب حسین صاحب پہلے ادھونی کے مشائخ صاحبان کے مرید تھے ان کا ذکر وشغل شروع ہوچکا تھا اور،اوراد،و، وظائف اور عملیات بھی شروع ہوچکے تھے پھر کچھ عرصہ بعد حضرت شاہ محمد صاحب صدیقی پہاڑی کی طرف رجوع ہوگئے اور ذکر وشغل فرمایا حضرت شاہ محمد صاحب صدیقی نے حضرت محبوب حسین صاحب کو باضابطہ اجازت بھی دے دی تھی خواجہ پہاڑی میں عطاء خلافت کی اس تقریب میں احقر بھی شریک تھا کالے رنگ کا عمامہ اسی وقت باندھا گیا تھا اس کے بعد مولانا محبوب حسین صاحب اکثر کالا شملہ باندھا کرتے تھے کچھ عرصہ بعد مولانا محبوب حسین صاحب کا تبادلہ ونپرتی پر ہوا، اور وہاں حضرت محمد حسین صاحب سے ملاقات ہوئی اور حضرت سے گہرا تعلق ہوگیا اور حضرت کی مجلسوں سے استفادہ شروع ہوگیا علمی مسائل سامنے آئے اور طما نیت قلبی حاصل ہوئی مشائخ آدھونی سے مسائل سنے لیکن سمجھنے کا موقع نہ ملا تھا اور شاہ محمد صاحب صدیقی سے اعیان ثابتہ عین ہیں یا غیر ۔ مخلوق ہیں یا غیر مخلوق ان مسائل میں تشفی نہیں ہوسکی تھی ان مسائل میں حضرت محمدحسین صاحب کی خدمت میں اطمینان کلی نصیب ہوا ،اور سیر حاصل معلومات ملے اس سلسلہ میں کئی مرتبہ مولوئی محبوب حسین صاحب نے احقر سے کہا کہ خطیب صاحب (یہ احقر کا خاندانی نام تھا ) ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں حضرت محمد حسین صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہو ا بیشمار علماء ومشائخ سے ان مسائل پر گفتگو کر چکا ہوں کہیں تشفی نہ ہو سکی مسئلۂ تقدیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی آخر میں مولانا محبوب حسین صاحب نے حضرت محمد حسین صاحب سے گہرا تعلق پیدا کرلیا تھا اور حضرت محمد حسین صاحب نے مولانا محبوب حسین صاحب کو زبانی اجازت بھی دے دی تھی مولانا محبوب حسین صاحب نے احقر کو تحریری خلافت نامہ عنایت فرمایا ۔
حضرت محمد حسین صاحب جب مغل گدہ تشریف لائے اور عبد القادر مدرس کے مکان میں ٹھیرے ہوئے تھے تو اسی وقت احقر کے ساتھ مولوئی جہانگیر صاحب بھی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے موصوف احقر کے ساتھ محبوب حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور کچھ ذکر بھی کیا کرتے اب مولانا محمد حسین صاحب سے ملاقات ہوئی تو حضرت نے ان سے بات چیت فرمائی حالات دریافت کئے نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام غلام جہانگیر بتلایا یہ سن کر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ آپ جہانگیر بادشاہ کے غلام ہیں ؟۔۔ میں تمہارا نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھتا ہوں تمام احباب کو توجہ دلائی گئی ۔
کہ سب احباب ان کو عبد الرحمٰن پکاریں گے دوسری مرتبہ عبدالرحمٰن صاحب نے حضرت ناظم صاحب سے ملاقات کی تو حضرت نے پوچھا کہ کیا آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں موصوف نے سمجھا کہ بحث کرنا چاہتے ہیں پوچھ رہے ہیں اس لئے جواب دیا کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا حضرت سن کر خاموش ہو گئے یہ احقر کی حضرت سے پہلی ملاقات تھی بعد میں عبد الرحمٰن صاحب کے ساتھ حیدرآباد کی آمد و رفت شروع ہوئی اور حضرت کے گھر پر ملاقاتیں ہوتی رہیں مولوی عبد الر حمٰن صاحب تو کچھ دن حضرت ناظم صاحب کے مکان ہی میں قیام پذیر تھے اور ایک خانگی یا سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے اس طرح عبد الرحمٰن صاحب کو حضرت ناظم صاحب کی خدمت میں رہنے کا ایک بہترین موقع مل گیا احقر کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا اور ۲۷ ؍ رمضان المبارک سہ شنبہ میں احقر نے حضرت محمد حسین صاحب سے بیعت کرلی اس دور میں حضرت ناظم صاحب کے مکان کو آنے جانے والے حضرات میں مولوی سید حسن صاحب ۔مولوی جمیل احمد صاحب ۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ۔صابر میاں صاحب ۔ عبدالخالق صاحب ۔الیاس برنی صاحب ۔ عبدالحلیم صاحب ۔غلام دستگیر صاحب۔ رشید صاحب ۔ مولا نامناظر احسن گیلانیؒ صاحب ۔خاص طور پر قابل ذکر ہیں
ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب کی بیعت کی مجلس میں احقر شریک رہا مٹھائی منگوائی اور حضرت کے سامنے پیش کی گئی حضرت نے مٹھائی کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں نے دیکھ لیا اسکے بعد مٹھائی تقسیم ہوئی مجھے اچّھی طرح یاد ہے کہ بیعت سے پہلے ڈاکٹر ولی الدین صاحب نے حضرت محمد حسین صاحب قبلہ سے تین مہینے تک بحث و مباحثہ کیا تھا اور آخر میں بیعت کرلی تھی ان دنوں احقر بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوتا رہا ۔جن حضرات کو محمد حسین صاحب سے خلافت ملی تھی وہ حسب ذیل ہیں
۔۱۔سید حسن صاحب ۔۲۔جمیل احمد صاحب ۔۳۔ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب ۔۴۔مولانا مناظراحسن گیلانی صاحب ۔۵۔صابر میاں صاحب ۔۶۔الیاس برنی صاحب ۔۷۔مولانا فضل اللہ صاحب (موصوف نے خلافت واپس کردی تھی ) ۔۸۔مولانا اکرام علی صاحب کریم نگر ۔۹۔مولانا مسعود الحسن صاحب (صاحبزادہ ) آخری مرتبہ حضرت سے ملاقات کرکے حیدرآباد سے مغل گدہ جا رہا تھا تو حضرت نے فرمایا تھا کہ تعطیلات کے بعد آپ آئیے ہم آپ کو خلافت دیں گے ۔اسی اثنا میں حضرت کا انتقال ہو گیا حضرت مولانا محمد حسین صاحب نے نارائن پور کے قیام کے دوران میں مولانا ضمیر الدین صاحب نقشبندی سے بیعت کرلی تھی اور ان کے بعد بھی غالباً اور کئی مشائخ سے بیعت کی تھی اور مجاہدات اور ریاضات کافی کرچکے تھے احقر نے یہ بھی سنا تھا کہ کوئی ذکر یا شغل ایسا نہیں جو محمد حسین صاحب نے نہ کیا ہو بعض اذکار واشغال تو الٹے لٹک کر بھی کرچکے تھے آخر میں حضرت کمال اللہ شاہ صاحب (مچھلی والے شاہ صاحب ) سے ملاقات ہوئی اور یہاں عملاً یافت حق اور شہود حق نصیب ہوا ۔حضرت محمد حسین صاحب قبلہ سے احقر نے یہ بھی سنا کہ اگر یہ علم مجھے پہلے نصیب ہوجاتا تو پندرہ بیس سال کی محنت و ریاضت بچ جاتی ۔حضرت کے پاس کشف وکرامات عام اور معمولی چیز یں تھیں یافت حق وشہود حق نصیب اصل تھی ایک مرتبہ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جتنی کرامتوں کا ظہور ہوا ہے اگر وہ لوگوں کو معلوم ہوجائے تو میں بھی پہلے بزرگوں کی طرح مشہور ہو جا ؤں جیسے حضرت جنیدؒ و غوث پاکؒ مشہور ہیں ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضور اکرم ا کو دیکھا ہے دوسری مرتبہ ارشاد فرمایاکہ میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت غوث پاکؒ کو دیکھا ہے اور غوث پاکؒ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ بزرگ ہیں ۔
بے شمار حضرات کا تجربہ ہے کہ انہوں نے حضرت ناظم صاحب سے کچھ سوالات پوچھنا چاہے اور حضرت کی مجلس میں بغیر پوچھے ہی ان سارے سوالات کے جوابات مل گئے ۔
حضرت نے فرمایاکہ میں نے تصوف اور سلوک کو ایسا کردیا ہے جیسے متقدمین میں تھا اصطلاحات کو بالکل ترک کردیا گیا ہے اور قرآن وحدیث ہی پیش نظر ہے ایک صاحب نے فرمایاکہ حضرت میں بات چیت کرنا چاہتا ہوں ،بشرطیکہ آپ مولانا کی مثنوئی پیش نہ فرمائیں ۔حضرت نے فرمایا کہ مثنوئی پیش نہ کی جائے گی لیکن آپ قرآن وحدیث میں چوں وچرا نہ کریں ۔ونپرتی کے دور میں حضرت ناظم صاحب نے کلمۂ طیبہ کا رسالہ لکھا تھا جس میں سوال وجواب کی صورت میں دین کی ضروری تعلیم تفصیلی آگئی تھی اس میں عوام کے بعض غلط معتقدات اور اعمال کی نشان دہی بھی کی گئی تھی ۔حضرت کی ٹھیک کتاب وسنت کی محتاط تعلیم ہی کی وجہ سے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اور مولانا فضل اللہ صاحب اور ڈاکٹر ولی الدین صاحب وغیرہ اور علماء دیوبند حضرت سے بہت قریب ہوگئے تھے ۔
حیدرآباد کے مشائخین میں حضرت محمد حسین صاحب قبلہ کے علاوہ کوئی دوسرے شیخ ایسے نہیں ہیں جن کے سامنے علماء دیوبند نے زانوئے ادب طے کیا ہو ۔
حضرت نے ارشاد فرمایاکہ سات سال بے روزگاری میں گزرے ملازمت وغیرہ کچھ نہ تھی اور گھر کے پورے اخرجات شان وشوکت کے ساتھ چلتے رہے۔ (۱)ایک مرتبہ گھر میں ٹہل رہا تھا پھاٹک بند تھی پھاٹک کے پاس پکارنے کی آواز آئی پھاٹک کھول کر دیکھا کوئی نظر نہ آیا ایک ہزار ،روپے کی پوٹلی رکھی ہوئی تھی اسے گھر لایا گیا ۔(۲)ایک مرتبہ گھر میں پیسوں کی ضرورت تھی دل میں صرف یہ خیال آیاکہ اللہ میں کیا ہوگیا ہوں اتنا خیال آنا تھا کہ کچھ ضرورت سے ڈسک کھولا تو اس کے اندر پورے ایک ہزار روپے جمع ہوئے تھے یہ تو نمونے کی دو باتیں ہوئیں نہیں معلوم اور کتنے واقعات ہوچکے ہوں گے ۔
از حضرت شاہ صوفی حلام محمد صاحبؒ
Related posts:
By silsilaekamaliya • Biographies • Tags: hazrat maulana shah muhammad hassan sahab, Maulana Muhammad Hussain Sahab, maulana shah muhammad hassan sahab RA, Moulana Shah Mohammad Hussain Nazim (Judge) Vanaparthy, Moulana Shah Mohammad Hussain sahab, nazim vanparthy adalat, ؒحضرت مولانا محمد حسین صاحب, حضرت مولانا محمد حسین صاحب, حضرت مولانا محمد حسین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ