Dua of a distressed person
حالت اضطرار میں اخلاص سے کی جانے والی دعا
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ ۔
الْمُضْطَر-اضطرار سے مشتق ہے۔ کسی ضرورت سے مجبور و بے قرار ہونے کو اضطرار کہتے ہیں اور وہ جبھی ہوتا ہے جب اس کا کوئی یارومددگار اور سہارا نہ ہو اس لئے مضطر وہ شخص ہے جو دنیا کے سب سہاروں سے مایوس ہوکر خاص اللہ تعالیٰ ہی کو فریاد رس سمجھ کر اس کی طرف متوجہ ہو۔ مضطر کی یہ تفسیر ذوالنون مصریؒ ، سہیل بن عبداللہ ؒ وغیرہ سے منقول ہے۔ (قرطبی) رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کیلئے ان الفاظ میں دعا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔
اللھم رحمتک ارجو فلا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین واصلح لی شانی کلہ لا الٰہ الا انت
(ترجمہ) ائے اللہ میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں اس لئے مجھے ایک لمحہ کیلئے بھی میرے اپنے نفس کے حوالہ نہ کیجئے اور آپ ہی میرے سب کاموں کو درست کردیجئے آپ کے سوا کوئی معبود نہیں (قرطبی)
مضطر کی دعا اخلاص کی بنا پر ضرور قبول ہوتی ہے
امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ اللہ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے اور اس آیت میں اس کا اعلان بھی فرمادیا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے مایوس اور علائق سے منقطع ہوکر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز سمجھ کر دعاکرنا سرماےۂ اخلاص ہے اور اللہ کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے۔ وہ جس کسی بندے میں پایا جائے اس کے اخلاص کی برکت سے اس کی طرف رحمت حق متوجہ ہوجاتی ہے جیسا کہ حق تعالیٰ نے کفار کاحال ذکر فرمایا ہے کہ جب یہ لوگ دریا میں ہوتے ہیں اور کشتی سب طرف سے موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور یہ گو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کو کھڑا دیکھ لیتے ہیں اس وقت یہ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں کہ اگر ہمیں اس مصیبت سے آپ نجات دیدیں تو ہم شکر گذار ہونگے، لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماکر انہیں خشکی پر لے آتے ہیں تو پھر یہ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اُدَﻋَوُا اﻟﻟﱠﮫَ ﻣُﺧْﻟِﺻِﯾنَ ﻟَﮫُ اﻟدﱢﯾنَ (الی قولہ) ﻓَﻟَﻣﱠﺎ ﻧَﺟﱠﺎھُمْ إِﻟَﯽ اﻟْﺑَرﱢ إِذَا ھُمْ ﯾُﺷْرِﮐُونَ
ایک صحیح حدیث میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ ایک مظلوم کی دعا، دوسرے مسافرکی دعا، تیسرے باپ کی اپنی اولاد کیلئے دعا۔ قرطبیؒ نے اس حدیث کو نقل کرکے فرمایا ہے کہ ان تینوں دعاؤں میں بھی وہی صورت ہے جو دعائے مضطر میں اوپر لکھی گئی ہے کہ جب کوئی مظلوم دنیا کے سہاروں اورمدگاروں سے مایوس ہوکر دفع ظلم کیلئے اللہ کو پکارتا ہے وہ بھی مضطر ہی ہوتا ہے ۔ اسی طرح مسافر حالتِ سفر میں اپنے خویش و عزیز اور ہمدرد وغمگساروں سے الگ اور بے سہارا ہوتا ہے ۔ اسی طرح باپ اپنی اولاد پر یعنی اپنی اولاد کیلئے اپنی فطرت اور پدری شفقت کی بناء پر کبھی بددعا نہیں کرسکتا بجز اس کے کہ اس کا دل بالکل ٹوٹ جائے اور اپنے آپ کو مصیبت سے بچانے کیلئے اللہ کو پکارے۔
ایک
حیرت انگیز واقعہ
وہب بن منبّہؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نماز کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو کوئی حادثہ گذرتا ہے وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ کہتے ہیں کہ کوفہ میں ایک قلی تھا جس پر لوگوں کو بہت اعتماد تھا۔ امین ہونے کی وجہ سے لوگوں کا سامان روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا تھا ایک مرتبہ وہ سفر میں جارہا تھا کہ راستہ میں ایک شخص اس کو ملا پوچھا کہاں کا ارادہ ہے قلی نے کہا فلاں شہر کا وہ کہنے لگا مجھے بھی جانا ہے میں پاؤں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا کیا ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پرسوار کرلے قلی نے اس کو منظور کرلیا اور وہ سوار ہوگیا راستے میں ایک دوراہہ ملا، سوار نے پوچھا کہ کدھر کو چلنا ہے، قلی نے شارعِ عام کا راستہ بتایا اور سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے اور جانوروں کیلئے بھی سہولت کا ہے۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے اسی راستے چلئے تھوڑی دور چل کر راستہ ایک وحشت ناک جنگل پر ختم ہوگیا جہاں بہت سے مردے پڑے تھے وہ شخص خچر سے اترا اور کمر سے خنجر نکال کر قلی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ قلی نے کہا کہ ایسا نہ کر یہ خچر اور سامان سب کچھ لے لے یہی تیرا مقصود ہے مجھے قتل نہ کر اس نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے قتل کروں گا پھر یہ سب کچھ لونگا اس نے بہت عاجزی کی مگراس ظالم نے ایک نہ مانی، قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت آخری نماز پڑھنے دے اس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا جلدی سے پڑھ لے اور ان لوگوں نے بھی یہی درخواست کی تھی مگر ان کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا اس قلی نے نماز شروع کی، سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ بھی یاد نہ آئی ادھر وہ ظالم کھڑا تقاضہ کررہا تھا جلدی ختم کر بے اختیار اس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی۔ اَمَّنْ یُّجِےْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُیہ پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہوا جس کے سر پر چمکتا ہوا خود (لوہے کی ٹوپی) تھی اس نے نیزہ مارکر اس ظالم کو ہلاک کردیا جس جگہ وہ ظالم مرکر گرا، اس جگہ سے آگ کے شعلے اٹھنے لگے یہ نمازی بے اختیار سجدے میں گرگیا اللہ کا شکر ادا کیا نماز کے بعد اس سوار کی طرف دوڑا اس سے پوچھا کہ خدا کے واسطے اتناتو بتا دو کہ تم کون ہو، کیسے آئے ہو؟ اس نے کہا میں اَمَّنْ یُّجِےْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ کا غلام ہوں اب تم مامون ہو، جہاں چاہے جاؤ۔
Dec 28 2014
Dua of a distressed person
Dua of a distressed person
حالت اضطرار میں اخلاص سے کی جانے والی دعا
مضطر کی دعا اخلاص کی بنا پر ضرور قبول ہوتی ہے
امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ اللہ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے اور اس آیت میں اس کا اعلان بھی فرمادیا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے مایوس اور علائق سے منقطع ہوکر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز سمجھ کر دعاکرنا سرماےۂ اخلاص ہے اور اللہ کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے۔ وہ جس کسی بندے میں پایا جائے اس کے اخلاص کی برکت سے اس کی طرف رحمت حق متوجہ ہوجاتی ہے جیسا کہ حق تعالیٰ نے کفار کاحال ذکر فرمایا ہے کہ جب یہ لوگ دریا میں ہوتے ہیں اور کشتی سب طرف سے موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور یہ گو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کو کھڑا دیکھ لیتے ہیں اس وقت یہ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں کہ اگر ہمیں اس مصیبت سے آپ نجات دیدیں تو ہم شکر گذار ہونگے، لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماکر انہیں خشکی پر لے آتے ہیں تو پھر یہ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
حیرت انگیز واقعہ
وہب بن منبّہؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نماز کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو کوئی حادثہ گذرتا ہے وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ کہتے ہیں کہ کوفہ میں ایک قلی تھا جس پر لوگوں کو بہت اعتماد تھا۔ امین ہونے کی وجہ سے لوگوں کا سامان روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا تھا ایک مرتبہ وہ سفر میں جارہا تھا کہ راستہ میں ایک شخص اس کو ملا پوچھا کہاں کا ارادہ ہے قلی نے کہا فلاں شہر کا وہ کہنے لگا مجھے بھی جانا ہے میں پاؤں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا کیا ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پرسوار کرلے قلی نے اس کو منظور کرلیا اور وہ سوار ہوگیا راستے میں ایک دوراہہ ملا، سوار نے پوچھا کہ کدھر کو چلنا ہے، قلی نے شارعِ عام کا راستہ بتایا اور سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے اور جانوروں کیلئے بھی سہولت کا ہے۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے اسی راستے چلئے تھوڑی دور چل کر راستہ ایک وحشت ناک جنگل پر ختم ہوگیا جہاں بہت سے مردے پڑے تھے وہ شخص خچر سے اترا اور کمر سے خنجر نکال کر قلی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ قلی نے کہا کہ ایسا نہ کر یہ خچر اور سامان سب کچھ لے لے یہی تیرا مقصود ہے مجھے قتل نہ کر اس نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے قتل کروں گا پھر یہ سب کچھ لونگا اس نے بہت عاجزی کی مگراس ظالم نے ایک نہ مانی، قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت آخری نماز پڑھنے دے اس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا جلدی سے پڑھ لے اور ان لوگوں نے بھی یہی درخواست کی تھی مگر ان کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا اس قلی نے نماز شروع کی، سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ بھی یاد نہ آئی ادھر وہ ظالم کھڑا تقاضہ کررہا تھا جلدی ختم کر بے اختیار اس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی۔ اَمَّنْ یُّجِےْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُیہ پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہوا جس کے سر پر چمکتا ہوا خود (لوہے کی ٹوپی) تھی اس نے نیزہ مارکر اس ظالم کو ہلاک کردیا جس جگہ وہ ظالم مرکر گرا، اس جگہ سے آگ کے شعلے اٹھنے لگے یہ نمازی بے اختیار سجدے میں گرگیا اللہ کا شکر ادا کیا نماز کے بعد اس سوار کی طرف دوڑا اس سے پوچھا کہ خدا کے واسطے اتناتو بتا دو کہ تم کون ہو، کیسے آئے ہو؟ اس نے کہا میں اَمَّنْ یُّجِےْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ کا غلام ہوں اب تم مامون ہو، جہاں چاہے جاؤ۔
Related posts:
By silsilaekamaliya • DUA