Jun 5 2015
Do Qism Ki Zindagi
Do Qism Ki Zindagi
Mufassir e Quran Hazrath Maulana Shah Mohammed Kamal ur Rahman Sahab DB, Son and Successor of Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab R.A
دو قسم کی زندگی
Jun 5 2015
Mufassir e Quran Hazrath Maulana Shah Mohammed Kamal ur Rahman Sahab DB, Son and Successor of Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab R.A
Jun 4 2015
Mufassir e Quran Hazrath Maulana Shah Mohammed Kamal ur Rahman Sahab DB, Son and Successor of Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab R.A
May 8 2015
Kalima-e-Tayyeba, kalma e shahadat, kalma e tayyab, kalima tayyab, First Kalima (Tayyab), Kalima Tayyab, Awwal Kalima, La ilaha illallah, Meaning of La ilaha illallah Muhammadur Rasulullah, The Importance of La ilaha ill-Allah, Maulana Kamal ur Rahman, Maulana Kamal ur Rahman sahab, Shah Kamal Sahab, Kamal ullah, Shah Mohammed Hussain, Silsila e Qadria, Silsila e Kamaliya, Silsila e Chishtia, Shah Kamal ullah, Machli waley shah sahab, Sufi Ghulam Mohammed Sahab, Shah Sahab
Jan 29 2015
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم۔ اللہ تعالٰی ہمارے خالق، مالک، حاکم، رب اور معبود ہیں۔ اس لئے الہ ہیں ۔ ایک سوال کہ جن کو ہم نے یہ سب یعنی “خالق، مالک، حاکم،رب، معبود” مانا ہے، کہاں ہے؟ سوال کرنے والے سب سن لیں اور توجہ سے سنیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ ارشاد ہوا بے شک میں قریب ہوں۔ مجھ جیسےمعمولی سمجھ والے کے لئے یہ کافی ہے۔ پتہ مل گیا۔لیکن کچھ شعور والا بھائی ہو تو اس سے مطمئن نہں ہوگا۔ یہ سوال تو آئیگاکہ قریب تو ہیں لیکن کتنے قریب؟ اس تقاضہ کا، اس سوال کا جواب ارشاد ہوا۔ “نحن اقرب الہی من حبل الورید” ہم اسکی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اپنی جان کو دیکھ لیا؟ دیکھ لیا۔ تجھ سے تیری جان جتنی قریب ہے ہم اس سے زیادہ قریب ہیں ۔ اب پتہ مل گیا، راز کھل گیا۔ اطمنارن ہوگیا ۔ لیکن یہ حضرتِ انسان ہیں، پھر بھی اطمینان نہیں۔ پھر سوال ہوا کہ کب کب اقرب رہتے ہیں؟ نماز میں؟ مراقبہ میں؟ مشاہدہ میں؟ کب کب؟۔
جواب آیا “وھومعکم این ماکنتم” تو جہاں ہے وہیں ہوں۔ تو زمین پر ہے تو میں تیرے ساتھ، تو عبادت میں ہے تو میں تیرے ساتھ، تو معصیت میں ہے تو میں تیرے ساتھ۔ اور کچھ پوچھنا ہے؟ ایک اور بات سمجھ میں نہیں آئی کہ میرے ساتھ کیسے؟ تو سنو ! ” خبردار! ہوشیار ! دل کی آنکھ کھول کر بات سنو! ہوش سے سنو! “ ألا إنه بكل شيء محيط” پھر پوچھا کیسے محیط ہیں؟ اندر یا باہر؟ نیچے یا اوپر؟ آگے یا پیچھے؟ تو سنو! تمہارے اندر، باہر، نیچے، اوپر، آگے اور پیچھے ہم محیط ہیں۔ اب سوالات کے فطری تقاضے ختم ہوئے۔ اب میری طرف سے انعام کے طور پر سنو! “ھوالاول والآخر والظاھر والباطن وھو بکل شی محیط” اب فکرِ انسانی کوئی سوال اٹھا سکتی ہے تو اٹھائے۔ یہ فضل و کرم ہے، نوازش ہے۔ میں تیرا اول و آخر ظاہر و باطن! ہاں! یہی وہ مقام ہے جہاں بعض مشأیخین و صوفیا بھی چکر کھا رہے ہیں۔یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ کی تجلی نظر آرہی ہے۔ قرآن کی اسی آیت کو پڑھ کر دوزخ کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔
دل کی نمازیں، ھو حق کے نعرے چل رہے ہیں۔ تو کون ہے؟ جواب ملیگا “میں شئے ہوں”۔ تو فرمایا میں شئے کا اول و آخر اور ظاہر و باطن ہوں۔ اگر شئے ہی نہ ہو تو کس کے اول؟ کس کے آخر؟ کس کے ظاہر؟ کس کے باطن؟ پتہ بتا دیا۔ پوری پوری ہدایت بینہ ہے۔ واضح حقأیق ہیں۔ شئے کا علم دے کر یہ سارے اعتبارات کھولے گئے۔ اللہ علیم، اور شئے “معلوم”۔ ماشأاللہ! اگر شئے ہی نہیں ہے تو اولیت و آخریت، ظاہریت و باطنیت بے معنی ہو جأیں ہر بال شئے، اسکے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ خون کا ہر قطرہ شئے، اس کے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ شیطان سئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ۔ جنت شئے، اس کے اول آخر ظاہر، باطن اللہ، دوزخ شئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ دل چپ نہیں رہتا اس لئے کہ پوچھنے والے کا نام ہی دل ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو اور مجھے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Jan 26 2015
الحمد للّٰہ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی امابعد ۔ عبد اور رب کے تعلق کو سمجھنے کے لئے سورج اور چاند کی مثال کو سمجھ لینا کافی ہے۔ ان دونوں کا باہمی تعلق عجیب ہے چاند کی روشنی اسکی اپنی ذاتی نہیں ، بلکہ سورج کی روشنی سے چاند روشن نظر آتا ہے یہی حال اللہ اور بندہ کی ذاتوں کاہے۔ دونوں ذوات الگ الگ ہیں۔ ۔ ایک معدوم ایک موجود۔ ایک ناقص ایک کامل ۔ اللہ بالذات موجود۔ ساری مخلوقات اللہ سے وجود لے رہی ہیں۔ ازل سے ابد تک ساری مخلوقات اللہ کے وجود سے موجود۔ مخلوقات باذات موجود نہیں۔ البتہ موجود نظر آتی ہیں۔ جیسے چاند اپنی ذات سے منور نہ ہو کر بھی منور نظر آتا ہے۔
ِ
اسی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک اور بعینہ مثال سینما کی ہے۔ مراتبِ ظہور کے انکشاف کے لئے بڑی واضح مثال۔
سینما میں ایک ریل ہوتا ہے۔ جس میں مختلف صورتیں بند ہوتی ہیں۔ چھوٹی، بڑی جماد و نبات، انسان وحیوان سبھی کی صورتیں، بوڑھی جوان، اندھی،گونگی، اور بہری سبھی کی شکلیں ہیں۔ اسی طرح اللہ کے علم کی ریل میں معلومات ہیں۔ ان کو معلوماتِ الٰہیہ، اعیانِ ثابتہ، اور شاکلات کہتے ہیں۔ اللہ کے علم میں مخلوقات کی جس طرح شکلیں محفوظ ہیں، اسی طرح ان شکلوں کی ذاتی قابلیات بھی محفوظ ہیں۔ ان ہی ذاتی قابلیات کو معلوماتِ الٰہیہ کے اقتضاآت یا استردات بھی کہتے ہیں۔
یہ معلومات ریل سے پردہ پر کیسے آرہے ہیں؟ ریل کے پیچھے روشنی ڈالی جارہی ہے۔ یعنی پیچھے سے ہر صورت پر نور کی تجلی ہورہی ہےتوپردہ پر صورت نظر آرہی ہے۔ نور بند ہوجائے تو ریل کی تصویر پردہ پر ہر گز ظاہر نہیں ہوتی۔ یہاں نکتہ کی بات یہ ہے کہ نہ نور صورت بنتا اور نہ صورت نور بنتی۔ نور، نور ہے، صورت ،صورت ہے۔ ہر ایک کی ذات الگ۔ نور کا کام ظاہر کرنا اور صورت کا کام ظاہر ہونا۔ نورِ الٰہی کی تجلی سے معلومات وجود پاتے چلے جارہے ہیں۔ زمین، آسمان، انسان، شیطان، جو ظاہر و موجود ہورہے ہیں وہ سب اللہ کے نور کے باعث موجود ہورہے ہیں۔ نور کے سامنے اجسام آرہے ہیں تو انکا ظہور ہورہا ہے نور کے سامنے ارواح آرہی ہیں تو ان کا ظہور ہو رہاہے۔ پھر سب اس شان سے ہورہاہے کہ اللہ میں یعنی ذاتِ الٰہی میں نہ تغیر نہ تبدل، نہ تعدد نہ تکثر۔
ریل میں صورت کی جیسی قابلیت یا استعدادِ ذاتی ہو ویسی ہی پردہ پر ظاہر ہورہی ہے۔ انسان جانور، فرشتہ، شیطان، زندہ،مردہ، اچھا، برا ،غرض جو ریل میں ہوگا وہی پردہ پر ظاہر ہوگا۔ جس طرح پردہ پر صورتوں کا ظہور ریل کی تصویروں کے مطابق ہے، اسی طرح کائنات کے پردہ پر مخلوقات کا ظہور ٹھیک معلوماتِ الٰہیہ کے مطابق ہے۔ اسی ظہور کو تخلیق کہا جاتا ہے۔
ریل کی صورت جب تک ریل میں ہے “معلوم” کہلاتی ہے۔ لیکن جب وہی ریل کی صورت پردہ پر ظاہر ہوتی ہے تو “مخلوق” کہلاتی ہے۔ ایک اور نکتہ یہ کہ ریل میں جو صورت محفوظ ہے وہ پردہ پر ظاہر ہونے کے بعد ریل سے غائب نہیں ہوجاتی بلکہ ریل میں علٰی حالہ محفوظ ہے۔ اسی طرح مخلوق ظاہر ہونے کے باوجود علمِ الٰہی میں ثابت یعنی معلوم کی معلوم۔ معلوماتِ الٰہیہ تخلیق کے بعد علم سے خارج نہیں ہوجاتے۔ اسی ایک حقیقت سے بہت سے اعتراضات حل ہوجاتے ہیں۔ ریل میں لنگڑے اور اندھےکی جوصورتیں اور قابلیتیں تھیں وہی پردہ پر ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر ریل چلانے والے سے پردے پر ظاہر ہونے والی صورت پوچھے کے مجھے لنگڑا یا اندھا کیوں بنایا؟ یہ سوال بیوقوفی کی دلیل ہے۔ حولاپن ہے۔ جواب یہ ہے کہ تو جیسا تھا ویسا ہی ظاہر کردیا گیا۔ جوں کا توں ظاہر کرنا ہی تخلیق ہے۔ جیسے کو ویسا ظاہر کرنا ہی عدل ہے۔
سرِ ظہور ایک واضح اور کھلا ہوا مسلہ ہے۔ سرِ ظہور کے حقائق و معارف کے لئے سینما کی مثال قریب ترین مثال ہے۔ جب تک روشنی پڑتی رہے گی۔ اس وقت تک ہی تصویریں نظر آتی رہینگی۔ جیسے ہی روشنی موقوف ہوجائے تصویریں ختم ہوجائیں گی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی عطأ و وجود کا ہے۔ جوں ہی عطائے وجود کا سلسلہ منقطع ہوا، انسان مردہ ہے۔
اللہ لاالٰہ الاھوالحی القیوم۔ قیومیت قأیم رکھنے والی صفت کا نام ہے۔ جو ذات قأیم رکھنے والی ہے وہی ہے قیوم۔ اور وہی اللہ کی ذات۔ مشرق اور مغرب کو، انسانوں اور جانوروں کو،فرشتوں اور شیطانوں کو غرض ہشدہ ہزار عالموں کو قأیم رکھنے والی ذات قیوم۔ ایک آن کے لئے بھی قیومیت کی تجلی ہٹ جائے قصہ ہی ختم۔ ہرآن قیومیت کی تجلی کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ مسلسل روح کے قیوم، اللہ مسلسل دل کے قیوم، اللہ مسلسل جسم کے قیوم، اللہ مسلسل سب کے قیوم۔ از عرش تا فرش۔ حیات، علم، ارادہ، قدرت، سماعت، بصارت اور کلام ہر صفت کے قیوم۔
تسلسلِ قیومیت کی فہم کے لئے (ہاتھ میں کاغذ لے کر فرمایا)۔ یہ کاغذ ہاتھ میں قأیم ہے۔ اونگھ یا نیند کا غلبہ ہو تو کاغذ ہاتھ سے گرجائے۔ اگر تسبیح ہاتھ میں ہو اور اونگھ آجائے تو تسبیح گرجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لا تا خذہ سنۃ ولا نوم۔ میں سب کو قأیم رکھنے والا، اگر میں اونگھ گیا تو تمہاری خیر نہیں۔ سب فنا ہوجائیں گے۔ پہچان مل گئی جس کو اونگھ نہ آئے وہی قیوم۔ ذرا سا اللہ کی توجہ ہم سے ہٹی کہ اسی کا نام موت، فنا، قیامت، یا صور۔ جدھر سے توجہ ہٹالیں ادھر فنا۔ آنِ واحد میں فنا طاری۔
خبر بھی ہے کہ کس کو قأیم رکھے ہوئے ہیں؟ محض فضل و کرم ہے کہ ماننے والوں کو اور نہ ماننے والوں کو، رحم کرنے والوں کو اور ظلم کرنے والوں کو سب کو قأیم رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے تخلیق “کن” سے ہے ویسے ہی فنا بھی “کن” سے ہے۔ قیومیت کا مسلہ اس شان اور قوت کا ہے کہ علما کی جماعت کے سامنے بلا ججھک استعمال کر لیجئے۔ مانے بغیر ،تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ اور اسکا جواب نہیں۔ اسی قیومیت کا اصطلاحی نام “وحدۃالوجود” ہے۔ لیکن وحدۃالوجود کا تو حلیہ بگاڑا گیا، بدنام کیا گیا۔ اگر پوچھا جائے کہ قیومیت کیسی ہے تو علما کہینگے بہت اچھی بات ہے، ضرور بات کرنی چاہئیے۔ یہ اصطلاح سمجھنے، غور کرنے، اور پانے کی ہے۔
آخری بات یہ کہ سرکارﷺ نے بڑا پیارا اعلان فرمایا ایک اسلام کا، ایک ایمان کا، اور ایک احسان کا۔ پوچھا گیا۔ وماالاحسان؟ جواب ملا الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم یکن تراہ فانہ یراک۔ (احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کر گویا تو اللہ کو دیکھ رہاہے)۔ یعنی حاضر و موجود کا ادراک قائیم کرے اگر کسی بھائی سے یہ نہ ہو سکے تو یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رے ہیں۔ بزرگوں کی اصطلاح میں پہلا ادراک مشاہدہ کہلایا دوسرا ادراک مراقبہ۔ بلی چوہوں کو پکڑنے کیلئے مراقبہ کرتی ہے۔ یہ مثال مراقبہ کی آسانی پر دلیل ہے۔ اگر زندگی میں آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں تو کل زندگی احسانی ہوجائے۔ ایک شیخ صاحب ایک نوجوان مرید کو زیادہ چاہتے تھے۔ دوسرے مریدوں نے وجہ پوچھی تو شیخ صاحب نے ہر ایک کے ہاتھ میں چاقو اور کبوتر دیکر فرمایاکہ، ایسی جگہ ذبح کریں جہاں کوئی نہ دیکھتا ہو تعمیلِ حکم میں بعضوں نے غاروں اور ویرانوں میں ذبح کیا، بعضوں نے بیت الخلأ اور بعضوں نے گھر کے پچھلے حصہ میں کاٹا۔ نوجوان نے ذبح کئے بغیر چھری اور کبوتر شیخ کو واپس کئے۔ شیخ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ ہر جگہ اللہ موجود ہے اس لئے کہیں ذبح نہ کر سکا۔ اللہ کے دیکھتے رہنے کا حال طاری کرنے کے بعد گناۃ مشکل ہوجأیگا۔ اللہ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔
Jan 10 2015
موجود حقیقی باری تعالیٰ کی ذات ہے ۔اسکے علم میں جن چیزوں کا ثبوت پایا جاتا ہے وہ موجود اضافی کہلاتے ہیں ۔اوروہی چیزیں خارج میں آسکتی ہیں ۔مثلاً آپکی ایک ذات ہے جو حقیقت میں موجود ہونے کی بنا پر موجود حقیقی کہلاتی ہے ۔آپ کے تصور میں ایک حسین صورت معہ اپنے لوازمات کے نمودار ہوتی ہے ۔اسطرح اسکا علم میں نمو دار ہونے کو ثبوت کہتے ہیں ۔آپ کی ذات اور اس حسین چہرے کی ذات دونوں اگرچہ کہ الگ الگ ہیں مگر ااپ کی ذات ہونے کی وجہ سے وہ ذات آپ کے علم میں ظاہر ہوئی ورنہ کبھی ظاہر نہ ہوسکتی تھی اس لئے وہ اضافت میں آنے کی وجہ سے موجود اضافی کہلائی خارج میں آنے سے پہلے اس کو ثبوت علمی کہتے ہیں آپ جب اس تصویر کو کاغذ پر اتاریں گ تو اسکو موجود فی الخارج ہونا کہنگے ۔اور جو چیز ثبوت علمی نہ ہو اسکی کوئی حقیقت نہیں وہ ہمیشہ مسلوب رہتی ہے پھر اسکو عدم اضافی بھی کہنا غلط ہے ۔عدم نہیں کو کہتے ہیں جو ضد ہے وجود کی جب وہ وجود ہی نہیں ہےتو عدم کا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور جو چیز علم الٰہی میں ثابت ہو وہ کبھی مسلوب نہیں ہوسکتی ۔ہر وہ چیز جو علم میں آئے اسکو معلوم کہتے ہیں اور مخلوق کی صورتوں کا علم میں آنا صور علمیہ اور اعیان ثابتہ کہلا تا ہے ۔
مثلاً آپ کے علم میں جو حسین چہرہ آیا اسکو صور علمیہ یا اعیان ثابتہ کہیں گے اس چہرے کی تفصیلات کو جو آپ کا جانتا پن ہوا یعنی وہ چہرہ گوراہے یا کالا ۔وہ کتنے دن تک باقی رہیگا ۔اس کے چہرے پر کب خراش آئے گی یہ سب تفصیلات کا جو آپ کو علم ہے وہ معلوم کہلاتا ہے ۔
لہٰذا باری تعالیٰ اعیان ثابتہ کے میلانات ،لوازمات اور ان کے اقتضاآت کو ان کی تخلیق سے قبل جانتا ہے جب کہ علم میں ثابت ہوئے ۔اعیان ثابتہ علم الٰہی میں ثابت ہونے کے باوجود خارج میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ان کو خارج میں لانا یعنی تخلیق کرنا مرضیء الٰہی پر موقوف ہے وہ چاہے تو انہیں خلق کرے یا نہ کرے اسکے باوجود اس نے جو خلق کیا وہ اسکا فضل کہلایا ۔ پھر علم الٰہی میں جس طرح وہ ثابت ہوئے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کئے بغیر جوں کا توں تخلیق کرنا باری تعالٰی کا عدل کہلایا ۔
کائنات کا بنتا پن دو طرح پر ہے ۔وہ چیزیں جو کن کے ساتھ ہی دفعتاً اپنے پورے کمال کے ساتھ پیدا ہو گئیں ۔وہ حادث دہری کہلاتی ہیں ۔عالم اروح اور عالم مثال حادث دہری ہیں جو ،،کن،، کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے ۔البتہ جو چیزیں تدریجاً آہستہ آہستہ کمال کو پہنچنے والی ہیں وہ حادث زمانی کہلاتی ہیں ۔
حق سبحانہ تعالیٰ نے ،لا الٰہ الا ھو خالق کل شئی ، فرماکر اپنی شان الٰہیت کو صاف طور سے بندوں کو سمجھا دیا۔ کہ ،،الٰہ،، کہلانے والی ذات کے کیا کیا اعتبارات ہیں وہ کاملہ صفات سے کیسے متصف ہے کتنا وہ صاحب قوت اور نافع و ضارہے یہی نہیں بلکہ بندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا یعنی حاجت روابھی ہے ۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ الٰہیت کیا ہے لیکن اتنا جاننا ہی کافی نہیں کیونکہ کلمۂ طیبہ میں الٰہیت کے ساتھ ساتھ رسالت کا بھی بیان ہے جسکا جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ الٰہیت کو جاننا ہے۔ جب تک کہ رسالت کو نہ سمجھیں دونوں مراتب کی تمیز نہ ہوگی ۔ تنزیہ اور تشبیہ کا فرق معلوم نہ ہوسکے گا۔
اس کے علاوہ نفی و اثبات بھی تو کرنا ہے ،اس میں بھی دشواری ہوگی ،غیریت کو سمجھے بغیر نہ تو اسکی نفی کرسکو گے اور اثبات کرنا بھی مشکل ہوگا ، مشکل کیا بلکہ صحیح نہ ہوگا ،ایسی صورت میں ایمان کی سلامتی خطرہ میں پڑجائے گی ۔ مثلاً زید میں کچھ برائیاں ہیں وہ چاہتا ہے کہ اپنی برائیوں کو دور کردے لیکن اپنی برائیوں پر اسکی نظر ہی نہیں پڑتی وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھ میں کیا برائی ہے ۔بغیر اپنی برائیوں سے واقف ہوئے اگر وہ یہ کہدے کہ میں نے اپنی برائیوں کو دور کردیا تو اسکا ایسا کہنا غلط ہوگا ۔وہزندگی بھر اپنی برائیوں کو دور نہ کر سکے گا ،جس وقت وہ اپنی برائیوں سے واقف ہو جائے گا تب آن واحد میں ان کو دور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح مرتبہ الٰہیت ورسالت میں جو غیریت پوشیدہ ہے جب تک بندہ اس سے واقف نہ ہو جائے اسکو دورنہیں کر سکتا غیریت کو دور کرنا ہی نفی ء غیریت کہلاتا ہے ۔ جب اسکا نفی کرنا ہی درست نہ ہوا تو اثبات کب صحیح ہو سکتا ہے لھٰذا ان دونوں کی غیریت سے واقف ہونے کیلئے مرتبہ رسالت کا جاننا بے حد ضروری ہے ؛۔
دل کے ناقص علم کو باہرنکالو کامل یقین کے ساتھ جواں مردی سے قدم آگے بڑھاؤ ۔کفر۔و الحاد کی گرد کو جھٹک دو ،ظلمت جہل کو ہٹاکر ایمانی انوار سے مالا مال کر لو ہمت نہیں تو یہ حجابات اٹھانے سے پہلے خود کو تیار کرلو جن حقائق کو بیان کیا جا رہا ہے انکو برداشت کرلو ۔
۱) وجود ذاتی (۲)وجود ذہنی (۳) وجود اضافی (۴) وجود حسی وغیرہ ۔
ہر شئی کے دو رخ ۱ ایک تعین ۲ دوسرے لا تعین
ایک کو رنگ ۔دوسرا بے رنگ ۔ایک کو شکل ۔دوسرا بے شکل۔ایک کو صورت دوسرے بے صورتی ایک میں کیف دوسرابے کیف ایک مقید دوسرے مطلق بلکہ قید اطلاق سے آزاد ایک کو صورت دوسرے بے صورت ایک ظاہردوسرا حقیقت ایک فانی دوسراباقی ایک حادث دوسرا قدیم ایک موجود با تعارض دوسرا موجود با الذات ایک ممکن الوجود دوسرا واجب الوجود،وجود؟ ہست ہے پن ! جس پر آثار مرتب ہوتے ہیں یعنی نہیں سے ہونا !وہ قوت جو شئی کو موجود کرتی ہے وجود ایک ہی ہے جو مختلف تعینات کی صورت میں جلوہ گر ہے۔
جب فعل رب کے لئے ہے تو عبد کیلئے انفعال کا کسب ہے اس فعل اور کسب میں فرق کرنا ضروری ہے چونکہ رب ہی فاعل ہے لھٰذا اسی سے مدد چاہنا ضروری ہے اسی کو استعانت کہتے ہیں ۔
استعانت کے پانچ ۵ طریقے خصوصی ہیں اس موقع پر ایک ایک عمل و حا ل اور ایک ایک حکم متعلق ہے ۔
(۱) حالت گناہ (۲) ضرورت (۳) معاملات (۴) نعمت (۵) مصیبت
گناہ والی حالت میں توبہ واستغفار کرنا ہے ۔
دوسری حالت ضرورت میں دعا کا حکم ہے ۔
تیسری حالت معاملہ کی ہے جس میں توکل کا حکم ہے۔
چوتھی حالت نعمت والی اس حالت میں شکر بجا لائے ۔
پانچویں حالت مصیبت کی ہے اس میں صبر کرے ۔
توبہ کرنے سے دائرۂ نعمت میں ! ضرورت میں دعاء کرنے سے دائرۂ نعمت میں !معاملہ میں توکل کریں تو دائرۂ نعمت میں اور نعمت میں شکر کریں تو نعمت ہے ہی !اور مصیبت و آزمائش میں صبر کریں تو دائرۂ نعمت میں متبد ل ہو جاتے ہیں ! خصوصاً ….
(ان اﷲ مع الصابرین ) (ان اﷲ یحب الصابرین )(وکان حقاً علینا نصر المؤ منین)
(ذالک بان اللہ مولی الذین آمنو ا وعلیٰ ربھم یتوکلون)
(۱) معیت ذاتی (۲) محبت الٰہی (۳) تائید و نصرت (۴) مولائیت
یہ تمام امور اربعہ اور چار نسبتیں صبر سے مل جاتی ہیں ۔
اصل تمام موجودات میں وجود ہے اور وجود عقلی طور پر دو قسموں میں منقسم ہے ایک وجود عین ذات ہے ۔اور دوسرا وجود زائد بر ذات ہے اور اسی وجود کا موجود سے انفکاک ہوتا ہے ۔اور دوسرا وجود موجود سے انفکاک اور جدائی باطل اور ناجائز ہےاور عالم کا وجود موجود سے الگ ہونا ممکن ہے اور حق کا وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے جدائی نہیں وہ وجود وجود اصل ہے بالذات ہے وجود حق ہے بالکل بر حق ہے یہ قائم خود بخود ہے قائم بہ خود ہے ۔اور دوسروں یعنی غیر اللہ کا وجودزائد بر ذات ہے ممکنات کا ہے ممکن الوجود ہے عالم فی حد ذاتہہ عدم ہے نیست ہے قائم بالغیر ہے اور حق تعالیٰ کا وجود قائم بالذات ہے اور مقوم ہے اور وہ بھی ممکن ہوا تو تسلسل لازم آتا ہے جو باطل ہے
الا کل شئی ما خلل اﷲ باطل
حقیقت حق وجوب ،ہست وجود ،خود بخود ، قائم بہ خود ، دوسرے کو قیام بخشتی ہے اسکا نام قیوم ہے اسکی صفت قیومیت ہے خود سے ہے اور دوسروں کو قیام بخشتی ہے ، وجود کو نیست ہونا نہیں ،عدم نہیں ،ہمیشہ ہست ہر آن ہے اسکی ذات حی وقیوم ہے ، مرجع حیات و قیام رکھتی ہے، وہ بے شمار کمالات رکھتی ہے،
کمال حیات ،کمال علم ، کمال ارادہ ، کمال قدرت ، کمال سماعت ، کمال بصارت ، کمال کلام ، سے موصوف ہے اس کے کمالات میں نقص و زوال کا گذر نہیں ،
وجود کی دو قسمیں ہیں ۱ واجب الوجود ۲ ممکن الوجود
واجب الوجود وہ ہے جو قائم بخود یعنی اپنے آپ قائم ہو ،اور اس کے لئے دوام ہو وہ وجود وجود حق ہے ، یعنی خدا کی ذات وصفات واجب الوجود اور اپنے ہی سے قائم ہے وہ قدیم ہے دائم ہے ، اور ممکن الوجود وہ ہے جو قائم با لغیر ہو جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو وہ کبھی ہو اور کبھی نہ ہو اس مضمون کو یوں سمجھ سکتے ہیں ۔
جو شئی وجود صرف واجب اسے کہو
ممکن کی یہ صفت کبھی ہو کبھی نہ ہو
اس لئے یہ عالم فانی ہے حادث ہے مخلوق ہے مملوک ہے محکوم ہے ،مربوب ہے مخلوق میں تعین ہے حق لا تعین ہے مخلوق میں صورت ہے حق تعا لیٰ بے صورت ہیں مخلوقات میں تحدیدات ہیں حق تعالیٰ بے حد ہیں مملوک میں تقید ہے حق تعالیٰ قیود سے منزہ ہیں مخلوق میں نقص وزوال ہے حق تعالیٰ نقص وزوال سے پاک ہیں ، کائنات کی اشیاء سمت وجہت سے مخصوص ہیں حق تعالیٰ سمت وجہت سے مبرا ہیں ، کائنات کی اشیا کسی نہ کسی طور محتاج ہیں اور حق تعالیٰ احتیاج سے پاک ہیں اشیاء کونیہ کی حقیقتیں معدومات اضافیہ ہیں اور حق تعا لیٰ موجود حقیقی ،
سبحان اللہ الحمد للہ
ممکن الوجود کی مجموعی طور پر دو قسمیں ہیں (۱) جوہر (۲) عرض
جو قائم بنفس نفیس اور بذات خود اور قائم بنفسہ ہوتا ہے اسے جوہر سے تعبیر کرتے ہیں ۔اور جو خود سے نہیں بلکہ قائم بہ غیر خود ہو تا ہے اسے عرض سے موسوم کرتے ہیں ۔
جوہر کی مجموعی طور پر ۵ قسمیں ہیں
۱۔عقل۔۲۔نفس۔۳۔جسم۔۴۔ہیولیٰ۔۵۔صورت
۱) عقل ۔ایک جوہر مجرد ہے اور اپنی ذات اور فعل میں مادے سے تنھا
۲)نفس۔مادہ سے مجرد ہے عقل نہیں تصرف و تدبیر کا محتاج ہے
۳) ہیولیٰ۔جسم اور صورت کی جگہ ۔
۴) جسم۔ ہیولیٰ اور صورت سے مرکب ہے ۔
۵) صورت۔ ہیولیٰ میں اترنے والا ایک جوہر ہے ۔
۱۔ کم۔ ۲۔کیف۔۳۔اضافت۔ پدریت ومادریت ۴۔ این ۔۵۔ متیٰ۔
۶۔ وضع۔ شئی کے اجزاء سے لینا کہ کب کھڑے رہنا، بیٹھنا، ۷۔ملک۔ کسی اور کے احاطہ میں رہنا (محاط) ۸۔فعل۔ (بڑھئی کا لکڑی کو کاٹنا اور لکڑی کا کٹے جانے کو قبول کرنا ) ۹۔انفعال۔متاثر ہونا ،
نوٹ ۔ اللہ جل شانہ ان تمام چیزوں سے برتر اور ، تعالیٰربنا من کیف ، واین،ومتیٰ، ونقص، وشریک،
ھو جامع جمیع الصفات الکمال ،ومنزہ عن النقص والزوال ھوالحق لا الٰہ الاھو
وجود من حیث ھوھو یعنی جس سے وہ موجود با لذات ہے موجود دو قسم کا ہے ۔۔۱ واجب ۔۲ ممکن۔
الوجب مایکون وجود ہ ضروریاً یعنی واجب وہ ہے جس کا وجود ضروری ہے ورنہ غیر کی طرف اسکا وجودی احتیاج لازم آتی ہے حالانکہ اللہ کی ذات کسی بھی کمال چیز میں غیر کی طرف احتیاج سے پاک ہے
متکلمین اسلام اور حکماء عارفین کے نزدیک تمام موجودات میں اصل وجود ہے عقلی طور پر وجود کی دو قسمیں ہیں ایک وجود عین ذات ہے وجود ہی ذات ہے اور ذات ہی وجود ہے وہ اللہ کا وجود ہے جو چیزیں مصدر آثار موجودات ہے وہی یہ اصطلاحات وجود کہلا تا ہے اور حق تعالیٰ واجب الوجود ہیں اور تمام کائنات ممکن الوجود ہے ۔
Jan 10 2015
انیت ایک اقرار دو ۔ انیت کہتے ہیں میں پن کو ؛ اور یہ میں پن لازمہ ہے وجود کا کیونکہ وجود اللہ
اور بندے میں مشترک ہے اور ایک ہے لھٰذا جس طریقہ سے اللہ اپنے آپ کو میں کہتا ہے ،اسی طرح بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے اللہ جب میں کہے گا تو یہ میں خود اسکا ذاتی اور حقیقی ہوگا ، اور جب بندہ جب کبھی میں اپنے وجود کے اعتبار سے کہے گا تو اسکا ذاتی اورحقیقی نہ ہوگا بلکہ عاریتی اور امانتی ہوگا؛
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکا حقیقی میں کیا ہوگا اگر اسکا حقیقی میں ہوسکتا ہے تو خود اسکا عدم ہے ،اور جو معدوم ہو وہ اپنے آپ کو میں کس طرح کہہ سکتا ہے (یعنی مین پن اسکا اصلی ہے)
لہٰذا جن معنوں میں لفظ میں اللہ پاک استعمال کرتے ہیں ، انہیں معنوں میں بندہ ہرگز استعمال نہیں کرسکتا اور نہ کرنا چاہئے ۔البتہ اگر یہ لفظ میں بندہ استعمال کرے تو اس کے حفظ مراتب کا حسب ذیل طریقہ ہو گا ۔
انیت ایک اقرار دو کے معنیٰ ہیں کہ اللہ اور بندہ میں ۔میں پن ایک ہے مگر بندہ کے اقرار دو ہیں ایک اقرار بندہ کا اللہ کی کبریائی کیلئے، اور دوسرا اقرار بندہ میں اپنی انکساری کیلئے کرتا ہے ، یہ انکساری کا میں پن در اصل اس کے عدم پر دلالت کرتا ہے ، اسکے یہ معنیٰ ہیں کہ میری حقیقت تو عدم ہے اور اپنے آپ کو میں میں نہیں کہہ سکتا ۔ مگر یہ اللہ کی نوازش ہے کہ وجود بخشی کی وجہ سے اپنے آپ کو میں کہہ سکتا ہوں ، بہر حال اگر بندہ اپنی انکساری کو ملحوظ رکھکر اور اس لفظ کو عاریتی اور امانتی سمجھکر استعمال کرے تو جائز ہے اور ٹھیک ہے اور یہی اس کا حق ہے ۔
اکثر فقرا ء کہتے ہیں کہ فقیر فقیر کے پاس آؤ تو میں پن نکال کر آؤ ان کے اس لفظ میں کہنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ لفظ سوائے خدا کے کوئی استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ موجود حقیقی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بندہ بھی اپنے آپ کو میں کہتا ہے ۔اس کا یہ میں کہنا تین چیزوں سے ثابت ہے (۱) اسلام میں میں ؔ ۔(۲) ایمان میں میںؔ ۔ (۳) احسان میں میںؔ ۔
ان تینوں کی تشریح حسب ذیل ہے
سب سے پہلے مسلمان ہونے کیلئے کلمۂ شہادت پڑھنا پڑتا ہے کلمۂ شہادت کی ابتداء ۔ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ سے ہو تی ہے اس کے معنیٰ یہ ہے کہ گوا ہی دیتا ہوں میںؔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں تو اسلام خود سکھا تا ہے کہ بندہ اپنے کو اسلام میں داخل کرنے کیلئے میں کہے اگر اس میں کو فقراء کے کہنے کے بموجب ، نیں، سے بدل دیں جو اسکا ضد ہے تو یہ معنیٰ ہونگے گواہی دیتا ہوں نیں ؔ یہ معنیٰ بالکل بر عکس ہو جاتے ہیں اور اسلام میں داخل ہونے کے بجائے اسلام کے دائزے سے کلمۂ شہادت پڑہنے والا خارج ہو جاتا ہے ۔
ایمان مفصل میں اس کی ابتداء آمنت با اللہ سے ہوئی ہے یعنی اس کا تر جمہ یہ ہوا کہ ایمان لاتا ہوں میںؔ اللہ پر ، اغیرہ [الخ ] ایمان میں بھی میں ؔ موجود ہے اگر اس کو بھی نیں سے بدل دیں تو تو معنیٰ بالکل برعکس ہو جاتے ہیں۔
جائز اس صورت میں ہے کہ وہ حفظ مراتب کے ساتھ اپنی انکساری اور فرمانبرداری کو پیش کرے
اور ناجائز اس وقت ہے جبکہ بندہ اس میں کو اللہ کی کبریائی کے ساتھ پیش کرے ۔
Jan 9 2015
Maulana Kamal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
تصوف کے بیسیوں مسائل ہیں لیکن حضرتؒ کی افہام وتفہیم کے بعد اور لسانی تفہیمات سننے اورسمجھنے کاموقع ملااورکلیدمعرفت علم علیم اورمعلوم کے نکات کھلنے کے بعدانشراح سے پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے اب مسائل تصوف میں خیروشر مشکل سمجھاگیا ہے لیکن قادریہ ۔کمالیہ ۔سلسلہ کے بزرگوں نے کتاب وسنت کے تحت ہر مسئلہ کا حل پیش کیا ہے اور کیا جاسکتا ہے
وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اﷲ
ِ کے جملہ میں ان دونوں عنوانات یعنی خیروشرکاذکر ہے۔ خیروشرکا اندازہ اللہ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ خالق خیروشر ہیں اوربندہ کاسب خیروشر ہے ۔
خیر بھلائی کوکہتے ہیں اورشربرائی کوکہتے ہیں باعتبار تخلیق فعل خیر خوشگوار امر ہوتاہے اورشرناگوارہوتاہے فکر صحیح کے نتیجہ میں بہت سی باتیں کھلتی ہیں بہت سی چیزیں وہ جو چاہتا ہے اور ہت سی چیزیں وہ ہیں جو وہ نہیں چاہتا فطرتانسانی مرغوبات کا حصول چاہتی ہے صحت پسند ہے بیماری نا پسند ہے راحت پسند ہے اور مصائب ناپسند ہیں زندگی پسند ہے اور موت ناپسد ہے ایسے ہی بعض چیزوں کے حصول کیلئے بیقرار رہتا ہے اور ہت بیتاب قرار چاہتی ہے یہ نمونے اور اضداد
تمیز اور پہچان کیلئے رکھے گئے ہیں مغربی مفکرین خیر وشر کے مسائل میں حیران وپریشان ہیں مشہور فلسفی جان اسٹوٹ رائل کا خیال ہے اللہ کی ذات خیر مطلق ہے لیکن قادر مطلق نہیں قادر مطلق ہونے کی صورت میں شر کا ظہور نہیں ہونا چاہئے
تھا لیکن شر موجود ہے اور ناقابل انکار حقیقت ہے دو قسم کے سلسلہ دنیا میں ہیں ایک طرف ملائکہ کا سلسلہ جوخیرمحض ہے اوران کے مقابلے میں شیاطین ہیں جو شر محض ہیں ملائکہ اور فرشتے ہر بات میں خیر اور بھلائی کی طرف چلتے ہیں اور
شیاطین ہربات میں برائی اور نافرمانی کی طرف چلتے ہیں فرشتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لَایَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمرِہٖ یَعْمَلُوْنَ
لَایَعْصُوْنَ اﷲَ مَا اَمْرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔
وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا
شیطان کاکام ہی کفر کرناہے اور کفران نعمت ہے فرشتے جہاں ہوں گے خوشبو کی طرف دوڑیں گے اور شیاطین جہاں ہوں گے بدبو کی طرف دوڑیں گے حدیث میں آیا ہے کہ جہاں مساجدہیں اور ذکر اللہ کی مجالس
ہواکرتی ہیں وہاں فرشتوں کا ہجوم ہوتا ہے اور جتنی کوڑیاں اور گندگی کے اڈے ہیں وہاں شیاطین کاہجوم ہوتا ہے فرشتوں کا کام دعاء کرنااوروں کیلئے بھلائی چاہنا ہوتاہے اورشیاطین کاکام برائی کرنا کرانا اوربرائی چاہنا اورتکالیف کا سامان کرنا ہوتا ہے
فرشتے جو ہمہ جہت خیر ہوتے ہیں۔
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُوْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔
جو ملائکہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں عرش کے اطراف ارد گرد اربوں کھربوں فرشتے ہیں ان کا کام کیا ہے حق تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شیاطین کیا کرتے رہتے ہیں
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرِخَزَاءِنِہٖ بِیَدِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنَ الْخَیْرِالَّذِیْ ھُوَ بِیَدِکَ کُلِّہٖ
صحیح حاکم میں حضرت ابن مسعودؓ اور ابن حبان میں حضرت عمرؓ کی روایت میں ان دو جملوں میں دو اہم باتیں ہیں ایک توبہ کرنا ہے خزانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ عوہ ہر خیر وبھلائی جو دست قدرت میں ہے اسکی مانگ ہے پہلے جملے میں ہے کہ ائے اللہ میں مانگتا ہوں ہر بھلائی
جس کے خزانے تیرے قبضۂ قدرت میں ہے اور دوسرے جملے میں کا مفہوم یہ ہے کہ مانگتا ہوں وہ سب کی سب بھلائی کہ وہ تیرے قبضہ میں ہے
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنٰی وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ.
خُذْ اِلَی الْخَیْرِ بِنَاصِیَۃِ وَجَعَلَ السَّلَامَۃَ مُنْتَھٰی رِضَاءً
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَ الْمَسْءَلَۃِ وَخَیْرَالدُّعَاءِ وَخَیْرَ النَّجَاحِ وَخَیْرَ الْعَمَلِ وَخَیْرَ الثَّوَابِ وَخَیْرَ الْحَیٰوۃِ وَخَیْرَ الْمَمَاتِ.
ائے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں سب سے اچھا سوال اور سب سے اچھی دعا اور سب سے اچھی کامیابی اور سب سے اچھا عمل اور سب سے اچھا بدلاور سب سے اچھی زندگی اور سب سے اچھی موت ان دعاؤں سےاندازہ ہوتا ہے کہ تمام ہی اعمال میں خیروشرکے پہلورہتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سُوْءِ الْعُمْرِ وَمِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ وَمِنْ شَرِّ لِسَانِیْ۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطَنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعَہْ
ائے اللہ میں پناہ چاہتاہوں تیرے اس حیوان کی برائی سے جو پیٹ کے بل چلتاہے۔اوراس حیوان کی برائی سے جودوپیروں سے چلتا ہے اوراس حیوان کی برائی سے جوچارپیروں سے چلتاہے یعنی دوندوں پرندوں درندوں وغیرہ کے شرورسے تیری پناہ (کل محسوس موجود) یعنی ہر محسوس موجود ہے برائے تسہیل مسئلہ کی تفہیم کیلئے ایک وجدانی تمثیل یاد رکھئے بیت الخلا سے واپسی کے بعد جو دعا کی جاتی ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِی
ْساری تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے میری تکلیف کو دور کیا اور مجھے عافیت دی دعاکے الفاظ پرغورکریں تکلیف ہمارے ندر ہے اس کے دور کرنے کی نسبت اللہ کی طرف ہے یعنی دفع شر پر اللہ قادر ہیں اور علم صحیح کی روشنی میں معلوم ہوا کہ فاعل حقیقی کون ۔
بندہ میں غلاظت اور شرکا ظہور نہ ہوتا تو ،تو خیر کی معرفت کیسے ہوتی اس تمثیل میں بندہ کی معرفت نقص اور شر کے ساتھ ہوئی اور اللہ کی معرفت کمال خیر کے ساتھ ہوئی تو معلوم ہواکہ اپنی ذات محل شر اور اللہ کی ذات خیر ہی خیر ذات مخلوق میںشر کے سوا کچھ نہیں اور اللہ میں خیر کے سوا کچھ نہیں،اس کے سوا پہچان کیا ہو ۔
Jan 9 2015
Hazrath Maulana Shah Mufti Mohammed Nawal ur Rahman Sahab Damat Barkatuhum
Jun 6 2015
Urooj e Ruhaniyat – Shah Kamal Sahab
Urooj e Ruhaniyat
Mufassir e Quran Hazrath Maulana Shah Mohammed Kamal ur Rahman Sahab DB, Son and Successor of Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab R.A
عروجِ روحانیت
مفسرِقرآن حضرت مولانا شاہ محمد کمال الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم، خلیفہ سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ
Click here to Download
By silsilaekamaliya • Maulana Kamal ur Rahman Sahab - Bayanaat, Silsila e Kamaliya, Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: bayanat kamal ur rahman sahab, Maulana Kamal ur Rahman, Ruhaniyat, ruhaniyat sufi, Urooj e Ruhaniyat, شاہ کمال صاحب, مولانا کمال الرحمٰن صاحب