Jan 26 2015
Maratib e Zahoor – Wahdatul Wujud
Maratib e Zahoor – Wahdatul Wujud
Sultan ul Aarifeen Hazrath Shah Sufi Ghulam Mohammed Sahab RA
مراتبِ ظہور – وحدت الوجود
سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحب ؒ
الحمد للّٰہ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی امابعد ۔ عبد اور رب کے تعلق کو سمجھنے کے لئے سورج اور چاند کی مثال کو سمجھ لینا کافی ہے۔ ان دونوں کا باہمی تعلق عجیب ہے چاند کی روشنی اسکی اپنی ذاتی نہیں ، بلکہ سورج کی روشنی سے چاند روشن نظر آتا ہے یہی حال اللہ اور بندہ کی ذاتوں کاہے۔ دونوں ذوات الگ الگ ہیں۔ ۔ ایک معدوم ایک موجود۔ ایک ناقص ایک کامل ۔ اللہ بالذات موجود۔ ساری مخلوقات اللہ سے وجود لے رہی ہیں۔ ازل سے ابد تک ساری مخلوقات اللہ کے وجود سے موجود۔ مخلوقات باذات موجود نہیں۔ البتہ موجود نظر آتی ہیں۔ جیسے چاند اپنی ذات سے منور نہ ہو کر بھی منور نظر آتا ہے۔
ِ
اسی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک اور بعینہ مثال سینما کی ہے۔ مراتبِ ظہور کے انکشاف کے لئے بڑی واضح مثال۔
سینما میں ایک ریل ہوتا ہے۔ جس میں مختلف صورتیں بند ہوتی ہیں۔ چھوٹی، بڑی جماد و نبات، انسان وحیوان سبھی کی صورتیں، بوڑھی جوان، اندھی،گونگی، اور بہری سبھی کی شکلیں ہیں۔ اسی طرح اللہ کے علم کی ریل میں معلومات ہیں۔ ان کو معلوماتِ الٰہیہ، اعیانِ ثابتہ، اور شاکلات کہتے ہیں۔ اللہ کے علم میں مخلوقات کی جس طرح شکلیں محفوظ ہیں، اسی طرح ان شکلوں کی ذاتی قابلیات بھی محفوظ ہیں۔ ان ہی ذاتی قابلیات کو معلوماتِ الٰہیہ کے اقتضاآت یا استردات بھی کہتے ہیں۔
یہ معلومات ریل سے پردہ پر کیسے آرہے ہیں؟ ریل کے پیچھے روشنی ڈالی جارہی ہے۔ یعنی پیچھے سے ہر صورت پر نور کی تجلی ہورہی ہےتوپردہ پر صورت نظر آرہی ہے۔ نور بند ہوجائے تو ریل کی تصویر پردہ پر ہر گز ظاہر نہیں ہوتی۔ یہاں نکتہ کی بات یہ ہے کہ نہ نور صورت بنتا اور نہ صورت نور بنتی۔ نور، نور ہے، صورت ،صورت ہے۔ ہر ایک کی ذات الگ۔ نور کا کام ظاہر کرنا اور صورت کا کام ظاہر ہونا۔ نورِ الٰہی کی تجلی سے معلومات وجود پاتے چلے جارہے ہیں۔ زمین، آسمان، انسان، شیطان، جو ظاہر و موجود ہورہے ہیں وہ سب اللہ کے نور کے باعث موجود ہورہے ہیں۔ نور کے سامنے اجسام آرہے ہیں تو انکا ظہور ہورہا ہے نور کے سامنے ارواح آرہی ہیں تو ان کا ظہور ہو رہاہے۔ پھر سب اس شان سے ہورہاہے کہ اللہ میں یعنی ذاتِ الٰہی میں نہ تغیر نہ تبدل، نہ تعدد نہ تکثر۔
ریل میں صورت کی جیسی قابلیت یا استعدادِ ذاتی ہو ویسی ہی پردہ پر ظاہر ہورہی ہے۔ انسان جانور، فرشتہ، شیطان، زندہ،مردہ، اچھا، برا ،غرض جو ریل میں ہوگا وہی پردہ پر ظاہر ہوگا۔ جس طرح پردہ پر صورتوں کا ظہور ریل کی تصویروں کے مطابق ہے، اسی طرح کائنات کے پردہ پر مخلوقات کا ظہور ٹھیک معلوماتِ الٰہیہ کے مطابق ہے۔ اسی ظہور کو تخلیق کہا جاتا ہے۔
ریل کی صورت جب تک ریل میں ہے “معلوم” کہلاتی ہے۔ لیکن جب وہی ریل کی صورت پردہ پر ظاہر ہوتی ہے تو “مخلوق” کہلاتی ہے۔ ایک اور نکتہ یہ کہ ریل میں جو صورت محفوظ ہے وہ پردہ پر ظاہر ہونے کے بعد ریل سے غائب نہیں ہوجاتی بلکہ ریل میں علٰی حالہ محفوظ ہے۔ اسی طرح مخلوق ظاہر ہونے کے باوجود علمِ الٰہی میں ثابت یعنی معلوم کی معلوم۔ معلوماتِ الٰہیہ تخلیق کے بعد علم سے خارج نہیں ہوجاتے۔ اسی ایک حقیقت سے بہت سے اعتراضات حل ہوجاتے ہیں۔ ریل میں لنگڑے اور اندھےکی جوصورتیں اور قابلیتیں تھیں وہی پردہ پر ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر ریل چلانے والے سے پردے پر ظاہر ہونے والی صورت پوچھے کے مجھے لنگڑا یا اندھا کیوں بنایا؟ یہ سوال بیوقوفی کی دلیل ہے۔ حولاپن ہے۔ جواب یہ ہے کہ تو جیسا تھا ویسا ہی ظاہر کردیا گیا۔ جوں کا توں ظاہر کرنا ہی تخلیق ہے۔ جیسے کو ویسا ظاہر کرنا ہی عدل ہے۔
سرِ ظہور ایک واضح اور کھلا ہوا مسلہ ہے۔ سرِ ظہور کے حقائق و معارف کے لئے سینما کی مثال قریب ترین مثال ہے۔ جب تک روشنی پڑتی رہے گی۔ اس وقت تک ہی تصویریں نظر آتی رہینگی۔ جیسے ہی روشنی موقوف ہوجائے تصویریں ختم ہوجائیں گی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی عطأ و وجود کا ہے۔ جوں ہی عطائے وجود کا سلسلہ منقطع ہوا، انسان مردہ ہے۔
اللہ لاالٰہ الاھوالحی القیوم۔ قیومیت قأیم رکھنے والی صفت کا نام ہے۔ جو ذات قأیم رکھنے والی ہے وہی ہے قیوم۔ اور وہی اللہ کی ذات۔ مشرق اور مغرب کو، انسانوں اور جانوروں کو،فرشتوں اور شیطانوں کو غرض ہشدہ ہزار عالموں کو قأیم رکھنے والی ذات قیوم۔ ایک آن کے لئے بھی قیومیت کی تجلی ہٹ جائے قصہ ہی ختم۔ ہرآن قیومیت کی تجلی کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ مسلسل روح کے قیوم، اللہ مسلسل دل کے قیوم، اللہ مسلسل جسم کے قیوم، اللہ مسلسل سب کے قیوم۔ از عرش تا فرش۔ حیات، علم، ارادہ، قدرت، سماعت، بصارت اور کلام ہر صفت کے قیوم۔
تسلسلِ قیومیت کی فہم کے لئے (ہاتھ میں کاغذ لے کر فرمایا)۔ یہ کاغذ ہاتھ میں قأیم ہے۔ اونگھ یا نیند کا غلبہ ہو تو کاغذ ہاتھ سے گرجائے۔ اگر تسبیح ہاتھ میں ہو اور اونگھ آجائے تو تسبیح گرجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لا تا خذہ سنۃ ولا نوم۔ میں سب کو قأیم رکھنے والا، اگر میں اونگھ گیا تو تمہاری خیر نہیں۔ سب فنا ہوجائیں گے۔ پہچان مل گئی جس کو اونگھ نہ آئے وہی قیوم۔ ذرا سا اللہ کی توجہ ہم سے ہٹی کہ اسی کا نام موت، فنا، قیامت، یا صور۔ جدھر سے توجہ ہٹالیں ادھر فنا۔ آنِ واحد میں فنا طاری۔
خبر بھی ہے کہ کس کو قأیم رکھے ہوئے ہیں؟ محض فضل و کرم ہے کہ ماننے والوں کو اور نہ ماننے والوں کو، رحم کرنے والوں کو اور ظلم کرنے والوں کو سب کو قأیم رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے تخلیق “کن” سے ہے ویسے ہی فنا بھی “کن” سے ہے۔ قیومیت کا مسلہ اس شان اور قوت کا ہے کہ علما کی جماعت کے سامنے بلا ججھک استعمال کر لیجئے۔ مانے بغیر ،تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ اور اسکا جواب نہیں۔ اسی قیومیت کا اصطلاحی نام “وحدۃالوجود” ہے۔ لیکن وحدۃالوجود کا تو حلیہ بگاڑا گیا، بدنام کیا گیا۔ اگر پوچھا جائے کہ قیومیت کیسی ہے تو علما کہینگے بہت اچھی بات ہے، ضرور بات کرنی چاہئیے۔ یہ اصطلاح سمجھنے، غور کرنے، اور پانے کی ہے۔
آخری بات یہ کہ سرکارﷺ نے بڑا پیارا اعلان فرمایا ایک اسلام کا، ایک ایمان کا، اور ایک احسان کا۔ پوچھا گیا۔ وماالاحسان؟ جواب ملا الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم یکن تراہ فانہ یراک۔ (احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کر گویا تو اللہ کو دیکھ رہاہے)۔ یعنی حاضر و موجود کا ادراک قائیم کرے اگر کسی بھائی سے یہ نہ ہو سکے تو یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رے ہیں۔ بزرگوں کی اصطلاح میں پہلا ادراک مشاہدہ کہلایا دوسرا ادراک مراقبہ۔ بلی چوہوں کو پکڑنے کیلئے مراقبہ کرتی ہے۔ یہ مثال مراقبہ کی آسانی پر دلیل ہے۔ اگر زندگی میں آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں تو کل زندگی احسانی ہوجائے۔ ایک شیخ صاحب ایک نوجوان مرید کو زیادہ چاہتے تھے۔ دوسرے مریدوں نے وجہ پوچھی تو شیخ صاحب نے ہر ایک کے ہاتھ میں چاقو اور کبوتر دیکر فرمایاکہ، ایسی جگہ ذبح کریں جہاں کوئی نہ دیکھتا ہو تعمیلِ حکم میں بعضوں نے غاروں اور ویرانوں میں ذبح کیا، بعضوں نے بیت الخلأ اور بعضوں نے گھر کے پچھلے حصہ میں کاٹا۔ نوجوان نے ذبح کئے بغیر چھری اور کبوتر شیخ کو واپس کئے۔ شیخ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ ہر جگہ اللہ موجود ہے اس لئے کہیں ذبح نہ کر سکا۔ اللہ کے دیکھتے رہنے کا حال طاری کرنے کے بعد گناۃ مشکل ہوجأیگا۔ اللہ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔
Jan 29 2015
Allah is everywhere – Sufi Sahab Rahmath ullah Alaih
Allah is everywhere – Sufi Sahab Rahmath ullah Alaih
ارشاد :- سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم۔ اللہ تعالٰی ہمارے خالق، مالک، حاکم، رب اور معبود ہیں۔ اس لئے الہ ہیں ۔ ایک سوال کہ جن کو ہم نے یہ سب یعنی “خالق، مالک، حاکم،رب، معبود” مانا ہے، کہاں ہے؟ سوال کرنے والے سب سن لیں اور توجہ سے سنیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ ارشاد ہوا بے شک میں قریب ہوں۔ مجھ جیسےمعمولی سمجھ والے کے لئے یہ کافی ہے۔ پتہ مل گیا۔لیکن کچھ شعور والا بھائی ہو تو اس سے مطمئن نہں ہوگا۔ یہ سوال تو آئیگاکہ قریب تو ہیں لیکن کتنے قریب؟ اس تقاضہ کا، اس سوال کا جواب ارشاد ہوا۔ “نحن اقرب الہی من حبل الورید” ہم اسکی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اپنی جان کو دیکھ لیا؟ دیکھ لیا۔ تجھ سے تیری جان جتنی قریب ہے ہم اس سے زیادہ قریب ہیں ۔ اب پتہ مل گیا، راز کھل گیا۔ اطمنارن ہوگیا ۔ لیکن یہ حضرتِ انسان ہیں، پھر بھی اطمینان نہیں۔ پھر سوال ہوا کہ کب کب اقرب رہتے ہیں؟ نماز میں؟ مراقبہ میں؟ مشاہدہ میں؟ کب کب؟۔
جواب آیا “وھومعکم این ماکنتم” تو جہاں ہے وہیں ہوں۔ تو زمین پر ہے تو میں تیرے ساتھ، تو عبادت میں ہے تو میں تیرے ساتھ، تو معصیت میں ہے تو میں تیرے ساتھ۔ اور کچھ پوچھنا ہے؟ ایک اور بات سمجھ میں نہیں آئی کہ میرے ساتھ کیسے؟ تو سنو ! ” خبردار! ہوشیار ! دل کی آنکھ کھول کر بات سنو! ہوش سے سنو! “ ألا إنه بكل شيء محيط” پھر پوچھا کیسے محیط ہیں؟ اندر یا باہر؟ نیچے یا اوپر؟ آگے یا پیچھے؟ تو سنو! تمہارے اندر، باہر، نیچے، اوپر، آگے اور پیچھے ہم محیط ہیں۔ اب سوالات کے فطری تقاضے ختم ہوئے۔ اب میری طرف سے انعام کے طور پر سنو! “ھوالاول والآخر والظاھر والباطن وھو بکل شی محیط” اب فکرِ انسانی کوئی سوال اٹھا سکتی ہے تو اٹھائے۔ یہ فضل و کرم ہے، نوازش ہے۔ میں تیرا اول و آخر ظاہر و باطن! ہاں! یہی وہ مقام ہے جہاں بعض مشأیخین و صوفیا بھی چکر کھا رہے ہیں۔یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ کی تجلی نظر آرہی ہے۔ قرآن کی اسی آیت کو پڑھ کر دوزخ کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔
دل کی نمازیں، ھو حق کے نعرے چل رہے ہیں۔ تو کون ہے؟ جواب ملیگا “میں شئے ہوں”۔ تو فرمایا میں شئے کا اول و آخر اور ظاہر و باطن ہوں۔ اگر شئے ہی نہ ہو تو کس کے اول؟ کس کے آخر؟ کس کے ظاہر؟ کس کے باطن؟ پتہ بتا دیا۔ پوری پوری ہدایت بینہ ہے۔ واضح حقأیق ہیں۔ شئے کا علم دے کر یہ سارے اعتبارات کھولے گئے۔ اللہ علیم، اور شئے “معلوم”۔ ماشأاللہ! اگر شئے ہی نہیں ہے تو اولیت و آخریت، ظاہریت و باطنیت بے معنی ہو جأیں ہر بال شئے، اسکے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ خون کا ہر قطرہ شئے، اس کے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ شیطان سئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ۔ جنت شئے، اس کے اول آخر ظاہر، باطن اللہ، دوزخ شئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ دل چپ نہیں رہتا اس لئے کہ پوچھنے والے کا نام ہی دل ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو اور مجھے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
By silsilaekamaliya • Bayanaat Hazrath Sufi Sahab R.A, Important Articles, Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: Shah Sufi Sahab R.A, taleemat silsila e qadria