اقوالِ زرین:
۱۔میدوں کو لمبا مت کرو اورقیامت کو دور نہ سمجھو؛کیونکہ جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۰)
۲۔سنت کی مخالفت کرکے سلامتی حاصل نہیں ہوسکتی اوراللہ تعالی کو ناراض کرکے مخلوق کی رضا حاصل نہیں کی جاسکتی۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۰)
۳۔دنیا ایک دیمک زدہ امید کا نام ہے،گزرجانے والی گھڑی سے عبارت ہے،آخرت کی طرف جانے کا راستہ ہے اور موت کی طرف پہنچانے کا ذریعہ ہے،اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو حقیقت پر نگاہ رکھے،اپنے نفس کی خیر خواہی کا فیصلہ کرے،اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے،گناہوں سے احتراز کرے اوراپنے دل کو نورانی بنائے۔
۴۔تم جانتے ہو کہ تمہارے والد(حضرت آدم علیہ السلام)ایک لغزش کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے تھے،پھر اللہ تعالیٰ نے توبہ کی وجہ سے ان کی لغزش کی معافی کا وعدہ فرمایا تھا،پس تم اپنے گناہوں سے ڈرتے رہو اوراپنے رب سے معافی کی امید رکھو۔
۵۔کوئی شخص اس قابل نہیں کہ اللہ تعالی کو ناراض کرکے اس کی اطاعت کی جائے۔
۶۔یادرکھو !سب سے افضل عبادت فرائض کی ادائیگی اورحرام کاموں سے بچنا ہے۔
(روضۃ الخطباء:۴۰۹)
۷۔ایک دن سلیمان بن عبدالملک کے دل میں اپنی بادشاہت کے عروج پر تفاخر اورعجب پیدا ہوا،اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے پوچھا کہ اس عروج وارتقاء کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا:
“یہ خوشی کی چیز ہے اگر اس میں دھوکہ کی آمیزش نہ ہو،یہ بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس کو زوال نہ ہو،بادشاہت ہے اگر اس کو برباد نہ ہونا ہو،مسرت ہے اگر اس کے بعد رنج نہ ہو،یہ لذتیں ہیں اگر ان کے بعد آفات کا سامنا نہ کرنا پڑے اورشرافت کی چیز ہے اگر اس کے ساتھ سلامتی مل جائے”۔
یہ سن کر سلیمان بن عبداملک اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔
(نفحۃ العرب:۱۳۰)
۸۔ایک مرتبہ حج کے موقع پر سلیمان بن عبداملک نے عمر بن عبدالعزیز ؓ سے کہا کہ کیا تم اس لاتعداد مخلوق کو دیکھتے ہو جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا اور اس کے علاوہ کوئی رزق نہیں دے سکتا،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا:
“اے امیر مؤمنین!آج یہ آپ کی رعیت ہیں لیکن کل اللہ تعالی کے دربار میں آپ کے مد مقابل ہوں گے”یہ سن کر سلیمان بہت رویا اورکہا میں اللہ تعالی سے مدد کا خواستگار ہوں۔
(نفحۃ العرب:۱۲۹)
۹۔قبر ہر ایک کو پکارتی ہے،ہر ایک کو پیغام دیتی ہے،ہر ایک کو ہر روز اپنے بارے میں بتاتی ہے،وہ نہایت فصیح اور صاف آواز کے ساتھ یہ اعلان کرتی ہے‘‘اے ابن آدم!تو مجھے بھول گیا، میں تنہائی کا گھر ہوں،میں اجنبیت کا گھر ہوں،میں دہشت کا گھر ہوں، میں کیڑوں کا گھر ہوں، میں نہایت تنگی کا گھر ہوں،مگر اس شخص کے لئے نہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے وسیع کردیا۔
(البدایۃ والنھایۃ:۹/۱۰۴)
۱۰۔ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کو سیب اور دوسرے میوہ جات ہدیہ میں بھیجے،آپ نے واپس کردیئے،بھیجنے والے نے کہا رسول اللہ ﷺ تو ہدیہ قبول کرلیا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے جواب دیا:
((ان الحدیۃ کانت لہ ھدیۃ،وھی الیوم لنا رشوۃ))
“ہدیہ آپ ﷺ کے لئے ہدیہ ہوتا تھا لیکن آج ہمارے لئے رشوت ہے”
(سیرأعلام النبلاء:۵/۱۴۰)
یعنی لوگ ہمیں ہدیہ دے کر ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم سے اپنے کام نکلوائیں گے۔
۱۱۔لوگوں نے جو بدعت بھی ایجاد کی ہے سنت رسول اللہﷺ میں اس کی قباحت اور برائی کی دلیل موجود ہے یا اس میں خود عبرت ہے اس لئے کہ طریق سنت کو اس ذات حق تعالیٰ نے جاری کیا ہے جس نے پہلے یہ معلوم کرلیا تھا کہ اس طریق کے خلاف میں خطاو لغزش ،حماقت اورتکلیف ہے۔
(سنن أبی داؤد:۲/۲۸۵)
۱۲۔صحابہ کرامؓ معاملات دین میں اتنا کلام کرچکے ہیں جو بالکل کافی ہے اور اس کو اتنا بیان کردیا ہے جو شفا دینے والا ہے،پس ان کے طریقہ سے کمی وکوتاہی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اوران سے زیادتی کرنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہیں اور بہت سے لوگوں نے ان کے طریقہ سے زیادہ کا ارادہ کیا وہ غلو میں مبتلا ہوگئے اور یہ حضرات افراط وتفریط اور کوتاہی کے درمیان ایک راہ مستقیم پر تھے۔
(سنن ابی داؤد:۲/۲۸۵)
۱۳۔اسلاف جو قیل و قال سے بچے ہیں وہ علم کی وجہ سے بچے (نہ کہ عجز وناواقفیت سے)اورمکمل بصیرت پر انہوں نے لوگوں کو قیل و قال سے روکا ہے اوراگر وہ بحث کرنا چاہتے تو وہ سب سے زیادہ اس پر قادر تھے۔
(ثمرات الاوراق:۲۱۵)
۱۴۔اس قیاس کو اختیار کرو جو تم سے پہلے حضرات(صحابہ)کی رائے کے موافق ہوکیونکہ وہ لوگ تم سے زیادہ علم والے تھے۔
(فضل علم السلف لابن رجب:۲۰)
۱۵۔مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ صحابہ کرامؓ میں مسائل فروعیہ کا اختلاف نہ ہوتا کیونکہ اگر ایک ہی قول ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑجاتے،یہ حضرات مقتداء اورپیشوا ہیں جو شخص ان میں سے کسی کے مذہب پر عمل کرے، اس کے لئے اس کی گنجائش ہے۔
(جامع بیان العلم:۱۴۳)
۱۶۔ایک مرتبہ کسی نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ کی باہمی جنگ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
((دماء ظھر اللہ عنھا سیوفنا افلا نظھر عنھا السنتنا))
“یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کو محفوظ رکھا ہے تو اب ہم اپنی زبانوں کو اس خون سے آلودہ کرلیں”
(حیوۃ الحیوان:۱/۳۸۴)
۱۷۔جب عمر بن عبدالعزیزؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنا سارا مال بانٹ دیا،لوگوں نے کہا کہ اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا تو فرمایا:
“اگرمیری اولادصالح ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے “واللہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ” اللہ تعالیٰ مؤ منین کا کارساز ہے اوراگر غیر صالح ہے تو میں ان پر اپنے پیسے کو ضائع نہیں کرنا چاہتا”
(البدایۃ والنھایۃ:۹/۲۰۰)
۱۸۔میں نے حاسد سے بڑھ کر کسی ظالم کو مظلوم کے ساتھ زیادہ مشابہ نہیں دیکھا؛کیونکہ حاسد کو ہمیشہ غم رہتا ہے۔
(الرسالۃ القشیریۃ:۲۱۴)
(۱)اگر موت سے غفلت نہ ہوتی تو تمام مخلوق خوف ِ الٰہی سے مرجاتی۔
(۲)مؤمن کی قوت دل میں ہوتی ہے اور کافر و منافق کی طاقت ہاتھ میں ۔
(۳)اپنی آرزوؤں کو دل میں ہی مار ڈالو ، اور دلوں کو ان میں نہ مرنے دو، کیونکہ جس نے اپنی شہوات کو پاؤں کے نیچے دبایا ، شیطان اس کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے ، اور وہ شخص جو خواہشات کو دل میں جگہ دے تو شیطان اس پر سوار ہوجاتا ہے اور جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو اس پر مسلط کردیتے ہیں۔
(۴)آپ سے نصیحت کی درخواست کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس بات سے ڈر! کہ تو صالحین کا ہمنشین ہو اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے ، یا تو گنہگاروں کو برا کہے اور خود گناہوں سے پرہیز نہ کرے ، یا علانیہ شیطان کو لعنت کرے اور باطن میں اس کا مطیع ہو ۔
(۵)تم میں سے کوئی بھی متقی نہیں ہوسکتا جب تک ہر ایسا قول و فعل ترک نہ کردے جس سے دنیا اور آخرت میں فضیحت اور شرمندگی ہو ۔
(۶)آپ سے عرض کیا گیا انسان تقویٰ کی چوٹی پر کب پہونچ سکتا ہے ؟ فرمایا جب اپنے تمام خیالات کو طباق میں رکھ کر بازار میں چکّر لگائے اور شرمندہ نہ ہو ۔
(۷)تقویٰ یہ نہیں کہ دن بھر روزہ رکھے اور رات کو قیام کرے اور نیک و بد اعمال کو خلط ملط کرے بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ محرمات الٰہی کو چھوڑدے اور فرائض ادا کرے جو اس سے بڑھ کر کرے وہ نورٌ علیٰ نور ہے ۔
(۸)متقی کی علامت یہ ہے کہ وہ کلام کرنے سے لگام لگایا گیا ہو ، جیسے احرام کی حالت میں محرِم ، نیز متقی کو تمام شریعت کا عالم ہونا ضروری ہے ، ورنہ اپنی جہالت سے تقویٰ کی حدود سے نکل جائےگا اور اسے خبر تک نہ ہوگی
Jan 13 2015
Aqwal e Zareen – Umar bin Abdul Aziz
Aqwal e Zareen – Umar bin Abdul Aziz
اقوالِ زرین:
۱۔میدوں کو لمبا مت کرو اورقیامت کو دور نہ سمجھو؛کیونکہ جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۰)
۲۔سنت کی مخالفت کرکے سلامتی حاصل نہیں ہوسکتی اوراللہ تعالی کو ناراض کرکے مخلوق کی رضا حاصل نہیں کی جاسکتی۔
(روضۃ الخطباء:۴۴۰)
۳۔دنیا ایک دیمک زدہ امید کا نام ہے،گزرجانے والی گھڑی سے عبارت ہے،آخرت کی طرف جانے کا راستہ ہے اور موت کی طرف پہنچانے کا ذریعہ ہے،اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو حقیقت پر نگاہ رکھے،اپنے نفس کی خیر خواہی کا فیصلہ کرے،اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے،گناہوں سے احتراز کرے اوراپنے دل کو نورانی بنائے۔
۴۔تم جانتے ہو کہ تمہارے والد(حضرت آدم علیہ السلام)ایک لغزش کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے تھے،پھر اللہ تعالیٰ نے توبہ کی وجہ سے ان کی لغزش کی معافی کا وعدہ فرمایا تھا،پس تم اپنے گناہوں سے ڈرتے رہو اوراپنے رب سے معافی کی امید رکھو۔
۵۔کوئی شخص اس قابل نہیں کہ اللہ تعالی کو ناراض کرکے اس کی اطاعت کی جائے۔
۶۔یادرکھو !سب سے افضل عبادت فرائض کی ادائیگی اورحرام کاموں سے بچنا ہے۔
(روضۃ الخطباء:۴۰۹)
۷۔ایک دن سلیمان بن عبدالملک کے دل میں اپنی بادشاہت کے عروج پر تفاخر اورعجب پیدا ہوا،اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے پوچھا کہ اس عروج وارتقاء کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا:
“یہ خوشی کی چیز ہے اگر اس میں دھوکہ کی آمیزش نہ ہو،یہ بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس کو زوال نہ ہو،بادشاہت ہے اگر اس کو برباد نہ ہونا ہو،مسرت ہے اگر اس کے بعد رنج نہ ہو،یہ لذتیں ہیں اگر ان کے بعد آفات کا سامنا نہ کرنا پڑے اورشرافت کی چیز ہے اگر اس کے ساتھ سلامتی مل جائے”۔
یہ سن کر سلیمان بن عبداملک اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔
(نفحۃ العرب:۱۳۰)
۸۔ایک مرتبہ حج کے موقع پر سلیمان بن عبداملک نے عمر بن عبدالعزیز ؓ سے کہا کہ کیا تم اس لاتعداد مخلوق کو دیکھتے ہو جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا اور اس کے علاوہ کوئی رزق نہیں دے سکتا،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا:
“اے امیر مؤمنین!آج یہ آپ کی رعیت ہیں لیکن کل اللہ تعالی کے دربار میں آپ کے مد مقابل ہوں گے”یہ سن کر سلیمان بہت رویا اورکہا میں اللہ تعالی سے مدد کا خواستگار ہوں۔
(نفحۃ العرب:۱۲۹)
۹۔قبر ہر ایک کو پکارتی ہے،ہر ایک کو پیغام دیتی ہے،ہر ایک کو ہر روز اپنے بارے میں بتاتی ہے،وہ نہایت فصیح اور صاف آواز کے ساتھ یہ اعلان کرتی ہے‘‘اے ابن آدم!تو مجھے بھول گیا، میں تنہائی کا گھر ہوں،میں اجنبیت کا گھر ہوں،میں دہشت کا گھر ہوں، میں کیڑوں کا گھر ہوں، میں نہایت تنگی کا گھر ہوں،مگر اس شخص کے لئے نہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے وسیع کردیا۔
(البدایۃ والنھایۃ:۹/۱۰۴)
۱۰۔ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کو سیب اور دوسرے میوہ جات ہدیہ میں بھیجے،آپ نے واپس کردیئے،بھیجنے والے نے کہا رسول اللہ ﷺ تو ہدیہ قبول کرلیا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے جواب دیا:
((ان الحدیۃ کانت لہ ھدیۃ،وھی الیوم لنا رشوۃ))
“ہدیہ آپ ﷺ کے لئے ہدیہ ہوتا تھا لیکن آج ہمارے لئے رشوت ہے”
(سیرأعلام النبلاء:۵/۱۴۰)
یعنی لوگ ہمیں ہدیہ دے کر ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم سے اپنے کام نکلوائیں گے۔
۱۱۔لوگوں نے جو بدعت بھی ایجاد کی ہے سنت رسول اللہﷺ میں اس کی قباحت اور برائی کی دلیل موجود ہے یا اس میں خود عبرت ہے اس لئے کہ طریق سنت کو اس ذات حق تعالیٰ نے جاری کیا ہے جس نے پہلے یہ معلوم کرلیا تھا کہ اس طریق کے خلاف میں خطاو لغزش ،حماقت اورتکلیف ہے۔
(سنن أبی داؤد:۲/۲۸۵)
۱۲۔صحابہ کرامؓ معاملات دین میں اتنا کلام کرچکے ہیں جو بالکل کافی ہے اور اس کو اتنا بیان کردیا ہے جو شفا دینے والا ہے،پس ان کے طریقہ سے کمی وکوتاہی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اوران سے زیادتی کرنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہیں اور بہت سے لوگوں نے ان کے طریقہ سے زیادہ کا ارادہ کیا وہ غلو میں مبتلا ہوگئے اور یہ حضرات افراط وتفریط اور کوتاہی کے درمیان ایک راہ مستقیم پر تھے۔
(سنن ابی داؤد:۲/۲۸۵)
۱۳۔اسلاف جو قیل و قال سے بچے ہیں وہ علم کی وجہ سے بچے (نہ کہ عجز وناواقفیت سے)اورمکمل بصیرت پر انہوں نے لوگوں کو قیل و قال سے روکا ہے اوراگر وہ بحث کرنا چاہتے تو وہ سب سے زیادہ اس پر قادر تھے۔
(ثمرات الاوراق:۲۱۵)
۱۴۔اس قیاس کو اختیار کرو جو تم سے پہلے حضرات(صحابہ)کی رائے کے موافق ہوکیونکہ وہ لوگ تم سے زیادہ علم والے تھے۔
(فضل علم السلف لابن رجب:۲۰)
۱۵۔مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ صحابہ کرامؓ میں مسائل فروعیہ کا اختلاف نہ ہوتا کیونکہ اگر ایک ہی قول ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑجاتے،یہ حضرات مقتداء اورپیشوا ہیں جو شخص ان میں سے کسی کے مذہب پر عمل کرے، اس کے لئے اس کی گنجائش ہے۔
(جامع بیان العلم:۱۴۳)
۱۶۔ایک مرتبہ کسی نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ کی باہمی جنگ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
((دماء ظھر اللہ عنھا سیوفنا افلا نظھر عنھا السنتنا))
“یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کو محفوظ رکھا ہے تو اب ہم اپنی زبانوں کو اس خون سے آلودہ کرلیں”
(حیوۃ الحیوان:۱/۳۸۴)
۱۷۔جب عمر بن عبدالعزیزؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنا سارا مال بانٹ دیا،لوگوں نے کہا کہ اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا تو فرمایا:
“اگرمیری اولادصالح ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے “واللہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ” اللہ تعالیٰ مؤ منین کا کارساز ہے اوراگر غیر صالح ہے تو میں ان پر اپنے پیسے کو ضائع نہیں کرنا چاہتا”
(البدایۃ والنھایۃ:۹/۲۰۰)
۱۸۔میں نے حاسد سے بڑھ کر کسی ظالم کو مظلوم کے ساتھ زیادہ مشابہ نہیں دیکھا؛کیونکہ حاسد کو ہمیشہ غم رہتا ہے۔
(الرسالۃ القشیریۃ:۲۱۴)
(۱)اگر موت سے غفلت نہ ہوتی تو تمام مخلوق خوف ِ الٰہی سے مرجاتی۔
(۲)مؤمن کی قوت دل میں ہوتی ہے اور کافر و منافق کی طاقت ہاتھ میں ۔
(۳)اپنی آرزوؤں کو دل میں ہی مار ڈالو ، اور دلوں کو ان میں نہ مرنے دو، کیونکہ جس نے اپنی شہوات کو پاؤں کے نیچے دبایا ، شیطان اس کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے ، اور وہ شخص جو خواہشات کو دل میں جگہ دے تو شیطان اس پر سوار ہوجاتا ہے اور جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو اس پر مسلط کردیتے ہیں۔
(۴)آپ سے نصیحت کی درخواست کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس بات سے ڈر! کہ تو صالحین کا ہمنشین ہو اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے ، یا تو گنہگاروں کو برا کہے اور خود گناہوں سے پرہیز نہ کرے ، یا علانیہ شیطان کو لعنت کرے اور باطن میں اس کا مطیع ہو ۔
(۵)تم میں سے کوئی بھی متقی نہیں ہوسکتا جب تک ہر ایسا قول و فعل ترک نہ کردے جس سے دنیا اور آخرت میں فضیحت اور شرمندگی ہو ۔
(۶)آپ سے عرض کیا گیا انسان تقویٰ کی چوٹی پر کب پہونچ سکتا ہے ؟ فرمایا جب اپنے تمام خیالات کو طباق میں رکھ کر بازار میں چکّر لگائے اور شرمندہ نہ ہو ۔
(۷)تقویٰ یہ نہیں کہ دن بھر روزہ رکھے اور رات کو قیام کرے اور نیک و بد اعمال کو خلط ملط کرے بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ محرمات الٰہی کو چھوڑدے اور فرائض ادا کرے جو اس سے بڑھ کر کرے وہ نورٌ علیٰ نور ہے ۔
(۸)متقی کی علامت یہ ہے کہ وہ کلام کرنے سے لگام لگایا گیا ہو ، جیسے احرام کی حالت میں محرِم ، نیز متقی کو تمام شریعت کا عالم ہونا ضروری ہے ، ورنہ اپنی جہالت سے تقویٰ کی حدود سے نکل جائےگا اور اسے خبر تک نہ ہوگی
Related posts:
By silsilaekamaliya • Aqwal e Zareen • Tags: Aqwal e Zareen