Allah is everywhere – Sufi Sahab Rahmath ullah Alaih
ارشاد :- سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم۔ اللہ تعالٰی ہمارے خالق، مالک، حاکم، رب اور معبود ہیں۔ اس لئے الہ ہیں ۔ ایک سوال کہ جن کو ہم نے یہ سب یعنی “خالق، مالک، حاکم،رب، معبود” مانا ہے، کہاں ہے؟ سوال کرنے والے سب سن لیں اور توجہ سے سنیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ ارشاد ہوا بے شک میں قریب ہوں۔ مجھ جیسےمعمولی سمجھ والے کے لئے یہ کافی ہے۔ پتہ مل گیا۔لیکن کچھ شعور والا بھائی ہو تو اس سے مطمئن نہں ہوگا۔ یہ سوال تو آئیگاکہ قریب تو ہیں لیکن کتنے قریب؟ اس تقاضہ کا، اس سوال کا جواب ارشاد ہوا۔ “نحن اقرب الہی من حبل الورید” ہم اسکی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اپنی جان کو دیکھ لیا؟ دیکھ لیا۔ تجھ سے تیری جان جتنی قریب ہے ہم اس سے زیادہ قریب ہیں ۔ اب پتہ مل گیا، راز کھل گیا۔ اطمنارن ہوگیا ۔ لیکن یہ حضرتِ انسان ہیں، پھر بھی اطمینان نہیں۔ پھر سوال ہوا کہ کب کب اقرب رہتے ہیں؟ نماز میں؟ مراقبہ میں؟ مشاہدہ میں؟ کب کب؟۔
جواب آیا “وھومعکم این ماکنتم” تو جہاں ہے وہیں ہوں۔ تو زمین پر ہے تو میں تیرے ساتھ، تو عبادت میں ہے تو میں تیرے ساتھ، تو معصیت میں ہے تو میں تیرے ساتھ۔ اور کچھ پوچھنا ہے؟ ایک اور بات سمجھ میں نہیں آئی کہ میرے ساتھ کیسے؟ تو سنو ! ” خبردار! ہوشیار ! دل کی آنکھ کھول کر بات سنو! ہوش سے سنو! “ ألا إنه بكل شيء محيط” پھر پوچھا کیسے محیط ہیں؟ اندر یا باہر؟ نیچے یا اوپر؟ آگے یا پیچھے؟ تو سنو! تمہارے اندر، باہر، نیچے، اوپر، آگے اور پیچھے ہم محیط ہیں۔ اب سوالات کے فطری تقاضے ختم ہوئے۔ اب میری طرف سے انعام کے طور پر سنو! “ھوالاول والآخر والظاھر والباطن وھو بکل شی محیط” اب فکرِ انسانی کوئی سوال اٹھا سکتی ہے تو اٹھائے۔ یہ فضل و کرم ہے، نوازش ہے۔ میں تیرا اول و آخر ظاہر و باطن! ہاں! یہی وہ مقام ہے جہاں بعض مشأیخین و صوفیا بھی چکر کھا رہے ہیں۔یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ کی تجلی نظر آرہی ہے۔ قرآن کی اسی آیت کو پڑھ کر دوزخ کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔
دل کی نمازیں، ھو حق کے نعرے چل رہے ہیں۔ تو کون ہے؟ جواب ملیگا “میں شئے ہوں”۔ تو فرمایا میں شئے کا اول و آخر اور ظاہر و باطن ہوں۔ اگر شئے ہی نہ ہو تو کس کے اول؟ کس کے آخر؟ کس کے ظاہر؟ کس کے باطن؟ پتہ بتا دیا۔ پوری پوری ہدایت بینہ ہے۔ واضح حقأیق ہیں۔ شئے کا علم دے کر یہ سارے اعتبارات کھولے گئے۔ اللہ علیم، اور شئے “معلوم”۔ ماشأاللہ! اگر شئے ہی نہیں ہے تو اولیت و آخریت، ظاہریت و باطنیت بے معنی ہو جأیں ہر بال شئے، اسکے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ خون کا ہر قطرہ شئے، اس کے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ شیطان سئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ۔ جنت شئے، اس کے اول آخر ظاہر، باطن اللہ، دوزخ شئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ دل چپ نہیں رہتا اس لئے کہ پوچھنے والے کا نام ہی دل ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو اور مجھے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Jan 29 2015
Allah is everywhere – Sufi Sahab Rahmath ullah Alaih
Allah is everywhere – Sufi Sahab Rahmath ullah Alaih
ارشاد :- سلطان العارفین حضرت شاہ صوفی غلام محمد صاحبؒ
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم۔ اللہ تعالٰی ہمارے خالق، مالک، حاکم، رب اور معبود ہیں۔ اس لئے الہ ہیں ۔ ایک سوال کہ جن کو ہم نے یہ سب یعنی “خالق، مالک، حاکم،رب، معبود” مانا ہے، کہاں ہے؟ سوال کرنے والے سب سن لیں اور توجہ سے سنیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ ارشاد ہوا بے شک میں قریب ہوں۔ مجھ جیسےمعمولی سمجھ والے کے لئے یہ کافی ہے۔ پتہ مل گیا۔لیکن کچھ شعور والا بھائی ہو تو اس سے مطمئن نہں ہوگا۔ یہ سوال تو آئیگاکہ قریب تو ہیں لیکن کتنے قریب؟ اس تقاضہ کا، اس سوال کا جواب ارشاد ہوا۔ “نحن اقرب الہی من حبل الورید” ہم اسکی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اپنی جان کو دیکھ لیا؟ دیکھ لیا۔ تجھ سے تیری جان جتنی قریب ہے ہم اس سے زیادہ قریب ہیں ۔ اب پتہ مل گیا، راز کھل گیا۔ اطمنارن ہوگیا ۔ لیکن یہ حضرتِ انسان ہیں، پھر بھی اطمینان نہیں۔ پھر سوال ہوا کہ کب کب اقرب رہتے ہیں؟ نماز میں؟ مراقبہ میں؟ مشاہدہ میں؟ کب کب؟۔
جواب آیا “وھومعکم این ماکنتم” تو جہاں ہے وہیں ہوں۔ تو زمین پر ہے تو میں تیرے ساتھ، تو عبادت میں ہے تو میں تیرے ساتھ، تو معصیت میں ہے تو میں تیرے ساتھ۔ اور کچھ پوچھنا ہے؟ ایک اور بات سمجھ میں نہیں آئی کہ میرے ساتھ کیسے؟ تو سنو ! ” خبردار! ہوشیار ! دل کی آنکھ کھول کر بات سنو! ہوش سے سنو! “ ألا إنه بكل شيء محيط” پھر پوچھا کیسے محیط ہیں؟ اندر یا باہر؟ نیچے یا اوپر؟ آگے یا پیچھے؟ تو سنو! تمہارے اندر، باہر، نیچے، اوپر، آگے اور پیچھے ہم محیط ہیں۔ اب سوالات کے فطری تقاضے ختم ہوئے۔ اب میری طرف سے انعام کے طور پر سنو! “ھوالاول والآخر والظاھر والباطن وھو بکل شی محیط” اب فکرِ انسانی کوئی سوال اٹھا سکتی ہے تو اٹھائے۔ یہ فضل و کرم ہے، نوازش ہے۔ میں تیرا اول و آخر ظاہر و باطن! ہاں! یہی وہ مقام ہے جہاں بعض مشأیخین و صوفیا بھی چکر کھا رہے ہیں۔یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ کی تجلی نظر آرہی ہے۔ قرآن کی اسی آیت کو پڑھ کر دوزخ کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔
دل کی نمازیں، ھو حق کے نعرے چل رہے ہیں۔ تو کون ہے؟ جواب ملیگا “میں شئے ہوں”۔ تو فرمایا میں شئے کا اول و آخر اور ظاہر و باطن ہوں۔ اگر شئے ہی نہ ہو تو کس کے اول؟ کس کے آخر؟ کس کے ظاہر؟ کس کے باطن؟ پتہ بتا دیا۔ پوری پوری ہدایت بینہ ہے۔ واضح حقأیق ہیں۔ شئے کا علم دے کر یہ سارے اعتبارات کھولے گئے۔ اللہ علیم، اور شئے “معلوم”۔ ماشأاللہ! اگر شئے ہی نہیں ہے تو اولیت و آخریت، ظاہریت و باطنیت بے معنی ہو جأیں ہر بال شئے، اسکے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ خون کا ہر قطرہ شئے، اس کے اول و آخر ظاہر باطن اللہ۔ شیطان سئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ۔ جنت شئے، اس کے اول آخر ظاہر، باطن اللہ، دوزخ شئے، اس کے اول آخر ظاہر باطن اللہ دل چپ نہیں رہتا اس لئے کہ پوچھنے والے کا نام ہی دل ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو اور مجھے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Related posts:
By silsilaekamaliya • Bayanaat Hazrath Sufi Sahab R.A, Important Articles, Taleemat Silsila e Qadria Kamalia • Tags: Shah Sufi Sahab R.A, taleemat silsila e qadria